اقرا اور سیما
سیما اپنی سوکن کی وجہ سے اپنے شوہر سے بے زار تھی حالانکہ غلام حیدر پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے
فروری2022 میں اقرا اور ملائم سنگھ یادو کی پریم کہانی اتنی مشہور نہیں ہوئی تھی جتنی کہ سیما حیدر اور سچن کی محبت کی داستان اس وقت مشہور ہو چکی ہے۔
اقرا کا تعلق بھی پاکستان سے تھا وہ حیدرآباد سندھ کی رہائشی تھی اور ایک اسکول کی طالبہ تھی۔ پڑھنے لکھنے سے زیادہ لوڈو کھیلنے میں دلچسپی لیتی تھی، انٹرنیٹ پر لوڈو کھیلنے کا کچھ اور ہی مزہ ہے، اس کھیل میں اس کی ملاقات بھارت کے نوجوان ملائم سنگھ یادو سے ہوگئی۔ یہ بات آگے بڑھی اور دونوں میں جنون کی حد تک محبت موجیں مارنے لگی ایسے میں اقرا جو صرف 16 سال کی تھی ملائم سنگھ یادو کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ اس نے بھارت جا کر ملائم سنگھ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس سلسلے میں ملائم سنگھ نے اپنی ہندو شناخت چھپائی اور خود کو ایک مسلم نوجوان ظاہر کیا اور اپنا نام ابرار حسین انصاری بتایا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر ہے اور بنگلور میں ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر ہے جب کہ وہ ایک سیکیورٹی گارڈ تھا۔ اقرا نے اپنی محبت کا ذکر اپنے ماں باپ سے نہیں کیا اور بھارت جا کر ملائم سنگھ سے شادی کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگی، اس نے اپنا پاسپورٹ خود ہی بنوایا، گھر سے پیسے چرائے ساتھ ہی اپنی سہیلی سے کافی رقم ادھار لی اور ایک دن کراچی سے دبئی پہنچ گئی۔ پھر وہاں سے بغیر ویزے کے نیپال پہنچی۔
کھٹمنڈو میں ملائم سنگھ اس کا پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔وہیں دونوں نے شادی کی اور پھر ملائم سنگھ اسے اپنے آبائی گھر لے جانے کے بجائے بنگلور لے گیا جہاں وہ پہلے سے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ کئی مہینے تک دونوں وہاں رہتے رہے۔ کسی کو اقرا کے بارے میں پتا نہیں چلا کہ وہ پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے بھارت آئی ہے اور ملائم سنگھ نے دھوکے سے شادی کی ہے۔
ملائم سنگھ نے یہ کیا تھا کہ اقرا کا نام بدل کر راوا یادوکردیا تھا اور اسے ہندو بتایا تھا جب کہ اقرا ملائم سنگھ کے کہنے پر ہندو نہیں بنی تھی وہ مسلمان ہی رہی اور نمازیں پڑھتی رہی۔ وہ ملائم سنگھ کے جھوٹ پر بہت ناراض تھی کہ اس نے اپنے مسلم ہونے کا جھوٹ بولا اور اس نے غلط بیانی کی۔ اقرا نے کسی ہندوانہ رسم کو نہیں اپنایا اور نمازوں کی ادائیگی جاری رکھی۔ وہ فلیٹ کی بالکنی میں اکثر نماز پڑھتی اس سے پڑوس کے گھر والوں کو شک ہوا کہ ملائم سنگھ تو کہتا ہے کہ اس کی بیوی ہندو ہے مگر وہ تو مسلمان لگتی ہے کیونکہ وہ نماز پڑھتی ہے۔
کسی طرح یہ بات قریب کے تھانے تک پہنچ گئی اور پولیس نے ایک دن ملائم سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارا اور اقرا کے بارے میں حقیقت معلوم کی۔ پھر انھیں تھانے بلا لیا گیا اور اقرا نے اقرار کر لیا کہ وہ مسلمان ہے اور اسے پاکستان سے بھارت بلانے والا یادو ہے جس نے جھوٹ بولا کہ وہ مسلمان ہے لہٰذا اب وہ اپنے گھر پاکستان جانا چاہتی ہے۔
حیدرآباد، پاکستان میں اس کے ماں باپ بیٹی کو نہیں بھولے تھے انھیں پتا چل گیا تھا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ دھوکا ہوا ہے چنانچہ جب انھیں خبر لگی کہ اقرا واپس پاکستان آ رہی ہے تو وہ واہگہ پر اس کا انتظار کر رہے تھے اور اقرا آگئی اور اپنی ماں سے لپٹ گئی یہ کہانی تو یہاں ختم ہوئی۔ اس سے پہلے غلام حیدر اور سچن کی دوستی پب جی کے ذریعے آگے بڑھ رہی تھی۔
سیما کا میاں غلام حیدر سیما اور اپنے چار بچوں کو چھوڑ کر سعودی عرب روزگار کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، اس کی ایک اور بیوی تھی جو جیکب آباد کے ایک گاؤں میں اس کے ماں باپ اور اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھی۔
سیما اسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ سیما کے کہنے پر ہی غلام حیدر پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اس کے بعد ہی سیما نے اس سے شادی کی تھی۔ غلام حیدر نے سیما اور اس کے بچوں کے لیے کراچی میں ایک مکان خرید کر دیا مگر سیما وہاں نہیں رہی چنانچہ غلام حیدر نے اسے گلستان جوہر میں ایک کرائے کے مکان میں رکھا، جس کا کرایہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا تھا۔
سیما شوہر کے بغیر رہ رہی تھی پھر پیسے کی کمی نہ تھی۔ غلام حیدر ہر مہینے پچاس ساٹھ ہزار روپے اسے بھیج رہا تھا اس طرح وہ بالکل آزاد بھی تھی اور خوش حال بھی تھی اکثر راتوں کو پب جی گیم کھیلنے سے اس کے کئی نوجوانوں سے رابطے ہوتے ایسے میں اسے سچن نام کے بھارتی لڑکے نے کھیل میں ایسا الجھایا کہ وہ اس کے الجھاؤ کو پیار سمجھنے لگی مگر رفتہ رفتہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ ادھر سچن بھی اسے پانے کے لیے بے چین و بے قرار تھا۔ چنانچہ اس نے اسے بھارت آنے کو کہا اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا دلاسا دیا۔
سیما نے بھارت جانے کے لیے گھر بھی بیچ ڈالا، پہلے وہ سچن سے ملنے کے لیے دبئی کے راستے نیپال گئی وہاں اس نے سچن سے ملاقات کی اور شادی بھی کر لی پھر وہاں سے واپس آئی اور چند ہی دنوں بعد بچوں کو ساتھ لے کر نیپال پہنچ گئی مگر چونکہ بھارت کا ویزا نہیں تھا چنانچہ سچن اسے وہاں سے کسی طرح دہلی کے پاس اپنے گاؤں لے گیا۔ کچھ دن کے بعد دونوں نے محسوس کیا کہ انھیں اپنی شادی کورٹ میں رجسٹرڈ کرا لینی چاہیے۔ وہاں سیما کے بارے میں سب کو پتا چلا کہ وہ پاکستان سے بغیر ویزے کے آئی ہے۔
یہ خبر پولیس کو ہوگئی جو دونوں کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی دونوں کی خوب پٹائی کی مگر پھر چھوڑ دیا اور بعد میں کورٹ سے ضمانت بھی ہوگئی۔ جب دوست احباب کو پتا چلا کہ سچن کے پاس پاکستان سے ایک عورت چار بچوں کے ساتھ آگئی ہے تو اس کے انتہا پسند بی جے پی کے غنڈے دوست خوشی سے پھولے نہیں سمائے کہ ایک پاکستانی مسلمان عورت ایک ہندو کے عشق میں بھارت آگئی ہے اور وہ ہندو بھی بن گئی ہے پھر سچن کے گھر میں جشن کا سماں تھا۔
اس کے گھر میں جا بجا جے شری رام کے نعرے گونجنے لگے، اس کے دوست اسے ایک مہان دیوتا کا لقب دینے لگے خود اس کے والد نے کہا کہ سچن نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو کوئی بھی بھارتی انجام نہ دے سکا۔
بھارتی میڈیا جو پاکستان دشمنی میں ساری حدیں پار کر چکا ہے اس نے سیما اور سچن کے اتنے انٹرویوز کیے کہ خود سیما اور سچن پریشان ہوگئے مگر مقصد صرف ایک تھا کہ پاکستانیوں اور بھارتی مسلمانوں کو شرمندہ کیا جائے، ادھر بھارتی خفیہ ادارے یہ شک کرنے لگے کہ اسے پاکستان سرکار نے جاسوسی کے لیے بھیجا ہے چنانچہ خفیہ ایجنسیاں اس وقت سیما سے پوچھ تاچھ کر رہی ہیں مگر ان لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ اصل کہانی کیا ہے۔
سیما اپنی سوکن کی وجہ سے اپنے شوہر سے بے زار تھی حالانکہ غلام حیدر پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے مگر چونکہ پہلی بیوی اب بھی غلام حیدر کے ماں باپ کے پاس رہ رہی ہے چنانچہ سیما کو یہ شک تھا کہ وہ پہلی بیوی سے اب بھی ملتا ہے چنانچہ لگتا ہے صرف اس کی سوکن کی جلن اسے بھارت لے کر گئی ہے۔
اب وہ پریشان ہے مگر پاکستان واپس آنا نہیں چاہتی چونکہ بلوچ روایت کے مطابق موت کی حق دار ٹھہرائی جا سکتی ہے چنانچہ اس نے ہندو مذہب بھی اپنا لیا ہے تاکہ اسے بھارت سے نہ نکالا جاسکے مگر لگتا ہے بھارتی ایجنسیاں جو پاکستانی ایجنسیوں سے بہت خوف زدہ ہیں وہ اسے پاکستانی جاسوس کے بہانے ضرور بھارت سے نکال کر رہیں گی۔
اقرا کا تعلق بھی پاکستان سے تھا وہ حیدرآباد سندھ کی رہائشی تھی اور ایک اسکول کی طالبہ تھی۔ پڑھنے لکھنے سے زیادہ لوڈو کھیلنے میں دلچسپی لیتی تھی، انٹرنیٹ پر لوڈو کھیلنے کا کچھ اور ہی مزہ ہے، اس کھیل میں اس کی ملاقات بھارت کے نوجوان ملائم سنگھ یادو سے ہوگئی۔ یہ بات آگے بڑھی اور دونوں میں جنون کی حد تک محبت موجیں مارنے لگی ایسے میں اقرا جو صرف 16 سال کی تھی ملائم سنگھ یادو کی محبت میں ایسی گرفتار ہوئی کہ اس نے بھارت جا کر ملائم سنگھ سے شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
اس سلسلے میں ملائم سنگھ نے اپنی ہندو شناخت چھپائی اور خود کو ایک مسلم نوجوان ظاہر کیا اور اپنا نام ابرار حسین انصاری بتایا۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ وہ ایک سافٹ ویئر انجینئر ہے اور بنگلور میں ملازمت کے سلسلے میں رہائش پذیر ہے جب کہ وہ ایک سیکیورٹی گارڈ تھا۔ اقرا نے اپنی محبت کا ذکر اپنے ماں باپ سے نہیں کیا اور بھارت جا کر ملائم سنگھ سے شادی کرنے کے لیے بھاگ دوڑ کرنے لگی، اس نے اپنا پاسپورٹ خود ہی بنوایا، گھر سے پیسے چرائے ساتھ ہی اپنی سہیلی سے کافی رقم ادھار لی اور ایک دن کراچی سے دبئی پہنچ گئی۔ پھر وہاں سے بغیر ویزے کے نیپال پہنچی۔
کھٹمنڈو میں ملائم سنگھ اس کا پہلے سے انتظار کر رہا تھا۔وہیں دونوں نے شادی کی اور پھر ملائم سنگھ اسے اپنے آبائی گھر لے جانے کے بجائے بنگلور لے گیا جہاں وہ پہلے سے ایک اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر تھا۔ کئی مہینے تک دونوں وہاں رہتے رہے۔ کسی کو اقرا کے بارے میں پتا نہیں چلا کہ وہ پاکستان سے غیر قانونی طریقے سے بھارت آئی ہے اور ملائم سنگھ نے دھوکے سے شادی کی ہے۔
ملائم سنگھ نے یہ کیا تھا کہ اقرا کا نام بدل کر راوا یادوکردیا تھا اور اسے ہندو بتایا تھا جب کہ اقرا ملائم سنگھ کے کہنے پر ہندو نہیں بنی تھی وہ مسلمان ہی رہی اور نمازیں پڑھتی رہی۔ وہ ملائم سنگھ کے جھوٹ پر بہت ناراض تھی کہ اس نے اپنے مسلم ہونے کا جھوٹ بولا اور اس نے غلط بیانی کی۔ اقرا نے کسی ہندوانہ رسم کو نہیں اپنایا اور نمازوں کی ادائیگی جاری رکھی۔ وہ فلیٹ کی بالکنی میں اکثر نماز پڑھتی اس سے پڑوس کے گھر والوں کو شک ہوا کہ ملائم سنگھ تو کہتا ہے کہ اس کی بیوی ہندو ہے مگر وہ تو مسلمان لگتی ہے کیونکہ وہ نماز پڑھتی ہے۔
کسی طرح یہ بات قریب کے تھانے تک پہنچ گئی اور پولیس نے ایک دن ملائم سنگھ کے گھر پر چھاپہ مارا اور اقرا کے بارے میں حقیقت معلوم کی۔ پھر انھیں تھانے بلا لیا گیا اور اقرا نے اقرار کر لیا کہ وہ مسلمان ہے اور اسے پاکستان سے بھارت بلانے والا یادو ہے جس نے جھوٹ بولا کہ وہ مسلمان ہے لہٰذا اب وہ اپنے گھر پاکستان جانا چاہتی ہے۔
حیدرآباد، پاکستان میں اس کے ماں باپ بیٹی کو نہیں بھولے تھے انھیں پتا چل گیا تھا کہ ان کی بیٹی کے ساتھ دھوکا ہوا ہے چنانچہ جب انھیں خبر لگی کہ اقرا واپس پاکستان آ رہی ہے تو وہ واہگہ پر اس کا انتظار کر رہے تھے اور اقرا آگئی اور اپنی ماں سے لپٹ گئی یہ کہانی تو یہاں ختم ہوئی۔ اس سے پہلے غلام حیدر اور سچن کی دوستی پب جی کے ذریعے آگے بڑھ رہی تھی۔
سیما کا میاں غلام حیدر سیما اور اپنے چار بچوں کو چھوڑ کر سعودی عرب روزگار کے سلسلے میں گیا ہوا تھا، اس کی ایک اور بیوی تھی جو جیکب آباد کے ایک گاؤں میں اس کے ماں باپ اور اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھی۔
سیما اسے برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔ سیما کے کہنے پر ہی غلام حیدر پہلی بیوی کو طلاق دے چکا تھا اور اس کے بعد ہی سیما نے اس سے شادی کی تھی۔ غلام حیدر نے سیما اور اس کے بچوں کے لیے کراچی میں ایک مکان خرید کر دیا مگر سیما وہاں نہیں رہی چنانچہ غلام حیدر نے اسے گلستان جوہر میں ایک کرائے کے مکان میں رکھا، جس کا کرایہ باقاعدگی سے ادا کیا جاتا تھا۔
سیما شوہر کے بغیر رہ رہی تھی پھر پیسے کی کمی نہ تھی۔ غلام حیدر ہر مہینے پچاس ساٹھ ہزار روپے اسے بھیج رہا تھا اس طرح وہ بالکل آزاد بھی تھی اور خوش حال بھی تھی اکثر راتوں کو پب جی گیم کھیلنے سے اس کے کئی نوجوانوں سے رابطے ہوتے ایسے میں اسے سچن نام کے بھارتی لڑکے نے کھیل میں ایسا الجھایا کہ وہ اس کے الجھاؤ کو پیار سمجھنے لگی مگر رفتہ رفتہ اس کے عشق میں گرفتار ہوگئی۔ ادھر سچن بھی اسے پانے کے لیے بے چین و بے قرار تھا۔ چنانچہ اس نے اسے بھارت آنے کو کہا اور اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا دلاسا دیا۔
سیما نے بھارت جانے کے لیے گھر بھی بیچ ڈالا، پہلے وہ سچن سے ملنے کے لیے دبئی کے راستے نیپال گئی وہاں اس نے سچن سے ملاقات کی اور شادی بھی کر لی پھر وہاں سے واپس آئی اور چند ہی دنوں بعد بچوں کو ساتھ لے کر نیپال پہنچ گئی مگر چونکہ بھارت کا ویزا نہیں تھا چنانچہ سچن اسے وہاں سے کسی طرح دہلی کے پاس اپنے گاؤں لے گیا۔ کچھ دن کے بعد دونوں نے محسوس کیا کہ انھیں اپنی شادی کورٹ میں رجسٹرڈ کرا لینی چاہیے۔ وہاں سیما کے بارے میں سب کو پتا چلا کہ وہ پاکستان سے بغیر ویزے کے آئی ہے۔
یہ خبر پولیس کو ہوگئی جو دونوں کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی دونوں کی خوب پٹائی کی مگر پھر چھوڑ دیا اور بعد میں کورٹ سے ضمانت بھی ہوگئی۔ جب دوست احباب کو پتا چلا کہ سچن کے پاس پاکستان سے ایک عورت چار بچوں کے ساتھ آگئی ہے تو اس کے انتہا پسند بی جے پی کے غنڈے دوست خوشی سے پھولے نہیں سمائے کہ ایک پاکستانی مسلمان عورت ایک ہندو کے عشق میں بھارت آگئی ہے اور وہ ہندو بھی بن گئی ہے پھر سچن کے گھر میں جشن کا سماں تھا۔
اس کے گھر میں جا بجا جے شری رام کے نعرے گونجنے لگے، اس کے دوست اسے ایک مہان دیوتا کا لقب دینے لگے خود اس کے والد نے کہا کہ سچن نے وہ کارنامہ انجام دیا ہے جو کوئی بھی بھارتی انجام نہ دے سکا۔
بھارتی میڈیا جو پاکستان دشمنی میں ساری حدیں پار کر چکا ہے اس نے سیما اور سچن کے اتنے انٹرویوز کیے کہ خود سیما اور سچن پریشان ہوگئے مگر مقصد صرف ایک تھا کہ پاکستانیوں اور بھارتی مسلمانوں کو شرمندہ کیا جائے، ادھر بھارتی خفیہ ادارے یہ شک کرنے لگے کہ اسے پاکستان سرکار نے جاسوسی کے لیے بھیجا ہے چنانچہ خفیہ ایجنسیاں اس وقت سیما سے پوچھ تاچھ کر رہی ہیں مگر ان لوگوں کو پتا ہی نہیں کہ اصل کہانی کیا ہے۔
سیما اپنی سوکن کی وجہ سے اپنے شوہر سے بے زار تھی حالانکہ غلام حیدر پہلی بیوی کو طلاق دے چکا ہے مگر چونکہ پہلی بیوی اب بھی غلام حیدر کے ماں باپ کے پاس رہ رہی ہے چنانچہ سیما کو یہ شک تھا کہ وہ پہلی بیوی سے اب بھی ملتا ہے چنانچہ لگتا ہے صرف اس کی سوکن کی جلن اسے بھارت لے کر گئی ہے۔
اب وہ پریشان ہے مگر پاکستان واپس آنا نہیں چاہتی چونکہ بلوچ روایت کے مطابق موت کی حق دار ٹھہرائی جا سکتی ہے چنانچہ اس نے ہندو مذہب بھی اپنا لیا ہے تاکہ اسے بھارت سے نہ نکالا جاسکے مگر لگتا ہے بھارتی ایجنسیاں جو پاکستانی ایجنسیوں سے بہت خوف زدہ ہیں وہ اسے پاکستانی جاسوس کے بہانے ضرور بھارت سے نکال کر رہیں گی۔