مرحلہ وار تبدیلی یا 1977
طاہر القادری اور عمران خان نے11 مئی 2014ء سے اپنے اپنےمطالبات پر ملک بھر میں عوامی تحریکیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ISLAMABAD:
مولانا طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 11 مئی 2014ء سے اپنے اپنے مطالبات پر ملک بھر میں عوامی تحریکیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا طاہر القادری کا نعرہ ''ریاست بچاؤ'' ہے، عمران خان 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مولانا کی تحویل میں ہر وقت لاکھ دو لاکھ نفری ہوتی ہے، اگر وہ تحریک چلاتے ہیں تو لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی موثر اسٹریٹ پاور رکھتی ہے، وہ بھی لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کی اس طاقت میں اضافے کا امکان اس لیے ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ الگ الگ مطالبات پر ممکنہ طور پر چلنے والی تحریکیں ایک مشترکہ تحریک میں بدل سکتی ہیں۔
مولانا طاہر القادری ایک تاریخی لانگ مارچ پی پی پی کے دور حکومت میں کر چکے ہیں، جس میں لاکھوں لوگوں نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے شرکت کی۔ اس مارچ کے دوران اگرچہ شدید بارشیں ہوئیں اور بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں افراد سڑکوں پر آسمان تلے پڑے رہے لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایسی تحریک کا مقصد بھی ٹیک اوور تھا لیکن یہ تحریک انتظامی کوتاہیوں غلط منصوبہ بندی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی۔ 11 مئی 2014ء سے شروع ہونے والی اس تحریک کی منصوبہ بندی کیسے کی جا رہی ہے اور اس کی حکمت عملی کیا ہو گی، اس کا اندازہ تو تحریک کے آغاز کے بعد ہی کیا جا سکے گا، لیکن خیال ہے کہ مولانا سابقہ لانگ مارچ کی کمزوریوں کے پس منظر میں ایک بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اس تحریک کا آغاز کریں گے۔
مولانا موجودہ جمہوری نظام کو ایک فراڈ نظام کہتے ہیں جس میں چہروں کی تبدیلی کے علاوہ اور کوئی تبدیلی نہیں آتی، اس لیے مولانا اپنی تحریک کے مقصد کو عموماً چہرے نہیں نظام بدلو کا نام دیتے ہیں، یعنی مولانا بنیادی طور پر اس 66 سالہ Status Quo کو توڑنے کے حامی ہیں جو چند گنے چنے خاندانوں کی سیاست اور اقتدار پر قبضے کی شکل میں 66 سال سے عوام پر مسلط ہے۔ اس حوالے سے مولانا کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بھی اس 66 سالہ عوام دشمن Status Quo کے سخت خلاف ہیں اور اس کو توڑنے کی جو بھی ایماندارانہ اور سنجیدہ کوشش کرے گا اسے اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہو گی۔
عمران خان نہ صرف جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے سارے انقلابی پروگراموں پر عملدرآمد اسی Status Quo کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں، یعنی دونوں حضرات اس بات پر تو متفق ہیں کہ موجودہ حکومت کو ہٹایا جائے لیکن عمران خان اس حکومت کی جگہ خود لینا چاہتے ہیں اور طاہر القادری اس جمہوریت کا خاتمہ چاہتے ہیں جو عملاً چند ایلیٹ خاندانوں کی ملکیت بنی ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے مقاصد الگ الگ ہیں، اس لیے ان کے درمیان ایک بامعنی، بامقصد اتحاد تو مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر یہ دونوں جماعتیں حکومت کو گرانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو جاتی ہیں تو یہ اتحاد موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں کچھ اور حکومت مخالف طاقتوں کے ساتھ مل کر حکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر کیا ہو گا؟
1977ء کا تجربہ ہمارے سامنے ہے، نو ستاروں نے مل کر بھٹو حکومت کا خاتمہ تو کردیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ایک انتہاء پرست فوجی ڈکٹیٹر حکومت پر قابض ہو گیا اور الیکشن میں چند سیٹوں پر دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے والے ضیا الحق کی فوجی حکومت کا حصہ بن گئے اور ان کی اعانت ہی سے ضیا الحق ملک پر دس سال تک حکومت کرتا رہا اور ملک کو امریکی جہاد میں دھکیل کر تباہی کے ایک ایسے راستے پر لے گیا جس کا خمیازہ ہماری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ سیاستدان نیک نیت تھے نہ ان کے پاس ملک کی بہتری کا کوئی ایجنڈا موجود تھا۔
طاہر القادری کو اگر ہم ایک طرف رکھ دیں تو ہمارے سامنے عمران خان رہ جاتے ہیں، جنھیں شکایت ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ اگر یہ دھاندلی نہ کی جاتی تو پنجاب میں ان کی کامیابی یقینی تھی۔ عمران خان اس دھاندلی کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مبینہ دھاندلی کا ازالہ کس طرح ہو گا۔ عمران خان نہ صرف موجودہ وڈیرہ شاہی جمہوریت کے حامی ہیں بلکہ اس جمہوریت کے ذریعے وہ اقتدار کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انقلاب یا ایک نئے پاکستان کی بات بھی کرتے ہیں، اس نظریاتی کجروی کی وجہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کا حال
''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے''
جیسا ہو کر رہ جائے گا۔ ہاں یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ عشروں سے وڈیرہ شاہی جمہوریت کے ڈسے ہوئے عوام اگر جذباتی نعروں کی زد میں آ کر سڑکوں پر آ جائیں تو بلاشبہ 1977ء کی تاریخ تو دہرائی جا سکتی ہے لیکن اس کے نتائج 1977ء کے نتائج سے مختلف نہیں ہو سکتے۔
عمران خان 2013ء کے الیکشن سے پہلے انتخابی مہم کے دوران یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بن رہے ہیں لیکن بوجوہ ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ لیکن اس خواب سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ اگر وہ 11 مئی سے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو کیا وہ کچھ مخصوص سیٹوں پر دوبارہ ووٹ کرانا چاہیں گے یا 2013ء کے پورے الیکشن کو کینسل کروا کر نئے الیکشن کروانا چاہیں گے؟ یا طاہر القادری کے ساتھ مل کر 1977ء جیسی تحریک چلا کر حکومت کا خاتمہ چاہیں گے؟ طاہر القادری Status Quo توڑنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ قبضہ کرو کی بات کر رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں نتیجہ 1977ء ہی جیسا نکلنے کے امکانات موجود ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی حضرات کی تحریکیں غیر منصوبہ بند اور غیر منطقی ہیں۔
اس وقت ملک جن خطرناک مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں دہشت گردی اور اس سے متعلق سنگین جرائم سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، جس سے نکلے بغیر کسی بھی تحریک کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ سب سے پہلے اس مسئلے کے حوالے سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک پروگرام پر متفق ہونا پڑے گا، موجودہ احمقانہ نظریاتی انتشار سے نکلنا ہو گا۔ اگر ملک و قوم اس بلائے بے درماں سے نجات حاصل کر لیتی ہے تو پھر ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک مرحلہ وار پروگرام پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ یہی ایک طریقہ Status Quo کو توڑنے کا ہے ورنہ دوسرا طریقہ انقلاب فرانس کا ہے۔ جو ایک انارکی سے نکل کر دوسری انارکی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہم یہ راستہ اس لیے سجھا رہے ہیں کہ ملک میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی پارٹی موجود نہیں جو کسی بامعنی انقلاب کی قیادت کر سکے۔
Status Quo کو توڑنے کا مطلب 66 سالہ سول اور فوجی ایلیٹ کے پنجوں سے ملک کو نکالنا ہے اور آج کے حالات میں اس کا منطقی طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ کوئی عوامی تحریک اس طرح چلائی جائے کہ اس کے مقاصد واضح ہوں مثلاً زرعی اصلاحات، انتخابی قوانین میں اس طرح کی تبدیلی کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت لوگ انتخابات لڑ سکیں۔ سیاست میں ولی عہدی نظام کا خاتمہ ملک میں بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات۔ یہ وہ چند بنیادی مطالبات ہیں جن کے منوانے سے بلاشبہ Status Quo کو توڑا جا سکتا ہے اگر ملک کو اس 66 سالہ اسٹیٹس کو کے دلدل سے نکالا جائے تو یہ انقلاب کی طرف ایک بڑا اور مثبت قدم ہو گا۔ کیا یہ منطقی پروگرام سیاسی اہلکاروں کی سمجھ میں آئے گا؟ یا یوں ہی اپنی اور عوام کی طاقت ضایع کی جاتی رہے گی؟
مولانا طاہر القادری اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے 11 مئی 2014ء سے اپنے اپنے مطالبات پر ملک بھر میں عوامی تحریکیں شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ مولانا طاہر القادری کا نعرہ ''ریاست بچاؤ'' ہے، عمران خان 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے کی تیاری کر رہے ہیں۔ مولانا کی تحویل میں ہر وقت لاکھ دو لاکھ نفری ہوتی ہے، اگر وہ تحریک چلاتے ہیں تو لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتے ہیں۔ اسی طرح تحریک انصاف بھی موثر اسٹریٹ پاور رکھتی ہے، وہ بھی لاکھوں لوگوں کو سڑکوں پر لا سکتی ہے۔ دونوں جماعتوں کی اس طاقت میں اضافے کا امکان اس لیے ظاہر کیا جا رہا ہے کہ یہ الگ الگ مطالبات پر ممکنہ طور پر چلنے والی تحریکیں ایک مشترکہ تحریک میں بدل سکتی ہیں۔
مولانا طاہر القادری ایک تاریخی لانگ مارچ پی پی پی کے دور حکومت میں کر چکے ہیں، جس میں لاکھوں لوگوں نے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے شرکت کی۔ اس مارچ کے دوران اگرچہ شدید بارشیں ہوئیں اور بچوں اور خواتین سمیت لاکھوں افراد سڑکوں پر آسمان تلے پڑے رہے لیکن ان کے عزم میں کوئی کمی نہ آئی۔ ایسی تحریک کا مقصد بھی ٹیک اوور تھا لیکن یہ تحریک انتظامی کوتاہیوں غلط منصوبہ بندی اور ناقص حکمت عملی کی وجہ اپنے مقاصد حاصل نہ کر سکی۔ 11 مئی 2014ء سے شروع ہونے والی اس تحریک کی منصوبہ بندی کیسے کی جا رہی ہے اور اس کی حکمت عملی کیا ہو گی، اس کا اندازہ تو تحریک کے آغاز کے بعد ہی کیا جا سکے گا، لیکن خیال ہے کہ مولانا سابقہ لانگ مارچ کی کمزوریوں کے پس منظر میں ایک بہتر منصوبہ بندی کے ساتھ اس تحریک کا آغاز کریں گے۔
مولانا موجودہ جمہوری نظام کو ایک فراڈ نظام کہتے ہیں جس میں چہروں کی تبدیلی کے علاوہ اور کوئی تبدیلی نہیں آتی، اس لیے مولانا اپنی تحریک کے مقصد کو عموماً چہرے نہیں نظام بدلو کا نام دیتے ہیں، یعنی مولانا بنیادی طور پر اس 66 سالہ Status Quo کو توڑنے کے حامی ہیں جو چند گنے چنے خاندانوں کی سیاست اور اقتدار پر قبضے کی شکل میں 66 سال سے عوام پر مسلط ہے۔ اس حوالے سے مولانا کو یہ فائدہ حاصل ہے کہ اس ملک کے اٹھارہ کروڑ عوام بھی اس 66 سالہ عوام دشمن Status Quo کے سخت خلاف ہیں اور اس کو توڑنے کی جو بھی ایماندارانہ اور سنجیدہ کوشش کرے گا اسے اٹھارہ کروڑ عوام کی حمایت حاصل ہو گی۔
عمران خان نہ صرف جمہوریت پر یقین رکھتے ہیں بلکہ وہ اپنے سارے انقلابی پروگراموں پر عملدرآمد اسی Status Quo کے اندر رہتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں، یعنی دونوں حضرات اس بات پر تو متفق ہیں کہ موجودہ حکومت کو ہٹایا جائے لیکن عمران خان اس حکومت کی جگہ خود لینا چاہتے ہیں اور طاہر القادری اس جمہوریت کا خاتمہ چاہتے ہیں جو عملاً چند ایلیٹ خاندانوں کی ملکیت بنی ہوئی ہے۔ دونوں جماعتوں کے مقاصد الگ الگ ہیں، اس لیے ان کے درمیان ایک بامعنی، بامقصد اتحاد تو مشکل نظر آتا ہے لیکن اگر یہ دونوں جماعتیں حکومت کو گرانے کے ایک نکاتی ایجنڈے پر متفق ہو جاتی ہیں تو یہ اتحاد موثر ثابت ہو سکتا ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ دونوں جماعتیں کچھ اور حکومت مخالف طاقتوں کے ساتھ مل کر حکومت کو ہٹانے میں کامیاب ہو جاتی ہیں تو پھر کیا ہو گا؟
1977ء کا تجربہ ہمارے سامنے ہے، نو ستاروں نے مل کر بھٹو حکومت کا خاتمہ تو کردیا لیکن نتیجہ کیا نکلا؟ ایک انتہاء پرست فوجی ڈکٹیٹر حکومت پر قابض ہو گیا اور الیکشن میں چند سیٹوں پر دھاندلی کے خلاف تحریک چلانے والے ضیا الحق کی فوجی حکومت کا حصہ بن گئے اور ان کی اعانت ہی سے ضیا الحق ملک پر دس سال تک حکومت کرتا رہا اور ملک کو امریکی جہاد میں دھکیل کر تباہی کے ایک ایسے راستے پر لے گیا جس کا خمیازہ ہماری قوم آج تک بھگت رہی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نہ سیاستدان نیک نیت تھے نہ ان کے پاس ملک کی بہتری کا کوئی ایجنڈا موجود تھا۔
طاہر القادری کو اگر ہم ایک طرف رکھ دیں تو ہمارے سامنے عمران خان رہ جاتے ہیں، جنھیں شکایت ہے کہ 2013ء کے الیکشن میں دھاندلی کی گئی۔ اگر یہ دھاندلی نہ کی جاتی تو پنجاب میں ان کی کامیابی یقینی تھی۔ عمران خان اس دھاندلی کے خلاف تحریک چلانا چاہتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس مبینہ دھاندلی کا ازالہ کس طرح ہو گا۔ عمران خان نہ صرف موجودہ وڈیرہ شاہی جمہوریت کے حامی ہیں بلکہ اس جمہوریت کے ذریعے وہ اقتدار کی منزل تک پہنچنا چاہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ انقلاب یا ایک نئے پاکستان کی بات بھی کرتے ہیں، اس نظریاتی کجروی کی وجہ یوں محسوس ہوتا ہے کہ خان صاحب کا حال
''نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے''
جیسا ہو کر رہ جائے گا۔ ہاں یہ امکان بہرحال موجود ہے کہ عشروں سے وڈیرہ شاہی جمہوریت کے ڈسے ہوئے عوام اگر جذباتی نعروں کی زد میں آ کر سڑکوں پر آ جائیں تو بلاشبہ 1977ء کی تاریخ تو دہرائی جا سکتی ہے لیکن اس کے نتائج 1977ء کے نتائج سے مختلف نہیں ہو سکتے۔
عمران خان 2013ء کے الیکشن سے پہلے انتخابی مہم کے دوران یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ وہ ملک کے وزیر اعظم بن رہے ہیں لیکن بوجوہ ان کا یہ خواب پورا نہ ہو سکا۔ لیکن اس خواب سے وہ ابھی تک باہر نہیں نکل سکے۔ اگر وہ 11 مئی سے انتخابی دھاندلی کے خلاف تحریک چلاتے ہیں تو کیا وہ کچھ مخصوص سیٹوں پر دوبارہ ووٹ کرانا چاہیں گے یا 2013ء کے پورے الیکشن کو کینسل کروا کر نئے الیکشن کروانا چاہیں گے؟ یا طاہر القادری کے ساتھ مل کر 1977ء جیسی تحریک چلا کر حکومت کا خاتمہ چاہیں گے؟ طاہر القادری Status Quo توڑنا چاہتے ہیں جس کے لیے وہ قبضہ کرو کی بات کر رہے ہیں لیکن المیہ یہ ہے کہ ہر دو صورتوں میں نتیجہ 1977ء ہی جیسا نکلنے کے امکانات موجود ہیں، اس کی وجہ یہ ہے کہ دونوں ہی حضرات کی تحریکیں غیر منصوبہ بند اور غیر منطقی ہیں۔
اس وقت ملک جن خطرناک مسائل میں گھرا ہوا ہے ان میں دہشت گردی اور اس سے متعلق سنگین جرائم سب سے بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں، جس سے نکلے بغیر کسی بھی تحریک کا کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکل سکتا۔ سب سے پہلے اس مسئلے کے حوالے سے تمام سیاسی اور مذہبی جماعتوں کو ایک پروگرام پر متفق ہونا پڑے گا، موجودہ احمقانہ نظریاتی انتشار سے نکلنا ہو گا۔ اگر ملک و قوم اس بلائے بے درماں سے نجات حاصل کر لیتی ہے تو پھر ہماری سیاسی جماعتوں کو ایک مرحلہ وار پروگرام پر عمل پیرا ہونا پڑے گا۔ یہی ایک طریقہ Status Quo کو توڑنے کا ہے ورنہ دوسرا طریقہ انقلاب فرانس کا ہے۔ جو ایک انارکی سے نکل کر دوسری انارکی کا شکار ہو سکتا ہے۔ ہم یہ راستہ اس لیے سجھا رہے ہیں کہ ملک میں کوئی ایک بھی ایسی سیاسی پارٹی موجود نہیں جو کسی بامعنی انقلاب کی قیادت کر سکے۔
Status Quo کو توڑنے کا مطلب 66 سالہ سول اور فوجی ایلیٹ کے پنجوں سے ملک کو نکالنا ہے اور آج کے حالات میں اس کا منطقی طریقہ یہی نظر آتا ہے کہ کوئی عوامی تحریک اس طرح چلائی جائے کہ اس کے مقاصد واضح ہوں مثلاً زرعی اصلاحات، انتخابی قوانین میں اس طرح کی تبدیلی کہ مڈل اور لوئر مڈل کلاس کے باصلاحیت لوگ انتخابات لڑ سکیں۔ سیاست میں ولی عہدی نظام کا خاتمہ ملک میں بلاتاخیر بلدیاتی انتخابات۔ یہ وہ چند بنیادی مطالبات ہیں جن کے منوانے سے بلاشبہ Status Quo کو توڑا جا سکتا ہے اگر ملک کو اس 66 سالہ اسٹیٹس کو کے دلدل سے نکالا جائے تو یہ انقلاب کی طرف ایک بڑا اور مثبت قدم ہو گا۔ کیا یہ منطقی پروگرام سیاسی اہلکاروں کی سمجھ میں آئے گا؟ یا یوں ہی اپنی اور عوام کی طاقت ضایع کی جاتی رہے گی؟