طوفانی بارشیں اور اربن فلڈنگ

موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں

موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں۔ فوٹو: فائل

ملک کے مختلف علاقوں میں مون سون کی طوفانی بارشوں کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے ساتھ ہی عوام کے لیے پیدا ہونے والی مشکلات و مسائل جنم لیتے دکھائی دیتے ہیں، شدید بارش اور تیز ہواؤں کے باعث کرنٹ لگنے سے لاہور میں چار افراد جاں بحق جب کہ اسلام آباد میں دیوارگرنے سے بارہ مزدور جاں بحق ہوگئے۔

جڑواں شہروں اسلام آباد اور راولپنڈی میں موسلادھار بارش سے نالہ لئی کی سطح انیس فٹ تک بلند ہوگئی۔ ایمرجنسی کے پیش نظر پاک فوج کے دستوں کو نالہ لئی پر تعینات کردیا گیا ہے۔ سیلابی پانی سے دریائے چناب، نالہ ڈیک اور دریائے توی کے متعدد دیہات متاثر ہوئے ہیں۔

موسمِ گرما میں برسات کا سیزن اور مون سون کی گھنٹوں جاری رہنی والی تیز بارشیں آج بھی شہروں کے نقشے بدل دیتی ہیں اور اربن فلڈنگ کا باعث بنتی ہیں۔

شدید اور طوفانی بارشوں کے نتیجے میں پنجاب دھرتی کے سینے پر بہنے والے جہلم، چناب، ستلج، سندھ، یہاں تک کہ راوی تک طغیانی کی کیفیت میں آجاتا ہے، یوں پنجاب کے پانچوں دریا مل کے واقعی، پنج آب بن جاتے ہیں۔

گرمی کی شدت میں ہونے والے اضافے اور فصلوں کے لیے درکار پانی کی ضرورت کے حوالے سے عوام باران رحمت کی دعائیں مانگتے ہیں لیکن حکومتی سطح پر پانی ذخیرہ کرنے کے وسائل پر توجہ نہ دینے، پانی کے ضیاع، نکاسی آب کے ناقص انتظامات، شہروں میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے ذمے داروں کی لاپرواہی، غفلت اور فرض ناشناسی کے باعث ہی باران رحمت ایک مشکل بن جاتی ہے۔

فیڈر ٹرپ کرنے سے بجلی کے بحران میں ہونے والا اضافہ معمولات زندگی کو بالکل معطل کر کے رکھ دیتا ہے۔ شہریوں کو آمد ورفت اور ملازمین کو دفاتر تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، یہاں تک کہ طلبا و طالبات کے لیے اسکولوں اورکالجوں میں جانا ممکن نہیں رہتا جس سے تعلیمی ادارے کئی کئی روز تک بند ہوجاتے ہیں۔

نشیبی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے سے ان کے مکینوں کو ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث پینے کے پانی میں گندا پانی ملنے سے لوگ مہلک امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔

متاثرہ علاقوں کے لوگوں کے لیے روزمرہ استعمال کی اشیاء کی خریداری ممکن نہیں رہتی، بعض منافع خور اور تجارتی ضابطہ اخلاق سے عاری ادارے اور دکاندار اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں بلا جواز اضافہ کر کے لوگوں کو لوٹنا شروع کردیتے ہیں۔

ضلعی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکامی عوام کے لیے مزید اذیت کا باعث بنتی ہے۔ بالخصوص کچی آبادیوں اور پسماندہ علاقوں میں شدید بارش، آندھی اور طوفان کے باعث مکانات گرنے سے انسانی ہلاکتیں کئی گھروں کے چراغ گل کردیتی ہیں۔ بدلتے موسم گزشتہ چند سالوں سے شاہراہوں اور انفرا اسٹرکچر پر سوالیہ نشان دہرا رہے ہیں۔ وہ علاقے جہاں کم بارشیں ہوتی تھیں۔

اب طوفانی اور موسلادھار بارشوں کی زد میں آنے لگے ہیں۔ لہٰذا معمولاتِ زندگی کی بحالی اور تکالیف سے بچاؤ کے لیے ضروری ہے کہ تعمیراتی رجحانات میں تبدیلی لائی جائے اور جدید دورکے تقاضوں پر پورا اترتے ہوئے ٹاؤنز اور سوسائیٹیز پلاننگ کے تحت تعمیرکی جائیں۔جب ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔

لہٰذا اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوکر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے، جب کہ کچھ انسانی سرگرمیاں بھی ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں۔

مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اورکچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات اربن فلڈنگ جیسے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔


اربن فلڈنگ کی اہم وجوہات میں موسمی شدت کے باعث تیز بارش،سبزے اور درختوں کی کٹائی، نکاسی آب کے راستوں اور انفرا اسٹرکچر کے غیر مناسب ڈیزائن اور انتظامات، نکاسی آب کی سہولیات کی ناکافی دیکھ بھال، سیلابی پانی کے ساتھ آئے ملبے سے رکاوٹ، نشیبی علاقوں میں سوسائیٹیز کی تعمیر، غیر مناسب زرعی طریقے، اربن فلڈنگ کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات، منصوبہ سازی کے بغیر تعمیر شدہ علاقے، شہرکے نشیبی علاقے، نشیبی ساحلی علاقے، بیسمنٹ یا تہہ خانوں کی تعمیرات، نئے تعمیر شدہ نشیبی ٹاؤن اور سوسائیٹیز شامل ہیں۔

اربن فلڈنگ اور سیلاب کی لپیٹ میں آئے علاقے نہ صرف معمولاتِ زندگی پر خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ جان و مال کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ مزید یہ کہ ایسی آفات کے تحت افراد کی ذاتی، معاشی اور سماجی سرگرمیوں میں خلل پڑتا ہے۔ علاوہ ازیں اربن فلڈنگ سے سڑکوں، عمارتوں اور دیگر انفرا اسٹرکچر کو نقصان پہنچنے کے باعث تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات رک جاتے ہیں اور لوگوں کی املاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔

اس کے علاوہ کرنٹ لگنے اور ڈوب کر مرنے جیسے واقعات پیش آتے ہیں۔ عوام میں خوف اور بے یقینی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں۔ نیز معمولاتِ زندگی متاثر ہونے کے باعث خوراک اور ادویات کی فراہمی کا حصول ممکن نہیں ہو پاتا اور پالتو جانوروں، قیمتی اشیا، جائیداد اور پراپرٹی کے نقصان جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔

اربن فلڈنگ اور اس سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں، جن کے تحت آنے والے برسوں میں مفلوج نظامِ زندگی سے بچا جا سکتا ہے۔برساتی پانی کو سیوریج سسٹم سے الگ رکھا جائے، پانی کے انتظام کو بہتر بنانے اور سیوریج سسٹم کو نقصان سے بچانے کے لیے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔

کنکریٹ ایسا مٹیریل نہیں ہے جو پانی اور گیسزکو جذب کر سکے اور پھر پانی گلیوں اور فٹ پاتھوں میں بہتا ہے جو سیلاب کا سبب بنتا ہے، لہٰذا ناقابل عبور سطحوں کو گھاس اور باغات جیسے مواد سے تبدیل کیا جائے تو اس سے بارش کا پانی زمین میں داخل ہو جائے گا۔

یہ عمل جسے پانی کی در اندازی کے نام سے جانا جاتا ہے۔ پودوں کی زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے بھی کام کرتا ہے۔ پانی کی دراندازی سے مراد مٹی کی مختلف پرتوں کے ذریعے پانی کے داخلے سے ہوتا ہے، جس کا بنیادی کام مٹی کے کٹاؤ کو روکنا، پودوں کی پرورش اور ممکنہ سیلاب سے بچنا ہے۔

پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بہت پیچھے ہے، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی فہرست میں یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔ ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے۔ پاکستان میں گزشتہ برس شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔

اگر موسم برسات کی آمد سے پہلے ہی ضلعی و صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت اور شہروں میں نکاسی آب اور فراہمی آب کے ذمے دار ادارے ضروری اقدامات کی طرف توجہ دیں۔ پانی کو محفوظ کرنے کے لیے انتظامات کیے جائیں، نشیبی علاقوں، کچی اور پسماندہ آبادیوں سے نکاسی آب کے نظام کو موثر اور اس پر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے تو نہ صرف عوام اس اذیت ناک صورتحال سے محفوظ و مامون رہ سکتے ہیں بلکہ یہ بارش فی الحقیقت ان کے لیے رحمت ثابت ہوسکتی ہے۔

شہروں میں موسم برسات شروع ہونے سے پہلے ڈرینز اور نالوں کی صفائی کا سلسلہ برطانوی دور اقتدار میں شروع ہوا تھا اور دیہات سے شہروں کی طرف انتقال آبادی کے رجحان اور آبادی میں اضافے کے باعث شہروں کے مسائل کے پیش نظر اس کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی رہی اور لوگوں کو کبھی بھی ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا جن سے وہ آج موسم برسات کے دوران دو چار ہوتے ہیں۔

عمومی تاثر اور مشاہدہ یہ ہے کہ حکومت کی طرف سے بھاری بھرکم بجٹ اور مالی وسائل کی فراہمی کے باوجود نکاسی آب کے ذمے دار ادارے فرض شناسی کا ثبوت نہیں دیتے، ان کے افسر اور اہلکار ایسے موقعوں پر غائب ہوجاتے ہیں۔

ان سے رابطہ کرنا بھی ممکن نہیں رہتا۔ یہ صورت حال فرض ناشناس اور غیر ذمے دار افسروں ا ور اہلکاروں کے احتساب کے فقدان کی نشاندہی کرتی ہے، حالانکہ پاکستان کے علاوہ دنیا میں متعدد ایسے ممالک ہیں جہاں پر ہمارے ملک کی نسبت کہیں زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور بارشوں کا موسم بھی زیادہ طویل ہوتا ہے لیکن وہاں شہریوں کے لیے ایسی اذیت ناک صور تحال اور مشکلات کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا بلکہ لوگ اس موسم سے پوری طرح لطف اندوز ہوتے ہیں۔

وطن عزیز میں اس وقت بجلی کے بحران نے پوری قومی معیشت کو متزلزل اور معمولات زندگی کو درہم برہم کرکے رکھ دیا ہے۔ اس پر موسم برسات کی آمد کے ساتھ ہی ملک کے سب سے بڑے شہر اور صنعتی مرکز کراچی میں جو صورتحال پیدا ہوئی ہے اور اس سے پہلے پنجاب کے بعض دوسرے شہروں میں بارش اور آندھی کے باعث جو جانی اور مالی نقصان دیکھنے میں آیا۔

اس کا تقاضا یہ ہے کہ ضلعی و صوبائی حکومتیں تمام متعلقہ ادارے اور وفاقی حکومت شہریوں کی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ذمے دارانہ طرز عمل کا مظاہرہ کرے اور خالی خولی دعوؤں، وعدوں اور یقینی دہانیوں کی بجائے ٹھوس عملی اقدامات اور ان کی موثر مانیٹرنگ کے ذریعے ان کا ازالہ کرنے کی طرف توجہ دے۔
Load Next Story