قتیل شفائی کی یاد میں حصہ اول
قتیلؔ صاحب سے ہمارا اولین غائبانہ تعارف جب ہوا تو اس وقت ہم واقعی طفل مکتب تھے
قتیل شفائی کی اِس جہانِ فانی سے رخصتی کو بائیس سال ہوگئے ہیں۔ قتیلؔ صاحب سے ہمارا اولین غائبانہ تعارف جب ہوا تو اس وقت ہم واقعی طفل مکتب تھے، غالباً اس وقت ہم ساتویں جماعت کے طالب علم تھے۔
اس زمانے میں بچوں کا سب سے پسندیدہ رسالہ ماہنامہ '' کھلونا '' ہمارے گھر میں ہر ماہ نہایت پابندی اور باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ '' کھلونا '' کا سالنامہ بڑے خاصے کی چیز ہوتا تھا جس میں پاک و ہند کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی بچوں سے متعلق تخلیقات بڑی دھوم سے شایع ہوتی تھیں جن میں کرشن چندر اور میرزا ادیب جیسے نامور ادیب اور ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خاں، حامد اللہ افسر، تلوک چند محروم جیسے ممتاز شعرائے کرام کی نظمیں شایع ہوا کرتی تھیں۔
'' کھلونا '' ہی کے سالنامے میں '' گراموفون '' کے عنوان سے شایع ہونے والی بچوں کے لیے خاص طور پر لکھی گئی ایک انتہائی دلچسپ نظم کے ذریعے سے ہمیں قتیلؔ شفائی سے پہلی مرتبہ غائبانہ تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ نظم کا موضوع ایک پرانا کھٹارا گرامو فون تھا جو بجتا کم تھا اور شور زیادہ کرتا تھا۔ اس دلکش نظم کی دو تین لائنیں کچھ یوں تھیں:
ٹوٹے پہیوں کی گڑگڑاہٹ ہے
زخمی کوؤں کی پھڑپھڑاہٹ ہے
دیکھنا تو یہ کس کی آہٹ ہے
بج رہا ہے گراموفون اپنا
اس وقت ہمارے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا ہی نہیں بلکہ ان کی میزبانی اور ان کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوگا۔
یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ جس '' کھلونا '' دہلی میں قتیلؔ کی خوبصورت نظم شایع ہوئی تھی، اسی رسالے میں ہماری تحریرکی ہوئی سب سے پہلی نظم بعنوان '' کھلنڈرے لڑکے کا گیت '' بھی شایع ہوئی اور جس مشہور رسالے '' شمع دہلی'' میں قتیلؔ صاحب کی غزلیات شایع ہوا کرتی تھیں، اسی رسالے میں احقر کی پہلی غزل بھی شایع ہوئی۔
وقت نے یک بہ یک ایک نئی کروٹ لی اور پھر وہ شبھ گھڑی آئی جب بزم شنکر وشا کے زیر اہتمام دہلی میں ہر سال پابندی سے منعقد ہونے والے عظیم الشان انڈو پاک مشاعرے میں قتیلؔ صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقعہ میسر آیا۔ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ہندوستان کے وزیر بحالیات شری مہاویر تیاگی تھے جو انتہائی ادب دوست اور شاعر پرور قسم کے بے حد باذوق انسان تھے۔
پاکستان سے دیگر شعرائے کرام کے علاوہ قتیلؔ شفائی خصوصی اہمیت کے حامل تھے جنھوں نے اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع تھا:
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
پھر جب اپنے مخصوص انداز میں غزل سناتے سناتے وہ درج ذیل معنی خیز شعر پر پہنچے تو ان پر ہر طرف سے داد پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے اور مکرر ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
مسجدیں ترستی ہیں اِس طرف اذانوں کو
اُس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا
قتیلؔ نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ یہ تھی قتیلؔ شفائی سے ہماری دور کی ملاقات۔ اس وقت بھی یہ ہمارے کسی گوشہ گمان میں نہ تھا کہ ہماری قسمت کبھی اس قدر مہربان ہوگی کہ ہم قتیلؔ کے روبرو محو گفتگو ہوں گے۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمیں اپنے آفس میں قتیلؔ شفائی کی اسلام آباد آمد کی خوش خبری ملی۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے المعروف بہ ایکسٹرنل سروسز کی '' ہندی سروس'' میں پروگرام منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جس کا ہدف ہندوستان کے ہندی بولنے والے سامعین تھے جو ہماری یہ نشریات بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتے۔ ان نشریات کا مقصد ہندوستانی سامعین کو پاکستان سے روشناس کرانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا ہندی زبان میں منہ توڑ جواب دے کر انھیں اصل حقائق سے باخبر رکھنا اور آگاہ کرنا تھا۔
چنانچہ ہم نے فوراً قتیلؔ شفائی سے رابطہ کیا اور انھیں ہندی سروس کے پروگرام ''اِن سے ملیے'' کے لیے انٹرویو کی دعوت دی جسے انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس ہفتہ وار پروگرام کے ذریعے ہم زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی اہم اور نمایندہ پاکستانی شخصیت کو متعارف کرایا کرتے تھے۔
قتیلؔ صاحب چونکہ شاعری اور خصوصاً فلمی شاعری کے حوالے سے ہندوستان میں خوب جانے پہچانے بلکہ مانے جاتے تھے اس لیے اس انٹرویو کی خصوصی اہمیت تھی۔
قتیلؔ شفائی نے وقت مقررہ پر تشریف لا کر نہایت ذوق و شوق سے اپنا انٹرویو ریکارڈ کروایا جو سامعین نے بڑے چاؤ سے سنا اور بہت پسند کیا۔
انٹرویو سے قبل اور اسے ریکارڈ کرنے کے بعد قتیلؔ شفائی سے ہماری خوب گپ شپ بھی ہوئی اور ان کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ وہ خاندان مغلیہ کی سب سے بڑی سلطنت کے تاجدار اورنگزیب کے ہمنام تھے۔
قتیلؔ ان کا تخلص اور شفائی لاحقہ تھا جسے انھوں نے اپنے استاد گرامی حکیم محمد یحییٰ شِفا خان پوری سے نسبت اور عقیدت کی بنا پر اپنے نام کا جزو لاینفک بنایا۔ اس کے بعد انھوں نے شاعری کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی شاگردی بھی اختیارکی جو اتفاق سے ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔
قتیلؔ شفائی برٹش انڈیا کے دور میں 1919 میں ہری پور میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنا، اپنے خاندان اور وطن عزیز پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کر کے 11 جولائی 2001 میں لاہور کے تاریخی شہر میں آخری سانس لے کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
احمد ندیم قاسمی کا یہ کہنا حرف بہ حرف بجا ہے کہ ''لاہور لاہور ہے۔''
(جاری ہے)
اس زمانے میں بچوں کا سب سے پسندیدہ رسالہ ماہنامہ '' کھلونا '' ہمارے گھر میں ہر ماہ نہایت پابندی اور باقاعدگی سے آیا کرتا تھا۔ '' کھلونا '' کا سالنامہ بڑے خاصے کی چیز ہوتا تھا جس میں پاک و ہند کے نامور ادیبوں اور شاعروں کی بچوں سے متعلق تخلیقات بڑی دھوم سے شایع ہوتی تھیں جن میں کرشن چندر اور میرزا ادیب جیسے نامور ادیب اور ساحر لدھیانوی، راجہ مہدی علی خاں، حامد اللہ افسر، تلوک چند محروم جیسے ممتاز شعرائے کرام کی نظمیں شایع ہوا کرتی تھیں۔
'' کھلونا '' ہی کے سالنامے میں '' گراموفون '' کے عنوان سے شایع ہونے والی بچوں کے لیے خاص طور پر لکھی گئی ایک انتہائی دلچسپ نظم کے ذریعے سے ہمیں قتیلؔ شفائی سے پہلی مرتبہ غائبانہ تعارف کا شرف حاصل ہوا۔ نظم کا موضوع ایک پرانا کھٹارا گرامو فون تھا جو بجتا کم تھا اور شور زیادہ کرتا تھا۔ اس دلکش نظم کی دو تین لائنیں کچھ یوں تھیں:
ٹوٹے پہیوں کی گڑگڑاہٹ ہے
زخمی کوؤں کی پھڑپھڑاہٹ ہے
دیکھنا تو یہ کس کی آہٹ ہے
بج رہا ہے گراموفون اپنا
اس وقت ہمارے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ قتیل صاحب سے کبھی بالمشافہ ملاقات کا ہی نہیں بلکہ ان کی میزبانی اور ان کے ساتھ مشاعرے میں شرکت کا شرف بھی حاصل ہوگا۔
یہ بھی عجب حسن اتفاق ہے کہ جس '' کھلونا '' دہلی میں قتیلؔ کی خوبصورت نظم شایع ہوئی تھی، اسی رسالے میں ہماری تحریرکی ہوئی سب سے پہلی نظم بعنوان '' کھلنڈرے لڑکے کا گیت '' بھی شایع ہوئی اور جس مشہور رسالے '' شمع دہلی'' میں قتیلؔ صاحب کی غزلیات شایع ہوا کرتی تھیں، اسی رسالے میں احقر کی پہلی غزل بھی شایع ہوئی۔
وقت نے یک بہ یک ایک نئی کروٹ لی اور پھر وہ شبھ گھڑی آئی جب بزم شنکر وشا کے زیر اہتمام دہلی میں ہر سال پابندی سے منعقد ہونے والے عظیم الشان انڈو پاک مشاعرے میں قتیلؔ صاحب کو دیکھنے اور سننے کا موقعہ میسر آیا۔ اس مشاعرے کے مہمان خصوصی ہندوستان کے وزیر بحالیات شری مہاویر تیاگی تھے جو انتہائی ادب دوست اور شاعر پرور قسم کے بے حد باذوق انسان تھے۔
پاکستان سے دیگر شعرائے کرام کے علاوہ قتیلؔ شفائی خصوصی اہمیت کے حامل تھے جنھوں نے اپنے کلام سے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ ان کی غزل کا مطلع تھا:
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
پھر جب اپنے مخصوص انداز میں غزل سناتے سناتے وہ درج ذیل معنی خیز شعر پر پہنچے تو ان پر ہر طرف سے داد پر داد کے ڈونگرے برسنے لگے اور مکرر ارشاد کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔
مسجدیں ترستی ہیں اِس طرف اذانوں کو
اُس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا
قتیلؔ نے مشاعرہ لوٹ لیا تھا۔ یہ تھی قتیلؔ شفائی سے ہماری دور کی ملاقات۔ اس وقت بھی یہ ہمارے کسی گوشہ گمان میں نہ تھا کہ ہماری قسمت کبھی اس قدر مہربان ہوگی کہ ہم قتیلؔ کے روبرو محو گفتگو ہوں گے۔
ہوا یوں کہ ایک روز ہمیں اپنے آفس میں قتیلؔ شفائی کی اسلام آباد آمد کی خوش خبری ملی۔ ان دنوں ہم ریڈیو پاکستان کے بیرونی نشریات کے شعبے المعروف بہ ایکسٹرنل سروسز کی '' ہندی سروس'' میں پروگرام منیجر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے جس کا ہدف ہندوستان کے ہندی بولنے والے سامعین تھے جو ہماری یہ نشریات بڑے ذوق و شوق سے سنا کرتے۔ ان نشریات کا مقصد ہندوستانی سامعین کو پاکستان سے روشناس کرانا اور پاکستان مخالف پروپیگنڈے کا ہندی زبان میں منہ توڑ جواب دے کر انھیں اصل حقائق سے باخبر رکھنا اور آگاہ کرنا تھا۔
چنانچہ ہم نے فوراً قتیلؔ شفائی سے رابطہ کیا اور انھیں ہندی سروس کے پروگرام ''اِن سے ملیے'' کے لیے انٹرویو کی دعوت دی جسے انھوں نے نہایت خوشی کے ساتھ قبول کرلیا۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ اس ہفتہ وار پروگرام کے ذریعے ہم زندگی کے کسی بھی شعبے سے تعلق رکھنے والی کسی بھی اہم اور نمایندہ پاکستانی شخصیت کو متعارف کرایا کرتے تھے۔
قتیلؔ صاحب چونکہ شاعری اور خصوصاً فلمی شاعری کے حوالے سے ہندوستان میں خوب جانے پہچانے بلکہ مانے جاتے تھے اس لیے اس انٹرویو کی خصوصی اہمیت تھی۔
قتیلؔ شفائی نے وقت مقررہ پر تشریف لا کر نہایت ذوق و شوق سے اپنا انٹرویو ریکارڈ کروایا جو سامعین نے بڑے چاؤ سے سنا اور بہت پسند کیا۔
انٹرویو سے قبل اور اسے ریکارڈ کرنے کے بعد قتیلؔ شفائی سے ہماری خوب گپ شپ بھی ہوئی اور ان کی زندگی کے بہت سے پہلو بھی سامنے آئے۔ سب سے دلچسپ بات یہ کہ وہ خاندان مغلیہ کی سب سے بڑی سلطنت کے تاجدار اورنگزیب کے ہمنام تھے۔
قتیلؔ ان کا تخلص اور شفائی لاحقہ تھا جسے انھوں نے اپنے استاد گرامی حکیم محمد یحییٰ شِفا خان پوری سے نسبت اور عقیدت کی بنا پر اپنے نام کا جزو لاینفک بنایا۔ اس کے بعد انھوں نے شاعری کے حوالے سے احمد ندیم قاسمی کی شاگردی بھی اختیارکی جو اتفاق سے ان کے دوست بھی تھے اور پڑوسی بھی۔
قتیلؔ شفائی برٹش انڈیا کے دور میں 1919 میں ہری پور میں پیدا ہوئے اور ایک بھرپور زندگی گزارنے کے بعد اپنا، اپنے خاندان اور وطن عزیز پاکستان کا نام پوری دنیا میں روشن کر کے 11 جولائی 2001 میں لاہور کے تاریخی شہر میں آخری سانس لے کر سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔
حق مغفرت کرے عجب آزاد مرد تھا
احمد ندیم قاسمی کا یہ کہنا حرف بہ حرف بجا ہے کہ ''لاہور لاہور ہے۔''
(جاری ہے)