تھری ڈی ایکسرے سے چھاتی کے سرطان کی ابتدائی تشخیص میں کامیابی
کمپیوٹرٹوموگرافی کے مقابلے میں تھری ڈی ایکسرے بہت چھوٹی رسولیوں کی قدرے شفاف تصاویر ظاہر کرتا ہے
پاکستانی خواتین میں چھاتی کا سرطان سرِفہرست ہے اور دنیا بھر میں خواتین کے سرطان کے 25 فیصد کیسز بھی بریسٹ کینسر سے ہی ہوتی ہے۔ اس ضمن میں تھری ڈی سینسر وقت سے پہلے ہی کینسر کی شناخت میں مدد دے سکتا ہے۔
سوئزرلینڈ میں واقع عوامی جامعہ ای ٹی ایچ زیورخ، سائی انسٹی ٹیوٹ اور دیگر اداروں نے ملکر روایتی کمپیوٹرٹوماگرافی (سی ٹی) اسکین ٹیکنالوجی میں تبدیلی کی ہے۔ اس طریقے سے ریڈی ایشن کی مقدار بڑھائے بغیررسولیوں کی بہترشناخت کی جاسکتی ہے۔
اس عمل سے سینے کے اندر کیلشیئم کی مقدار نوٹ کی جاسکتی ہے جسے 'مائیکروکیلسی فکیشن' بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح بہت ہی ابتدائی مرحلے میں بریسٹ کینسر کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ماہرین نے اسے ایکس رے فیز کنٹراسٹ کا نام دیا ہے۔ اسی سنگِ عمل کو تھری ڈی ایکس رے طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ روایتی میموگرافی سے بھی چھاتی کے سرطان کے 22 فیصد کیسز اوجھل رہتے ہیں۔ دوسری جانب غلط تشخیص بھی ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیق آپٹیکا نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ اس عمل میں ریزولوشن اور کنٹراسٹ کی بنا پر چھاتی کے بہت سارے عکس لیے جاتے ہیں اور وہ تھری ڈی تصویر بناتے ہیں۔ اس طرح مختلف زاویوں سے چھاتی کا ہرپہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
توقع ہے کہ اس سے چھاتی کے سرطان کی بروقت شناخت میں بہت مدد مل سکے گی۔
سوئزرلینڈ میں واقع عوامی جامعہ ای ٹی ایچ زیورخ، سائی انسٹی ٹیوٹ اور دیگر اداروں نے ملکر روایتی کمپیوٹرٹوماگرافی (سی ٹی) اسکین ٹیکنالوجی میں تبدیلی کی ہے۔ اس طریقے سے ریڈی ایشن کی مقدار بڑھائے بغیررسولیوں کی بہترشناخت کی جاسکتی ہے۔
اس عمل سے سینے کے اندر کیلشیئم کی مقدار نوٹ کی جاسکتی ہے جسے 'مائیکروکیلسی فکیشن' بھی کہا جاتا ہے۔ اس طرح بہت ہی ابتدائی مرحلے میں بریسٹ کینسر کی شناخت کی جاسکتی ہے۔ ماہرین نے اسے ایکس رے فیز کنٹراسٹ کا نام دیا ہے۔ اسی سنگِ عمل کو تھری ڈی ایکس رے طریقہ بھی کہا جاسکتا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ روایتی میموگرافی سے بھی چھاتی کے سرطان کے 22 فیصد کیسز اوجھل رہتے ہیں۔ دوسری جانب غلط تشخیص بھی ہوسکتی ہے۔ یہ تحقیق آپٹیکا نامی سائنسی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔ اس عمل میں ریزولوشن اور کنٹراسٹ کی بنا پر چھاتی کے بہت سارے عکس لیے جاتے ہیں اور وہ تھری ڈی تصویر بناتے ہیں۔ اس طرح مختلف زاویوں سے چھاتی کا ہرپہلو نمایاں دکھائی دیتا ہے۔
توقع ہے کہ اس سے چھاتی کے سرطان کی بروقت شناخت میں بہت مدد مل سکے گی۔