حکومت کا یوٹرن

مردم شماری کے نتائج کا بروقت اجراء نہ ہونا مخلوط حکومت کی بڑی ناکامی ہے

tauceeph@gmail.com

کیا نئے انتخابات کے انعقاد سے پہلے تنازعات ایک منظم منصوبہ کے ذریعہ پیدا کیے جاتے ہیں۔ مخلوط حکومت کے اچانک اپریل میں ہونے والی ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج جاری نہ کرنے اور 2017کی مردم شماری کے تحت پرانی حلقہ بندیوں کی بنیاد پر صورتحال آشکار ہوگئی، وفاقی حکومت کا یوٹرن تاریخ کا حصہ بن گیا۔

جب 2017 میں مردم شماری منعقد ہوئی تھی تو سندھ کی تمام جماعتوں نے اس مردم شماری کے نتائج کو مسترد کردیا تھا۔ مردم شماری کے نتائج کو مسترد کرنے والی جماعتوں میں پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور سندھی قومی پرست جماعتیں شامل تھیں۔

2018 کے انتخابات کے بعد ایم کیو ایم کی قیادت نے جب تحریک انصاف سے انتخابی اتحاد کیا تھا تو تحریک انصاف کی قیادت نے اس بات پر اتفاق کیا تھا کہ 2017 کی مردم شماری کے نتائج مشکوک ہیں۔ اس بناء پر ضروری ہے کہ نئی مردم شماری کرائی جائے مگر تحریک انصاف کی حکومت اس وعدہ کو وفا نہ کرسکی۔

تحریک انصاف کی حکومت کی عمر چار سال ہوئی تو پیپلز پارٹی کے مرد آہن آصف علی زرداری اچانک متحرک ہوئے۔ اور مسلم لیگ ن اور جمعیت علماء اسلام کی قیادت کو تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد قومی اسمبلی میں پیش کرنے کے لیے تیارکیا۔

آصف زرداری نے تجویز پیش کی کہ میاں شہباز شریف کو نیا وزیر اعظم بنایا جائے۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے تحریک انصاف کی حکومت کی حمایت کرنے والی جماعتوں کو عدم اعتماد کی تحریک کی حمایت کرنے پر تیار کرنے کے لیے مذاکرات شروع کیے۔

یہ مذاکرات ابتدائی مرحلہ میں خفیہ تھے، پھر ان مذاکرات کی خبریں ذرایع ابلاغ میں شایع اور نشر ہونے لگیں اور ایم کیو ایم اور بلوچستان کی عوامی پارٹی سے مذاکرات کامیاب ہوئے۔ متحدہ قومی موومنٹ نے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سے علیحدہ ہونے کے لیے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن سے دو معاہدے کیے۔ مسلم لیگ ن سے ہونے والے معاہدہ میں نئی مردم شماری کا انعقاد اور نئے صوبوں کی تشکیل کے معاملات شامل تھے۔

مسلم لیگ ن کے رہنما احسن اقبال نے فوری طور پر مردم شماری کے انعقاد کے لیے ڈیجیٹل مردم شماری کرانے کی تجویز پیش کی، یوں احسن اقبال نے تخمینہ لگایا کہ تین سے چار ماہ میں پورے ملک میں مردم شماری کا کام مکمل ہوگا اور اس کے نتائج فوری طور پر جاری ہوجائیں گے۔ یوں مردم شماری کے لیے 34 بلین روپے کا تخمینہ لگایا گیا۔ وفاقی حکومت نے شدید مالیاتی بحران کے باوجود اتنی خطیر رقم کی منظوری دی۔

Pakistan Bureaue of Statisticsکو قسطوں میں رقوم کا اجراء ہوا۔ بیوروکریسی کے مختلف ہتھکنڈوں کی بناء پر مردم شماری کا کام دیر سے شروع ہوا۔ شماریات بیورو کی غلط حکمت عملی اور حکومت سندھ کی بیوروکریسی کی عدم دلچسپی کی بناء پر مردم شماری کا کام وقت پر مکمل نہ ہوا، کئی بار مردم شماری کی مدت بڑھائی گئی۔

مردم شماری کے عبوری نتائج سے ایک نیا بحران پیدا ہوا کہ حیدرآباد کی آبادی کراچی کے برابر ظاہر ہوئی، بہرحال مسلسل احتجاج کے بعد مردم شماری کی تاریخ میں توسیع ہوئی اور آخرکار مئی کے آخر میں یہ کام مکمل ہوا۔

تحریک انصاف کے قائد نے پنجاب اور خیبر پختون خوا کی اسمبلیاں توڑ دیں تو الیکشن کمیشن نے 90 دن میں انتخابات کے انعقاد سے انکار کیا۔ وفاقی حکومت نے الیکشن کمیشن کے فیصلہ کی اس بناء پر توثیق کی کہ مردم شماری جاری ہے، مردم شماری کے نتائج کے بعد کئی حلقہ بندیاں ہوں گی۔

وفاقی وزراء روزانہ یہ بیانیہ اختیار کرتے تھے کہ اگر پنجاب اور خیبر پختون خوا میں پرانی مردم شماری اور پرانی حلقہ بندیوں کی بناء پر انتخابات ہونگے مگر دیگر صوبوں میں نئی مردم شماری کی بناء پر نئی حلقہ بندیوں کے تحت انتخابات منعقد ہونگے تو اس طرح ایک نیا تضاد پیدا ہوگا۔

ان وزراء کا مؤقف تھا کہ پورے ملک میں نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق نئی حلقہ بندیوں کے مطابق ہونے چاہئیں۔ یہ رہنما تحریک انصاف کی قیادت کو بار بار مشورہ دیتے تھے کہ نئی مردم شماری کے نتائج کا انتظار کرنا چاہیے۔


وفاقی حکومت قانونی طور پر اس بات کی پابند تھی کہ مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری کے انعقاد کی منظوری حاصل کرے۔

حکومت نے آئین کے تحت مشترکہ مفادات کونسل سے نئی مردم شماری کے انعقاد کی منظوری حاصل کی تھی۔ جب مردم شماری کا کام مکمل ہوگیا اور وفاقی حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرنے کے قریب پہنچ گئی تو وفاقی حکومت نے اچانک فیصلہ کیا کہ نئی مردم شماری کے نتائج جاری نہیں کیے جائیں گے۔

وزیر داخلہ رانا ثناء اﷲ نے ایک ٹاک شو میں کہا کہ نئی اور پرانی مردم شماری کا انتخابات سے کیا تعلق ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ووٹرز لسٹیں کم و بیش اپ ڈیٹ ہوچکی ہیں۔ آبادی کی بناء پر صرف سیٹیں کسی جگہ کم اور کسی جگہ بڑھ جائیں گی۔ ان کا دعویٰ ہے کہ نئی مردم شماری سے قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے حلقوں پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔

مردم شماری کے نتائج ابھی آبھی جائیں تو حلقے یہی رہیں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ مشترکہ مفادات کونسل کا فیصلہ اپنی جگہ اس وقت کوئی آئینی ترمیم نہیں ہوسکتی۔ ایم کیو ایم اور بلوچستان نیشنل پارٹی نے حکومت کے اس فیصلہ کو مسترد کیا ہے۔

ایم کیو ایم کا بیانیہ ہے کہ مسلم لیگ ن نے ایم کیو ایم سے جو معاہدہ کیا تھا یہ فیصلہ اس معاہدہ کی واضح خلاف ورزی ہے۔ خالد مقبول صدیقی کہتے ہیں کہ سندھ کے شہری علاقوں کی آبادی مردم شماری میں بہت کم ظاہر کی جاتی رہی ہے۔

اس بناء پر مشترکہ مفادات کونسل میں نئی مردم شماری پر اتفاق ہوا تھا۔ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ کراچی اور حیدرآباد وغیرہ میں حلقہ بندیوں کی تشکیل میں مخصوص مفادات کو تحفظ فراہم کیا گیا تھا۔ شہروں میں آبادی میں اضافہ کی شرح زیادہ ہے اس لیے نئی مردم شماری کے نتائج جاری ہونے چاہئیں اور نئی حلقہ بندیاں ہونی چاہئیں۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کو بھی پرانی مردم شماری کے نتائج کے مطابق انتخابات کرانے کے فیصلہ پر تشویش ہے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی کا یہ بیانیہ ہے کہ نئی مردم شماری کے جو نتائج ظاہر کیے گئے ہیں ان کے مطابق بلوچستان کی آبادی زیادہ بڑھی ہے جس کی بناء پر بلوچستان کی قومی اسمبلی میں میں نشستیں بڑھ سکتی ہیں، اگر پرانی مردم شماری کے نتائج کے مطابق انتخابات منعقد ہوئے تو بلوچستان کی جو نشستیں بڑھ سکتی تھیں ان میں اضافہ نہیں ہوگا۔

یہ حقیقت ہے کہ پانچ برسوں میں آبادی میں خاصا بڑا ردوبدل ہوتا ہے، خاص طور پر دیہی علاقوں سے شہروں کی طرف آبادی منتقل ہوتی ہے، یوں شہری آبادی کی شرح بڑھ جاتی ہے اور شہروں میں اس دوران بے شمار نئی بستیاں آباد ہوتی ہیں۔

کراچی میں گزشتہ پانچ برسوں میں کئی نئی بستیاں آباد ہوئی ہیں، صرف سپر ہائی وے کے اطراف میں آباد بستیوں کی تعداد بڑھ گئی ہے۔ پانچ برس پہلے سپر ہائی وے کے ساتھ جدید ٹاؤن نہیں تھے مگر اب اس جدید ٹاؤن میں ہزاروں گھر آباد ہوگئے ہیں۔

ان بستیوں میں آباد ہونے والے افراد کے ووٹ کا پتہ بھی تبدیل ہوا ہے، یوں نئی مردم شماری کے نتائج کے ساتھ نئی حلقہ بندیاں بننا ضروری ہیں۔ مردم شماری کے اعداد و شمار صرف انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے استعمال نہیں ہوتے بلکہ تعلیم، صحت، روزگار اور ہاؤسنگ کی سہولتوں کی فراہمی کا دارومدار بھی مردم شماری کے نتائج کے مطابق ہوتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ اس ملک میں مردم شماری کے نتائج کو انتخابات تک محدود کیا جانا ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ نئی مردم شماری کے نتائج کے مطابق حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم ضروری ہے۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ انتخابات آئین کے تحت مقررہ وقت پر منعقد ہونے چاہئیں مگر ایک حقیقت اور ہے کہ مردم شماری کے نتائج کا بروقت اجراء نہ ہونا مخلوط حکومت کی بڑی ناکامی ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف کا فرض ہے کہ وہ تمام جماعتوں کے رہنماؤں کو مدعو کریں اور اس مسئلہ کا حل تلاش کریں۔ ان کے دور میں یہ تضاد حل نہ ہوا تو المیہ ہوگا۔
Load Next Story