اعظم خان سے منسوب بیان تضادات کا مجموعہ ہے پی ٹی آئی
وفاقی حکومت افواہ سازوں اور جھوٹے بیانیوں کے کارخانے چلانے کے بجائے عدالت اور قوم کو حقیقت سے آگاہ کرے، ترجمان
پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے اعظم خان سے منسوب بیان پر ردعمل ظاہر کیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ یہ بیان غیر مصدقہ اور تضادات کا مجموعہ ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے لاپتا سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے منسوب غیرمصدقہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ اعظم خان کے بیان کی حقیقت تو ابھی طے ہونا باقی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ 17 جون سے لاپتا ہیں اور ان کی گمشدگی کا باضابطہ مقدمہ درج ہے جب کہ وفاقی پولیس انہیں تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہے۔
ترجمان کے مطابق ایک گمشدہ شخص کی جانب سے مجسٹریٹ کے روبرو 164 کے بیان کا ریکارڈ کروایا جانا ماہرینِ قانون کی نگاہ میں ناقابلِ تصّور ہے۔ لاپتا شخص کے مبینہ طور پر 164 کے بیان کے مندرجات کا خلافِ قانون افشا اپنی نوعیّت کا ایک الگ جُرم ہے۔ اعظم خان کا مبینہ بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے جس سے زیرِحراست افراد "استحکام" یا ''پارلیمٹرینز" کی صفوں میں سے برآمد یا پریس کلبز سے بازیاب ہوتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی صراحت سے قوم کو بتا چکے ہیں کہ ملک میں جاری جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی گرفتاریوں کے حقیقی محرکات کیا ہیں۔ وہ قوم کو آگاہ کر چکے ہیں کہ کیسے انہیں سیاست سے باہر کرنے کے لیے طاقت اور جبر کے بَل پر "وعدہ معاف" گواہ تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ نہایت عجلت اور فرسٹریشن میں ذرائع ابلاغ کو جاری کیا گیا"سکرپٹ" سائفر پر ریاستی مؤقف کے لیے تباہ کن ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی دو مختلف وزرائے اعظم(سابقہ اور موجودہ) کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں سائفر کے مندرجات کی تصدیق کرچکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دو مختلف ادوار میں ہونے والے اجلاسوں میں پوری سول و عسکری قیادت نے سائفر کو "پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت" قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی سائفر کی بنیاد پر امریکا کو اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے قبل کابینہ کے خصوصی اجلاس نے سائفر کا جائزہ لیا اور اسے ڈی کلاسیفائی کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور صدرِمملکت نے سائفر پر جامع اور مؤثر تحقیقات کے لیے محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے سفارشات کیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ردعمل کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف نے پہلے بطور وزیراعظم اور بعدازاں ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی اور عوامی جماعت کے سربراہ کے طور پر سائفر کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ملک میں آزادئ اظہار کے قتل میں سہولت کار پیمرا غیرمصدقہ اطلاعات کی قومی میڈیا پر نمائش و تشہیر پر کیوں خوابِ ذلّت کا لطف اٹھا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت افواہ سازوں اور جھوٹے بیانیوں کے کارخانے چلانے کے بجائے اعظم خان کے حوالے سے عدالت اور قوم کو حقیقت سے آگاہ کرے۔ بتایا جائے اعظم خان کس کی تحویل میں ہیں، انہیں کس مقدمے میں گرفتار اور ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ جاتی امرا کا مسخرہ پردوں میں چھپنے کے بجائے قوم کے سامنے آئے اور سوالات کے جواب دے۔ نہایت محنت اور مشقت سے تراشا گیا جھوٹ کا ہر مجسّمہ قوم اپنے پاؤں کی ٹھوکروں سے پاش پاش کررہی ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا ڈیپارٹمنٹ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک ماہ سے لاپتا سابق پرنسپل سیکرٹری اعظم خان سے منسوب غیرمصدقہ بیان تضادات کا مجموعہ ہے۔ اعظم خان کے بیان کی حقیقت تو ابھی طے ہونا باقی ہے مگر یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ 17 جون سے لاپتا ہیں اور ان کی گمشدگی کا باضابطہ مقدمہ درج ہے جب کہ وفاقی پولیس انہیں تلاش کرنے میں تاحال ناکام ہے۔
ترجمان کے مطابق ایک گمشدہ شخص کی جانب سے مجسٹریٹ کے روبرو 164 کے بیان کا ریکارڈ کروایا جانا ماہرینِ قانون کی نگاہ میں ناقابلِ تصّور ہے۔ لاپتا شخص کے مبینہ طور پر 164 کے بیان کے مندرجات کا خلافِ قانون افشا اپنی نوعیّت کا ایک الگ جُرم ہے۔ اعظم خان کا مبینہ بیان اسی سلسلے کی کڑی دکھائی دیتی ہے جس سے زیرِحراست افراد "استحکام" یا ''پارلیمٹرینز" کی صفوں میں سے برآمد یا پریس کلبز سے بازیاب ہوتے ہیں۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی صراحت سے قوم کو بتا چکے ہیں کہ ملک میں جاری جبری گمشدگیوں اور غیرقانونی گرفتاریوں کے حقیقی محرکات کیا ہیں۔ وہ قوم کو آگاہ کر چکے ہیں کہ کیسے انہیں سیاست سے باہر کرنے کے لیے طاقت اور جبر کے بَل پر "وعدہ معاف" گواہ تیار کرنے کی کوششیں جاری ہیں۔ نہایت عجلت اور فرسٹریشن میں ذرائع ابلاغ کو جاری کیا گیا"سکرپٹ" سائفر پر ریاستی مؤقف کے لیے تباہ کن ہے۔
ترجمان پی ٹی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی دو مختلف وزرائے اعظم(سابقہ اور موجودہ) کی صدارت میں ہونے والے اجلاسوں میں سائفر کے مندرجات کی تصدیق کرچکی ہے۔ قومی سلامتی کمیٹی کے دو مختلف ادوار میں ہونے والے اجلاسوں میں پوری سول و عسکری قیادت نے سائفر کو "پاکستان کے اندرونی معاملات میں صریح مداخلت" قرار دیا۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ اسی سائفر کی بنیاد پر امریکا کو اسلام آباد اور واشنگٹن میں ڈیمارش کیا گیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس سے قبل کابینہ کے خصوصی اجلاس نے سائفر کا جائزہ لیا اور اسے ڈی کلاسیفائی کیا۔ اسپیکر قومی اسمبلی اور صدرِمملکت نے سائفر پر جامع اور مؤثر تحقیقات کے لیے محترم چیف جسٹس آف پاکستان سے سفارشات کیں۔
پی ٹی آئی کی جانب سے جاری ردعمل کے مطابق چیئرمین تحریک انصاف نے پہلے بطور وزیراعظم اور بعدازاں ملک کی سب سے بڑی پارلیمانی اور عوامی جماعت کے سربراہ کے طور پر سائفر کی اعلیٰ سطح کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ ملک میں آزادئ اظہار کے قتل میں سہولت کار پیمرا غیرمصدقہ اطلاعات کی قومی میڈیا پر نمائش و تشہیر پر کیوں خوابِ ذلّت کا لطف اٹھا رہا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ وفاقی حکومت افواہ سازوں اور جھوٹے بیانیوں کے کارخانے چلانے کے بجائے اعظم خان کے حوالے سے عدالت اور قوم کو حقیقت سے آگاہ کرے۔ بتایا جائے اعظم خان کس کی تحویل میں ہیں، انہیں کس مقدمے میں گرفتار اور ان کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ جاتی امرا کا مسخرہ پردوں میں چھپنے کے بجائے قوم کے سامنے آئے اور سوالات کے جواب دے۔ نہایت محنت اور مشقت سے تراشا گیا جھوٹ کا ہر مجسّمہ قوم اپنے پاؤں کی ٹھوکروں سے پاش پاش کررہی ہے۔