نئی سیاسی جماعت کی ضرورت

امیروں کی نئی سیاسی جماعت چاہے تو کیجریوال جیسا منشور بنا کر عوام کو صحت و تعلیم کی مفت سہولت دے سکتی ہے

m_saeedarain@hotmail.com

نئی جنم لینے والی جماعت استحکام پاکستان پارٹی کے مجوزہ منشور کے کچھ نکات سامنے آگئے ہیں، جن کے مطابق ملک میں ملازمت پیشہ اور مزدور افراد کی کم ازکم تنخواہ پچاس ہزار روپے اور غریب اور سفید پوش طبقے کے افراد کو تین سو یونٹ تک بجلی مفت فراہم کی جائے گی۔

مجوزہ منشور کے باقی نکات تو نہ صرف عام سے ہیں بلکہ اب تک کی سیاسی جماعتیں اپنے منشور میں وہ دعوے کر چکی ہیں جن پر عمل ہی نہیں ہوا اور یہ پارٹیاں متعدد بار اقتدار میں آئیں مگر انھوں نے اپنے منشور پر عمل کیا نہ وعدے پورے کیے اور عوام آج بھی صحت تعلیم کی مفت فراہمی سمیت بنیادی سہولیات سے محروم ہیں۔ آئی پی پی کے مجوزہ منشور میں منفرد اصلاحات کا پروگرام بھی شامل بتایا جا رہا ہے جس کا اعلان جلد متوقع ہے۔

1967 میں جنرل ایوب دور میں پیپلز پارٹی قائم ہوئی جس کے منشور کی اہم بات روٹی کپڑا اور مکان تھا جو عوام کو فراہم کیا جانا تھا اور یہ اعلان ایک بڑے زمیندار گھرانے سے تعلق رکھنے والے اور اعلیٰ تعلیم یافتہ ذوالفقار علی بھٹو کا تھا۔ بھٹو اقتدار میں آئے مگر 1977 میں اپنے خلاف تحریک کو بے دردی سے کچلا جس سے مارشل لا لگا اور بھٹو صاحب پھانسی چڑھا دیے گئے۔

ایوب خان کے اقتدار میں آنے تک پاکستان کے وزرائے اعظم ملک و قوم سے مخلص اور ملک کو لوٹنے والے نہیں تھے۔

مسلم لیگ نے باہم تقسیم ہو کر گروپنگ کا ریکارڈ قائم کیا نئی نئی پارٹیاں بھی وجود میں آئیں مگر مسلم لیگ ایوب خان سے نواز شریف تک کنونشن، کونسل، جونیجو، قائد اعظم اور (ن) لیگ تک مختلف شکلوں میں اقتدار میں رہی اور مسلم لیگ میں دیگر چھوٹے گروپ بھی بنتے اور بعض اقتدار کا حصہ بنتے رہے اور آج بھی مسلم لیگ (ن) ملک کی سب سے بڑی پارٹی ہونے کی دعویدار ہے۔

کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کے کپتان نے 1996 میں پاکستان تحریک انصاف بنائی تھی جو 2011 تک پروان نہ چڑھ سکی تھی مگر اس کے چیئرمین کے بلند و بانگ دعوؤں، ایمانداری اور کبھی اقتدار میں نہ رہنے کے حقائق اور کرپشن کا شدید مخالف ہو کر سابق وزرائے اعظم اور برسر اقتدار پارٹیوں کی مبینہ کرپشن کو جب پی ٹی آئی نے بنیاد بنایا تو ایک نہ آزمائے ہوئے کو ملک و قوم سے مخلص سمجھ کر بالاتروں نے گود لے لیا اور لاہور میں پی ٹی آئی کا بڑا جلسہ کرا کر 2013 کے الیکشن میں ناکام رہنے والی پی ٹی آئی سے اسلام آباد میں طویل دھرنا کرا کر بھی بالاتر اس کے چیئرمین کے دعوؤں سے متاثر رہے۔


انھوں نے الیکشن جیتنے والے سیاستدانوں کو پی ٹی آئی میں شامل کرا کر اہم سیاسی قوت بنایا اور 2018 میں آر ٹی ایس بٹھا کر اسے مصنوعی اکثریت دلائی۔ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرا کر اس پی ٹی آئی کو اقتدار میں لایا گیا جس کے چیئرمین نے ملک میں 50 لاکھ گھر بنانے، ایک کروڑ نوکریاں دینے اور ملک کو ریاست مدینہ بنانے کا اعلان کیا جس کی حقیقت پونے چار سالہ اقتدار میں بے نقاب ہو گئی اور جمہوریت کے نام اور ملک میں تبدیلی کے دعویدار نے وہ جمہوری تباہی پھیلائی کہ جس نے ماضی کے ریکارڈ توڑ دیے اور عوام کو کرپشن پکڑنے والوں کے آسرے دے کر بہلایا جاتا رہا۔

نئی نسل نے پی ٹی آئی سے بڑی امیدیں وابستہ کی تھیں کہ ملک میں واقعی تبدیلی آئے گی، عوام کی حالت بدلے گی مگر پونے چار سالوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور اس کی من مانیوں اور وعدہ خلافیوں سے تنگ آ کر بالاتر بدنام بھی ہوئے اور انھیں مجبوراً اپنا دست شفقت ہٹا کر غیر سیاسی ہونا پڑا جس پر بھی وزیر اعظم نے روش نہ بدلی۔ جھوٹ پر جھوٹ بولا جاتا رہا اور بالاتروں کو سیاسی مداخلت اور اپنی سرپرستی جاری رکھنے پر راضی کرنا چاہا اور ملک میں پہلی بار باقی پارٹیوں نے انھیں تحریک عدم اعتماد لا کر اقتدار سے کیا ہٹایا وہ بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر اور اپنے اقتدار کے خاتمے کا ذمے دار بالاتروں اور دوسروں کو قرار دینے لگا اور اپنی غلطی تسلیم نہیں کی اور مشتعل ہو کر سانحہ 9 مئی کرا دیا گیا۔

سابق وزیر اعظم کے دیرینہ ساتھیوں کو موقع کی تلاش تھی کیونکہ وہ اپنے چیئرمین کو سمجھانے کی جرأت نہ رکھتے تھے اور پھر پی ٹی آئی چھوڑنے کی تحریک چل پڑی جس میں پی ٹی آئی سے علیحدگی کے اعلانات جاری ہیں اور علیحدہ ہونے والوں نے 1996 کے بعد اپنی نئی پارٹی بنا لی ہے جس میں جہانگیر ترین، علیم خان اور دوسرے لوگ شامل ہیں۔

نئی پارٹی والے چاہیں تو اپنی ذاتی دولت سے ملک کو آئی ایم ایف کے قرضوں سے نجات دلا سکتے ہیں جن کی وجہ سے عوام مہنگائی اور بے روزگاری کے طوفان میں پھنسے پرانی پارٹیوں کو کوس رہے ہیں۔

بھارتی سیاست میں تبدیلی لانے والی عام آدمی پارٹی کا سربراہ کیجریوال انجینئر تھا جس کی نئی پارٹی نے دہلی حکومت میں جو کر دکھایا، اس کی مثال موجود نہیں اور اس کی پارٹی اپنے عوامی منشور پر عمل کر کے دہلی کے بعد بھارتی پنجاب میں بھی اقتدار میں آچکی ہے۔

امیروں کی نئی سیاسی جماعت چاہے تو کیجریوال جیسا منشور بنا کر عوام کو صحت و تعلیم کی مفت سہولت دے سکتی ہے اور بجلی کے مہنگے عذاب میں مبتلا عوام کو تین سو یونٹ مفت بجلی، سستی گیس اور مہنگائی سے نجات مل جائے تو عوام تینوں بڑی حکمرانی کرنے والی پارٹیوں کو مسترد کرکے نئی پارٹی پر اعتماد کرسکتے ہیں۔
Load Next Story