انٹربینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں پھر اضافہ
انٹربینک میں ڈالر کی قدر 1.11 روپے کے اضافے سے 287.92 روپے اور اوپن مارکیٹ میں 2 روپے اضافے سے 293 روپے پر بند ہوئی
نگراں حکومت کے قیام کے بعد کی صورتحال سے متعلق خدشات پر تجارتی و صنعتی شعبوں کی ڈیمانڈ کے باعث پیر کو بھی ڈالر کی پیش قدمی جاری رہی جس سے ڈالر کے انٹربینک ریٹ 287 روپے سے تجاوز کرگئے جبکہ اوپن ریٹ بھی 293 روپے کی سطح پر آگئے۔
ایکسپریس کے مطابق آئی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح تبادلہ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے اور سٹے بازوں کی مبینہ طور پر متحرک ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافے کا تسلسل جاری ہے۔ پیر کو انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے ابتدائی دورانیے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 34 پیسے کی کمی سے 286 روپے 47 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن وقفے وقفے سے نئے درآمدی ایل سیز اور بندرگاہوں پر رکے ہوئے کنٹینرز کے لیے ڈیمانڈ بڑھنے سے ڈالر کی دوبارہ پیش قدمی شروع ہوئی۔
نتیجے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 1.39 روپے کے اضافے سے 288.20 روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی تاہم کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1.11 روپے کے اضافے سے 287.92 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 2 روپے کے اضافے سے 293 روپے پر بند ہوئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین کی 2 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے پر رضامندی اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود ڈالر کی پیش قدمی جاری ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح تبادلہ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے اور سٹے بازوں کی مبینہ طور پر متحرک ہونے سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ملک میں جو انفلوز آنے تھے وہ آگئے ہیں لہذا اب مزید انفلوز کی آمد بتدریج ہوسکے گی۔
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے درآمدی ایل سیز اور بندرگاہوں پر رکے ہوئے کنٹینرز کے لیے مطلوبہ ڈیمانڈ کے ساتھ مستقبل کے حالات سے متعلق غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے تجارتی و صنعتی شعبوں کی بھی پینک بائینگ سے ڈالر کی پیش قدمی جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 ماہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا جبکہ رواں ماہ کرنٹ اکاؤنٹ دوبارہ خسارے کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات پر قدغن ختم کرنا مجبوری بھی تھی اور ملک کے لیے ضرورت بھی، انہی ضروریات کے لیے ڈالر کی ڈیمانڈ مستقل بڑھتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال 2024ء میں 6 اعشاریہ 4 ارب ڈالر مالیت کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگا جو مالی سال 2023ء میں 2.5 ارب ڈالر رہا ہے اس لیے آنے والے برسوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کی پیش گوئی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران ڈالر کی ڈیمانڈ اور پرواز جاری رہے گی اور روپیہ بتدریج ڈی ویلیو ہوتا رہے گا۔
انٹربینک مارکیٹ اس وقت بھی مذکورہ سمت پر گامزن ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے مارکیٹ بیسڈ ایکس چینج ریٹ رکھنے کی شرط عائد کر رکھی ہے اور اسی پالیسی پر مارکیٹ میں عمل درآمد نظر آرہا ہے جس سے روپیہ دباؤ کی زد میں ہے اور زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں سپلائی کی بہ نسبت ڈیمانڈ بہت زیادہ ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے مالی سال 2024ء میں اوسطاً ڈالر ریٹ 306 روپے ہونے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ڈالر کی بہ نسبت روپے کی قدر بتدریج کم ہوگی۔
ایکسپریس کے مطابق آئی ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح تبادلہ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے اور سٹے بازوں کی مبینہ طور پر متحرک ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافے کا تسلسل جاری ہے۔ پیر کو انٹربینک مارکیٹ میں کاروبار کے ابتدائی دورانیے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 34 پیسے کی کمی سے 286 روپے 47 پیسے کی سطح پر بھی آگئی تھی لیکن وقفے وقفے سے نئے درآمدی ایل سیز اور بندرگاہوں پر رکے ہوئے کنٹینرز کے لیے ڈیمانڈ بڑھنے سے ڈالر کی دوبارہ پیش قدمی شروع ہوئی۔
نتیجے میں ڈالر کی قدر ایک موقع پر 1.39 روپے کے اضافے سے 288.20 روپے کی سطح پر بھی آگئی تھی تاہم کاروبار کے اختتام پر انٹربینک مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 1.11 روپے کے اضافے سے 287.92 روپے کی سطح پر بند ہوئی۔ اسی طرح اوپن کرنسی مارکیٹ میں ڈالر کی قدر 2 روپے کے اضافے سے 293 روپے پر بند ہوئی۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ چین کی 2 ارب ڈالر کے قرضے ری شیڈول کرنے پر رضامندی اور ذرمبادلہ کے ذخائر میں اضافے کے باوجود ڈالر کی پیش قدمی جاری ہے۔
آئی ایم ایف کی شرائط پوری کرنے کے لیے شرح تبادلہ کو مارکیٹ فورسز پر چھوڑنے اور سٹے بازوں کی مبینہ طور پر متحرک ہونے سے ڈالر کی قدر بڑھ رہی ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد ملک میں جو انفلوز آنے تھے وہ آگئے ہیں لہذا اب مزید انفلوز کی آمد بتدریج ہوسکے گی۔
مارکیٹ ذرائع کا کہنا ہے کہ نئے درآمدی ایل سیز اور بندرگاہوں پر رکے ہوئے کنٹینرز کے لیے مطلوبہ ڈیمانڈ کے ساتھ مستقبل کے حالات سے متعلق غیر یقینی کیفیت کی وجہ سے تجارتی و صنعتی شعبوں کی بھی پینک بائینگ سے ڈالر کی پیش قدمی جاری ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 4 ماہ سے کرنٹ اکاؤنٹ سرپلس رہا جبکہ رواں ماہ کرنٹ اکاؤنٹ دوبارہ خسارے کی جانب گامزن ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ درآمدات پر قدغن ختم کرنا مجبوری بھی تھی اور ملک کے لیے ضرورت بھی، انہی ضروریات کے لیے ڈالر کی ڈیمانڈ مستقل بڑھتی جارہی ہے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف نے یہ بھی پیش گوئی کی ہے کہ مالی سال 2024ء میں 6 اعشاریہ 4 ارب ڈالر مالیت کے کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہوگا جو مالی سال 2023ء میں 2.5 ارب ڈالر رہا ہے اس لیے آنے والے برسوں میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے میں اضافے کی پیش گوئی سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ اگلے پانچ سال کے دوران ڈالر کی ڈیمانڈ اور پرواز جاری رہے گی اور روپیہ بتدریج ڈی ویلیو ہوتا رہے گا۔
انٹربینک مارکیٹ اس وقت بھی مذکورہ سمت پر گامزن ہوتی نظر آرہی ہے کیونکہ آئی ایم ایف نے مارکیٹ بیسڈ ایکس چینج ریٹ رکھنے کی شرط عائد کر رکھی ہے اور اسی پالیسی پر مارکیٹ میں عمل درآمد نظر آرہا ہے جس سے روپیہ دباؤ کی زد میں ہے اور زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں سپلائی کی بہ نسبت ڈیمانڈ بہت زیادہ ہونے سے ڈالر کی قدر میں اضافہ ہورہا ہے۔
آئی ایم ایف کی جانب سے مالی سال 2024ء میں اوسطاً ڈالر ریٹ 306 روپے ہونے کی بھی پیش گوئی کی گئی ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ ڈالر کی بہ نسبت روپے کی قدر بتدریج کم ہوگی۔