ایک ہوں مسلم…

قرآن جلانے کے اس تازہ واقعہ نے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے

mjgoher@yahoo.com

چند دن قبل سوئیڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی کا ایک اور واقعہ پیش آیا، اسٹاک ہوم کی ایک مسجد کے سامنے قرآن کریم کا ایک نسخہ نذر آتش کردیا جس کے نتیجے میں پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں گہرے دکھ اور شدید احتجاج اور ردعمل کا اظہار کیا گیا۔

سوئیڈن کے وزیر انصاف نے ایک اخباری انٹرویو میں بتایا ہے کہ حکومت سوئیڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والے قرآن کو جلانے کے حالیہ واقعات کی روشنی میں قرآن اور دیگر مقدس کتابوں کو جلانے کو جرم قرار دینے پر غور کر رہی ہے، سوئیڈن کی سیکیورٹی سروسز کا بھی یہ کہنا ہے کہ اس قسم کی حرکت نے ملک کو غیر محفوظ بنا دیا ہے۔

طرفہ تماشا دیکھیے کہ رواں سال سوئیڈن کی پولیس نے سیکیورٹی وجوہات کی بنا پر بعض احتجاجی مظاہروں کو منظم کرنے کی متعدد درخواستوں کی منظوری سے انکار کردیا تھا، جن میں قرآن کو جلانا بھی شامل تھا۔ اس کے باوجود سوئیڈش عدالتوں نے پولیس کے فیصلے کو یہ کہتے ہوئے مسترد کردیا کہ ایسے اقدامات سوئیڈن کے جامع اظہار آزادی کے قوانین کی ضمانت ہیں۔

ایک اخباری خبر کے مطابق قرآن جلانے کے اس تازہ واقعہ نے سوئیڈن کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے کیونکہ ترکی کے صدر رجب طیب اردوان نے واضح طور پر کہا ہے کہ ان کا ملک سوئیڈن کی درخواست پر قرآن کو جلانے کے واقعات روکنے سے پہلے رضامند نہیں ہو سکتا۔

یہ پہلا موقعہ نہیں ہے کہ سوئیڈن میں قرآن کی بے حرمتی کا واقعہ پیش آیا ہو۔ مغربی دنیا کے انتہا پسند عناصر مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے کی ناپاک سازشیں اور گھناؤنی حرکتیں کرتے رہتے ہیں۔ کبھی توہین آمیز خاکے بنائے جاتے ہیں، کبھی قرآنی نسخے جلائے جاتے ہیں اور گستاخانہ فلمیں اورکارٹون بنائے جاتے ہیں اور پوری دنیا کے ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکایا جاتا ہے، المیہ یہ ہے کہ ایسے واقعات کو مغرب میں آزادی اظہار کا نام دے کر تحفظ دیا جاتا ہے، جیساکہ سوئیڈش عدالتوں نے مذکورہ واقعہ میں قرار دیا ہے۔

گزشتہ چند دہائیوں سے یہ سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے اور کوئی اس کے آگے بند باندھنے والا نہیں ہے۔ مغرب میں جب بھی ایسی کوئی گستاخانہ حرکت ہوتی ہے تو پاکستان سمیت پورے عالم اسلام میں غم و غصے کی لہر دوڑ جاتی ہے۔ عوامی سطح پر شدید احتجاج اور مظاہرے کیے جاتے ہیں اور حاکموں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ ایسے نازیبا اقدامات کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر سخت ترین اور ٹھوس لائحہ عمل مرتب کیا جائے اور دنیا کے 50 سے زائد اسلامی ممالک ایک آواز بن کر مغرب کے خلاف اقدامات اٹھائیں۔

مسلمان ملکوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی کے پلیٹ فارم سے بھی احتجاجی آواز اٹھائی جاتی ہے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مسلمانوں کی اجتماعی آواز بھی '' نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے'' کے مترادف ہے، جب کہ یورپ اسلامی شعائر پر حملے، توہین رسالت اور قرآن کی بے حرمتی کے اقدامات کو اظہار رائے کی آزادی کی آڑ میں تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیا مغرب میں عیسائی و یہودی مذاہب کے خلاف توہین آمیز عمل کو برداشت کیا جاسکتا ہے؟ کیا ایسے اقدام کو آزادی کے اظہار کا نام دے کر تحفظ دیا جاسکتا ہے۔ افسوس کہ ایسا ممکن ہی نہیں۔


عالم اسلام کے دیگر ملکوں کی طرح پاکستان میں قرآن مجید جلانے کے تازہ واقعہ پر شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے جو ناقابل فہم نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے اس دل گداز واقعے کو مسلم عیسائی لڑائی کی سازش قرار دیتے ہوئے خبردار کیا ہے کہ ایسی حرکت کوئی دوبارہ نہ کرے ورنہ جواب آنے پر ہم سے کوئی گلہ نہ کرے۔ اس ضمن میں وزیر اعظم کی ہدایت پر گزشتہ جمعہ کو پورے پاکستان میں '' یوم تقدیس قرآن '' منایا گیا۔ نماز جمعہ کے بعد کراچی تا خیبر جلسے، جلوس، ریلیاں اور سیمینارزکا انعقاد کیا گیا۔

مظاہرین کی طرف سے سوئیڈن پر معاشی پابندیاں عائد کرنے، سوئیڈش سفیر کی بے دخلی، امت مسلمہ سے معافی مانگنے اور قرآن کی بے حرمتی کرنے والے کو کڑی سزا دینے کے مطالبات کیے گئے۔ قومی پارلیمنٹ میں ایک متفقہ قرارداد منظور کی گئی جس میں قرآن مجید کی بے حرمتی کے تازہ واقعہ کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے مطالبہ کیا گیا کہ اسلامی فوبیا کے ایسے شرم ناک اور مسلم امہ کے مذہبی جذبات مجروح کرنے والے واقعات کو روکنے اور دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلانے کے اقدامات روکنے کے لیے قانون سازی کی جائے۔

آج پوری دنیا میں مسلمان عتاب کا شکار ہیں،کشمیر سے لے کر فلسطین تک بھارت اور اسرائیل نے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ نہتے مرد، عورتیں، بچے، جوان اور بوڑھے سب اسرائیلی اور بھارتی فوجیوں کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں، لیکن مسلم امہ کھلی آنکھوں سے سب کچھ دیکھنے کے باوجود اسرائیلی و بھارتی بربریت کو روکنے کے لیے متحد ہو کر ایک آواز بلند نہیں کر پاتی۔

ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی نمایندہ تنظیم او آئی سی صرف اجلاسوں پر اجلاس منعقد کرنے اور قراردادیں پاس کرنے سے آگے بڑھ کر کوئی ٹھوس جامع عملی قدم اٹھانے میں بری طرح ناکام چلی آ رہی ہے۔ نتیجتاً اسرائیل اور بھارت کے حوصلے بڑھ رہے ہیں اور مسلمانوں پر ان کے ظلم و ستم میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔

چند سال پہلے بیروت میں عرب وزرائے خارجہ کے ایک اجلاس کے دوران لبنان کے وزیر اعظم تقریرکے دوران پھوٹ پھوٹ کر رو پڑے تھے اور یہ اپیل کر رہے تھے کہ ان کے ملک کو اسرائیل کی بربریت سے بچایا جائے، لبنان کو تنازعات کا گڑھ نہ بنایا جائے، ان کا کہنا تھا کہ ہم اپنے موقف کی بنیاد بیوہ عورتوں، شہید بچوں، زخمیوں اور بے گھر افراد کے دکھوں پر رکھ رہے ہیں۔ لبنانی وزیر اعظم کے یہ آنسو پوری امت مسلمہ کی بے بسی اور بے بضاعتی کے پہلو بہ پہلو دنیا میں قیام امن اور جارحیت پسند قوتوں سے کمزور و بے بس قوموں کو بچانے کے ذمے دار ادارے اقوام متحدہ کی زندہ مثال ہیں۔

مسلم امہ کو یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ اگر ان کی صفوں میں مثالی نوعیت کا اتحاد نہیں ہوگا اور وہ اپنی سیاسی، اخلاقی اور مادی قوت کو یکجا کر کے بروئے کار نہیں لائیں گے تو مسلم امہ کو درپیش ایک بھی مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ کشمیر و فلسطین کے مسلمان اسرائیل و بھارتی بربریت کا نشانہ بنتے رہیں گے، مغرب میں اظہار رائے کی آزادی کے نام پر اسلامی شعار کا مذاق اڑایا جاتا رہے گا، قرآن کی بے حرمتی اور گستاخانہ طرز عمل کی بازگشت سنائی دیتی رہے گی، علامہ اقبال نے بہت پہلے مسلمانوں کے اتحاد کی ضرورت کا احساس کرتے ہوئے دعوت فکر دی تھی۔

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے

نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاک کاشغر
Load Next Story