لالہ لاجپت رائے بنام سی آر داس

جب قائد اعظم نے لالہ لاجپت رائے کا خط پڑھنا ختم کیا تو سامعین تعجب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے

gmohyuddin@express.com.pk

اگر یہ کہا جائے کہ ہندوستان کو مسلمان اور ہندو اکثریتی ممالک میں تقسیم کرنے کی مسلمانوں سے کہیں زیادہ جلدی کانگریس میں موجود کٹر ہندو انتہا پسندوں کو تھی تو ہمارے لوگوں کی غالب اکثریت کے لیے یہ بات غیر معمولی حیرت کا باعث ہو گی۔ لیکن یہ بات سو فی صد درست ہے۔

لالہ لاجپت رائے کا شمار جدوجہد آزادی کے ہراول دستے میں شامل اہم ترین رہنماؤں میں ہوتا ہے۔ ان کی موت سائمن کمیشن کی ہندوستان آمد کے خلاف لاہور میں عوامی احتجاج پر پولیس کے لاٹھی چارج کے نتیجے میں ہوئی۔ وہ پولیس تشدد سے زخمی ہوئے اور 17نومبر 1928 کو چل بسے۔

لالہ جی کوقوم پرست رہنما کے طور پر متعارف کرایا جاتا ہے لیکن اس بات پر روشنی نہیں پڑنے دی جاتی کہ اُن کے نزدیک قوم پرستی کے پردے میں ہندو مذہب پرستی کی یہ پرورش کی گئی۔ صرف قائد اعظم وہ شخصیت تھے جنھوں نے آغاز ہی میں اس دھوکہ دہی کو نہ صرف پہچانا بلکہ ہر موقع پر اس کا پردہ چاک کیا حتٰی کہ مسلمانوں کی غالب اکثریت اُن کی قیادت پر مجتمع ہوگئی۔

آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ ہندو انتہا پسندی جو جدوجہد آزادی کے دور میں پس پردہ کار فرما تھی آج پوری طرح سے بھارت کے سیاسی اور سماجی منظر نامے پر چھائی ہوئی ہے۔ لالہ لاجپت رائے اور ان کے ہم خیال ہندو قائدین کے نظریات کی فکری اساس یہ تھی کہ صرف مسلمانوں کی حد تک مذہب کو قوم پرستی کے کانگریسی تصور کے ماتحت ہونا چاہیے۔

لالہ لاجپت رائے نہ صرف یہ کہ خود مسلمانوں کو ایک ہندو ریاست کا حصہ رکھنے کے حق میں نہیں تھے بلکہ وہ ساری زندگی نسبتاً معقول سیاسی نظریات رکھنے والے رہنماؤں کو بھی اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ چترنجن داس بنگال سے تعلق رکھنے والے سیاست دان، جدوجہد آزادی کے رہنما اور شاعر تھے۔ انھیں لوگوں نے 'دیش بندھو' کا نام دے رکھا تھا۔ سی آر داس سبھاش چندر بوس کے سیاسی گرو تھے لیکن خود فکری اعتبار سے گاندھی جی کے عدم تشدد کے فلسفے کے مقلد رہے۔

لالہ لاجپت رائے سی آر داس سمیت اہم ہندو رہنماؤں کو اس بات پر قائل کرنے کی کوشش کرتے رہے کہ مسلمانوں کو بھارت سے الگ کرنا ہی ہندوؤں کے مفاد میں ہے۔قائد اعظم نے قرار داد پاکستان کے لیے منعقدہ منٹو پارک کے جلسہ سے ایک روز قبل جو تقریر کی تھی اُس میں اس حوالے سے لالہ لاجپت رائے کا ایک خط پڑھ کر سنایا تھا جو انھوں نے سی آر داس کے نام لکھا تھا۔ خط کے مطابق لالہ جی لکھتے ہیں:


''ایک اور اہم نکتہ ہے جو ایک عرصہ سے مجھے پریشان کیے ہوئے ہے اور میر ی خواہش ہے کہ آپ بھی اس پر سنجیدگی سے غور کریں، وہ ہندو مسلم اتحاد کا سوال ہے۔ میں نے پچھلے چھ مہینوں میں زیادہ وقت اسلامی تاریخ اور شریعت کے مطالعہ میں صَرف کیا ہے اور اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ ہندو مسلم اتحاد نہ تو ممکن ہے اور نہ ہی قابل عمل ہے۔ عدم تعاون کی تحریک میں مسلم لیڈروں (محمد علی جوہر وغیرہ) کے اخلاص کو تسلیم کرتے ہوئے بھی میں سمجھتا ہوں کہ مسلمانوں کا مذہب اس قسم کے اتحاد میں مانع ہے۔

آپ کو میرے اور حکیم اجمل خان اور ڈاکٹر کچلو کے درمیان وہ گفتگو یاد ہوگی جو میں نے آپ کو بتائی تھی۔ تمام ہندوستان میںٕ حکیم اجمل خان سے بہتر مسلمان شاید ہی کوئی ہو۔ لیکن کیا کسی مسلمان کے لیے ممکن ہے کہ وہ قرآن کو نظر انداز کر دے؟ اگر ایسا ہو سکتا ہو تو پھر میرا خیال ہے کہ میں نے اسلامی قانون کا جو مطالعہ کیا و ہ درست نہیں۔ یہاں قائد اعظم نے رُک کر تبصرہ کیا، ''میرے خیال میں تو انھوں نے واقعی اسلامی شریعت کا غلط مطالعہ کیا''۔ (اس پر سامعین کی طرف سے قہقہہ بلند ہوا)۔

اگر کوئی مجھے قائل کر دے کہ میرا اسلامی شریعت کا مطالعہ غلط تھا تو میں بہت خوش ہوں گا۔ لیکن اگر یہ مطالعہ درست ہے تو اس کا مطلب ہوا کہ ہم برطانیہ کے خلاف تو اتحاد کرسکتے ہیں لیکن ہندوستان کو جمہوری خطوط پر چلانے کے لیے اتحاد نہیں کرسکتے''۔

خط کا اتنا حصہ پڑھنے کے بعد قائد اعظم نے معمولی توقف کیا، سامعین کی طرف نگاہ ڈالی اور فرمایا: ''خواتین و حضرات ! اگر لالہ لاجپت رائے نے کہہ دیا کہ ہم ہندوستان کی حکومت جمہوری خطوط پر نہیں چلا سکتے تو یہ ٹھیک تھا، لیکن جب میں نے 18ماہ قبل یہی سچی بات کہنے کی جسارت کی تو مجھ پر تنقید اور ذاتی حملوں کی بوچھاڑ کر دی گئی۔ تو پھر حل کیا ہے؟ کانگریس کے نزدیک حل یہ ہے کہ وہ ہمیں اقلیت کی حیثیت میں اکثریت کے تابع رکھے''۔

اس کے بعد قائد نے لالہ لاجپت رائے کے خط کا بقیہ حصہ پڑھا: ''مسئلے کا حل کیا ہے؟مجھے ہندوستان کے سات کروڑ مسلمانوں سے ڈر نہیں لگتا۔ لیکن جب ان سات کروڑ کے ساتھ افغانستان، وسطی ایشیا، عرب، عراق،ایران اور ترکی کے مسلح جھتے مل جائیں گے تو اُن کی مُزاحمت ناممکن ہوگی (سامعین کی جانب سے قہقہہ)۔ میں دیانت، خلوص کے ساتھ ہندومسلم اتحاد کو ضروری بھی سمجھتا ہوں اور بہتر بھی۔ میںمسلم لیڈروں پر اعتبار کرنے پر بھی آمادہ ہوں لیکن مسئلہ تو ان کے قرآن اور حدیث کا ہے۔ کیا یہ مسلم لیڈر انھیں نظر انداز کر سکتے ہیں؟ تو پھرہمارا کیا ہوگا؟ کیا ہم ختم اور تباہ ہوگئے؟اُمید ہے آپ اپنی ذہانت اور بصیرت کی بنا پر اس مسئلے اور مشکل کا کوئی حل تلاش کر سکیں گے''

جب قائد اعظم نے لالہ لاجپت رائے کا خط پڑھنا ختم کیا تو سامعین تعجب سے ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے تھے۔ لالہ لاجپت نے ہی ایک زمانے میں ہندوئوں اور مسلمانوں کے درمیان ہندوستان کی تقسیم کی تجویز پیش کی تھی۔ لیکن اس پر کوئی تبصرہ یا تنقید ہمیں نظر نہیں آتی جب کہ دوسری طرف ادھر پاکستان کے مخصوص صاحبان علم و حکمت آج تک ہندوستان کی تقسیم کو علاقائی عدم استحکام کی وجہ ثابت کرنے پر توانائیاں صرف کر رہے ہیں۔

قائد کی اس تقریر کے حوالے سے بتایا جات ہے کہ جب آپ نے لالہ لاجپت رائے کا نام لیا تو اسٹیج پر بیٹھے ملک برکت علی کے منہ سے نکل گیا، '' لالہ جی نیشنلسٹ ہندو تھے'' قائد اعظم نے مُڑ کر اُن کی طرف دیکھا اور کہا ، ''ہندو نیشنلسٹ نہیں ہو سکتا، ہر ہندو اول و آخر ہندو ہے''۔
Load Next Story