ورلڈ یوتھ اسکلز ڈے 2023ء
نوجوانوں کو ہنرمند بناکر معاشی استحکام کا خواب پورا ہوسکتا ہے!!
15جولائی کو ہر سال ''ورلڈ یوتھ اسکلز ڈے'' منایا جاتا ہے جس کا مقصد دنیا میں ہنر کی اہمیت کو اجاگر کرنا اور نوجوانوں کو ہنرمند بنانا ہے۔
پاکستان میں نوجوان آبادی 64 فیصد ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا نمبر پانچواں ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا سنہری دور صدیوں بعد آتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اتنی بڑی نوجوان آبادی سے کیسے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اسی حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
احسان بھٹہ
(سیکرٹری انڈسٹریز، کامرس، انوسٹمنٹ و اسکلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب )
نوجوان آبادی کے حساب سے دنیاکے 195 ممالک میں ہمارا 5واں نمبر ہے جو یقینا حوصلہ افزا ہے اور ایک اچھے مستقبل کی نوید ہے بشرطیکہ نوجوانوں کی درست رہنمائی کی جائے اور انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے۔
ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم جبکہ 36 فیصد حصہ 15 سے29 برس عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ انرجی سے بھرپور ہیں اور کچھ کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وسائل کی کمی سمیت مختلف وجوہات کی بناء پر انہیں مسائل کا سامنا ہے۔
درست سمت نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کی سطح پر 70 فیصد طلبہ ڈراپ ہوجاتے ہیں، وہ کالج میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھتے جو تشویشناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس کوئی ہنر نہیں، یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ 8ویں جماعت میں ہی انہیں ہنر سکھا کر مثبت سمت دکھائی جائے، اس حوالے سے محکمہ سکولز ایجوکیشن نے آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ آٹھویں جماعت میں ایک ہنر سیکھنا لازمی قرار دیا جائے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے والے 1400 ڈاکٹرز نے ملازمت نہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا۔
میرے نزدیک ہنر کے بغیر تعلیم کچھ نہیں ہے۔ ملازمت کے مواقع بہت مگر ہنرمند موجود نہیں۔ ہمارے ہاں پلمبر، الیکٹریشن و دیگر بنیادی شعبوں کی طرف نوجوانوں کا رجحان کم ہوگیا ہے، قطر نے ورلڈ کپ 2021ء کے لیے حکومت پاکستان سے 2 لاکھ سکلڈ ورکرز مانگے اور ہم صرف 46 ہزار افراد ہی بھیج سکے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کتنی تشویشناک ہے، باقی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ورکرز جن ممالک سے گئے ہونگے۔
ان کو معاشی لحاظ سے بہت فائدہ ہوا ہوگا۔ آئین پاکستان کی شق 25(A) کے تحت مفت اور لازمی تعلیم سے لوگوں نے درست فائدہ نہیں اٹھایا، بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ ہم نے طلبہ کو ہنر سے آراستہ کرنے کیلئے پنجاب کے 10 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے تمام پبلک سکولز اور کالجز کے طلبہ کیلئے سمر سکلز کیمپ کا آغاز کیا ہے جس میں 14 مختلف ٹریڈز میں کورسز کروائے جا رہے ہیں، اب تک 2200 بچے ان کیمپوں میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، باقی کے 30 اضلاع میں ہم بوٹ سکلزسمر کیمپ میں 55 کورسز کروا رہے ہیں۔
ہمارے کورسز میں طلباو طالبات دونوں کی تعداد اچھی ہے ، گوجرنوالہ، سیالکوٹ اور گجرات میں سیفٹی انسپکٹرز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، ہمارے اس کورس کی ایک کلاس میں 28 میں سے 18 لڑکیاں ہیں جو سنجیدہ ہیں اور اس فیلڈ میں کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
'ای روزگار پروگرام' کے تحت ڈیجیٹل کورسز، ٹوررازم اینڈ ہاسپٹلیٹی، انٹرپرینورشپ جیسے پروگرامز کی مارکیٹ ڈیمانڈ زیاد ہ ہے، ہمارے پاس کامیاب طلبہ کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ ہم روایتی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
ہم نے محکمہ اوقاف کے تعاو ن سے داتا دربار لاہور سے منسلک مدرسہ میں یکم جولائی سے مدرسے کے طلبہ کو ہنر کی تعلیم دینے کا آغاز کر دیا ہے، انہیں کمپیوٹر ایپلی کیشن، سپوکن انگلش اور ہوم اپلائنسز ریپیئر کی تعلیم دی جا رہی ہے، ہم خصوصی بچوں کو بھی جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ کر رہے ہیں۔
اعظم ملک
(چیئرمین ڈیجیٹل پاکستان موومنٹ)
ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے جسے تسلیم کرنے میں تاخیر کے باعث ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا کی آئی ٹی سکلز کی کمائی کا 67 فیصد بھارت کما رہا ہے جو بہت بڑا شیئر ہے۔
اگر ہم بھی آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دیں، اپنی نوجوان نسل کو تیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا میں خود کو نہ منوا سکیں۔ سازگار حالات نہ ہونے کے باوجود ہمارے نوجوان دنیا بھر میں ملک کانام روشن کر رہے ہیں، دنیا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ اگر آج ہم اپنی سمت درست کر لیں تو بھارت سے زیادہ جگہ بنا سکتے ہیں۔
ہم دنیا کو اپنے نوجوانوں کی سکلز بیچ کر اچھا ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ میں روایتی تعلیم سے زیادہ جدید اور شارٹ کورسز کو موثر سمجھتا ہوں۔ ہمیں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے 6 ماہ کے شارٹ کورسز کروانے چاہئیں، ڈیجیٹل لرننگ کو فروغ دینا چاہیے۔
یہ خوش آئند ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جو دنیا میں کامیاب ہیں، وہ ملک کے سفراء کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کاوشوں سے باہر سے کمپنیاں آکر یہاں سے ہیومن ریسورس لے کر جا رہی ہیں۔ اگر حکومت نوجوانوں کی سرپرستی کرے اور انہیں ہنر کی تعلیم دے تو یہ نوجوان ملک میں معاشی استحکام لاسکتے ہیں۔
پھر ہمیں کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ ہم زرعی اجناس و ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ سے اتنا پیسہ نہیں کما سکتے جتنا آئی ٹی سے کمایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مستقبل روشن ہے، اگلے 10 برسوں میں پاکستان ایک بڑے مقام پر کھڑا ہوگا، ہمیں نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرنا ہوگی، انہیں ایمانداری، قول کی پاسداری اور اخلاقیات سکھانا ہونگی ۔
ہم نے چھوٹے پیمانے پر آئی ٹی سیکٹر میں کام کا آغاز کیا، میرے بیٹے نے انٹرمیڈیٹ کے بعد ہی انٹرپرینیورشپ کا راستہ چنا اور آج وہ ہزاروں نوجوانوں کو اسی راہ پر چلا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں کر رہا ہے۔ ہم نوجوانوں کی ڈیجیٹل لٹریسی کے مشن کے تحت ملک کے مختلف اضلاع میں مفت ٹریننگ کروا رہے ہیں۔
جنوری 2023 میں ایکسپو سنٹر لاہور میں نوجوانوں نے ''فیوچر فیسٹ'' کے نام سے ملک کی ایک بڑی ٹیکنالوجی کانفرنس منعقد کی جس میں 300 عالمی کمپنیوںکے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں اور 60 ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس ایونٹ میں پاکستانی اداروں کے ساتھ انٹرنیشنل ٹیکنالوجی کمپنیوں نے 100ملین ڈالر سے زائد کے معاہدے کیے جن میں ایک قابل ذکر معاہدہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور ملائیشین کمپنی ری سکلز کے مابین ہواجس کے تحت یہ کمپنی 10لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو 'آ ئی ٹی' کی مہارتوں کی تربیت فراہم کرے گا۔
اس پر کام آغاز ہوچکا ہے جو یقینا خوش آئند ہے،ا س سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ حکومت نوجوانوں کے حوالے سے اچھا کام کر رہی ہے، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کام قابل تحسین ہے، 'ای روزگار' منصوبہ اچھے نتائج دے رہا ہے،نوجوانوں کو ڈیجیٹلی امپاور کرنے میں مزید تیزی لانا ہوگی۔ ہمارا تعلیمی نصاب دنیا کی رفتار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ سکلز پر مبنی نیا نصاب تعلیم بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر منیبہ افتخار
(لیکچرار شعبہ ماس کمیونیکیشن لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی)
یہ ڈیجیٹل دور ہے جس میں ہر روز کچھ نیا ہو رہا ہے۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس(AI) کاطوفان آچکا ہے۔ 'چیٹ جی پی ٹی' جیسے سافٹ ویئرز آ رہے ہیں جن سے بہت سارے شعبوں میں انسانوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ مستقبل میں فوٹوگرافر کی ضرورت نہیں پڑے گی، AIکی مدد سے اپنی ڈیمانڈ کے مطابق قدرتی نظاروں کی تصاویر مل جائیں گی۔
اشتہارات کیلئے ماڈلز، میک اپ آرٹسٹ کی ضرورت ختم ہوجائے گی، AI کی مدد سے کسی بھی پراڈکٹ کا اشتہار بنایا جاسکے گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کرنا ہے۔ ماس کمیونیشن کی تعلیم تو 60 فیصد سے زائد سکلز پر مشتمل ہے۔
ہم آخری سمسٹر میں تحریری امتحان نہیں لیتے بلکہ پریکٹیکل کام ہوتا ہے، طلبہ کو مختلف پراجیکٹس دیے جاتے ہیں اور پھر اسی حساب سے ان کی مارکنگ ہوتی ہے۔
اس طرح وہ خود تجربہ حاصل کررہے ہیں، ہم ان کی کیرئیر کونسلنگ بھی کرتے ہیں، اس کے لیے یونیورسٹی میں باقاعدہ سینٹر موجود ہے۔ اسی طرح مختلف شعبہ جات کی لیبارٹریاں، پریکٹیکل تعلیم، فزیوتھراپی کلینک و دیگر بھی موجود ہیں جہاں طالبات کو ہنرمند بنایا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرپرینیورشپ پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل دور میں سادہ مضامین میں گریجوایشن کرنے والے طلبہ کہاں جائیں گے؟ کیا اس تعلیم سے وہ روزگار کما سکیں گے؟ ہمیں طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینی ہے، انہیں اس طرف راغب کرنا ہے کہ وہ انٹرپرینیور بنیں۔
اگر ہوم اکنامکس کی ڈگری لی ہے تو ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے مواقع تلاش کریں، اگر آرٹسٹ ہیں تو دنیا کو آن لائن آرٹ سکھائیں، ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے درست استعمال کا علم نہیں ہے۔ لڑکیاں یہ سمجھ رہی ہیں کہ سوشل میڈیا انفلواینسر بن کر، چند ہزار کی پروموشنز لگا کر، کمپنیوں کی طرف سے گفٹس لے کر وہ کامیاب ہیں، ایسا نہیں ہے۔
ہمارے ہاں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا، شارٹ کورسز کروانا ہونگے، انٹرپرینیورشپ کی طرف راغب کرنا ہوگا اور ان کی کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہوگی، اس کے لیے تعلیمی اداروں کے تمام شعبہ جات میں طلبہ کی کیرئر کونسلنگ کی جائے۔
میرے نزدیک ہمیں تعلیمی نصاب میں جدت لانا ہوگی۔ معیار تعلیم بہتر بنانے، جدید دنیا کا مقابلہ کرنے اور نوجوانوں کو درست سمت دینے کیلئے حکومت، اکیڈیمیا، آئی ٹی سیکٹر و تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔
پاکستان میں نوجوان آبادی 64 فیصد ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق نوجوان آبادی کے لحاظ سے دنیا میں ہمارا نمبر پانچواں ہے۔ قوموں کی تاریخ میں ایسا سنہری دور صدیوں بعد آتا ہے، دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان اتنی بڑی نوجوان آبادی سے کیسے فائدہ اٹھاتا ہے۔
اسی حوالے سے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت، اکیڈیمیا اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
احسان بھٹہ
(سیکرٹری انڈسٹریز، کامرس، انوسٹمنٹ و اسکلز ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ پنجاب )
نوجوان آبادی کے حساب سے دنیاکے 195 ممالک میں ہمارا 5واں نمبر ہے جو یقینا حوصلہ افزا ہے اور ایک اچھے مستقبل کی نوید ہے بشرطیکہ نوجوانوں کی درست رہنمائی کی جائے اور انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کیا جائے۔
ہماری آبادی کا 64 فیصد حصہ 30 برس سے کم جبکہ 36 فیصد حصہ 15 سے29 برس عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ انرجی سے بھرپور ہیں اور کچھ کر دکھانے کی لگن رکھتے ہیں مگر ایسا لگتا ہے کہ وسائل کی کمی سمیت مختلف وجوہات کی بناء پر انہیں مسائل کا سامنا ہے۔
درست سمت نہ ہونے کی وجہ سے میٹرک کی سطح پر 70 فیصد طلبہ ڈراپ ہوجاتے ہیں، وہ کالج میں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھتے جو تشویشناک ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان نوجوانوں کے پاس کوئی ہنر نہیں، یہ معاشرے میں بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔
اس کا حل یہ ہے کہ 8ویں جماعت میں ہی انہیں ہنر سکھا کر مثبت سمت دکھائی جائے، اس حوالے سے محکمہ سکولز ایجوکیشن نے آمادگی کا اظہار کیا ہے کہ آٹھویں جماعت میں ایک ہنر سیکھنا لازمی قرار دیا جائے گا۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ پی ایچ ڈی کرنے والے 1400 ڈاکٹرز نے ملازمت نہ ملنے کے خلاف احتجاج کیا۔
میرے نزدیک ہنر کے بغیر تعلیم کچھ نہیں ہے۔ ملازمت کے مواقع بہت مگر ہنرمند موجود نہیں۔ ہمارے ہاں پلمبر، الیکٹریشن و دیگر بنیادی شعبوں کی طرف نوجوانوں کا رجحان کم ہوگیا ہے، قطر نے ورلڈ کپ 2021ء کے لیے حکومت پاکستان سے 2 لاکھ سکلڈ ورکرز مانگے اور ہم صرف 46 ہزار افراد ہی بھیج سکے، اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ صورتحال کتنی تشویشناک ہے، باقی ڈیڑھ لاکھ سے زائد ورکرز جن ممالک سے گئے ہونگے۔
ان کو معاشی لحاظ سے بہت فائدہ ہوا ہوگا۔ آئین پاکستان کی شق 25(A) کے تحت مفت اور لازمی تعلیم سے لوگوں نے درست فائدہ نہیں اٹھایا، بچوں کو تعلیم کی طرف راغب کرنا ہوگا۔ ہم نے طلبہ کو ہنر سے آراستہ کرنے کیلئے پنجاب کے 10 ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے تمام پبلک سکولز اور کالجز کے طلبہ کیلئے سمر سکلز کیمپ کا آغاز کیا ہے جس میں 14 مختلف ٹریڈز میں کورسز کروائے جا رہے ہیں، اب تک 2200 بچے ان کیمپوں میں مفت تعلیم حاصل کر رہے ہیں، باقی کے 30 اضلاع میں ہم بوٹ سکلزسمر کیمپ میں 55 کورسز کروا رہے ہیں۔
ہمارے کورسز میں طلباو طالبات دونوں کی تعداد اچھی ہے ، گوجرنوالہ، سیالکوٹ اور گجرات میں سیفٹی انسپکٹرز کی ڈیمانڈ زیادہ ہے، ہمارے اس کورس کی ایک کلاس میں 28 میں سے 18 لڑکیاں ہیں جو سنجیدہ ہیں اور اس فیلڈ میں کام کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔
'ای روزگار پروگرام' کے تحت ڈیجیٹل کورسز، ٹوررازم اینڈ ہاسپٹلیٹی، انٹرپرینورشپ جیسے پروگرامز کی مارکیٹ ڈیمانڈ زیاد ہ ہے، ہمارے پاس کامیاب طلبہ کی بہت ساری مثالیں موجود ہیں۔ ہم روایتی تعلیمی اداروں کے ساتھ ساتھ مدارس پر بھی توجہ دے رہے ہیں۔
ہم نے محکمہ اوقاف کے تعاو ن سے داتا دربار لاہور سے منسلک مدرسہ میں یکم جولائی سے مدرسے کے طلبہ کو ہنر کی تعلیم دینے کا آغاز کر دیا ہے، انہیں کمپیوٹر ایپلی کیشن، سپوکن انگلش اور ہوم اپلائنسز ریپیئر کی تعلیم دی جا رہی ہے، ہم خصوصی بچوں کو بھی جدید تعلیم اور ہنر سے آراستہ کر رہے ہیں۔
اعظم ملک
(چیئرمین ڈیجیٹل پاکستان موومنٹ)
ہم گلوبل ویلج میں رہ رہے ہیں اور یہ ٹیکنالوجی کا انقلاب ہے جسے تسلیم کرنے میں تاخیر کے باعث ہم اپنے ہمسایہ ممالک سے بھی پیچھے رہ گئے ہیں۔ دنیا کی آئی ٹی سکلز کی کمائی کا 67 فیصد بھارت کما رہا ہے جو بہت بڑا شیئر ہے۔
اگر ہم بھی آئی ٹی کے شعبے پر توجہ دیں، اپنی نوجوان نسل کو تیار کریں تو کوئی شک نہیں کہ ہم دنیا میں خود کو نہ منوا سکیں۔ سازگار حالات نہ ہونے کے باوجود ہمارے نوجوان دنیا بھر میں ملک کانام روشن کر رہے ہیں، دنیا ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کر رہی ہے لہٰذا مجھے یقین ہے کہ اگر آج ہم اپنی سمت درست کر لیں تو بھارت سے زیادہ جگہ بنا سکتے ہیں۔
ہم دنیا کو اپنے نوجوانوں کی سکلز بیچ کر اچھا ریونیو حاصل کر سکتے ہیں۔ میں روایتی تعلیم سے زیادہ جدید اور شارٹ کورسز کو موثر سمجھتا ہوں۔ ہمیں نوجوانوں کو ہنر مند بنانے کیلئے 6 ماہ کے شارٹ کورسز کروانے چاہئیں، ڈیجیٹل لرننگ کو فروغ دینا چاہیے۔
یہ خوش آئند ہے کہ ہمارے وہ نوجوان جو دنیا میں کامیاب ہیں، وہ ملک کے سفراء کے طور پر کام کر رہے ہیں اور ان کی کاوشوں سے باہر سے کمپنیاں آکر یہاں سے ہیومن ریسورس لے کر جا رہی ہیں۔ اگر حکومت نوجوانوں کی سرپرستی کرے اور انہیں ہنر کی تعلیم دے تو یہ نوجوان ملک میں معاشی استحکام لاسکتے ہیں۔
پھر ہمیں کسی سے قرض لینے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ ہم زرعی اجناس و ٹیکسٹائل کی ایکسپورٹ سے اتنا پیسہ نہیں کما سکتے جتنا آئی ٹی سے کمایا جا سکتا ہے۔ ہمارا مستقبل روشن ہے، اگلے 10 برسوں میں پاکستان ایک بڑے مقام پر کھڑا ہوگا، ہمیں نوجوانوں کو ہنر سکھانے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت بھی کرنا ہوگی، انہیں ایمانداری، قول کی پاسداری اور اخلاقیات سکھانا ہونگی ۔
ہم نے چھوٹے پیمانے پر آئی ٹی سیکٹر میں کام کا آغاز کیا، میرے بیٹے نے انٹرمیڈیٹ کے بعد ہی انٹرپرینیورشپ کا راستہ چنا اور آج وہ ہزاروں نوجوانوں کو اسی راہ پر چلا رہا ہے اور بین الاقوامی سطح پر سرگرمیاں کر رہا ہے۔ ہم نوجوانوں کی ڈیجیٹل لٹریسی کے مشن کے تحت ملک کے مختلف اضلاع میں مفت ٹریننگ کروا رہے ہیں۔
جنوری 2023 میں ایکسپو سنٹر لاہور میں نوجوانوں نے ''فیوچر فیسٹ'' کے نام سے ملک کی ایک بڑی ٹیکنالوجی کانفرنس منعقد کی جس میں 300 عالمی کمپنیوںکے ساتھ ساتھ مقامی کمپنیوں اور 60 ہزار افراد نے شرکت کی۔ اس ایونٹ میں پاکستانی اداروں کے ساتھ انٹرنیشنل ٹیکنالوجی کمپنیوں نے 100ملین ڈالر سے زائد کے معاہدے کیے جن میں ایک قابل ذکر معاہدہ پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ اور ملائیشین کمپنی ری سکلز کے مابین ہواجس کے تحت یہ کمپنی 10لاکھ پاکستانی نوجوانوں کو 'آ ئی ٹی' کی مہارتوں کی تربیت فراہم کرے گا۔
اس پر کام آغاز ہوچکا ہے جو یقینا خوش آئند ہے،ا س سے ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔ حکومت نوجوانوں کے حوالے سے اچھا کام کر رہی ہے، پنجاب انفارمیشن ٹیکنالوجی بورڈ کا کام قابل تحسین ہے، 'ای روزگار' منصوبہ اچھے نتائج دے رہا ہے،نوجوانوں کو ڈیجیٹلی امپاور کرنے میں مزید تیزی لانا ہوگی۔ ہمارا تعلیمی نصاب دنیا کی رفتار کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتا، جدید تقاضوں سے ہم آہنگ سکلز پر مبنی نیا نصاب تعلیم بنانا ہوگا۔
ڈاکٹر منیبہ افتخار
(لیکچرار شعبہ ماس کمیونیکیشن لاہور کالج فار وویمن یونیورسٹی)
یہ ڈیجیٹل دور ہے جس میں ہر روز کچھ نیا ہو رہا ہے۔ آرٹیفشل انٹیلی جنس(AI) کاطوفان آچکا ہے۔ 'چیٹ جی پی ٹی' جیسے سافٹ ویئرز آ رہے ہیں جن سے بہت سارے شعبوں میں انسانوں کی ضرورت ختم ہوجائے گی۔ مستقبل میں فوٹوگرافر کی ضرورت نہیں پڑے گی، AIکی مدد سے اپنی ڈیمانڈ کے مطابق قدرتی نظاروں کی تصاویر مل جائیں گی۔
اشتہارات کیلئے ماڈلز، میک اپ آرٹسٹ کی ضرورت ختم ہوجائے گی، AI کی مدد سے کسی بھی پراڈکٹ کا اشتہار بنایا جاسکے گا۔ ہمیں یہ دیکھنا ہے کہ اس سب کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا کرنا ہے۔ ماس کمیونیشن کی تعلیم تو 60 فیصد سے زائد سکلز پر مشتمل ہے۔
ہم آخری سمسٹر میں تحریری امتحان نہیں لیتے بلکہ پریکٹیکل کام ہوتا ہے، طلبہ کو مختلف پراجیکٹس دیے جاتے ہیں اور پھر اسی حساب سے ان کی مارکنگ ہوتی ہے۔
اس طرح وہ خود تجربہ حاصل کررہے ہیں، ہم ان کی کیرئیر کونسلنگ بھی کرتے ہیں، اس کے لیے یونیورسٹی میں باقاعدہ سینٹر موجود ہے۔ اسی طرح مختلف شعبہ جات کی لیبارٹریاں، پریکٹیکل تعلیم، فزیوتھراپی کلینک و دیگر بھی موجود ہیں جہاں طالبات کو ہنرمند بنایا جارہا ہے۔ ڈیجیٹل دنیا کو مدنظر رکھتے ہوئے ہم نے ڈیجیٹل میڈیا اور انٹرپرینیورشپ پر بھی خصوصی توجہ دی ہے۔
اس وقت اہم سوال یہ ہے کہ ڈیجیٹل دور میں سادہ مضامین میں گریجوایشن کرنے والے طلبہ کہاں جائیں گے؟ کیا اس تعلیم سے وہ روزگار کما سکیں گے؟ ہمیں طلبہ کو جدید تقاضوں کے مطابق تربیت دینی ہے، انہیں اس طرف راغب کرنا ہے کہ وہ انٹرپرینیور بنیں۔
اگر ہوم اکنامکس کی ڈگری لی ہے تو ڈیجیٹل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اپنے لیے مواقع تلاش کریں، اگر آرٹسٹ ہیں تو دنیا کو آن لائن آرٹ سکھائیں، ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ نوجوانوں کو ڈیجیٹل میڈیا کے درست استعمال کا علم نہیں ہے۔ لڑکیاں یہ سمجھ رہی ہیں کہ سوشل میڈیا انفلواینسر بن کر، چند ہزار کی پروموشنز لگا کر، کمپنیوں کی طرف سے گفٹس لے کر وہ کامیاب ہیں، ایسا نہیں ہے۔
ہمارے ہاں بے روزگار نوجوانوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، بے روزگاری کے خاتمے کیلئے انہیں جدید تقاضوں کے مطابق تیار کرنا ہوگا، شارٹ کورسز کروانا ہونگے، انٹرپرینیورشپ کی طرف راغب کرنا ہوگا اور ان کی کپیسٹی بلڈنگ کرنا ہوگی، اس کے لیے تعلیمی اداروں کے تمام شعبہ جات میں طلبہ کی کیرئر کونسلنگ کی جائے۔
میرے نزدیک ہمیں تعلیمی نصاب میں جدت لانا ہوگی۔ معیار تعلیم بہتر بنانے، جدید دنیا کا مقابلہ کرنے اور نوجوانوں کو درست سمت دینے کیلئے حکومت، اکیڈیمیا، آئی ٹی سیکٹر و تمام سٹیک ہولڈرز کو مل بیٹھ کر لائحہ عمل تیار کرنا ہوگا۔