آئی بی اے کراچی کو پیشہ ورانہ و مالی بے قاعدگیوں کا سامنا
تحقیقات کے بجائے نشاندہی کرنیوالے مارکوم کے سربراہ کو ہی عہدے سے ہٹادیا گیا
آئی بی اے کراچی کو پیشہ ورانہ و مالی بے قاعدگیوں کا سامنا ہے۔
طلبہ کی فیسوں اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے آئی بی اے کراچی کو اقربا پروری،پیشہ ورانہ اورمالی بے قاعدگیوں کا سامنا ہے یہ معاملات آئی بی اے کی شعبہ مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن المعروف MARCOM میں رپورٹ ہورہے ہیں اور جب مارکوم کے سربراہ نے آئی بی اے کے بورڈ آف گورنرز کو ان بے قاعدگیوں کی باقاعدہ شکایات اور نشاندہی کی تو انتظامیہ نے تحقیقات کے بجائے نشاندہی کرنے والے سربراہ کو ہی عہدے سے سبکدوش کردیا۔
اسں سلسلے میں ''ایکسپریس''کوحاصل ہونے والے دستاویزی شواہد بتارہے ہیں کہ یہ معاملہ ڈیجیٹل سروس دینے والی ایک نجی کمپنی کوابتدا میں ٹینڈر کے ذریعے 10 ملین روپے سے سالانہ کاکنٹریکٹ دینے سے شروع ہواہے جس میں مارکوم ڈپارٹمنٹ کی سابق خاتون سربراہ آئی بی اے سے وابستگی سے قبل خودبھی ملازم رہ چکی تھیں اور آئی بی اے میں ملازمت اختیارکرنے کے بعدان کی سربراہی میں کام کرنے والے مارکوم کے شعبے کی معاونت سے پہلے اس نجی کمپنی کوٹینڈرکے ذریعے کنٹریکٹ دیا گیا۔
بعد ازاں مارکوم ڈپارٹمنٹ کی سابق خاتون سربراہ کی سفارش پر نجی کمپنی کے کنٹریکٹ میں بغیرٹینڈرتوسیع کردی گئی جبکہ تکنیکی و قانونی پہلوئوں کودیکھتے ہوئے فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے بعض اراکین نے کنٹریکٹ میں توسیع دیے جانے کی مخالفت کی تھی ،اسی نجی کمپنی کے مزید 3ملازمین کوشعبہ مارکوم آئی بی اے میں ملازمت دے دی گئی۔
اس طرح مذکورہ نجی کمپنی نے آئی بی اے کے مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ پر اپنا تسلط قائم کرلیا جبکہ خود انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا شعبہ ہیومن ریسورس اس نجی کمپنی کے ملازمین کو آئی بی اے میں ملازمت فراہم کرنے اورشعبہ پروکیورمنٹ اس کمپنی کوٹینڈرکے بغیرکنٹریکٹ میں توسیع دینے میں شامل رہا۔
جب متعلقہ خاتون سربراہ کومارکوم کے شعبے کے سربراہی سے فارغ کرکے ٹیچنگ فیکلٹی کے ایک استاد کواس شعبے کے سربراہ کی ذمے داریاں سونپی گئی تواسی اثنا میں مارکوم ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کرنے والے ملازم کے کمپیوٹرسے ڈیٹاریکارڈ پر مشتمل ڈرائیوو چوری ہونے کامعاملہ سامنے آیا۔
دلچسپ امریہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر سابق سربراہ کی جانب سے ان ہی کی سابق نجی کمپنی کوڈیجیٹل مارکیٹنگ کاکنٹریکٹ دلوانے، ڈرائیووچوری کی شکایت کرنے اورنجی کمپنی سے معاہدے میں بعض بے قاعدگیوں اوراقربا پروری کی نشاندہی کرنے والے مارکوم کے نئے سربراہ کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی پہلے انھیں عہدے سے سبکدوش کردیاگیا اورازاں بعداب ان پر ہراسگی کاالزام لگاکردیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور1کروڑ روپے سالانہ بغیرٹینڈرٹھیکے میں توسیع کرنے اورریکارڈ ڈرائیووچوری کرنے کے معاملے کودبانے کے لیے انتظامیہ نے ہراسگی کی فرضی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
اس سلسلے میں ''ایکسپریس''کوموصولہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ ایک ڈیجیٹل ایجنسی کوٹھیکہ دیے جانے،کنٹریکٹ میں شامل بعض نکات اورڈیجیٹل ایجنسی کی کارکردگی سے متعلق آئی بی اے کے ایگزیکیوٹیووڈائریکٹر کومتواتر آگاہ کیاجاتارہاانھیں بتایاگیاکہ متعلقہ کمپنی کودیاگیاکنٹریکٹ مشکوک ہے کیونکہ مارکوم کی سربراہ اس کمپنی کی سابقہ ملازمہ تھیں جبکہ مزیدکچھ افراد اس کمپنی سے اب مارکوم کاحصہ بن چکے ہیں کمپنی کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہے معاہدے کے تحت کمپنی ایک مہینے میں صرف 3ایونٹ کورکرنے کی پابند ہے اورہرماہ اسے 8لاکھ رروپے اورسالانہ 1کروڑروپے دیے جارہے ہیں۔
تاہم ڈائریکٹر آئی بی اے ڈاکٹراکبرزیدی اس معاملے پر کسی بھی تحقیقات سے متعلق پس و پیش سے کام لیتے رہے آئی بی اے کے شعبہ فنانس سے حاصل ریکارڈ کے مطابق صرف فروری 2022سے دسمبر2022تک11ماہ میں اس کمپنی کو1کروڑ65لاکھ روپے اداکردیے گئے اورساتھ ہی 24فروری 2023کوآئی بی اے کے پروکیورمنٹ ہیڈ فہد جاوید کی جانب سے مجاز اتھارٹی کی منظوری سے اس کمپنی کوسابق Terms and conditionsپرکنٹریکٹ میں توسیع کاخط جاری کردیاگیا۔
''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں پروکیورمنٹ ہیڈ فہد جاوید سے جب رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ "میں اس سلسلے میں کچھ نہیں بتاسکتا یہ آفس کی بات ہے آفیشل نمائندے سے بات کریں مجھے اس طرح کی اتھارٹی نہیں ہے" موصولہ ریکارڈ کے مطابق جب بے قاعدگیوں کی نشاندہی کے سبب سبکدوش کیے گئے مارکوم کے شعبے کے سربراہ نے آئی بی اے کے شعبہ لیگل سے اس کمپنی سے کیے گئے معاہدے پر قانونی رائے لی توشعبہ لیگل کی دی گئی۔
قانونی رائے کے مطابق یہ معاہدہ ''خالصاًیک طرفہ''ہے جس کافائدہ نجی کمپنی لے رہی ہے مزیدیہ کہ یہ معاہدہ کنٹریکٹ میں کسی بھی توسیع کے حوالے سے خاموش ہے اس قانونی رائے کے ساتھ سات ہی معاہدے میں توسیع کے حوالے سے آئی بی اے کی اکائونٹ اینڈ فنانس کمیٹی نے بھی سوالات اٹھادیے ،سابق مارکوم ہیڈ عائشہ جاوید سے بھی ''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں رابطے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سفر میں ہیں جلد رابطہ کریں گی۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ جب عائشہ جاوید کی مارکوم سے فراغت اورنئے سربراہ کے چارج سنبھالنے کے بعد شعبہ سے ڈیٹاریکارڈ ڈرائیووچوری ہونے کامعاملہ سامنے آیااوراس سلسلے میں آئی بی اے کے ہیومن ریسورس کے شعبے نے انکوائری شروع کی توحیرت انگیز طورپر اس شعبہ کی کمیٹی اس جرم کے ذمے دارکے تعین میں ناکام ہوگئی اورتحریری طورپریہ کہہ دیاگیاکہ جس ملازم کے کمپیوٹرسے ڈرائیووچوری ہوئی ہے اس کاٹریک ریکارڈ بہتر ہے۔
دوسری جانب اس کمیٹی نے چوری کی گئی ڈرائیووکے ذمے دارکے تعین میں ناکامی کے بعد اپنی پیشہ ورانہ حدود سے باہرنکلتے ہوئے مارکوم کے سربراہ پر پیشہ ورانہ برتائوسے متعلق مختلف الزامات لگاتے ہوئے ان سے ملازمین کے ساتھ بہتربرتائوکی تلقین کرڈالی ،آئی بی اے کے ایک سینیئرفیکلٹی کی رائے ہے کہ کسی بھی کمیٹی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے باہر آکرکسی دوسری معاملے پر رائے دے ۔
''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں ڈائریکٹرہیومن ریسورس عرفان قمر سے رابطہ کیاجس پر ان کا کہنا تھا کہ " یہ چیزیں اس وقت چل رہی ہیں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت اور صحیح نہیں ہوگا۔
"ایکسپریس" نے حال ہی میں شعبہ مارکوم کا چارج سنبھالنے والی قائم مقام ڈائریکٹر مریم توحید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ" ہارڈ ڈرائیوو کی تحقیقات ابھی جاری ہیں ان ایشوز پر ابھی کمیٹی موجود ہیں یہ ایشو ابھی سائیڈ لائن نہیں ہوا ہے ۔
واضح رہے کہ ہارڈ ڈرائیوو کی چوری سے متعلق کمیٹی اپنے ایک خط میں یہ واضح کرچکی ہے کہ بظاہر کوئی بھی اس سلسلے میں ملوث نہیں پایا گیا ہے "ایکسپریس" نے اس سلسلے میں مارکوم کے سبکدوش کیے گئے قائم سربراہ سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے اس سلسلے میں رائے دینے سے معذرت کرلی۔
طلبہ کی فیسوں اور سرکاری فنڈز سے چلنے والے آئی بی اے کراچی کو اقربا پروری،پیشہ ورانہ اورمالی بے قاعدگیوں کا سامنا ہے یہ معاملات آئی بی اے کی شعبہ مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن المعروف MARCOM میں رپورٹ ہورہے ہیں اور جب مارکوم کے سربراہ نے آئی بی اے کے بورڈ آف گورنرز کو ان بے قاعدگیوں کی باقاعدہ شکایات اور نشاندہی کی تو انتظامیہ نے تحقیقات کے بجائے نشاندہی کرنے والے سربراہ کو ہی عہدے سے سبکدوش کردیا۔
اسں سلسلے میں ''ایکسپریس''کوحاصل ہونے والے دستاویزی شواہد بتارہے ہیں کہ یہ معاملہ ڈیجیٹل سروس دینے والی ایک نجی کمپنی کوابتدا میں ٹینڈر کے ذریعے 10 ملین روپے سے سالانہ کاکنٹریکٹ دینے سے شروع ہواہے جس میں مارکوم ڈپارٹمنٹ کی سابق خاتون سربراہ آئی بی اے سے وابستگی سے قبل خودبھی ملازم رہ چکی تھیں اور آئی بی اے میں ملازمت اختیارکرنے کے بعدان کی سربراہی میں کام کرنے والے مارکوم کے شعبے کی معاونت سے پہلے اس نجی کمپنی کوٹینڈرکے ذریعے کنٹریکٹ دیا گیا۔
بعد ازاں مارکوم ڈپارٹمنٹ کی سابق خاتون سربراہ کی سفارش پر نجی کمپنی کے کنٹریکٹ میں بغیرٹینڈرتوسیع کردی گئی جبکہ تکنیکی و قانونی پہلوئوں کودیکھتے ہوئے فنانس اینڈ پلاننگ کمیٹی کے بعض اراکین نے کنٹریکٹ میں توسیع دیے جانے کی مخالفت کی تھی ،اسی نجی کمپنی کے مزید 3ملازمین کوشعبہ مارکوم آئی بی اے میں ملازمت دے دی گئی۔
اس طرح مذکورہ نجی کمپنی نے آئی بی اے کے مارکیٹنگ اینڈ کمیونیکیشن ڈپارٹمنٹ پر اپنا تسلط قائم کرلیا جبکہ خود انسٹی ٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کا شعبہ ہیومن ریسورس اس نجی کمپنی کے ملازمین کو آئی بی اے میں ملازمت فراہم کرنے اورشعبہ پروکیورمنٹ اس کمپنی کوٹینڈرکے بغیرکنٹریکٹ میں توسیع دینے میں شامل رہا۔
جب متعلقہ خاتون سربراہ کومارکوم کے شعبے کے سربراہی سے فارغ کرکے ٹیچنگ فیکلٹی کے ایک استاد کواس شعبے کے سربراہ کی ذمے داریاں سونپی گئی تواسی اثنا میں مارکوم ڈپارٹمنٹ میں ملازمت کرنے والے ملازم کے کمپیوٹرسے ڈیٹاریکارڈ پر مشتمل ڈرائیوو چوری ہونے کامعاملہ سامنے آیا۔
دلچسپ امریہ ہے کہ حیرت انگیز طور پر سابق سربراہ کی جانب سے ان ہی کی سابق نجی کمپنی کوڈیجیٹل مارکیٹنگ کاکنٹریکٹ دلوانے، ڈرائیووچوری کی شکایت کرنے اورنجی کمپنی سے معاہدے میں بعض بے قاعدگیوں اوراقربا پروری کی نشاندہی کرنے والے مارکوم کے نئے سربراہ کے خلاف کارروائی شروع کردی گئی پہلے انھیں عہدے سے سبکدوش کردیاگیا اورازاں بعداب ان پر ہراسگی کاالزام لگاکردیوار سے لگانے کی کوشش کی جارہی ہے اور1کروڑ روپے سالانہ بغیرٹینڈرٹھیکے میں توسیع کرنے اورریکارڈ ڈرائیووچوری کرنے کے معاملے کودبانے کے لیے انتظامیہ نے ہراسگی کی فرضی تحقیقات شروع کردی ہیں۔
اس سلسلے میں ''ایکسپریس''کوموصولہ دستاویزات بتاتی ہیں کہ ایک ڈیجیٹل ایجنسی کوٹھیکہ دیے جانے،کنٹریکٹ میں شامل بعض نکات اورڈیجیٹل ایجنسی کی کارکردگی سے متعلق آئی بی اے کے ایگزیکیوٹیووڈائریکٹر کومتواتر آگاہ کیاجاتارہاانھیں بتایاگیاکہ متعلقہ کمپنی کودیاگیاکنٹریکٹ مشکوک ہے کیونکہ مارکوم کی سربراہ اس کمپنی کی سابقہ ملازمہ تھیں جبکہ مزیدکچھ افراد اس کمپنی سے اب مارکوم کاحصہ بن چکے ہیں کمپنی کی کارکردگی غیرتسلی بخش ہے معاہدے کے تحت کمپنی ایک مہینے میں صرف 3ایونٹ کورکرنے کی پابند ہے اورہرماہ اسے 8لاکھ رروپے اورسالانہ 1کروڑروپے دیے جارہے ہیں۔
تاہم ڈائریکٹر آئی بی اے ڈاکٹراکبرزیدی اس معاملے پر کسی بھی تحقیقات سے متعلق پس و پیش سے کام لیتے رہے آئی بی اے کے شعبہ فنانس سے حاصل ریکارڈ کے مطابق صرف فروری 2022سے دسمبر2022تک11ماہ میں اس کمپنی کو1کروڑ65لاکھ روپے اداکردیے گئے اورساتھ ہی 24فروری 2023کوآئی بی اے کے پروکیورمنٹ ہیڈ فہد جاوید کی جانب سے مجاز اتھارٹی کی منظوری سے اس کمپنی کوسابق Terms and conditionsپرکنٹریکٹ میں توسیع کاخط جاری کردیاگیا۔
''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں پروکیورمنٹ ہیڈ فہد جاوید سے جب رابطہ کیا توان کا کہنا تھا کہ "میں اس سلسلے میں کچھ نہیں بتاسکتا یہ آفس کی بات ہے آفیشل نمائندے سے بات کریں مجھے اس طرح کی اتھارٹی نہیں ہے" موصولہ ریکارڈ کے مطابق جب بے قاعدگیوں کی نشاندہی کے سبب سبکدوش کیے گئے مارکوم کے شعبے کے سربراہ نے آئی بی اے کے شعبہ لیگل سے اس کمپنی سے کیے گئے معاہدے پر قانونی رائے لی توشعبہ لیگل کی دی گئی۔
قانونی رائے کے مطابق یہ معاہدہ ''خالصاًیک طرفہ''ہے جس کافائدہ نجی کمپنی لے رہی ہے مزیدیہ کہ یہ معاہدہ کنٹریکٹ میں کسی بھی توسیع کے حوالے سے خاموش ہے اس قانونی رائے کے ساتھ سات ہی معاہدے میں توسیع کے حوالے سے آئی بی اے کی اکائونٹ اینڈ فنانس کمیٹی نے بھی سوالات اٹھادیے ،سابق مارکوم ہیڈ عائشہ جاوید سے بھی ''ایکسپریس''نے اس سلسلے میں رابطے کیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اس وقت سفر میں ہیں جلد رابطہ کریں گی۔
قابل ذکربات یہ ہے کہ جب عائشہ جاوید کی مارکوم سے فراغت اورنئے سربراہ کے چارج سنبھالنے کے بعد شعبہ سے ڈیٹاریکارڈ ڈرائیووچوری ہونے کامعاملہ سامنے آیااوراس سلسلے میں آئی بی اے کے ہیومن ریسورس کے شعبے نے انکوائری شروع کی توحیرت انگیز طورپر اس شعبہ کی کمیٹی اس جرم کے ذمے دارکے تعین میں ناکام ہوگئی اورتحریری طورپریہ کہہ دیاگیاکہ جس ملازم کے کمپیوٹرسے ڈرائیووچوری ہوئی ہے اس کاٹریک ریکارڈ بہتر ہے۔
دوسری جانب اس کمیٹی نے چوری کی گئی ڈرائیووکے ذمے دارکے تعین میں ناکامی کے بعد اپنی پیشہ ورانہ حدود سے باہرنکلتے ہوئے مارکوم کے سربراہ پر پیشہ ورانہ برتائوسے متعلق مختلف الزامات لگاتے ہوئے ان سے ملازمین کے ساتھ بہتربرتائوکی تلقین کرڈالی ،آئی بی اے کے ایک سینیئرفیکلٹی کی رائے ہے کہ کسی بھی کمیٹی کویہ حق حاصل نہیں کہ وہ اپنے مینڈیٹ سے باہر آکرکسی دوسری معاملے پر رائے دے ۔
''ایکسپریس'' نے اس سلسلے میں ڈائریکٹرہیومن ریسورس عرفان قمر سے رابطہ کیاجس پر ان کا کہنا تھا کہ " یہ چیزیں اس وقت چل رہی ہیں اس وقت کچھ کہنا قبل از وقت اور صحیح نہیں ہوگا۔
"ایکسپریس" نے حال ہی میں شعبہ مارکوم کا چارج سنبھالنے والی قائم مقام ڈائریکٹر مریم توحید سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ" ہارڈ ڈرائیوو کی تحقیقات ابھی جاری ہیں ان ایشوز پر ابھی کمیٹی موجود ہیں یہ ایشو ابھی سائیڈ لائن نہیں ہوا ہے ۔
واضح رہے کہ ہارڈ ڈرائیوو کی چوری سے متعلق کمیٹی اپنے ایک خط میں یہ واضح کرچکی ہے کہ بظاہر کوئی بھی اس سلسلے میں ملوث نہیں پایا گیا ہے "ایکسپریس" نے اس سلسلے میں مارکوم کے سبکدوش کیے گئے قائم سربراہ سے رابطہ کیا تاہم انھوں نے اس سلسلے میں رائے دینے سے معذرت کرلی۔