زراعت میں پاک امریکا اشتراک کار
گندم کو دنیا بھر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کسی بھی فصل سے زیادہ قابل کاشت رقبے پر اْگائی جاتی ہے۔
13 ِاکتوبر 2012 ء کو پاکستان آمد کے بعد سے میں نے پاکستان اور امریکا کے درمیان اشتراک کار کی وسعت اور گہرائی کے بارے میں تفصیل سے بات چیت کی ہے۔دونوں ممالک کے درمیان توانائی، تجارت، سرمایہ کاری، معاشی ترقی، علاقائی استحکام اور انسداد دہشت گردی کے شعبوں میں زبردست شراکت داری ہے۔میں آج ڈاکٹر نورمن بورلاگ کے اعزاز میں، جنھیں اکثر لوگ پاکستان کے سبز انقلاب کا بانی تصور کرتے ہیں، ہمارے دیرپا اشتراک کارکے ایک اور پہلوکو اجاگرکرنا چاہوں گا ۔ پاکستان کی زرعی ترقی بالخصوص گندم کی پیداوار کی اعانت کے حوالے سے ہماری مشترکہ کاوشیں جو کہ نصف صدی پر محیط ہیں۔
گندم کو دنیا بھر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کسی بھی فصل سے زیادہ قابل کاشت رقبے پر اْگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ اوسطاً ہر شخص کو اس کی روزمرہ غذائیت کا ساٹھ فیصد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی ہم گندم کا استعمال کسی بھی غذائی اجناس سے زیادہ کرتے ہیں اور گندم پچاس میں سے ۴۲ ریاستوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ہم نے 23 ِاپریل کو اس اہم فصل کی اہمیت کا دن اسلام آباد میں منایا کیونکہ پچاس سال قبل ایک امریکی سائنسدان نے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک شراکت داری کی بنیاد رکھی جس نے یہاں جلد ہی زراعت کے شعبہ میں انقلاب برپاکر دیا۔
1963 ء میں ڈاکٹر نورمن ای بورلاگ اور دیگر متعدد پاکستانی سائنسدانوں نے ،جنھیں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور فورڈ اور راک فیلر فاؤنڈیشنز کا تعاون حاصل تھا، گندم کی انتہائی زیادہ پیداوار کی حامل ایک قسم جسے "میکسی پاکستان" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پر کام شروع کیا۔ اس نئی قسم کی بدولت پاکستان میں زرعی پیداور میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد ۱۹۶۹ء کے درمیان پاکستان میں گندم کی پیداوار میں پچیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
1968ء میں یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر ویلیم گاڈ نے سبز انقلاب کی اصطلاح وضع کی اور اس کے بیج اور تیکنیک دنیا بھرمیں پھیلایا گیا تاکہ قحط سالی کو ملکوں سے دور رکھا جائے ،جہاں پر آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح نے کاشتکاروں کی پیداوار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اربوں انسانوں کی جانیں ڈاکٹر بورلاگ کے کارنامے کی بدولت بچ گئیں۔انھیں زرعی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے کام پر ۱۹۷۰ ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ڈاکٹر بورلاگ کی کاوشوں کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو روزانہ خوراک میسر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر بورلاگ کے کارناموں کی داستان زراعت کے شعبہ میں پاک امریکا تعاون کے ثمرات کی بہترین مثال ہے۔ تاہم کئی دوسرے پاکستانی اور امریکی ماہرین زراعت نے بھی مل جل کر متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثال کے طور پر کیلی فورنیا ریورسائیڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے امریکی سائنسدانوں نے پاکستان کے مالٹے کی بہترین قسم ''کنو'' تیارکی۔ اْنہوں نے یہ کامیابی اْس وقت کے پنجاب زرعی کالج (اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حاصل کی ،جنہوں نے دنیا کے بعض شیریں ترین مالٹے اْگانے کے طریقے دریافت کیے۔
1977ء میں امریکا نے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز(این اے آرسی) قائم کرنے میں اعانت کی اور اہم زرعی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ہم نے سبز انقلاب کی روح کو برقرار رکھا اور کپاس کی پیداوار میں اضافہ، آب پاشی کے انتظام کو بہتر بنانے، جانوروں کے وبائی امراض کے قلع قمع کرنے اور گندم کی پیداوار بڑھانے میں معاونت کے لیے قریبی اورمسلسل تعاون کے ذریعے کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
پاکستان میں گندم کے شعبے میں ہمارا جاری اشتراک ڈاکٹر بورلاگ کے پچاس سال قبل دوستی کے بیج کا براہ راست پھل ہے۔ گند م کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے کے ذریعہ ہم نے امریکی محکمہ زراعت ، مکئی و گندم کی بہتر پیداوار کے بین الاقوامی مرکز اور پاکستانی سائنسدانوں کو گندم کے پاکستانی کاشتکاروں کی مدد کے لیے ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس منصوبہ نے گندم کی دو نئی اقسام متعارف کرائی ہیں جو انتہائی تیزی سے پھیلنے والی پھپھوندی کی بیماری یو جی -۹۹کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔ ان دو اقسام کے بغیر جو ''پاک تیرہ'' اور ''این اے آرسی 2011ء'' کہلاتی ہیں ،ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان کی گندم کی سالانہ پیداوار کا نصف حصہ ضایع ہوجاتا ،اگر یو جی -99نامی بیماری پاکستان میں پھوٹ پڑتی۔
ڈاکٹر بورلاگ کے ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے یو ایس ایڈ نے حال ہی میں زراعت کے شعبے میں جدت لانے کے لیے تیس ملین ڈالر مالیت کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار عالمی زرعی تحقیقی مراکز، زمینوں کے لیے اعانت فراہم کرنے والی ایک امریکی یونیورسٹی اور پاکستان میں زرعی تحقیق کے نظام کے ایک اعلی ادارے نے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں سے روشناس کرانے کے لیے عملی طور پر کام کیا ہے۔ اس منصوبے سے ہزاروں کسانوں کو گندم اور دوسری غذائی اجناس کے بہتر بیجوں، غذائی اجناس کی بوائی ، سبزیوں کی کاشت اور مویشی پالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگی۔
امریکا اور پاکستان نے کھیتوں اور تجربہ گاہوں میں مل کر کام کرنے کے علاوہ کمرہ جماعت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے جہاں جدت کی تخم ریزی کی جاتی ہے اور آیندہ نسل کو پیش آنیوالے چیلنجوں کا حل جنم لیتا ہے۔
کیسے؟ امریکا پاکستان بھر میں زرعی جامعات کو اعانت فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کی جانب سے پشاور یونیورسٹی کو ملنے والے عطیے سے تحقیق اور وظائف میں مدد مل رہی ہے۔ہم نے فیصل آباد یونیورسٹی کو بھی نہ صرف ایسا ہی مالی عطیہ دیا ہے بلکہ یوایس ایڈ وہاں زراعت اور غذائی تحفظ کے شعبے کے لیے اعلی تحقیقی مرکز قائم کرنے کی غر ض سے ۳۰ ملین ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کر رہا ہے جس سے پاکستانی اور امریکی جامعات کے درمیان رابطے مضبوط ہو ں گے۔ یہ مرکز کم مراعات یافتہ طالب علموں کے لیے رسائی اور جامعہ کے نظم و نسق اور نصاب میں بہتری لائے گا ، نیز اطلاقی تحقیق کو نجی اور سرکاری شعبوں کی ضروریات سے مربوط کرے گا۔ یہ مشترکہ ادارے سائنسدانوں کی آیندہ نسل کو ڈاکٹر بورلاگ اور اس کے پاکستانی ہم عصروں کے ورثے کو جاری رکھنے کے لیے تیار کریں گے۔
ہمارے اس تعاون کے اہداف تین گنا ہیں کیونکہ ہم مل کر پاکستانی کاشتکاروں کی آمدنیاں بڑھاتے ہیں، گندم پر انحصار کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے غذائی اشیا تک رسائی میں بہتری لاتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ پاکستان اپنے خوراک کے اہم ترین ذخائر کو محفوظ بنا سکے۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر بورلاگ ہمارے اس مسلسل تعاون اور محنت سے خوش ہوتے ہوں گے۔ اس کے باوجود ہمیں نئے نئے حل تخلیق کرنے اور انھیں ترقی دینے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ آبادی میں اضافے، پانی کے محدود وسائل اور نئی بیماریوں سے ہماری اب تک کی گئی پیشرفت کو خطرہ درپیش ہے۔ ہم ان اہم مشترکہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں تاکہ پاکستان اور دنیا بھر کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹر بورلاگ کے مشن کو جاری رکھنے کے جذبے کی آبیاری ہوتی رہے۔
( مضمون نگار پاکستان میں امریکی سفیر ہیں)
گندم کو دنیا بھر میں یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ کسی بھی فصل سے زیادہ قابل کاشت رقبے پر اْگائی جاتی ہے۔ پاکستان میں یہ اوسطاً ہر شخص کو اس کی روزمرہ غذائیت کا ساٹھ فیصد فراہم کرتی ہے۔ اسی طرح امریکا میں بھی ہم گندم کا استعمال کسی بھی غذائی اجناس سے زیادہ کرتے ہیں اور گندم پچاس میں سے ۴۲ ریاستوں میں کاشت کی جاتی ہے۔ ہم نے 23 ِاپریل کو اس اہم فصل کی اہمیت کا دن اسلام آباد میں منایا کیونکہ پچاس سال قبل ایک امریکی سائنسدان نے پاکستانی ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک شراکت داری کی بنیاد رکھی جس نے یہاں جلد ہی زراعت کے شعبہ میں انقلاب برپاکر دیا۔
1963 ء میں ڈاکٹر نورمن ای بورلاگ اور دیگر متعدد پاکستانی سائنسدانوں نے ،جنھیں امریکی ادارہ برائے بین الاقوامی ترقی (یو ایس ایڈ) اور فورڈ اور راک فیلر فاؤنڈیشنز کا تعاون حاصل تھا، گندم کی انتہائی زیادہ پیداوار کی حامل ایک قسم جسے "میکسی پاکستان" کے نام سے بھی جانا جاتا ہے پر کام شروع کیا۔ اس نئی قسم کی بدولت پاکستان میں زرعی پیداور میں اضافہ ہوا اور اس کے بعد ۱۹۶۹ء کے درمیان پاکستان میں گندم کی پیداوار میں پچیس فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
1968ء میں یو ایس ایڈ کے ڈائریکٹر ویلیم گاڈ نے سبز انقلاب کی اصطلاح وضع کی اور اس کے بیج اور تیکنیک دنیا بھرمیں پھیلایا گیا تاکہ قحط سالی کو ملکوں سے دور رکھا جائے ،جہاں پر آبادی کی بڑھتی ہوئی شرح نے کاشتکاروں کی پیداوار کو پیچھے چھوڑ دیا۔ اربوں انسانوں کی جانیں ڈاکٹر بورلاگ کے کارنامے کی بدولت بچ گئیں۔انھیں زرعی پیداوار میں اضافے کے حوالے سے کام پر ۱۹۷۰ ء میں امن کے نوبل انعام سے نوازا گیا۔ڈاکٹر بورلاگ کی کاوشوں کی وجہ سے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو روزانہ خوراک میسر ہوتی ہے۔
ڈاکٹر بورلاگ کے کارناموں کی داستان زراعت کے شعبہ میں پاک امریکا تعاون کے ثمرات کی بہترین مثال ہے۔ تاہم کئی دوسرے پاکستانی اور امریکی ماہرین زراعت نے بھی مل جل کر متعدد کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ مثال کے طور پر کیلی فورنیا ریورسائیڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے امریکی سائنسدانوں نے پاکستان کے مالٹے کی بہترین قسم ''کنو'' تیارکی۔ اْنہوں نے یہ کامیابی اْس وقت کے پنجاب زرعی کالج (اب زرعی یونیورسٹی فیصل آباد)کے ساتھیوں کے ساتھ مل کر حاصل کی ،جنہوں نے دنیا کے بعض شیریں ترین مالٹے اْگانے کے طریقے دریافت کیے۔
1977ء میں امریکا نے قومی زرعی تحقیقاتی مرکز(این اے آرسی) قائم کرنے میں اعانت کی اور اہم زرعی تحقیق کے لیے فنڈز فراہم کیے۔ہم نے سبز انقلاب کی روح کو برقرار رکھا اور کپاس کی پیداوار میں اضافہ، آب پاشی کے انتظام کو بہتر بنانے، جانوروں کے وبائی امراض کے قلع قمع کرنے اور گندم کی پیداوار بڑھانے میں معاونت کے لیے قریبی اورمسلسل تعاون کے ذریعے کامیابیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔
پاکستان میں گندم کے شعبے میں ہمارا جاری اشتراک ڈاکٹر بورلاگ کے پچاس سال قبل دوستی کے بیج کا براہ راست پھل ہے۔ گند م کی پیداوار بڑھانے کے منصوبے کے ذریعہ ہم نے امریکی محکمہ زراعت ، مکئی و گندم کی بہتر پیداوار کے بین الاقوامی مرکز اور پاکستانی سائنسدانوں کو گندم کے پاکستانی کاشتکاروں کی مدد کے لیے ایک جگہ جمع کیا ہے۔ اس منصوبہ نے گندم کی دو نئی اقسام متعارف کرائی ہیں جو انتہائی تیزی سے پھیلنے والی پھپھوندی کی بیماری یو جی -۹۹کے خلاف مزاحمت رکھتی ہیں۔ ان دو اقسام کے بغیر جو ''پاک تیرہ'' اور ''این اے آرسی 2011ء'' کہلاتی ہیں ،ماہرین کے اندازے کے مطابق پاکستان کی گندم کی سالانہ پیداوار کا نصف حصہ ضایع ہوجاتا ،اگر یو جی -99نامی بیماری پاکستان میں پھوٹ پڑتی۔
ڈاکٹر بورلاگ کے ورثے کو آگے بڑھاتے ہوئے یو ایس ایڈ نے حال ہی میں زراعت کے شعبے میں جدت لانے کے لیے تیس ملین ڈالر مالیت کا ایک منصوبہ شروع کیا ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ چار عالمی زرعی تحقیقی مراکز، زمینوں کے لیے اعانت فراہم کرنے والی ایک امریکی یونیورسٹی اور پاکستان میں زرعی تحقیق کے نظام کے ایک اعلی ادارے نے کسانوں کو نئی ٹیکنالوجی اور جدید طریقوں سے روشناس کرانے کے لیے عملی طور پر کام کیا ہے۔ اس منصوبے سے ہزاروں کسانوں کو گندم اور دوسری غذائی اجناس کے بہتر بیجوں، غذائی اجناس کی بوائی ، سبزیوں کی کاشت اور مویشی پالنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی تک رسائی حاصل ہوگی۔
امریکا اور پاکستان نے کھیتوں اور تجربہ گاہوں میں مل کر کام کرنے کے علاوہ کمرہ جماعت میں بھی ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کر رکھا ہے جہاں جدت کی تخم ریزی کی جاتی ہے اور آیندہ نسل کو پیش آنیوالے چیلنجوں کا حل جنم لیتا ہے۔
کیسے؟ امریکا پاکستان بھر میں زرعی جامعات کو اعانت فراہم کرتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت کی جانب سے پشاور یونیورسٹی کو ملنے والے عطیے سے تحقیق اور وظائف میں مدد مل رہی ہے۔ہم نے فیصل آباد یونیورسٹی کو بھی نہ صرف ایسا ہی مالی عطیہ دیا ہے بلکہ یوایس ایڈ وہاں زراعت اور غذائی تحفظ کے شعبے کے لیے اعلی تحقیقی مرکز قائم کرنے کی غر ض سے ۳۰ ملین ڈالر سے زیادہ رقم فراہم کر رہا ہے جس سے پاکستانی اور امریکی جامعات کے درمیان رابطے مضبوط ہو ں گے۔ یہ مرکز کم مراعات یافتہ طالب علموں کے لیے رسائی اور جامعہ کے نظم و نسق اور نصاب میں بہتری لائے گا ، نیز اطلاقی تحقیق کو نجی اور سرکاری شعبوں کی ضروریات سے مربوط کرے گا۔ یہ مشترکہ ادارے سائنسدانوں کی آیندہ نسل کو ڈاکٹر بورلاگ اور اس کے پاکستانی ہم عصروں کے ورثے کو جاری رکھنے کے لیے تیار کریں گے۔
ہمارے اس تعاون کے اہداف تین گنا ہیں کیونکہ ہم مل کر پاکستانی کاشتکاروں کی آمدنیاں بڑھاتے ہیں، گندم پر انحصار کرنے والے لاکھوں پاکستانیوں کے لیے غذائی اشیا تک رسائی میں بہتری لاتے ہیں اور اس امر کو یقینی بناتے ہیں کہ پاکستان اپنے خوراک کے اہم ترین ذخائر کو محفوظ بنا سکے۔میں سمجھتا ہوں کہ ڈاکٹر بورلاگ ہمارے اس مسلسل تعاون اور محنت سے خوش ہوتے ہوں گے۔ اس کے باوجود ہمیں نئے نئے حل تخلیق کرنے اور انھیں ترقی دینے پر توجہ مرکوز رکھنی چاہیے کیونکہ آبادی میں اضافے، پانی کے محدود وسائل اور نئی بیماریوں سے ہماری اب تک کی گئی پیشرفت کو خطرہ درپیش ہے۔ ہم ان اہم مشترکہ سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے پر عزم ہیں تاکہ پاکستان اور دنیا بھر کے لیے خوراک کی فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے ڈاکٹر بورلاگ کے مشن کو جاری رکھنے کے جذبے کی آبیاری ہوتی رہے۔
( مضمون نگار پاکستان میں امریکی سفیر ہیں)