مہنگائی کے مارے عوام کےلیے دوا بھی خواب
گزشتہ ڈیڑھ سال کے عرصے میں پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ اس بے یقینی کی فضا میں پاکستان پر ڈیفالٹ کرجانے کے سائے بھی مںڈلاتے رہے۔ پاکستان کی درآمدات اور ترسیلات زر میں واضح کمی دیکھنے میں آئی۔ جس کی وجہ سے گزشتہ مالی سال میں پاکستان کو آٹھ ارب تیس کروڑ ڈالر کے خسارے کا سامنا کرنا پڑا۔
دوسری جانب پاکستان میں مہنگائی کی شرح نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے ہیں اور لگتا یہی ہے کہ مہنگائی کا یہ طوفان اگلے مالی سال میں بھی تھمنے والانہیں۔ آئی ایم ایف کے مطابق اگلے مالی سال مہنگائی کی شرح 25.9 فیصد ہوسکتی ہے۔
ایک جانب عام آدمی کےلیے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرنا بھی مشکل ترین ہوگیا ہے اور اگر ایسے میں کوئی بیماری آگھیرے تو ادویہ کا حصول بھی ایک کٹھن مرحلہ ہے، جن کی قیمتیں غریب آدمی کی استطاعت سے باہر ہیں۔
حکومت کی جانب سے مہنگائی کو کنٹرول کرنے کی کوئی پالیسی نظر نہیں آتی، چاہے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو یا بجلی کے بنیادی ٹیرف میں حالیہ سات روپے پچاس پیسے کا اضافہ یا پھر مئی 2023 میں ادویہ کی قیمتوں میں بیس فیصد اضافہ، پس عوام ہی رہے ہیں۔
ادویہ کی قیمتیں بھی ایک ایسا مسئلہ ہے جس کو لے کر فارماسیوٹیکل انڈسٹری، ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی اورحکومت کے درمیان ہمیشہ تحفظات پائے جاتے ہیں۔ فارما انڈسٹری کو ہمیشہ ہی حکومت کی جانب سے کیے گئے اضافے پر شکایتیں رہتی ہیں اور وہ مطمئن نظر نہیں آتے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران دواؤں کی قیمتوں میں چار بار اضافہ کیا گیا تھا، جو اندازے کے مطابق قیمتوں میں تیس فیصد تک اضافہ تھا جبکہ بعض ادویہ کی قیمتوں میں چار سو فیصد تک اضافہ بھی ریکارڈ کیا گیا۔ یہی صورتحال اس بار بھی دیکھنے میں آئی جب ادویہ کی قیمتوں کے معاملے پر پاکستان فارما انڈسٹری اور ہیلتھ منسٹری کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا ہوگیا اور آٹے کے بحران کے ساتھ ہی ادویہ کا شدید بحران بھی دیکھنے میں آیا تھا۔ ایسے میں مریضوں کے پاس سوائے اسمگل شدہ دوائیں خریدنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔
آخرکار حکومت نے فارما انڈسٹری کے مطالبے پر مجبور ہوکر ادویہ کی قیمتوں میں بیس فیصد اضافہ کردیا۔ پاکستان کی فارما انڈسٹری اس اضافے پر بھی تحفظات رکھتی ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ان کو اپنی دواؤں کی صحیح قیمت نہیں مل رہی۔ تاہم اقتصادی ماہرین کے مطابق پاکستان کی فارماسیوٹیکل انڈسٹری کے منافع میں تو مثبت پیش رفت اور مسلسل اضافہ ہی دیکھنے میں آرہا ہے۔ جس کا ثبوت وزارت صحت کے ذرائع کی جانب سے سال 23-2022 کے اعداد و شمار ہیں۔
ایک سال کے دوران فارما انڈسٹری نے 40 کروڑ 70 لاکھ ملین ڈالرز کے سرجیکل اور میڈیکل آلات، جبکہ 30 کروڑ 60 لاکھ ملین ڈالرکی ادویہ برآمد کی ہیں۔ ان اعداد و شمار کے مطابق سال 2022-23 میں فارما ایکسپورٹ کی مقدار میں 25 ہزار 910 میٹرک ٹن اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ گزشتہ ایک سال کے دوران فارما انڈسٹری نے 51 ہزار 964 میٹرک ٹن دوائیں اور طبی آلات برآمد کیے جبکہ گزشتہ مالی سال کے دوران فارما انڈسٹری نے 26 ہزار 54 میٹرک ٹن ادویہ اور طبی آلات برآمد کیے۔ لیکن کیا یہاں یہ سوال نہیں بنتا کہ دواؤں کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ انڈسٹری کےلیے تو فائدہ مند ہے لیکن کیا یہ غریب عوام کا استحصال نہیں؟ پاکستان میں ادویہ کی قیمتوں پر حکومت، ڈریپ اور فارما انڈسٹری کے درمیان کوئی واضح فریم ورک اور پالیسی کیوں طے نہیں کی جاتی؟ اس حوالے سے ہم نے کچھ سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی کوشش کی ہے۔
پاکستان کی ڈرگ پرائزنگ پالیسی 2018 موجود ہونے کے باوجود ایک ہی دوا کی قیمت مخلتف کیوں ہے؟
اس سوال کے جواب میں پاکستان فارما سیوٹیکل مینوفیکچرنگ ایسوسی ایشن کے سابق چیئرمین ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا ہے کہ پاکستان کی ڈرگ پرائزنگ پالیسی خطے میں ادویہ کی قیمت پر انحصار کرتی ہے۔ پاکستان کے پڑوسی بنگلہ دیش، سری لنکا اور بھارت میں ادویہ کی قیمت کا اوسط نکالا جاتا ہے
اور جو اوسط میں سب سے کم ہو، اس سے پاکستان میں دوا کی قیمت کا تعین کیا جاتا ہے۔
اسی سوال کے جواب میں پاکستان کی ایک معروف فارما سیوٹیکل کمپنی کے سی ای او فہد الیاس نینی تال والا کا کہنا ہے کہ 2018 میں پرائزنگ پالیسی کے مطابق مختلف کمپنیوں کی ادویہ کی قیمت ایک ہی ہونی چاہیے، تاہم جب معاملہ اس پر عمل کرنے پر آتا ہے تو کوئی سنجیدگی دکھائی نہیں دیتی۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ فارما کمپنیز اور فارما ایسوسی ایشن کا مشترکہ مطالبہ ہے کہ ایک ہی دوا کی قیمت الگ الگ کمپنی کی مختلف نہیں ہونی چاہیے۔
ماہر کیمیائی و حیاتیاتی ادویات ڈاکٹر عبید علی کا اس حوالے سے کہنا ہے کہ پاکستان میں دواؤں کی قیمتوں کی واضح پالیسی موجود ہے مگر پالیسی نقائص سے بھرپور ہے۔ انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ اس پالیسی پر امیر لوگوں کا غلبہ ہے، وہ اپنی طاقت کا استعمال کرتے ہیں جس کا واضح ثبوت فارما کمپنیوں کے درمیان ایک ہی دوا کی قیمت کا مختلف ہونا ہے۔
پاکستان میں ادویہ کی قیمتوں کی واضح پالیسی کیوں نہیں؟
اس حوالے سے فہد الیاس نینی تال والا کا کہنا ہے کہ 2018 کی پرائزنگ پالیسی پر عمل نہیں ہورہا۔
ڈاکٹر قیصر وحید کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ جو قدغن دواؤں کی قیمتوں پر لگائی جاتی ہے۔
یہاں غور طلب بات یہ ہے کہ اگر کچھ پروڈکٹس کی قیمت کم بڑھتی ہیں اور ان کی قیمت زیادہ بڑھنی چاہیے تو دوسری جانب بہت سی دوائیں ایسی ہیں جو تعداد میں چالیس پچاس فیصد ہوں، جن کی قیمت عالمی سطح پر کم بھی ہوئی ہیں۔ جب قیمت بڑھانے کےلیے دباؤ ڈالا جاتا ہے تو قیمت کم کرنے کےلیے بھی کوئی میکنزم ہونا چاہیے۔
قیمت کم کرنے کےلیے کیا میکنزم ہونا چاہیے؟
اس حوالے سے فارما انڈسٹری پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ تمام ادویہ کی قیمتیں پرائزنگ پالیسی کے تحت ازسرنو ان کی قیمتوں کی اسکروٹنی کرکے قمیت کا تعین کیا جائے۔ اس طرح 70 سے 80 فیصد دواؤں کی قیمتیں کم ہوجائیں گی۔
دواؤں کی قیمتیں اور ڈریپ کا کردار
فہد الیاس نینی تال والا کا کہنا ہے کہ ڈریپ میں بہت بہتری آئی ہے، تاہم انہوں نے گلہ کیا کہ ڈریپ کی سلو پروسیسنگ کی وجہ نئی پروڈکٹ لانچ کرنے میں بعض اوقات تین سے پانچ سال لگ جاتے ہیں، جس سے انڈسٹری کا نقصان ہوتا ہے۔
ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا ہے کہ ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی ابھی ناتجربہ کار ہے اور ان کے پروسیس میں غلطیاں ہورہی ہیں۔
پاکستان میں غیرملکی فارما کمپنیوں کا کردار
فہد الیاس نینی تال والا کا کہنا ہے کہ غیر ملکی کمپنیاں سمٹ کر دس پندرہ رہ گئی ہیں اور ملکی کمپنیاں چھ سو سے ساڑھے چھ سو تک رہ گئی ہیں۔ پاکستان میں اس وقت تیس فیصد دوائیں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی ہیں جبکہ ستر فیصد پاکستانی کمپنیوں کی ہیں۔ اور اگر پروڈکشن کی بات کریں تو وہ پچانوے فیصد پاکستان میں ہی ہورہی ہے۔
مارکیٹ میں ادویہ کا بحران کیوں ہوتا ہے؟
اس حوالے سے فارما انڈسٹری کے ماہرین کا کہنا ہے کہ جن دنوں میں قیمتیں بڑھنے کا امکان ہوتا ہے تمام انڈسٹری کا مکینزم سلو کیا جاتا ہے اور اسی وجہ سے مارکیٹ میں دواؤں کا بحران پیدا ہوجاتا ہے۔
دواؤں کی قیمتوں میں ردوبدل کیوں ضروری ہے؟
ڈاکٹر قیصر وحید کا کہنا ہے کہ پاکستان میں دواسازی کےلیے پچانوے فیصد خام مال امپورٹ ہوتا ہے۔ اور کیونکہ وہ ڈالر بیسڈ ہوتا ہے اس لیے اس کا اثر دوا کی قیمتوں پر بھی پڑتا ہے۔
ڈاکٹر عبید علی کا پاکستان فارما ایسوسی ایشن کے کردار کے حوالے سے کہنا ہے کہ ادویہ کی قیمتوں میں ردوبدل کرنا ضروری ہے کیونکہ اگر ردو بدل نہیں کریں گے تو وہ دوائیں مارکیٹ سے غائب ہوجائیں گی۔ اس لیے مریضوں کے مفاد میں مارکیٹ پر یہ نظر رکھنا انتہائی اہم ہے کہ کس دوا کو غائب نہیں ہونے دیا جاسکتا۔
اس حوالے سے ہم نے ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی پاکستان کا موقف حاصل کرنے کی بھی کوشش کی۔ ڈریپ ذرائع نے بتایا کہ ڈریپ ایک ریگولیٹر باڈی ہے، اس کا کام قیمت کا حساب لگانا ہے لیکن کسی بھی دوا کی قیمت کا تعین وفاقی حکومت کرتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ ادویہ کی قیمت صرف بڑھتی ہے، ڈریپ نے ادویہ میں استعمال ہونے والے بہت سے جنیرک سالٹ کی قیمتوں میں کمی بھی کی ہے۔ لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ قیمتیں بڑھنے سے پہلے ہی میڈیا میں اس حوالے سے شور مچ جاتا ہے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ ہر دوا پر ایم آر پی نمبر لکھا ہوتا ہے، اس سے زیادہ کی قیمت پر کوئی بھی دوا نہیں بیچ سکتا اور اگر ایسی کوئی شکایت ہے تو وہ ڈریپ کو کی جاسکتی ہے۔ فارما انڈٖسٹری کو ہم سے شکایت ایک فطری عمل ہے کیونکہ ہم ریگولیٹر ہیں تو ظاہر ہے ہمیں عوام کا مفاد بھی دیکھنا ہے۔ جہاں تک یہ بات ہے کہ ڈریپ انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کو اپنا Rely Mechanism بینچ مارک کے طور پر سمجھتا ہے تو ظاہر ہے جب انڈسٹری ان کے اسٹینڈرڈ کو دوا کے فارمولے کے طور پر استعمال کرتی ہے تو پھر ہم بھی اسی اسٹینڈرڈ کو سامنے رکھ کر ہی دوا کی کوالٹی اور قیمتوں کا حساب کرتے ہیں۔
فارما انڈسٹری اور حکومت کے درمیان معاملات جو بھی ہوں لیکن ادویہ بالخصوص جان بچانے والی دواؤں کی قیمتوں کا تعین بہت ضروری ہے تاکہ ادویہ عام آدمی کی پہنچ میں رہیں۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔