تھوڑا سا فرق
عمران خان نے 11 مئی سے نواز حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
عمران خان نے 11 مئی سے نواز حکومت کے خلاف احتجاج کا اعلان کیا ہے۔ ایک سال قبل کے انتخابات میں ہونے والی دھاندلی کے الزام کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ اس حوالے سے ڈیڑھ کروڑ ووٹ لینے والی مسلم لیگ کے حامیوں کی رائے ہے کہ یہ وقت احتجاجی تحریکوں کا نہیں۔ تحریک انصاف کے حامیوں سے بات کی جائے تو وہ کہتے ہیں کہ ہم نے انتخابات کو تسلیم کیا ہے دھاندلیوں کو نہیں۔ اب مئی کے گرم موسم میں ایک بار پھر سیاست میں نئی قسم کی گرمی پیدا ہونے جا رہی ہے۔
اگر لیگ کی پچیس تیس نشستیں کم ہوتیں یا تحریک انصاف کو دس بیس سیٹیں مزید مل جاتیں تو تلخی کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ ایک سال قبل کے سروے (ن) لیگ کی اکثریت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ان کے اندازے سے نواز شریف نے دو درجن نشستیں زیادہ لے لی ہیں۔ اس وقت اسمبلی میں ان کے ممبران کی تعداد ستر فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ضرورت اور اندازے سے زیادہ کامیابی کا واقعہ تاریخ میں تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ اب نواز شریف کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ اس سے قبل کہ ہم قومی سیاستدانوں کو تجویز دینے کی جانب آئیں، بہتر ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ماضی میں دو مرتبہ تھوڑی سی زیادہ نشستیں کیا قیامت ڈھا چکی ہیں۔
ایک واقعہ سقوط ڈھاکا سے قبل کا ہے اور دوسرا بھٹو دور حکومت کا۔ اگر دونوں مواقع پر تھوڑا سا فرق گوارا کرلیا جاتا تو ہم دو بڑے حادثات سے بچ سکتے تھے۔ 75 لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے والے عمران خان اور ان سے دگنے ووٹ لینے والے نواز شریف کو ان دو تاریخی واقعات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ''کچھ لو اور کچھ دو'' کی سیاست ہی جمہوریت کی ٹرین کو منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر سیاستدان آپس میں الجھتے رہے تو خدانخواستہ تیسری مرتبہ بھی ہماری ریل گاڑی حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔ آئیے تاریخ کی روشنی سے مستقبل کے لیے سبق لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایوب کے بعد یحییٰ خان پاکستان کے حکمران تھے۔ انھوں نے ستر کے پہلے دن سے انتخابی سرگرمیوں کی اجازت دی ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب کی عوامی لیگ کے علاوہ مولانا بھاشانی، مسلم لیگ کے ایک دو گروہ اور جماعت اسلامی اہم سیاسی پارٹیاں تھیں۔ انتخابی مہم کے موقعے پر جلسے جلوسوں کی ابتدا ہوئی۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کا ڈھاکا میں ہونے والا پہلا جلسہ خراب کردیا۔ گولیوں، ڈنڈوں اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ انتظامیہ کچھ نہ کرسکی۔
یوں تمام سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ کے قوم پرستی کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکیں۔ 162 میں سے عوامی لیگ صرف نورالامین اور راجہ تری دیورائے سے سیٹیں ہاری۔ تیس سو کے ایوان میں یہ آدھے سے زیادہ تھیں۔ اب مجیب کو حکومت بنانے کے لیے مغربی پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ وہ اس حصے کی نمایندگی کے لیے چند چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرسکتے تھے۔ اس برتری نے مجیب کے دماغ کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا۔ وہ بھٹو سے قابل عزت اور قابل قبول معاہدہ کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہوئے اور آپریشن کی اندوہناک غلطی کی گئی۔
مارچ 71 سے سال کے آخر تک مشرقی پاکستان جنگ و جدل کا منظر پیش کرتا رہا۔ بالآخر 16 دسمبر کو المناک سانحہ پیش آیا۔ اگر مجیب کو فری ہینڈ نہ دیا جاتا اور مشرقی پاکستان کی انتظامیہ تمام سیاسی پارٹیوں کو برابر کے مواقع دیتی تو ممکن ہے یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ تاریخ کے معاملے میں ''اگر'' کی اہمیت نہیں ہوتی لیکن ہم If کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کونسل مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان سے 20/25 نشستیں جیت لیتیں تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کسی نتیجے پر پہنچ جاتیں۔ تھوڑا سا فرق رہ گیا اور مجیب ضرورت سے زیادہ نشستیں لے گئے۔ کچھ مقبولیت اور کچھ دوسری پارٹیوں کو ابتدا ہی سے ڈرا دینے کے سبب۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 77 میں انتخابات کا اعلان کیا۔ ان کے مقابل پاکستان قومی اتحاد قائم ہوگیا۔ مفتی محمود، نصراﷲ خان، پروفیسر غفور، اصغر خان، شاہ احمد نورانی، بیگم نسیم ولی خان اور شیر باز خان مزاری جیسے بڑے لیڈروں کے جلسے پیپلز پارٹی کی ٹکر کے ہوتے تھے۔ جب نتیجہ آیا تو دو سو میں سے پی این اے کو صرف چھتیس سیٹیں ملیں۔ اس بظاہر تھوڑے سے فرق نے دھاندلی کے الزام کو جنم دیا۔ اگر پی این اے پچاس ساٹھ سیٹیں لے جاتا تو الزام کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ بھٹو نے الزامات کو تسلیم کیا اور مذاکرات شروع ہوئے۔
چار ماہ گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ نہ نئی حکومت کے سربراہ، نہ چیف الیکشن کمشنر کا نام، نہ انتخابی تاریخوں، نہ آزاد کشمیر کے معاملات، نہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ طے ہوسکا۔ جولائی 77 میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور بیس ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کچھ نشستیں کم لیتی اور پی این اے کی کچھ سیٹیں زیادہ ہوجاتیں تو دھاندلی کے الزام میں جان نہ رہتی۔ یوں بھی پیپلز پارٹی کبھی ووٹوں کا چالیس فیصد بھی حاصل نہیں کرسکی۔ دوسری پارٹیوں کے اختلافات اس کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔ جب تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہوچکی تھیں تو انھیں صرف اٹھارہ فیصد نشستیں دے کر ٹرخا دینا گوارا نہیں کیا گیا۔
تھوڑا سا فرق کبھی بہت بڑا فرق بن جاتا ہے۔ نواز لیگ کی بیس پچیس نشستوں کی کمی سے ان کی حکومت پر کوئی فرق نہ پڑتا، نہ وفاق میں نہ پنجاب میں۔ تحریک انصاف کو اندازے اور مقبولیت سے تیس نشستیں کم ملی ہیں۔ اس کو پنکچر لگانے کے الزام نے تقویت دی ہے۔ اب حکومت کی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے اراکین قومی اسمبلی کو حکم دے کہ الیکشن ٹریبونل کے معاملات میں تاخیری حربے استعمال نہ کرے۔ نادرا سے ووٹوں کی گنتی کروانے اور انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔
چند الیکشن پٹیشنز پر (ن)لیگ کے خلاف فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ سے نظرثانی کے بعد پانچ فیصد سیٹوں پر انتخابات اور ان میں شکست بھی مسلم لیگ کی حکومت کو ختم نہیں کروائی گئی۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک ممکنہ طور پر سیاسی حکومت اور جمہوریت کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کی ایک ملاقات اس خلا کو دور کرسکتی ہے جو شکایت سے احتجاج بننے جا رہا ہے۔ 70 فیصد سے 65 فیصد پر آنا کوئی بری بات نہیں۔ پاکستان میں 70 ناکامی اور 65 کامیابی کا نشان ہے۔ کیا حکومتگورا کرے گی تھوڑا سا فرق۔
اگر لیگ کی پچیس تیس نشستیں کم ہوتیں یا تحریک انصاف کو دس بیس سیٹیں مزید مل جاتیں تو تلخی کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ ایک سال قبل کے سروے (ن) لیگ کی اکثریت کی پیش گوئی کر رہے تھے۔ ان کے اندازے سے نواز شریف نے دو درجن نشستیں زیادہ لے لی ہیں۔ اس وقت اسمبلی میں ان کے ممبران کی تعداد ستر فیصد کے لگ بھگ ہے۔ ضرورت اور اندازے سے زیادہ کامیابی کا واقعہ تاریخ میں تیسری مرتبہ ہوا ہے۔ اب نواز شریف کے پاس اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ اس سے قبل کہ ہم قومی سیاستدانوں کو تجویز دینے کی جانب آئیں، بہتر ہے کہ یہ بتایا جائے کہ ماضی میں دو مرتبہ تھوڑی سی زیادہ نشستیں کیا قیامت ڈھا چکی ہیں۔
ایک واقعہ سقوط ڈھاکا سے قبل کا ہے اور دوسرا بھٹو دور حکومت کا۔ اگر دونوں مواقع پر تھوڑا سا فرق گوارا کرلیا جاتا تو ہم دو بڑے حادثات سے بچ سکتے تھے۔ 75 لاکھ سے زیادہ ووٹ لینے والے عمران خان اور ان سے دگنے ووٹ لینے والے نواز شریف کو ان دو تاریخی واقعات کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔ ''کچھ لو اور کچھ دو'' کی سیاست ہی جمہوریت کی ٹرین کو منزل تک پہنچا سکتی ہے۔ اگر سیاستدان آپس میں الجھتے رہے تو خدانخواستہ تیسری مرتبہ بھی ہماری ریل گاڑی حادثے کا شکار ہوسکتی ہے۔ آئیے تاریخ کی روشنی سے مستقبل کے لیے سبق لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایوب کے بعد یحییٰ خان پاکستان کے حکمران تھے۔ انھوں نے ستر کے پہلے دن سے انتخابی سرگرمیوں کی اجازت دی ہوئی تھی۔ مشرقی پاکستان میں مجیب کی عوامی لیگ کے علاوہ مولانا بھاشانی، مسلم لیگ کے ایک دو گروہ اور جماعت اسلامی اہم سیاسی پارٹیاں تھیں۔ انتخابی مہم کے موقعے پر جلسے جلوسوں کی ابتدا ہوئی۔ عوامی لیگ نے جماعت اسلامی کا ڈھاکا میں ہونے والا پہلا جلسہ خراب کردیا۔ گولیوں، ڈنڈوں اور لاٹھیوں کا آزادانہ استعمال ہوا۔ انتظامیہ کچھ نہ کرسکی۔
یوں تمام سیاسی پارٹیاں عوامی لیگ کے قوم پرستی کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھ سکیں۔ 162 میں سے عوامی لیگ صرف نورالامین اور راجہ تری دیورائے سے سیٹیں ہاری۔ تیس سو کے ایوان میں یہ آدھے سے زیادہ تھیں۔ اب مجیب کو حکومت بنانے کے لیے مغربی پاکستان کی کسی سیاسی پارٹی کی ضرورت نہ تھی۔ زیادہ سے زیادہ وہ اس حصے کی نمایندگی کے لیے چند چھوٹی پارٹیوں سے اتحاد کرسکتے تھے۔ اس برتری نے مجیب کے دماغ کو ساتویں آسمان تک پہنچا دیا۔ وہ بھٹو سے قابل عزت اور قابل قبول معاہدہ کرنے کو تیار نہ ہوئے۔ مذاکرات ناکام ہوئے اور آپریشن کی اندوہناک غلطی کی گئی۔
مارچ 71 سے سال کے آخر تک مشرقی پاکستان جنگ و جدل کا منظر پیش کرتا رہا۔ بالآخر 16 دسمبر کو المناک سانحہ پیش آیا۔ اگر مجیب کو فری ہینڈ نہ دیا جاتا اور مشرقی پاکستان کی انتظامیہ تمام سیاسی پارٹیوں کو برابر کے مواقع دیتی تو ممکن ہے یہ سانحہ پیش نہ آتا۔ تاریخ کے معاملے میں ''اگر'' کی اہمیت نہیں ہوتی لیکن ہم If کی اہمیت سے انکار بھی نہیں کرسکتے۔ اگر کونسل مسلم لیگ، کنونشن مسلم لیگ اور جماعت اسلامی مشرقی پاکستان سے 20/25 نشستیں جیت لیتیں تو ممکن ہے کہ پیپلز پارٹی اور عوامی لیگ کسی نتیجے پر پہنچ جاتیں۔ تھوڑا سا فرق رہ گیا اور مجیب ضرورت سے زیادہ نشستیں لے گئے۔ کچھ مقبولیت اور کچھ دوسری پارٹیوں کو ابتدا ہی سے ڈرا دینے کے سبب۔
ذوالفقار علی بھٹو نے مارچ 77 میں انتخابات کا اعلان کیا۔ ان کے مقابل پاکستان قومی اتحاد قائم ہوگیا۔ مفتی محمود، نصراﷲ خان، پروفیسر غفور، اصغر خان، شاہ احمد نورانی، بیگم نسیم ولی خان اور شیر باز خان مزاری جیسے بڑے لیڈروں کے جلسے پیپلز پارٹی کی ٹکر کے ہوتے تھے۔ جب نتیجہ آیا تو دو سو میں سے پی این اے کو صرف چھتیس سیٹیں ملیں۔ اس بظاہر تھوڑے سے فرق نے دھاندلی کے الزام کو جنم دیا۔ اگر پی این اے پچاس ساٹھ سیٹیں لے جاتا تو الزام کی شدت اتنی زیادہ نہ ہوتی۔ بھٹو نے الزامات کو تسلیم کیا اور مذاکرات شروع ہوئے۔
چار ماہ گزرنے کے باوجود کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ نہ نئی حکومت کے سربراہ، نہ چیف الیکشن کمشنر کا نام، نہ انتخابی تاریخوں، نہ آزاد کشمیر کے معاملات، نہ قیدیوں کی رہائی کا معاملہ طے ہوسکا۔ جولائی 77 میں پیپلز پارٹی کی حکومت ختم ہوگئی اور بیس ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی دے دی گئی۔ اگر پیپلز پارٹی کچھ نشستیں کم لیتی اور پی این اے کی کچھ سیٹیں زیادہ ہوجاتیں تو دھاندلی کے الزام میں جان نہ رہتی۔ یوں بھی پیپلز پارٹی کبھی ووٹوں کا چالیس فیصد بھی حاصل نہیں کرسکی۔ دوسری پارٹیوں کے اختلافات اس کی کامیابی کا سبب بنتے ہیں۔ جب تمام سیاسی پارٹیاں متحد ہوچکی تھیں تو انھیں صرف اٹھارہ فیصد نشستیں دے کر ٹرخا دینا گوارا نہیں کیا گیا۔
تھوڑا سا فرق کبھی بہت بڑا فرق بن جاتا ہے۔ نواز لیگ کی بیس پچیس نشستوں کی کمی سے ان کی حکومت پر کوئی فرق نہ پڑتا، نہ وفاق میں نہ پنجاب میں۔ تحریک انصاف کو اندازے اور مقبولیت سے تیس نشستیں کم ملی ہیں۔ اس کو پنکچر لگانے کے الزام نے تقویت دی ہے۔ اب حکومت کی دانشمندی کا تقاضا ہے کہ وہ اپنے اراکین قومی اسمبلی کو حکم دے کہ الیکشن ٹریبونل کے معاملات میں تاخیری حربے استعمال نہ کرے۔ نادرا سے ووٹوں کی گنتی کروانے اور انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال میں رکاوٹیں نہ ڈالیں۔
چند الیکشن پٹیشنز پر (ن)لیگ کے خلاف فیصلوں کے بعد سپریم کورٹ سے نظرثانی کے بعد پانچ فیصد سیٹوں پر انتخابات اور ان میں شکست بھی مسلم لیگ کی حکومت کو ختم نہیں کروائی گئی۔ تحریک انصاف کی احتجاجی تحریک ممکنہ طور پر سیاسی حکومت اور جمہوریت کے لیے نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔ نواز شریف اور عمران خان کی ایک ملاقات اس خلا کو دور کرسکتی ہے جو شکایت سے احتجاج بننے جا رہا ہے۔ 70 فیصد سے 65 فیصد پر آنا کوئی بری بات نہیں۔ پاکستان میں 70 ناکامی اور 65 کامیابی کا نشان ہے۔ کیا حکومتگورا کرے گی تھوڑا سا فرق۔