بھارت امریکا اتحاد اور پاکستان کا چیلنج
ہمیں خود ہی اپنے خلاف مجرم بننے کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے
بھارت امریکا کا مرکزی اسٹرٹیجک پارٹنر ہے او را س کا اعتراف دونوں ملک کرتے ہیں ۔ امریکا اس خطہ کی سیاست پر بھارت کی بنیاد پر آگے بڑھنا چاہتا ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں بھی امریکا کا بنیادی نقطہ یہ ہی ہے کہ پاکستان بھارتی بالادستی کو قبول کرے۔
حالیہ دنوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ امریکا پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ ہمارے لیے ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے ۔حالیہ مشترکہ اعلامیہ پاکستان کے تناظر میں زیادہ حساس بھی ہے اور سنگین بھی ۔کیونکہ الفاظ کی سختی ظاہر کرتی ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں کافی سرد مہری پائی جاتی ہے۔
اس اعلامیہ کے چھ نکات اہم ہیں جو ہماری سیاست اور عالمی یا علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اول ان کے بقول پاکستان کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی سرزمین دوسرے ممالک کے لیے دہشت گردی کے طو رپر استعمال نہ ہوسکے ۔ دوئم عالمی سطح پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور بھارت ساتھ کھڑے ہیں۔
سوئم اسی اعلامیہ سے یہ تاثر بھی قائم ہوا ہے کہ امریکا بھارت کی طرح پاکستان کی دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اور اقدمات سے مطمن نہیں او ران اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔اسی طرح القائدہ ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
چہارم اسی اعلامیہ میں ایف ٹیف، فنانس ٹیر رازم ،منی لانڈرنگ پر مل کر کام کرنے سمیت انسداد دہشت گردی او رہوم لینڈ سیکیورٹی جیسے مسائل پر مشترکہ عزم ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں اس خطہ کی سیاست میں امریکا او ربھار ت کا کلیدی کردا ر ہوگا۔ پنجم یہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں امریکا کا جھکاو بھار ت کی طرف ہے۔ ششم بھارت اور امریکا کا مشترکہ طور پر ایف ٹی ایف پر دوبارہ کام کرنے کی حکمت عملی سمیت پاکستان پر ٹیررازم فنانسنگ جیسے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکتی رہے گی ۔
امریکا او ربھار ت کا ایک دوسرے کے قریب آنا او رمل کر خطہ کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنا او ربھار ت کو امریکا کی جانب سے اپنا اہم اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھنا سمجھ میں آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں خود پاکستان کہاں کھڑا ہے اور کیا وجہ ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی اور اس سے جڑے معاملات پر لڑی جانے والی جنگ یا حکمت عملی میں پاکستان کے کردار کو ایک اہم پارٹنر کے طو رپر کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے اورکیوں ہماری کوششوں کو اس حالیہ مشترکہ اعلامیہ میں اعتراف کے طو رپر اور ہمیں ایک اہم پارٹنر کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کیا گیا۔
خطہ میں دہشت گری کا مقابلہ کرنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ، اس کے لیے مشترکہ میکنزئم اور حکمت عملی درکار ہے لیکن اس کو یقینی بنانے کے لیے پاک بھارت تعلقات میں اعتماد سازی قائم کرنا ہوگی ۔ امریکا پاک بھارت میں اعتماد سازی کو یقینی بنانے کی بجائے بھارت کے ساتھ کھڑا ہوکر ہمیں ایک خاص پیغام دے رہا ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
امریکا ضرور بھارت کی طرف اپنا جھکاو بڑھائے لیکن اس کا مطلب پاکستان کو نظرانداز کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک طرف امریکا مختلف مواقعوں پر ہمیں اپنا سٹرٹیجک پارٹنر کہتا ہے اور دوسری طرف اس کا مجموعی طرز عمل یا فیصلہ سازی میں جھکاو ہماری مخالف سمت میں ہوتا ہے جو ہمارے لیے تشویش کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔
چین کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات پر امریکا میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں امریکا کا بھارت کے ساتھ کھڑا ہونا اور بھارتی لب و لہجہ میں اپنا موقف پیش کرنا خود ایک بڑے دباو ڈالنے کی پالیسی سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کو ان موجودہ حالات میں معاملات کو ازسر نو سمجھنا ہوگا۔ ہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اس کی بنیاد ی وجہ ہمارے سیاسی مخالفین کی ہمارے خلاف عالمی دینا میں مقدمہ کو کمزور کرنا ہے جو خود ہمیں اپنی داخلی ناکامیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔حالیہ کچھ عرصہ میں دہشت گرد افراد یا گروہ نے جیسے ہمارے داخلی مسائل کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اس کے بھی داخلی سطح پر احتساب ہونا چاہیے۔یہ ہی وجہ ہے کہ بنیادی نقطہ کو بار بار پیش کیا جارہا ہے کہ ہمیں ان حالات میں دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے او رایسے تمام نکات جن پر عالمی دنیا ہم پر سوالات اٹھاتی ہے اس کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔
محض الزامات کی بنیاد پر شور مچانے کی حکمت عملی یا ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ سیاسی بیان بازی ہمیں مسائل کے حقیقی حل سے دور لے کر جارہی ہے ۔ہمیں چار بنیادی نکات جن میں انتہا پسندی، دہشت گردی، سیکیورٹی، معیشت اور سیاست پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب تک ہم اپنے گھر کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے نیں سدھارینگے کچھ نہیں ہوسکے گا ۔ جب ہم داخلی طور پر سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی سطح پر مضبوط ہونگے ہماری خودمختاری بھی اہمیت رکھے گی اورہم بڑے فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے ۔
ہمیں ایک خود مختار پاکستان یا شفافیت پر مبنی پاکستان کے لیے مختلف شعبے جات جن میں سیاست , جمہوریت کو ہی بنیاد بنا کر اصلاحاتی ایجنڈے کو ترتیب دینا ہوگا۔ہماری کمزوری کی وجہ امریکا اور بھارت سے زیادہ ہمارے داخلی مسائل ہیں جو بڑے ہی پیمانے پر تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ عمل کسی بغیر سیاسی کمٹمنٹ کے نہیںہوگا۔ہمیں یقینی طور امریکا ہو یا بھارت سے خبردار رہنا ہوگا اور وہ ہمارے ہی خلاف سازشوں میں شریک بھی ہوسکتے ہیں مگر ہماری حکمت عملی ان عالمی یا علاقائی سازشوں سے نمٹنے کیے لیے مشترکہ یا اجتماعی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہوگا۔
جو مسائل ہمیں عالمی اور علاقائی سطح پر ہیں جن کی وجہ سے ہم پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کے خاتمہ کے لیے ہمیں زیرو ٹالرنس پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔کیونکہ ہمیں خود ہی اپنے خلاف مجرم بننے کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے اور یہ ہی پالیسی ہمیں سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف لے جاسکتی ہے۔
حالیہ دنوں میں بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کا دورہ امریکا پر جو مشترکہ اعلامیہ جاری ہوا وہ ہمارے لیے ایک سنجیدہ نوعیت کا سوال ہے ۔حالیہ مشترکہ اعلامیہ پاکستان کے تناظر میں زیادہ حساس بھی ہے اور سنگین بھی ۔کیونکہ الفاظ کی سختی ظاہر کرتی ہے کہ پاک امریکا تعلقات میں کافی سرد مہری پائی جاتی ہے۔
اس اعلامیہ کے چھ نکات اہم ہیں جو ہماری سیاست اور عالمی یا علاقائی سیاست میں اپنی اہمیت کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔ اول ان کے بقول پاکستان کو یقینی بنانا ہوگا کہ اس کی سرزمین دوسرے ممالک کے لیے دہشت گردی کے طو رپر استعمال نہ ہوسکے ۔ دوئم عالمی سطح پر دہشت گردی کا مقابلہ کرنے کے لیے امریکا اور بھارت ساتھ کھڑے ہیں۔
سوئم اسی اعلامیہ سے یہ تاثر بھی قائم ہوا ہے کہ امریکا بھارت کی طرح پاکستان کی دہشت گردی سے مقابلہ کرنے کی حکمت عملی اور اقدمات سے مطمن نہیں او ران اقدامات کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہا ہے۔اسی طرح القائدہ ، داعش، لشکر طیبہ، جیش محمد اور حزب المجاہدین کے خلاف ٹھوس کارروائی کا مطالبہ بھی شامل ہے۔
چہارم اسی اعلامیہ میں ایف ٹیف، فنانس ٹیر رازم ،منی لانڈرنگ پر مل کر کام کرنے سمیت انسداد دہشت گردی او رہوم لینڈ سیکیورٹی جیسے مسائل پر مشترکہ عزم ظاہر کرتا ہے کہ مستقبل میں اس خطہ کی سیاست میں امریکا او ربھار ت کا کلیدی کردا ر ہوگا۔ پنجم یہ اعلامیہ ظاہر کرتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں امریکا کا جھکاو بھار ت کی طرف ہے۔ ششم بھارت اور امریکا کا مشترکہ طور پر ایف ٹی ایف پر دوبارہ کام کرنے کی حکمت عملی سمیت پاکستان پر ٹیررازم فنانسنگ جیسے الزامات ظاہر کرتے ہیں کہ ہم ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکتی رہے گی ۔
امریکا او ربھار ت کا ایک دوسرے کے قریب آنا او رمل کر خطہ کی سیاست میں کلیدی کردار ادا کرنا او ربھار ت کو امریکا کی جانب سے اپنا اہم اسٹرٹیجک پارٹنر سمجھنا سمجھ میں آتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ پاک بھارت تعلقات میں اسٹرٹیجک پارٹنر شپ میں خود پاکستان کہاں کھڑا ہے اور کیا وجہ ہے کہ اس خطہ میں دہشت گردی اور اس سے جڑے معاملات پر لڑی جانے والی جنگ یا حکمت عملی میں پاکستان کے کردار کو ایک اہم پارٹنر کے طو رپر کیوں نظرانداز کیا جارہا ہے اورکیوں ہماری کوششوں کو اس حالیہ مشترکہ اعلامیہ میں اعتراف کے طو رپر اور ہمیں ایک اہم پارٹنر کے طور پر تسلیم کیوں نہیں کیا گیا۔
خطہ میں دہشت گری کا مقابلہ کرنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں ، اس کے لیے مشترکہ میکنزئم اور حکمت عملی درکار ہے لیکن اس کو یقینی بنانے کے لیے پاک بھارت تعلقات میں اعتماد سازی قائم کرنا ہوگی ۔ امریکا پاک بھارت میں اعتماد سازی کو یقینی بنانے کی بجائے بھارت کے ساتھ کھڑا ہوکر ہمیں ایک خاص پیغام دے رہا ہے جو ہمیں بہت کچھ سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔
امریکا ضرور بھارت کی طرف اپنا جھکاو بڑھائے لیکن اس کا مطلب پاکستان کو نظرانداز کرنا نہیں ہونا چاہیے۔ ایک طرف امریکا مختلف مواقعوں پر ہمیں اپنا سٹرٹیجک پارٹنر کہتا ہے اور دوسری طرف اس کا مجموعی طرز عمل یا فیصلہ سازی میں جھکاو ہماری مخالف سمت میں ہوتا ہے جو ہمارے لیے تشویش کے پہلو کو نمایاں کرتا ہے ۔
چین کے ساتھ ہمارے بڑھتے ہوئے تعلقات پر امریکا میں تشویش پائی جاتی ہے ۔ ایسے میں امریکا کا بھارت کے ساتھ کھڑا ہونا اور بھارتی لب و لہجہ میں اپنا موقف پیش کرنا خود ایک بڑے دباو ڈالنے کی پالیسی سے جڑا ہوا ہے۔اس لیے پاکستان کی سیاسی اور عسکری اشرافیہ کو ان موجودہ حالات میں معاملات کو ازسر نو سمجھنا ہوگا۔ ہ بات سمجھنی ہوگی کہ وہ کیا وجوہات ہیں جن کی وجہ سے پاکستان کو شک کی نگاہ سے دیکھا جارہا ہے۔
اس کی بنیاد ی وجہ ہمارے سیاسی مخالفین کی ہمارے خلاف عالمی دینا میں مقدمہ کو کمزور کرنا ہے جو خود ہمیں اپنی داخلی ناکامیوں کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے ۔حالیہ کچھ عرصہ میں دہشت گرد افراد یا گروہ نے جیسے ہمارے داخلی مسائل کا فائدہ اٹھا کر دوبارہ اپنی پوزیشن کو مضبوط کیا ہے اس کے بھی داخلی سطح پر احتساب ہونا چاہیے۔یہ ہی وجہ ہے کہ بنیادی نقطہ کو بار بار پیش کیا جارہا ہے کہ ہمیں ان حالات میں دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنا ہے او رایسے تمام نکات جن پر عالمی دنیا ہم پر سوالات اٹھاتی ہے اس کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینی ہوگی۔
محض الزامات کی بنیاد پر شور مچانے کی حکمت عملی یا ایک دوسرے کے خلاف مخالفانہ سیاسی بیان بازی ہمیں مسائل کے حقیقی حل سے دور لے کر جارہی ہے ۔ہمیں چار بنیادی نکات جن میں انتہا پسندی، دہشت گردی، سیکیورٹی، معیشت اور سیاست پر توجہ دینی چاہیے کیونکہ جب تک ہم اپنے گھر کے حالات کو تسلیم کرتے ہوئے نیں سدھارینگے کچھ نہیں ہوسکے گا ۔ جب ہم داخلی طور پر سیاسی، معاشی اور ادارہ جاتی سطح پر مضبوط ہونگے ہماری خودمختاری بھی اہمیت رکھے گی اورہم بڑے فیصلوں کو چیلنج کرسکیں گے ۔
ہمیں ایک خود مختار پاکستان یا شفافیت پر مبنی پاکستان کے لیے مختلف شعبے جات جن میں سیاست , جمہوریت کو ہی بنیاد بنا کر اصلاحاتی ایجنڈے کو ترتیب دینا ہوگا۔ہماری کمزوری کی وجہ امریکا اور بھارت سے زیادہ ہمارے داخلی مسائل ہیں جو بڑے ہی پیمانے پر تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ عمل کسی بغیر سیاسی کمٹمنٹ کے نہیںہوگا۔ہمیں یقینی طور امریکا ہو یا بھارت سے خبردار رہنا ہوگا اور وہ ہمارے ہی خلاف سازشوں میں شریک بھی ہوسکتے ہیں مگر ہماری حکمت عملی ان عالمی یا علاقائی سازشوں سے نمٹنے کیے لیے مشترکہ یا اجتماعی حکمت عملی کو اختیار کرنا ہوگا۔
جو مسائل ہمیں عالمی اور علاقائی سطح پر ہیں جن کی وجہ سے ہم پر سوالات اٹھائے جارہے ہیں ان کے خاتمہ کے لیے ہمیں زیرو ٹالرنس پالیسی کو اختیار کرنا ہوگا۔کیونکہ ہمیں خود ہی اپنے خلاف مجرم بننے کی پالیسی سے گریز کرنا چاہیے اور یہ ہی پالیسی ہمیں سیاسی اور معاشی استحکام کی طرف لے جاسکتی ہے۔