لاہور 2 نوجوانوں کی ہلاکت کے بعد غیر قانونی سوئمنگ پولز کیخلاف انتظامیہ متحرک

بڑے ہوٹلوں، کلبوں اور سوسائٹیوں میں معیاری پولز کے علاوہ شہر میں بغیر اجازت سوئمنگ پولز کی بھرمار ہے

(فوٹو: فائل)

صوبائی دارالحکومت میں 2 نوجوانوں کی ہلاکت کے واقعے کے بعد انتظامیہ غیر قانونی سوئمنگ پولز کے خلاف حرکت میں آ گئی ہے۔

گرمیوں خصوصاً موسم کی شدت میں سوئمنگ پولز کی رونقیں بھی بڑھ جاتی ہیں ، جس کی وجہ سے یہ ایک منافع بخش کاروباربنتا جارہا ہے۔لاہور میں جہاں اعلیٰ معیارکے کئی سوئمنگ پولزہیں، وہیں غیرقانونی طریقے سے بنائے گئے پولزکی تعداد بھی بہت زیادہ ہے۔تحقیقات کے مطابق سوئمنگ پولزکسی بھی سرکاری محکمے سے اجازت نامہ (این اوسی) لیے بغیر ہی بنائے گئے ہیں جب کہ پنجاب حکومت نے سوئمنگ پول بنانے کے لیے محکمہ انجینئرنگ و اسپورٹس سے این اوسی لینا لازمی قرار دیدیا ہے۔

لاہورکے علاقے گجرپورہ میں گزشتہ دنوں ایک سوئمنگ پول پرکرنٹ لگنے سے 2 نوجوانوں کی ہلاکت کا افسوسناک واقعہ پیش آیا تو پولیس سمیت دیگرانتظامی ادارے حرکت میں آگئے اور سوئمنگ پول بند کردیا گیا۔ کمشنر لاہور محمدعلی رندھاوا نے ہدایات جاری کیں کہ سوئمنگ پول بنانے کے لیے محکمہ انجینئرنگ و اسپورٹس سے این او سی لینا لازمی ہو گا جب کہ تمام ڈویژنل کمشنرز کو این اوسی کے بغیر کام کرنے والے سوئمنگ پولزکے خلاف کارروائی کرنے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

واضح رہے کہ حکومت کے کسی بھی ادارے کے پاس شہرمیں موجود سوئمنگ پولزکی درست تعداد کا کوئی ڈیٹا موجود نہیں ہے۔ ڈپٹی کمشنرلاہور رافعہ حیدر نے اس حوالے سے بتایا کہ سوئمنگ پولز کی منظوری کے لیے ریسکیو1122، میٹرو پولیٹن کارپوریشن اور مقامی ٹاؤن انتظامیہ سروے کرتی ہے، تاہم این اوسی دینے کا اختیاران کےپاس نہیں ہے۔

شہر کے بعض بڑے ہوٹلوں اورسوسائٹیزمیں سوئمنگ پولزبنائے گئے ہیں، لیکن وہ صرف مقامی رہائشیوں کے لیے ہیں اوران کی ممبرشپ لینا پڑتی ہے، تاہم بعض افراد نے غیرقانونی طورپر واٹرپارک اورسوئمنگ پولز بنا رکھے ہیں، جہاں کوئی بھی شخص ٹکٹ لے کر جاسکتا ہے۔ واہگہ ٹاؤن میں ایک معروف واٹرپارک کے منتظمین نے بتایا کہ سوئمنگ پول بنانے کے لیے کوئی محکمہ این اوسی جاری نہیں کرتا، متعلقہ ٹاؤن سے نقشہ پاس کروایا گیا تھا اور اب بھی ٹاؤن کا عملہ سالانہ فیس وصول کرتا ہے۔ سوئمنگ پول کا پانی منتظمین اپنے طور پر کسی لیبارٹری سے چیک کرواتے ہیں۔


شمالی لاہورکے علاقے بند روڈ پربنائے گئے سوئمنگ پول کی انتظامیہ کے مطابق انہوں نے ٹیوب ویل لگوانے کے لیے واسا سے اجازت لی تھی اور جگہ کانقشہ بھی منظور کروایا ہے۔ سوئمنگ پول کے منیجر محمد ریاض نے بتایا کہ سوئمنگ پول صرف گرمیوں میں ہی چند ماہ چلتا ہے۔ تالاب کے پانی کو باقاعدہ صاف رکھا جاتا ہے، پانی کو جراثیم سے پاک رکھنے کے لیے کلورین شامل کی جاتی ہے۔

بیدیاں روڈپرواقع سوئمنگ پول کے ایک ملازم نے نام ظاہرنہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ سیزن کے دوران مقامی ٹاؤن انتطامیہ اورکبھی پولیس والے آتے ہیں اوران سے پیسے لے کر چلے جاتے ہیں۔ ان کے پاس کوئی این اوسی ہے اورنہ ہی معلوم ہے کہ کون سا محکمہ سوئمنگ پول بنانے کی اجازت دیتا ہے۔

تحقیقات کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ پنجاب یونیورسٹی، ڈی ایچ اے، بڑے ہوٹلوں اورچند دیگربڑی سوسائٹیوں میں سوئمنگ پولز پر سکیورٹی اور سوئمنگ کرنے والوں کو کسی بھی ایمرجنسی میں مدد فراہم کرنے کے لیے ہروقت عملہ موجود ہوتا ہے لیکن زیادہ ترسوئمنگ پولزمیں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہرسیزن میں کسی نہ کسی سوئمنگ پول پرکوئی نہ کوئی ناخوشگوارواقعہ پیش آجاتا ہے۔

مقامی شہریوں عبدالرحمٰن، ولید احمد اور ذیشان خان کا کہنا ہے کہ جوبڑے ہوٹلوں،کلبوں اورسوسائٹیوں میں سوئمنگ پولزبنے ہیں وہاں عام آدمی داخل ہی نہیں ہوسکتا جب کہ سوزو واٹرپارک کی طرح کے چند بڑے پارکس ہیں، وہاں داخلہ ٹکٹ کافی زیادہ ہے، جس کی وجہ سے لوگ گرمیوں میں نہانے کے لیے لاہورکینال کا رخ کرتے ہیں، جو شہرکا سب سے بڑا، اوپن سوئمنگ پول ہے یاپھر لوگ چھوٹے واٹرپارکس اور سوئمنگ پولزپرجاتے ہیں جہاں چند سوروپے ٹکٹ ہوتا ہے۔

ٹاؤن پلاننگ کے ماہرمیاں زاہد اسلام نے ایکسپریس ٹربیون سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہریوں کو تفریح کی سہولتیں فراہم کرنا ایک اچھا اقدام ہے لیکن یہ سہولتیں کسی قانون اورریگولیشن کے تحت ہونی چاہییں۔ بدقسمتی سے لوگ پیسہ کمانے کے چکرمیں سوئمنگ پولزبنارہے ہیں۔ بعض لوگوں نے توصرف زرعی ٹیوب ویل لگا کر سوئمنگ پول بنارکھا ہے۔ سوئمنگ پول واٹر اسپورٹس کے لیے نہایت اہم ہیں لیکن اس کے لیے قانون اورضابطہ ہونا ضروری ہے۔
Load Next Story