کراچی کا حقیقی مینڈیٹ
بلدیاتی الیکشن سے کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کی نمایندگی نہیں ہوئی
سندھ کے وزیر بلدیات ناصر حسین شاہ نے کہا ہے کہ کراچی کی بلدیہ عظمیٰ کی 105 یوسیز کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی اور 86 نشستیں جماعت اسلامی نے جیتی ہیں تو جماعت اسلامی بتائے کہ ان کا کون سا مینڈیٹ چوری ہوا ہے۔
پیپلز پارٹی نے اپنی کارکردگی کے باعث سب سے زیادہ نشستیں جیت کر کراچی کے میئر کا عہدہ حاصل کیا ہے۔ کراچی کو پیپلز پارٹی نے تباہ نہیں کیا بلکہ بنایا ہے اور کراچی میں اپنی کارکردگی کے باعث ایم کیو ایم کو ضرور تباہ کیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اپنی عزت ضرور بچا لی ہے۔
میئر کراچی کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم سندھ حکومت پر مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چوری کر کے اپنا میئر منتخب کرایا ہے جو جعلی میئر ہیں جنھیں ہم تسلیم نہیں کرتے۔ کراچی میں اس سال جنوری میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، جس کا ایم کیو ایم نے اس بنا پر بائیکاٹ کیا تھا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے غلط حلقہ بندیاں کی گئیں۔
سندھ حکومت نے نہ صرف کراچی کے دیہی علاقوں کی اکثریت پر مشتمل نیا ضلع کیماڑی بنایا بلکہ 25 ٹاؤن قائم کیے اور یوسیز بنائیں۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ پی پی کی سندھ حکومت نے دیہی علاقوں میں کم آبادی پر مشتمل اور شہری علاقوں میں اسی نوے ہزار آبادی پر مشتمل یوسیز بنائیں جہاں پی پی کا ووٹ بینک تھا وہاں شہری یوسیز کے مقابلے میں نصف سے بھی کم آبادی کی یوسیز بنائیں تاکہ اکثریت کے ذریعے کراچی پر قبضہ کرکے اپنا میئر منتخب کرا سکے۔
ایم کیو ایم نے عدالتی کارروائی بھی کی مگر الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کی سنی نہ عدلیہ میں ان کی شنوائی ہوئی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ایم کیو ایم باہمی طور پر تقسیم بھی تھی۔
بلدیاتی انتخابات کو اس سے قبل سندھ حکومت نے متعدد بار ملتوی بھی کرایا جس میں جماعت اسلامی مزاحمت کرتی رہی تھی اور ایم کیو ایم بھی درست حلقہ بندیوں تک التوا چاہتی تھی مگر بلدیاتی الیکشن منعقد ہوگئے تھے جن میں ابتدائی نتائج میں جماعت اسلامی کی نشستیں پی پی سے زیادہ تھیں جو بعد میں کم ہوتی اور پی پی کی بڑھتی رہیں جس کو جماعت اسلامی نے تسلیم نہیں کیا اور وہ دھاندلی کے الزامات سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن پر لگاتی رہی کہ سندھ حکومت نے دھاندلی سے اس کی نشستیں کم کرائیں۔
کراچی میں تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی تھی اور جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مل کر کراچی میں اپنا میئر اور ڈپٹی میئر باآسانی لا سکتے تھے مگر میئر کراچی کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے پی پی کو یہ موقعہ فراہم کردیا اور پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا جیالا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔
نو مئی سے قبل جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی قیادت نے اتفاق کرلیا تھا کہ دونوں مل کر اپنے میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرائیں گی اور پیپلز پارٹی کا میئر نہیں آنے دیں گی۔ پیپلز پارٹی کی ابتدا میں سب سے زیادہ نشستیں نہیں تھی اور وہ چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی میئر کی بجائے ڈپٹی میئر کا عہدہ لے لے اور پی پی کا میئر منتخب ہونے دے۔
جماعت اسلامی کی شہر کے 25 ٹاؤنز میں سے نو میں واضح اکثریت تھی جہاں بعد میں جماعت اسلامی نے اپنے چیئرمین منتخب کرائے مگر اصل مسئلہ میئر کراچی کے عہدے کا حصول تھا جس کے لیے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس واضح اکثریت بھی تھی مگر میئر الیکشن سے قبل سانحہ 9 مئی ہو گیا اور پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی جس کا فائدہ کراچی میں پی پی نے اٹھایا اور اس نے اندرون خانہ پی ٹی آئی کے چیئرمینوں سے رابطے شروع کرکے انھیں پی ٹی آئی قیادت کے فیصلے کونہ ماننے پر راضی کرلیا اور تیس کے قریب پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمینوں نے اعلان کر دیا کہ ہم حافظ نعیم کو میئرکا ووٹ نہیں دیں گے۔
پی ٹی آئی کے ان منحرف ارکان کا موقف تھا کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی نے ان سے مشورہ کیے بغیر حافظ نعیم کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو ہمیں قبول نہیں اس لیے ہم میئر کے انتخاب میں کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جماعت اسلامی کے مطابق یہ سندھ حکومت کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس پر الیکشن سے چند روز قبل عمل ہوا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین پہلے غائب ہوئے پھر میئر الیکشن میں ووٹ دینے ہی نہ آئے اور منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی نے پہلی بار کراچی میں اپنا میئر اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے کو ڈپٹی میئر منتخب کرانے میں کامیابی حاصل کرلی اور اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے اپنی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے یہ مینڈیٹ پر ڈاکہ کیسے ہوا جس میں جماعت اسلامی ہاری ہے۔ کہنے کی حد تک پی پی کا دعویٰ درست ہے کہ مینڈیٹ نہیں چرایا گیا بلکہ میئر الیکشن کے نتیجے میں منتخب کرایا گیا ہے۔
ایم کیو ایم جماعت اسلامی کے خلاف ہے وہ بھی کراچی میں جماعت کا میئر نہیں چاہتی تھی اور پی پی کا میئر بھی انھیں قبول نہیں ہے اور میئر کا عہدہ یا بلدیاتی اکثریت پی پی کے پاس جا چکا ہے مگر اپنی سیاست کے لیے ایم کیو ایم پی پی کے میئر کی حمایت نہیں کر رہی، البتہ ایم کیو ایم بھی پی پی کی طرح وفاق میں حکومت کی اتحادی ضرور ہے مگر ایم کیو ایم کے رہنما کھلے عام پی پی کی سندھ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے جس پر وزیر بلدیات نے کہا ہے کہ پی پی نے کراچی کو نہیں البتہ ایم کیو ایم کو کراچی میں ضرور تباہ کردیا ہے۔
کراچی کا مینڈیٹ تقریباً تیس سال تک ایم کیو ایم کے پاس رہا ہے جب وہ تقسیم نہیں تھی۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو کراچی کا جعلی مینڈیٹ دلایا گیا تھا جب کہ ایم کیو ایم اپنی تقسیم کے باعث کمزور ہوئی اور ضمنی الیکشن بھی ہارتی رہی جس کے بعد انھیں باہمی اختلافات ختم کرنے کا ہوش آیا اور تین بڑے دوبارہ ایک ہوئے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کی نمایندگی نہیں ہوئی اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ نہ کرتی تو جماعت اسلامی کو 86 نشستیں کبھی نہ ملتیں اور کراچی کا میئر بھی پیپلز پارٹی منتخب نہ کراسکتی تھی اس لیے پی پی کا کراچی کا مینڈیٹ ہونے اور جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چوری کیے جانے کا دعویٰ غلط ہے اور کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کا ثبوت نئے عام انتخابات ہی میں سامنے آسکے گا۔
پیپلز پارٹی نے اپنی کارکردگی کے باعث سب سے زیادہ نشستیں جیت کر کراچی کے میئر کا عہدہ حاصل کیا ہے۔ کراچی کو پیپلز پارٹی نے تباہ نہیں کیا بلکہ بنایا ہے اور کراچی میں اپنی کارکردگی کے باعث ایم کیو ایم کو ضرور تباہ کیا جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بلدیاتی الیکشن کا بائیکاٹ کرکے اپنی عزت ضرور بچا لی ہے۔
میئر کراچی کا عہدہ حاصل کرنے میں ناکام رہنے والے امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم سندھ حکومت پر مسلسل الزام لگا رہے ہیں کہ اس نے جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چوری کر کے اپنا میئر منتخب کرایا ہے جو جعلی میئر ہیں جنھیں ہم تسلیم نہیں کرتے۔ کراچی میں اس سال جنوری میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے، جس کا ایم کیو ایم نے اس بنا پر بائیکاٹ کیا تھا کہ سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن کی ملی بھگت سے غلط حلقہ بندیاں کی گئیں۔
سندھ حکومت نے نہ صرف کراچی کے دیہی علاقوں کی اکثریت پر مشتمل نیا ضلع کیماڑی بنایا بلکہ 25 ٹاؤن قائم کیے اور یوسیز بنائیں۔
الزام لگایا جا رہا ہے کہ پی پی کی سندھ حکومت نے دیہی علاقوں میں کم آبادی پر مشتمل اور شہری علاقوں میں اسی نوے ہزار آبادی پر مشتمل یوسیز بنائیں جہاں پی پی کا ووٹ بینک تھا وہاں شہری یوسیز کے مقابلے میں نصف سے بھی کم آبادی کی یوسیز بنائیں تاکہ اکثریت کے ذریعے کراچی پر قبضہ کرکے اپنا میئر منتخب کرا سکے۔
ایم کیو ایم نے عدالتی کارروائی بھی کی مگر الیکشن کمیشن نے ایم کیو ایم کی سنی نہ عدلیہ میں ان کی شنوائی ہوئی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم نے بلدیاتی انتخابات کا بائیکاٹ کیا تھا اور ایم کیو ایم باہمی طور پر تقسیم بھی تھی۔
بلدیاتی انتخابات کو اس سے قبل سندھ حکومت نے متعدد بار ملتوی بھی کرایا جس میں جماعت اسلامی مزاحمت کرتی رہی تھی اور ایم کیو ایم بھی درست حلقہ بندیوں تک التوا چاہتی تھی مگر بلدیاتی الیکشن منعقد ہوگئے تھے جن میں ابتدائی نتائج میں جماعت اسلامی کی نشستیں پی پی سے زیادہ تھیں جو بعد میں کم ہوتی اور پی پی کی بڑھتی رہیں جس کو جماعت اسلامی نے تسلیم نہیں کیا اور وہ دھاندلی کے الزامات سندھ حکومت اور الیکشن کمیشن پر لگاتی رہی کہ سندھ حکومت نے دھاندلی سے اس کی نشستیں کم کرائیں۔
کراچی میں تیسرے نمبر پر پی ٹی آئی تھی اور جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی مل کر کراچی میں اپنا میئر اور ڈپٹی میئر باآسانی لا سکتے تھے مگر میئر کراچی کا عہدہ حاصل کرنے کے لیے پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت نے منصوبہ بندی کر رکھی تھی اور ایم کیو ایم کے بائیکاٹ نے پی پی کو یہ موقعہ فراہم کردیا اور پیپلز پارٹی کراچی میں اپنا جیالا میئر منتخب کرانے میں کامیاب ہوگئی۔
نو مئی سے قبل جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی قیادت نے اتفاق کرلیا تھا کہ دونوں مل کر اپنے میئر اور ڈپٹی میئر منتخب کرائیں گی اور پیپلز پارٹی کا میئر نہیں آنے دیں گی۔ پیپلز پارٹی کی ابتدا میں سب سے زیادہ نشستیں نہیں تھی اور وہ چاہتی تھی کہ جماعت اسلامی میئر کی بجائے ڈپٹی میئر کا عہدہ لے لے اور پی پی کا میئر منتخب ہونے دے۔
جماعت اسلامی کی شہر کے 25 ٹاؤنز میں سے نو میں واضح اکثریت تھی جہاں بعد میں جماعت اسلامی نے اپنے چیئرمین منتخب کرائے مگر اصل مسئلہ میئر کراچی کے عہدے کا حصول تھا جس کے لیے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی کے پاس واضح اکثریت بھی تھی مگر میئر الیکشن سے قبل سانحہ 9 مئی ہو گیا اور پی ٹی آئی میں ٹوٹ پھوٹ شروع ہوگئی جس کا فائدہ کراچی میں پی پی نے اٹھایا اور اس نے اندرون خانہ پی ٹی آئی کے چیئرمینوں سے رابطے شروع کرکے انھیں پی ٹی آئی قیادت کے فیصلے کونہ ماننے پر راضی کرلیا اور تیس کے قریب پی ٹی آئی کے یوسی چیئرمینوں نے اعلان کر دیا کہ ہم حافظ نعیم کو میئرکا ووٹ نہیں دیں گے۔
پی ٹی آئی کے ان منحرف ارکان کا موقف تھا کہ انھوں نے جماعت اسلامی کے امیدواروں کو ہرا کر کامیابی حاصل کی تھی اور پی ٹی آئی نے ان سے مشورہ کیے بغیر حافظ نعیم کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو ہمیں قبول نہیں اس لیے ہم میئر کے انتخاب میں کسی کو ووٹ نہیں دیں گے۔ جماعت اسلامی کے مطابق یہ سندھ حکومت کا سوچا سمجھا منصوبہ تھا جس پر الیکشن سے چند روز قبل عمل ہوا۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین پہلے غائب ہوئے پھر میئر الیکشن میں ووٹ دینے ہی نہ آئے اور منصوبے کے تحت پیپلز پارٹی نے پہلی بار کراچی میں اپنا میئر اردو بولنے والے اور سندھی بولنے والے کو ڈپٹی میئر منتخب کرانے میں کامیابی حاصل کرلی اور اب دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ ہم نے اپنی اکثریت سے کامیابی حاصل کی ہے یہ مینڈیٹ پر ڈاکہ کیسے ہوا جس میں جماعت اسلامی ہاری ہے۔ کہنے کی حد تک پی پی کا دعویٰ درست ہے کہ مینڈیٹ نہیں چرایا گیا بلکہ میئر الیکشن کے نتیجے میں منتخب کرایا گیا ہے۔
ایم کیو ایم جماعت اسلامی کے خلاف ہے وہ بھی کراچی میں جماعت کا میئر نہیں چاہتی تھی اور پی پی کا میئر بھی انھیں قبول نہیں ہے اور میئر کا عہدہ یا بلدیاتی اکثریت پی پی کے پاس جا چکا ہے مگر اپنی سیاست کے لیے ایم کیو ایم پی پی کے میئر کی حمایت نہیں کر رہی، البتہ ایم کیو ایم بھی پی پی کی طرح وفاق میں حکومت کی اتحادی ضرور ہے مگر ایم کیو ایم کے رہنما کھلے عام پی پی کی سندھ حکومت پر کرپشن کے الزامات لگا رہی ہے جس پر وزیر بلدیات نے کہا ہے کہ پی پی نے کراچی کو نہیں البتہ ایم کیو ایم کو کراچی میں ضرور تباہ کردیا ہے۔
کراچی کا مینڈیٹ تقریباً تیس سال تک ایم کیو ایم کے پاس رہا ہے جب وہ تقسیم نہیں تھی۔ 2018 میں پی ٹی آئی کو کراچی کا جعلی مینڈیٹ دلایا گیا تھا جب کہ ایم کیو ایم اپنی تقسیم کے باعث کمزور ہوئی اور ضمنی الیکشن بھی ہارتی رہی جس کے بعد انھیں باہمی اختلافات ختم کرنے کا ہوش آیا اور تین بڑے دوبارہ ایک ہوئے ہیں۔
بلدیاتی الیکشن سے کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کی نمایندگی نہیں ہوئی اگر ایم کیو ایم بائیکاٹ نہ کرتی تو جماعت اسلامی کو 86 نشستیں کبھی نہ ملتیں اور کراچی کا میئر بھی پیپلز پارٹی منتخب نہ کراسکتی تھی اس لیے پی پی کا کراچی کا مینڈیٹ ہونے اور جماعت اسلامی کا مینڈیٹ چوری کیے جانے کا دعویٰ غلط ہے اور کراچی کے حقیقی مینڈیٹ کا ثبوت نئے عام انتخابات ہی میں سامنے آسکے گا۔