پھر اندھیرا ہے
خدشہ ہے کہ آئین شکنی کا معاملہ بھی زیادہ دیر تک موجودہ کیفیت میں نہیں رہے گا
خبریں ہیں کہ جناب آصف علی زرداری پنجاب میں ڈیرے ڈالیں گے۔ میرے محترم پروفیسر ڈاکٹر شہزاد اقبال شام کا سوال یہ تھا کہ کیا نواز شریف اس کے جواب میں سندھ میں قدم جمانے کی کوشش کریں گے؟
اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب ملتا، چیئرمین پی ٹی آئی کے سابق پرنسپل سیکریٹری نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے اس اقبالی بیان کے بعد کیا ہو گا؟ اگر اس قانون شکنی کو معمولی جرم سمجھا گیا تو اس کی سزا دو برس ہے۔
سنگین تصور کیا جائے تو چودہ برس اور بعض ماہرین قانون کے نزدیک معاملہ غداری تک جا پہنچے تو سزائے موت بھی ہے۔
اللہ رحم فرمائے، موت کی سزائیں ہم نے بہت دیکھ رکھی ہیں، بر سر عدالت بھی اور ماورائے عدالت بھی۔ اب معاملہ آگے بڑھنا چاہیے۔ معاملات سے سیاسی انداز میں نمٹنا چاہیے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست سے ٹکرانے والے بھی سیاسی اور جمہوری رویہ اختیار کریں۔
ولی خان مرحوم اور جنرل ضیا الحق کی کہانی یاد آتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
' قبر ایک ہے اور بندے دو '
ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ جنرل ضیا اگر بھٹو کو چھوڑ دیتے ہیں تو بھٹو انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ یوں گویا انھوں نے جنرل ضیا کی راہ نمائی کی تھی کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے پھر ضیا نے وہی کیا جو ان کے مفاد میں تھا۔
جنرل ضیا نے آئین شکنی کے بعد جب بھٹو کی حکومت توڑی اور تین ماہ کے عرصے میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس موقع پر ولی خان نے ایک اور بات بھی کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:
' پہلے احتساب پھر انتخاب '
جنرل ضیا نے یہ مشورہ بھی مان لیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ جب بھٹو کی موت میں سیاست دانوں کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو میاں طفیل محمد تو نشانہ تنقید بنائے جاتے ہیں لیکن ولی خان فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ ہے ۔ لمحۂ موجود میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہی کچھ ایک بار پھر دہرائے جانے کا امکان ہے۔
نصرت جاوید صاحب ہمارے ایسے صحافی اور کالم نگار ہیں جو مکھی پر مکھی نہیں مارتے، ہمیشہ نئی بات کہتے ہیں اور نیا راستہ دکھاتے ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے جہانگیر ترین کی جماعت استحکام پارٹی کے مرنجاں مرنج راہ نما اسحاق خاکوانی صاحب کا انٹرویو کیا ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے فرمایا ہے کہ انتخابات یوں ہوں، چاہے ووں، یہ ہمارے موجودہ مسائل کا حل نہیں ہیں۔
انھوں نے یہ کہنا بھی مناسب سمجھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی انتخابات میں اگر درست طریقے سے بھی شکست کھا گئے تو وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے اور ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
نصرت جاوید صاحب نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب سے بھی کم و بیش اسی موضوع پر بات کی ہے۔ ان کے خیال میں بھی انتخابات مسائل کا حل نہیں ہیں۔
اب ایک طرف ان دو بزرگوں کا مطالبہ نما تجزیہ دیکھیں اور دوسری طرف اعظم خان کی اڑائی ہوئی دھول تو تصویر کسی قدر مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
اسی تصویر سے خوف آتا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں وہ اپنا عرصہ اقتدار مکمل کر کے اقتدار نگراں سیٹ اپ کے حوالے کر دے گی۔ الیکشن کمیشن نے بارہ اگست سے پہلے یا بعد اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کی ممکنہ تاریخوں کے بارے میں اپنے اندازے دے دیے ہیں۔
قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے بھی یکم اگست تک نگراں وزیراعظم کے نام کے اعلان کا اشارہ دیا ہے۔ یوں ایک طرف سب سیٹ ہے بالکل ایسے ہی جیسے 1977 میں انتخابات کا پورا اسٹیج سیٹ ہو چکا تھا لیکن کچھ سیاست دانوں کے مشورہ نما بیانات بلکہ ڈراووں کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا۔ کیا اب بھی ویسا ہی کچھ ہونے جا رہا ہے؟
یہ واضح نہیں کہ انتخابات کا راستہ روکنے میں واقعی کوئی سنجیدہ ہے یا نہیں لیکن معاملات واقعی بہت بری طرح پھنس چکے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد خلاف ضابطہ بہت سے کام کیے ہیں۔
توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ سمیت بہت سے مقدمات ہیں لیکن سائفر کے ضمن میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مقدمے نے اب بہت سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔
اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی ایڈوائس پر اسمبلی کی تحلیل بھی ایک سنگین معاملہ ہے جسے سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
اس غیر آئینی اقدام کے بارے میں ابھی تک خاموشی ہے لیکن جس طرح اسحاق خاکوانی صاحب نے انتخابات کے التوا کے بارے میں دلائل دینے شروع کیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقدمہ انگڑائی لے کر جوان ہو گیا ہے، وہ چونکا دینے والا ہے۔ خدشہ ہے کہ آئین شکنی کا معاملہ بھی زیادہ دیر تک موجودہ کیفیت میں نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ ایک راستہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی روش بدلیں اور جوش انتقام میں ریاست سے ٹکرانے کے بجائے سیاسی طور طریقے اختیار کریں۔
ان کا اگر خیال یہ ہے کہ ان کی طرف سے خطرہ بنے رہنے میں ہی عافیت ہے اور اس طرح ان کا مستقبل محفوظ ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ اپنے برخود غلط رویے سے اپنے خلاف بہت کچھ اپنے دشمنوں کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ ان کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے تو ہم واقعی ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ جائیں گے اور نہیں آتا تو بھی بحران ہمارا راستہ دیکھ رہا ہے۔
اس ہنگامہ خیز صورت حال میں صرف دو امکانات ہی ایسے باقی بچے ہیں جو قوم کو سلامتی کے راستے کی طرف لے جاسکتے ہیں، اول چیئرمین پی ٹی آئی کا انتقامی کیفیت سے نکل کر سیاسی طور طریقے اختیار کرنا اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور دوم، نواز شریف صاحب کا ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کا فارمولا۔ یہ نہیں تو پھر اندھیرا ہے۔
اس سے پہلے کہ اس سوال کا جواب ملتا، چیئرمین پی ٹی آئی کے سابق پرنسپل سیکریٹری نے ہنگامہ کھڑا کر دیا۔ اب سوال یہ ہے کہ ان کے اس اقبالی بیان کے بعد کیا ہو گا؟ اگر اس قانون شکنی کو معمولی جرم سمجھا گیا تو اس کی سزا دو برس ہے۔
سنگین تصور کیا جائے تو چودہ برس اور بعض ماہرین قانون کے نزدیک معاملہ غداری تک جا پہنچے تو سزائے موت بھی ہے۔
اللہ رحم فرمائے، موت کی سزائیں ہم نے بہت دیکھ رکھی ہیں، بر سر عدالت بھی اور ماورائے عدالت بھی۔ اب معاملہ آگے بڑھنا چاہیے۔ معاملات سے سیاسی انداز میں نمٹنا چاہیے لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ریاست سے ٹکرانے والے بھی سیاسی اور جمہوری رویہ اختیار کریں۔
ولی خان مرحوم اور جنرل ضیا الحق کی کہانی یاد آتی ہے۔ انھوں نے کہا تھا:
' قبر ایک ہے اور بندے دو '
ان کا اشارہ اس جانب تھا کہ جنرل ضیا اگر بھٹو کو چھوڑ دیتے ہیں تو بھٹو انھیں نہیں چھوڑیں گے۔ یوں گویا انھوں نے جنرل ضیا کی راہ نمائی کی تھی کہ انھیں کیا کرنا چاہیے اور کیا نہیں کرنا چاہیے پھر ضیا نے وہی کیا جو ان کے مفاد میں تھا۔
جنرل ضیا نے آئین شکنی کے بعد جب بھٹو کی حکومت توڑی اور تین ماہ کے عرصے میں انتخابات کرانے کا اعلان کیا تو اس موقع پر ولی خان نے ایک اور بات بھی کہی تھی۔ انھوں نے کہا تھا:
' پہلے احتساب پھر انتخاب '
جنرل ضیا نے یہ مشورہ بھی مان لیا۔ حیرت ہوتی ہے کہ جب بھٹو کی موت میں سیاست دانوں کے کردار کا ذکر ہوتا ہے تو میاں طفیل محمد تو نشانہ تنقید بنائے جاتے ہیں لیکن ولی خان فراموش کر دیے جاتے ہیں۔ خیر، یہ تو ایک جملۂ معترضہ ہے ۔ لمحۂ موجود میں محسوس یہ ہوتا ہے کہ یہی کچھ ایک بار پھر دہرائے جانے کا امکان ہے۔
نصرت جاوید صاحب ہمارے ایسے صحافی اور کالم نگار ہیں جو مکھی پر مکھی نہیں مارتے، ہمیشہ نئی بات کہتے ہیں اور نیا راستہ دکھاتے ہیں۔
حال ہی میں انھوں نے جہانگیر ترین کی جماعت استحکام پارٹی کے مرنجاں مرنج راہ نما اسحاق خاکوانی صاحب کا انٹرویو کیا ہے۔ اس انٹرویو میں انھوں نے فرمایا ہے کہ انتخابات یوں ہوں، چاہے ووں، یہ ہمارے موجودہ مسائل کا حل نہیں ہیں۔
انھوں نے یہ کہنا بھی مناسب سمجھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی انتخابات میں اگر درست طریقے سے بھی شکست کھا گئے تو وہ نتائج تسلیم نہیں کریں گے اور ملک ایک نئے بحران سے دوچار ہو جائے گا۔
نصرت جاوید صاحب نے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی صاحب سے بھی کم و بیش اسی موضوع پر بات کی ہے۔ ان کے خیال میں بھی انتخابات مسائل کا حل نہیں ہیں۔
اب ایک طرف ان دو بزرگوں کا مطالبہ نما تجزیہ دیکھیں اور دوسری طرف اعظم خان کی اڑائی ہوئی دھول تو تصویر کسی قدر مکمل ہوتی دکھائی دیتی ہے۔
اسی تصویر سے خوف آتا ہے۔ حکومت کہہ رہی ہے کہ آئندہ چند روز میں وہ اپنا عرصہ اقتدار مکمل کر کے اقتدار نگراں سیٹ اپ کے حوالے کر دے گی۔ الیکشن کمیشن نے بارہ اگست سے پہلے یا بعد اسمبلی کی تحلیل کی صورت میں انتخابات کی ممکنہ تاریخوں کے بارے میں اپنے اندازے دے دیے ہیں۔
قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے بھی یکم اگست تک نگراں وزیراعظم کے نام کے اعلان کا اشارہ دیا ہے۔ یوں ایک طرف سب سیٹ ہے بالکل ایسے ہی جیسے 1977 میں انتخابات کا پورا اسٹیج سیٹ ہو چکا تھا لیکن کچھ سیاست دانوں کے مشورہ نما بیانات بلکہ ڈراووں کے بعد سارا منظر ہی بدل گیا۔ کیا اب بھی ویسا ہی کچھ ہونے جا رہا ہے؟
یہ واضح نہیں کہ انتخابات کا راستہ روکنے میں واقعی کوئی سنجیدہ ہے یا نہیں لیکن معاملات واقعی بہت بری طرح پھنس چکے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی نے اقتدار میں رہتے ہوئے اور اقتدار سے نکلنے کے بعد خلاف ضابطہ بہت سے کام کیے ہیں۔
توشہ خانہ اور ممنوعہ فنڈنگ سمیت بہت سے مقدمات ہیں لیکن سائفر کے ضمن میں آفیشل سیکریٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مقدمے نے اب بہت سنگین صورت اختیار کر لی ہے۔
اسی طرح تحریک عدم اعتماد کے موقع پر ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ اور اس کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی ایڈوائس پر اسمبلی کی تحلیل بھی ایک سنگین معاملہ ہے جسے سپریم کورٹ غیر آئینی قرار دے چکی ہے۔
اس غیر آئینی اقدام کے بارے میں ابھی تک خاموشی ہے لیکن جس طرح اسحاق خاکوانی صاحب نے انتخابات کے التوا کے بارے میں دلائل دینے شروع کیے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کا مقدمہ انگڑائی لے کر جوان ہو گیا ہے، وہ چونکا دینے والا ہے۔ خدشہ ہے کہ آئین شکنی کا معاملہ بھی زیادہ دیر تک موجودہ کیفیت میں نہیں رہے گا۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو حالات کے بدلنے میں دیر نہیں لگے گی۔
اب سوال یہ ہے کہ اس طرح کے کسی ممکنہ حادثے سے بچنے کا راستہ کیا ہے؟ ایک راستہ تو یہی ہو سکتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی اپنی روش بدلیں اور جوش انتقام میں ریاست سے ٹکرانے کے بجائے سیاسی طور طریقے اختیار کریں۔
ان کا اگر خیال یہ ہے کہ ان کی طرف سے خطرہ بنے رہنے میں ہی عافیت ہے اور اس طرح ان کا مستقبل محفوظ ہے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ وہ اپنے برخود غلط رویے سے اپنے خلاف بہت کچھ اپنے دشمنوں کے ہاتھ میں دے چکے ہیں۔ ان کے خلاف قانون حرکت میں آتا ہے تو ہم واقعی ایک بڑے بحران کی طرف بڑھ جائیں گے اور نہیں آتا تو بھی بحران ہمارا راستہ دیکھ رہا ہے۔
اس ہنگامہ خیز صورت حال میں صرف دو امکانات ہی ایسے باقی بچے ہیں جو قوم کو سلامتی کے راستے کی طرف لے جاسکتے ہیں، اول چیئرمین پی ٹی آئی کا انتقامی کیفیت سے نکل کر سیاسی طور طریقے اختیار کرنا اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کرنا اور دوم، نواز شریف صاحب کا ٹرتھ اینڈ ری کنسیلی ایشن کا فارمولا۔ یہ نہیں تو پھر اندھیرا ہے۔