بارشیں سیلاب اور انتظامی ڈھانچہ
ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے
پاکستان کے پہاڑی اور میدانی علاقے شدید بارشوں کی زد میں ہیں۔ اخباری اطلاعات کے طابق خلیج بنگال سے مون سون ہواؤں کا ایک اسپیل پاکستان میں داخل ہو رہا ہے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ 22 سے26 جولائی کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔
پری مون سون اور مون سون کی حالیہ بارشوں سے پاکستان بھر میں سیلاب کی سی کیفیت موجود ہے۔ بڑے شہروں اور دیہات میں نشیبی علاقے زیر آب آئے ہوئے ہیں، پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ بھی جاری ہے جب کہ برساتی ندی نالوں میں پانی کی سطح معمول سے خاصی بلند ہو چکی ہے۔
گزشتہ دنوں راولپنڈی کے نالہ لئی میں 23 فٹ تک پانی چلا گیا تھا جب کہ سیالکوٹ کے ساتھ نالہ ڈیک بھی طغیانی کی زد میں ہے۔ بھارت سے پنجاب کی طرف بہنے والے دریاؤں میں بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت نے ستلج، بیاس اور راوی پر جو ڈیم بنا رکھے ہیں، ان میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو رہی ہے۔
پنجاب میں دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم میں بھی طغیانی کی کیفیت ہے جب کہ دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ سندھ میں کئی مقامات پانی کی زد میں آئے ہوئے ہیں جب کہ جنوبی پنجاب میں بھی سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے آیندہ تین روز میں منگلا، دریائے جہلم، چناب میں پانی کا بہاؤ تیز ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
بھارت میں ستلج، بیاس اور راوی پر بننے والے ڈیم بالترتیب، 67فی صد، 75فی صد اور 89 فیصد پانی سے بھر گئے ہیں۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ بھارت سے مزید پانی پاکستان میں داخل ہو جائے گا۔ دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
دریائے چناب میں چنیوٹ کے مقام پر ایک لاکھ ستر ہزار دو سو چونسٹھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزشتہ روز گزرا، جس سے سیلابی پانی 30 کے قریب موضع جات میں داخل ہو گیا۔ سیکڑوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئیں۔ ادھر کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی 23 اور 24 جولائی کو تیز بارش ہو سکتی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں بھی بارشیں جاری ہیں۔
پاکستان میں طوفانی بارشوں سے ہونے والے نقصانات پہلی بار نہیں ہو رہے اور نہ ہی دریاؤں میں سیلاب پہلی بار آیا ہے۔ اصل مسئلہ انتظامی ناکامی کا ہے۔ سرکاری اداروں کے افسران اور دیگر اہلکاروں کی کارکردگی صفر ہے۔
محکمہ موسمیات بھی موسم کے حوالے سے الرٹ جاری کر رہا ہے تو دوسری طرف نیشنل ڈیزائسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ یہی کام کر رہا ہے حالانکہ اس ادارے کا کام قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے ڈپٹی کمشنر اپنے علاقے میں سیلاب کے حوالے سے کام کیا کرتے تھے، قیام پاکستان تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اب یہ ختم ہو چکا ہے۔ شہروں میں کارپوریشنز یا میونسپلٹیز بارشوں کے پانی کو نکالنے کا کام کرتی تھیں لیکن اب شہروں کو مختلف اتھارٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
سیوریج سسٹم کی ریگولر بنیادوں پر صفائی اور چیکنگ کا نظام ختم ہو چکا ہے۔ محکمہ بجلی والے برسات سے پہلے کھمبوں اور تاروں کی کوئی چیکنگ نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھمبو میں کرنٹ آنے کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
مون سون کی تیز بارشیں بعض اوقات کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ کراچی اور لاہور میں ہر سال اس قسم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ بارشی اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے پر توجہ نہ دینے، نکاسی آب کے ناقص انتظامات، شہروں میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے ذمے داروں کی لاپرواہی، غفلت اور فرض ناشناسی کے باعث ہی مون سون کا سیزن خوفناک بن جاتا ہے۔
فیڈر ٹرپ کرنے سے بجلی کے بحران میں ہونے والا اضافہ معمولات زندگی کو بالکل معطل کر کے رکھ دیتا ہے۔ شہریوں کو آمد ورفت اور ملازمین کو دفاتر تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے سے ان کے مکینوں کو ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث پینے کے پانی میں گندا پانی ملنے سے لوگ مہلک امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
ضلعی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکامی عوام کے لیے مزید اذیت کا باعث بنتی ہے۔ بالخصوص کچی آبادیوں اور پسماندہ علاقوں میں شدید بارش، آندھی اور طوفان کے باعث مکانات گرنے سے انسانی ہلاکتیں کئی گھروں کے چراغ گل کردیتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے بارشوں کی وجہ سے شاہراہوں اور دیگر انفرااسٹرکچر شکست وریخت کا شکار ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تعمیراتی رجحانات میں تبدیلی لائی جائے اور ٹاؤنز اور سوسائٹیز پلاننگ کے تحت تعمیرکی جائیں۔
جب ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوکر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے، جب کہ کچھ انسانی سرگرمیاں بھی ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اورکچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات اربن فلڈنگ جیسے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔
اربن فلڈنگ کی اہم وجوہات میں موسمی شدت کے باعث تیز بارش،سبزے اور درختوں کی کٹائی، نکاسی آب کے راستوں اور انفرا اسٹرکچر کے غیر مناسب ڈیزائن اور انتظامات، نکاسی آب کی سہولیات کی ناکافی دیکھ بھال، سیلابی پانی کے ساتھ آئے ملبے سے رکاوٹ، نشیبی علاقوں میں سوسائیٹیز کی تعمیر، غیر مناسب زرعی طریقے، اربن فلڈنگ کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات، منصوبہ سازی کے بغیر تعمیر شدہ علاقے، شہرکے نشیبی علاقے، نشیبی ساحلی علاقے، بیسمنٹ یا تہہ خانوں کی تعمیرات، نئے تعمیر شدہ نشیبی ٹاؤن اور سوسائیٹیز شامل ہیں۔
اربن فلڈنگ اور سیلاب کی لپیٹ میں آئے علاقے نہ صرف معمولاتِ زندگی پر خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ جان و مال کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اربن فلڈنگ سے سڑکوں، عمارتوں اور دیگر انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچنے کے باعث تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات رک جاتے ہیں اور لوگوں کی املاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ پالتو جانوروں، قیمتی اشیا، جائیداد اور پراپرٹی کے نقصان جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔
اربن فلڈنگ اور اس سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔برساتی پانی کو سیوریج سسٹم سے الگ رکھا جائے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بہت پیچھے ہے، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی فہرست میں یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے۔ پاکستان میں گزشتہ برس شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ اگر موسم برسات کی آمد سے پہلے ہی ضلعی و صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت اور شہروں میں نکاسی آب اور فراہمی آب کے ذمے دار ادارے ضروری اقدامات کی طرف توجہ دیں۔
شہروں میں موسم برسات شروع ہونے سے پہلے ڈرینز اور نالوں کی صفائی کا سلسلہ برطانوی دور اقتدار میں شروع ہوا تھا اور دیہات سے شہروں کی طرف انتقال آبادی کے رجحان اور آبادی میں اضافے کے باعث شہروں کے مسائل کے پیش نظر اس کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی رہی اور لوگوں کو کبھی بھی ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا جن سے وہ آج موسم برسات کے دوران دو چار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انتظامی ڈھانچے کے زوال کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ جب بھی قدرتی آفت آتی ہے تو اس وقت پوری ریاست ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے۔ ہر ادارہ اپنے اپنے جواز کی پرچی ہاتھ میں پکڑ کر دہائی دیتا ہے کہ دیکھیں جی! فلاں کام ہمارے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے۔ جن کے دائرہ اختیار میں ہو گا، ان کا جواز بھی تیار ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق جو ہو سکتا ہے، وہ کر رہے ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہوتے ہیں، اس کا نظارہ سڑکوں پر کھڑے پانی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔
محکمہ موسمیات نے خبردار کیا ہے کہ 22 سے26 جولائی کے دوران پاکستان کے مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشوں کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہے گا۔
پری مون سون اور مون سون کی حالیہ بارشوں سے پاکستان بھر میں سیلاب کی سی کیفیت موجود ہے۔ بڑے شہروں اور دیہات میں نشیبی علاقے زیر آب آئے ہوئے ہیں، پہاڑی علاقوں میں لینڈ سلائیڈنگ بھی جاری ہے جب کہ برساتی ندی نالوں میں پانی کی سطح معمول سے خاصی بلند ہو چکی ہے۔
گزشتہ دنوں راولپنڈی کے نالہ لئی میں 23 فٹ تک پانی چلا گیا تھا جب کہ سیالکوٹ کے ساتھ نالہ ڈیک بھی طغیانی کی زد میں ہے۔ بھارت سے پنجاب کی طرف بہنے والے دریاؤں میں بھی پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ اخباری اطلاعات کے مطابق بھارت نے ستلج، بیاس اور راوی پر جو ڈیم بنا رکھے ہیں، ان میں پانی کی سطح خطرناک حد تک بلند ہو رہی ہے۔
پنجاب میں دریائے راوی، دریائے چناب اور دریائے جہلم میں بھی طغیانی کی کیفیت ہے جب کہ دریائے سندھ میں بھی پانی کی سطح مسلسل بلند ہو رہی ہے۔ سندھ میں کئی مقامات پانی کی زد میں آئے ہوئے ہیں جب کہ جنوبی پنجاب میں بھی سیلاب کا خطرہ موجود ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹرمینجمنٹ اتھارٹی نے آیندہ تین روز میں منگلا، دریائے جہلم، چناب میں پانی کا بہاؤ تیز ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔
بھارت میں ستلج، بیاس اور راوی پر بننے والے ڈیم بالترتیب، 67فی صد، 75فی صد اور 89 فیصد پانی سے بھر گئے ہیں۔ لہٰذا یہ واضح ہے کہ بھارت سے مزید پانی پاکستان میں داخل ہو جائے گا۔ دریائے راوی میں جسڑ کے مقام پر نچلے درجے کا سیلاب ہے۔
دریائے چناب میں چنیوٹ کے مقام پر ایک لاکھ ستر ہزار دو سو چونسٹھ کیوسک کا سیلابی ریلا گزشتہ روز گزرا، جس سے سیلابی پانی 30 کے قریب موضع جات میں داخل ہو گیا۔ سیکڑوں ایکٹر پر کھڑی فصلیں زیر آب آگئیں۔ ادھر کراچی اور اندرون سندھ کے مختلف اضلاع میں بھی 23 اور 24 جولائی کو تیز بارش ہو سکتی ہے۔ آزاد کشمیر، گلگت بلتستان اور ہزارہ ڈویژن کے اضلاع میں بھی بارشیں جاری ہیں۔
پاکستان میں طوفانی بارشوں سے ہونے والے نقصانات پہلی بار نہیں ہو رہے اور نہ ہی دریاؤں میں سیلاب پہلی بار آیا ہے۔ اصل مسئلہ انتظامی ناکامی کا ہے۔ سرکاری اداروں کے افسران اور دیگر اہلکاروں کی کارکردگی صفر ہے۔
محکمہ موسمیات بھی موسم کے حوالے سے الرٹ جاری کر رہا ہے تو دوسری طرف نیشنل ڈیزائسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کا ادارہ یہی کام کر رہا ہے حالانکہ اس ادارے کا کام قدرتی آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے اقدامات اٹھانا ہے۔
قیام پاکستان سے پہلے ڈپٹی کمشنر اپنے علاقے میں سیلاب کے حوالے سے کام کیا کرتے تھے، قیام پاکستان تک یہ سلسلہ جاری رہا لیکن اب یہ ختم ہو چکا ہے۔ شہروں میں کارپوریشنز یا میونسپلٹیز بارشوں کے پانی کو نکالنے کا کام کرتی تھیں لیکن اب شہروں کو مختلف اتھارٹیوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے۔
سیوریج سسٹم کی ریگولر بنیادوں پر صفائی اور چیکنگ کا نظام ختم ہو چکا ہے۔ محکمہ بجلی والے برسات سے پہلے کھمبوں اور تاروں کی کوئی چیکنگ نہیں کرتے جس کی وجہ سے کھمبو میں کرنٹ آنے کی وجہ سے کئی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔
مون سون کی تیز بارشیں بعض اوقات کئی کئی گھنٹے جاری رہتی ہیں۔ جس کی وجہ سے اربن فلڈنگ کی صورت حال پیدا ہو جاتی ہے۔ کراچی اور لاہور میں ہر سال اس قسم کی صورت حال پیدا ہوتی ہے۔ بارشی اور سیلابی پانی ذخیرہ کرنے پر توجہ نہ دینے، نکاسی آب کے ناقص انتظامات، شہروں میں فراہمی آب اور نکاسی آب کے ذمے داروں کی لاپرواہی، غفلت اور فرض ناشناسی کے باعث ہی مون سون کا سیزن خوفناک بن جاتا ہے۔
فیڈر ٹرپ کرنے سے بجلی کے بحران میں ہونے والا اضافہ معمولات زندگی کو بالکل معطل کر کے رکھ دیتا ہے۔ شہریوں کو آمد ورفت اور ملازمین کو دفاتر تک پہنچنے میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نشیبی علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہونے سے ان کے مکینوں کو ایک اذیت ناک صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔نکاسی آب کے ناقص نظام کے باعث پینے کے پانی میں گندا پانی ملنے سے لوگ مہلک امراض کا شکار ہونے لگتے ہیں۔
ضلعی اور صوبائی حکومتوں کی طرف سے اس صورتحال پر قابو پانے میں ناکامی عوام کے لیے مزید اذیت کا باعث بنتی ہے۔ بالخصوص کچی آبادیوں اور پسماندہ علاقوں میں شدید بارش، آندھی اور طوفان کے باعث مکانات گرنے سے انسانی ہلاکتیں کئی گھروں کے چراغ گل کردیتی ہیں۔ گزشتہ چند سالوں سے بارشوں کی وجہ سے شاہراہوں اور دیگر انفرااسٹرکچر شکست وریخت کا شکار ہے لہٰذا ضروری ہے کہ تعمیراتی رجحانات میں تبدیلی لائی جائے اور ٹاؤنز اور سوسائٹیز پلاننگ کے تحت تعمیرکی جائیں۔
جب ندیاں اور نالے شدید موسمی حالات سے پیدا ہونے والے ضرورت سے زیادہ پانی کو مزید ایڈجسٹ نہیں کر سکتے۔ لہٰذا اس کے بعد نکاسی آب کے راستے اپنے قدرتی یا مصنوعی کناروں سے اوپر ہو جاتے ہیں اور پانی آس پاس کے علاقوں میں داخل ہوکر اربن فلڈنگ اور سیلابی صورتحال کا باعث بنتا ہے، جب کہ کچھ انسانی سرگرمیاں بھی ماحول کو نقصان پہنچاتی ہیں۔ مثال کے طور پر سبزے کا نہ ہونا، جنگلات کی کٹائی اورکچرے کو ٹھکانے لگانے کے ناقص انتظامات اربن فلڈنگ جیسے خطرات کو بڑھاتے ہیں۔
اربن فلڈنگ کی اہم وجوہات میں موسمی شدت کے باعث تیز بارش،سبزے اور درختوں کی کٹائی، نکاسی آب کے راستوں اور انفرا اسٹرکچر کے غیر مناسب ڈیزائن اور انتظامات، نکاسی آب کی سہولیات کی ناکافی دیکھ بھال، سیلابی پانی کے ساتھ آئے ملبے سے رکاوٹ، نشیبی علاقوں میں سوسائیٹیز کی تعمیر، غیر مناسب زرعی طریقے، اربن فلڈنگ کے باعث سب سے زیادہ متاثر ہونے والے مقامات، منصوبہ سازی کے بغیر تعمیر شدہ علاقے، شہرکے نشیبی علاقے، نشیبی ساحلی علاقے، بیسمنٹ یا تہہ خانوں کی تعمیرات، نئے تعمیر شدہ نشیبی ٹاؤن اور سوسائیٹیز شامل ہیں۔
اربن فلڈنگ اور سیلاب کی لپیٹ میں آئے علاقے نہ صرف معمولاتِ زندگی پر خطرناک اثرات مرتب کرتے ہیں، بلکہ جان و مال کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ اربن فلڈنگ سے سڑکوں، عمارتوں اور دیگر انفرااسٹرکچر کو نقصان پہنچنے کے باعث تعمیر و ترقی کے منصوبہ جات رک جاتے ہیں اور لوگوں کی املاک کے نقصان کا سبب بنتے ہیں۔ پالتو جانوروں، قیمتی اشیا، جائیداد اور پراپرٹی کے نقصان جیسے مسائل سامنے آتے ہیں۔
اربن فلڈنگ اور اس سے ہونے والے نقصانات کے پیشِ نظر اپنائے جانے والے حفاظتی اقدامات نہایت ضروری ہیں۔برساتی پانی کو سیوریج سسٹم سے الگ رکھا جائے، شہروں میں زیر زمین پائپ لائنز اور نکاسی آب کے نظام کو بہتر بنانے جیسے اقدامات کی ضرورت ہے۔ پاکستان گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کے حوالے سے بہت پیچھے ہے، تاہم ماحولیاتی تبدیلیوں کے اثرات کی فہرست میں یہ سب سے زیادہ متاثرہ ممالک کی فہرست میں شامل ہے۔
ماہرین نے خبردارکیا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شدید موسمی حالات اب کثرت کے ساتھ رونما ہوں گے۔ پاکستان میں گزشتہ برس شدید بارشوں کے بعد تباہ کن سیلابوں کی وجہ سے ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب آ گیا تھا۔ اگر موسم برسات کی آمد سے پہلے ہی ضلعی و صوبائی حکومتیں وفاقی حکومت اور شہروں میں نکاسی آب اور فراہمی آب کے ذمے دار ادارے ضروری اقدامات کی طرف توجہ دیں۔
شہروں میں موسم برسات شروع ہونے سے پہلے ڈرینز اور نالوں کی صفائی کا سلسلہ برطانوی دور اقتدار میں شروع ہوا تھا اور دیہات سے شہروں کی طرف انتقال آبادی کے رجحان اور آبادی میں اضافے کے باعث شہروں کے مسائل کے پیش نظر اس کی طرف خصوصی توجہ دی جاتی رہی اور لوگوں کو کبھی بھی ایسی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑا جن سے وہ آج موسم برسات کے دوران دو چار ہوتے ہیں۔
پاکستان میں انتظامی ڈھانچے کے زوال کی سب سے بڑی نشانی یہی ہے کہ جب بھی قدرتی آفت آتی ہے تو اس وقت پوری ریاست ہاتھ باندھے کھڑی نظر آتی ہے۔ ہر ادارہ اپنے اپنے جواز کی پرچی ہاتھ میں پکڑ کر دہائی دیتا ہے کہ دیکھیں جی! فلاں کام ہمارے دائرہ اختیار میں ہی نہیں ہے۔ جن کے دائرہ اختیار میں ہو گا، ان کا جواز بھی تیار ہوتا ہے۔ وہ یہ کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق جو ہو سکتا ہے، وہ کر رہے ہیں اور جو کچھ وہ کر رہے ہوتے ہیں، اس کا نظارہ سڑکوں پر کھڑے پانی سے بخوبی ہو جاتا ہے۔