کشکول کب کیسے کیونکر ٹوٹے گا
کشکول ایسی بلا ہے جو ققنس کی طرح اپنے ٹکڑوں کو پھر سے جوڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہے
وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان کو کھویا ہوا مقام دلانے کے لیے جان لگا دیں گے اور اگر مسلم لیگ (ن) کو دوبارہ اقتدار ملا تو ہم کشکول توڑ دیں گے۔ ان خیالات کا اظہار انھوں نے موٹروے ایم 3سے منسلک ستیانہ بائی پاس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔
جب ہمارے حکمران کشکول اٹھا کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے مانگتے پھرتے ہیں تو محب وطن عوام کے دل پر کیا گزرتی ہے، اس درد انگیز کیفیت کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے اس موقع پر کشکول توڑنے کا اعلان لاکھ خوش آیند سہی، مگر کشکول ایسی بلا ہے جو ققنس کی طرح اپنے ٹکڑوں کو پھر سے جوڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔
بیچارے عوام نے پہلے بھی اس امید پر مختلف سیاسی جماعتوں کے بیلٹ باکس بھرے ہیں، یہ کم بخت کشکول ٹوٹے اور اس قرض سے چھٹکارا ملے لیکن جب حکومت ملتی ہے تو سب وعدے بھول جاتے ہیں اور کشکول مزید بڑھا ہوتا چلا جاتا ہے۔
دراصل ہمارے ماضی و حال کے تمام حکمرانوں نے قرضے لینے کو حکومت چلانے کا نسخہ کیمیا سمجھ لیا ہے، ان حالات میں کشکول کو توڑنے کی خواہش محض خواہش کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کا پیچھا کیا اور اسے رام کرنے میں کامیاب ہوگئے، اب اس کی قسطیں ملنی ہیں اور کشکول ایک بار پھر لبالب بھر جائے گا۔
پاکستانی حکمرانوں کو کسی صحرا کا نگران مقرر کر دیا جائے تو ان کی باتوں کے جادو سے صحرا کی ریت کا نام و نشان مٹ جائے۔ انھیں ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کا رکھوالا بنا دیا جائے تو سارے سمندروں کا پانی یوں لگے گا جیسے بھاپ بن کے اڑ گیا ہو، اس میں حکمرانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہمارا ہر حکمران اس فن میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔
عوام کو مہنگائی، بدامنی اور لوڈ شیڈنگ کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا، اربوں ڈالر غیر ملکی قرضے لینے کے باوجود عوام کو اندھیرے میں رکھنا، غریب عوام سے بجلی کے ڈبل، ٹرپل بل وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آج ہر شخص بیروزگاری، غربت، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے شدید پریشان ہے اس وقت وطن عزیز بہت ہی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کشکول توڑ دیں تو طبقہ اشرافیہ گزارا کیسے کرے گی؟ ایک رپورٹ کا تذکرہ آج کل عام ہے ۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے اپریل 2021 میں پاکستان کے حوالے سے ایک تنقیدی رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے اشرافیہ طبقے کو حاصل مراعات پر ملکی معیشت سے 17.4 ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، لیکن اس خرابی کو درست کرنے کے لیے آج تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ اس رقم کو غریبوں اور ملک کے ضرورت مند طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔
ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین، ایک فیصد'' طبقہ اشرافیہ '' رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔
دولت مند زمیندار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اپنی بااثر موجودگی برقرار رکھی ہے۔ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب '' الیکٹ ایبلز'' میں سے کرتی آئی ہیں جو عام طور پر جاگیردار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں زمین، سرمائے اور ذات پات کے نیٹ ورک کا کنٹرول انتخابی معرکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
کئی دہائیوں تک بیوروکریسی اور ان کے لیے محاذ بنانے والے سیاست دان بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی تیزی سے اپنی مدت میعاد کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ منتقل کرنے کی سیاسی قیمت منتخب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کر گئی ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کم کرنے کے لیے مونیٹائزیشن پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کی روشنی میں گریڈ 21,20 اور 22 کے افسران کو بالترتیب کار الاؤنس کی مد میں ہزاروں اور ایک لاکھ سے اوپر روپے دینے شروع کیے گئے تھے، لیکن تنخواہ کے ساتھ ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پٹرول سے مستفید ہوکر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا چونا لگا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرایع کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی مونیٹائزیشن پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ وفاقی بیوروکریسی پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود کار الاؤنس سمیت تمام مراعات لے رہی ہے۔
دراصل آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے ملک میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فی صد جاگیردار 64 فی صد زرعی زمین پر قابض ہیں، لیکن حکومت ان پانچ فی صد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔
آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔ ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دار، آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسائش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب و روز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔
تنخواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے، جو بظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔
یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاش، ہمارے حکمراں عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔
جب تک ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوگی اس وقت تک ملک کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہے پاکستانی قوم کے بہتر مستقبل کے لیے حکمران تمام غیر ضروری اخراجات بند کردیں، سرکاری وسائل کا بیدردی سے استعمال بند کیا جانا ضروری ہے۔
ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔ سرکاری محکموں میں نت نئی گاڑیاں خریدنا اور بیوروکریسی کا اختیارات سے تجاوز ہمارے ملکی وسائل کو چاٹ رہا ہے اس صورت ِ حال میں کشکول کو توڑنا ممکن نہ ہوگا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم ملکی معاملات چلانے کے لیے ہمیشہ عالمی طاقتوں سے ان کی شرائط پر قرضے لینے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔
حکمرانوں کویہ بات ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنا ہوگی تیز رفتار ترقی کے لیے ہمیں اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا، قرض لینے والوں کی عزت، غیرت اور آزادی سلب ہو جاتی ہے وہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔
جب ہمارے حکمران کشکول اٹھا کر عالمی مالیاتی اداروں سے قرضے مانگتے پھرتے ہیں تو محب وطن عوام کے دل پر کیا گزرتی ہے، اس درد انگیز کیفیت کو بیان کرنے سے قلم قاصر ہے۔ الیکشن کی آمد آمد ہے اس موقع پر کشکول توڑنے کا اعلان لاکھ خوش آیند سہی، مگر کشکول ایسی بلا ہے جو ققنس کی طرح اپنے ٹکڑوں کو پھر سے جوڑ کر اپنی اصلی حالت میں آ جاتی ہے۔
بیچارے عوام نے پہلے بھی اس امید پر مختلف سیاسی جماعتوں کے بیلٹ باکس بھرے ہیں، یہ کم بخت کشکول ٹوٹے اور اس قرض سے چھٹکارا ملے لیکن جب حکومت ملتی ہے تو سب وعدے بھول جاتے ہیں اور کشکول مزید بڑھا ہوتا چلا جاتا ہے۔
دراصل ہمارے ماضی و حال کے تمام حکمرانوں نے قرضے لینے کو حکومت چلانے کا نسخہ کیمیا سمجھ لیا ہے، ان حالات میں کشکول کو توڑنے کی خواہش محض خواہش کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے وزیراعظم اور وزیر خزانہ نے آئی ایم ایف کا پیچھا کیا اور اسے رام کرنے میں کامیاب ہوگئے، اب اس کی قسطیں ملنی ہیں اور کشکول ایک بار پھر لبالب بھر جائے گا۔
پاکستانی حکمرانوں کو کسی صحرا کا نگران مقرر کر دیا جائے تو ان کی باتوں کے جادو سے صحرا کی ریت کا نام و نشان مٹ جائے۔ انھیں ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کا رکھوالا بنا دیا جائے تو سارے سمندروں کا پانی یوں لگے گا جیسے بھاپ بن کے اڑ گیا ہو، اس میں حکمرانوں کی کوئی تخصیص نہیں۔ ہمارا ہر حکمران اس فن میں ید طولیٰ رکھتا ہے۔
عوام کو مہنگائی، بدامنی اور لوڈ شیڈنگ کی دلدل سے نکالنے کے لیے حکمرانوں نے کچھ نہیں کیا، اربوں ڈالر غیر ملکی قرضے لینے کے باوجود عوام کو اندھیرے میں رکھنا، غریب عوام سے بجلی کے ڈبل، ٹرپل بل وصول کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ آج ہر شخص بیروزگاری، غربت، لوڈشیڈنگ، دہشت گردی اور بدامنی کی وجہ سے شدید پریشان ہے اس وقت وطن عزیز بہت ہی نازک ترین دور سے گزر رہا ہے۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ اگر کشکول توڑ دیں تو طبقہ اشرافیہ گزارا کیسے کرے گی؟ ایک رپورٹ کا تذکرہ آج کل عام ہے ۔
اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام (یو این ڈی پی) کی جانب سے اپریل 2021 میں پاکستان کے حوالے سے ایک تنقیدی رپورٹ جاری کی گئی تھی، جس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ پاکستان کے اشرافیہ طبقے کو حاصل مراعات پر ملکی معیشت سے 17.4 ارب ڈالرز خرچ ہوتے ہیں، لیکن اس خرابی کو درست کرنے کے لیے آج تک کوئی اقدامات نہیں کیے گئے تاکہ اس رقم کو غریبوں اور ملک کے ضرورت مند طبقے کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جا سکے۔
ریاست کی جانب سے دی جانے والی مالیاتی مراعات کا سب سے بڑا حصہ ملک کا کارپوریٹ سیکٹر لے جاتا رہا ہے جو ہر سال ایک اندازے کے مطابق 4.7 ارب ڈالر بنتے ہیں۔ دوسرے اور تیسرے نمبر پر مراعات وصول کرنے والے لوگ ملک کا امیر ترین، ایک فیصد'' طبقہ اشرافیہ '' رہا ہے جو ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کا مالک ہے اور جاگیردار طبقہ جو کل آبادی کا 1.1 فیصد ہے مگر تمام قابل کاشت زمین میں سے 22 فیصد کا مالک ہے۔
دولت مند زمیندار اور جاگیردار طبقے نے ہمیشہ پارلیمنٹ میں اپنی بااثر موجودگی برقرار رکھی ہے۔ زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتیں اپنے امیدواروں کا انتخاب '' الیکٹ ایبلز'' میں سے کرتی آئی ہیں جو عام طور پر جاگیردار اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اور خاص طور پر دیہی علاقوں میں زمین، سرمائے اور ذات پات کے نیٹ ورک کا کنٹرول انتخابی معرکوں میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے۔
کئی دہائیوں تک بیوروکریسی اور ان کے لیے محاذ بنانے والے سیاست دان بالواسطہ ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر ڈالتے چلے آ رہے ہیں۔ یہ حکمت عملی تیزی سے اپنی مدت میعاد کے خاتمے کی جانب بڑھ رہی ہے کیونکہ عوام پر بوجھ منتقل کرنے کی سیاسی قیمت منتخب حکومتوں کے لیے ناقابل برداشت صورت اختیار کر گئی ہے۔
سرکاری گاڑیوں کی خریداری، مرمت اور فیول پر آنے والے اربوں روپے کے اخراجات کم کرنے کے لیے مونیٹائزیشن پالیسی متعارف کرائی گئی تھی جس کی روشنی میں گریڈ 21,20 اور 22 کے افسران کو بالترتیب کار الاؤنس کی مد میں ہزاروں اور ایک لاکھ سے اوپر روپے دینے شروع کیے گئے تھے، لیکن تنخواہ کے ساتھ ماہانہ کار الاؤنس لینے کے باوجود بیوروکریسی سرکاری گاڑیوں اور سرکاری پٹرول سے مستفید ہوکر قومی خزانے کو سالانہ اربوں روپے کا چونا لگا رہی ہے۔
اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے ذرایع کے مطابق ماضی کی حکومتوں کی طرح موجودہ حکومت بھی مونیٹائزیشن پالیسی پر عمل درآمد کرانے میں مکمل طور پر ناکام ہے۔ وفاقی بیوروکریسی پٹرول مہنگا ہونے کے باوجود کار الاؤنس سمیت تمام مراعات لے رہی ہے۔
دراصل آئی ایم ایف جس طرح کی پالیسیاں امریکا، بھارت اور دوسرے ممالک کے تعاون سے پاکستان پر مسلط کر رہا ہے، اس سے صرف غریب عوام کو نقصان ہو رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف نہیں دیکھتا کہ پاکستانی حکمران سرکاری رقوم سے مختلف ممالک کے سیر سپاٹے کرتے ہیں اور اس دوران بے تحاشا مالی وسائل خرچ کرتے ہیں۔
پاکستانی اقتصادیات کے پس منظر میں دیکھا جائے تو آئی ایم ایف کی پالیسیوں کی وجہ ہی سے ملک میں ہوشربا مہنگائی ہوئی ہے، جس میں غریب عوام پستے ہی جا رہے ہیں۔ اس مہنگائی کی وجہ سے زراعت میں بھی پیداواری لاگت بڑھ گئی ہے، جس سے پاکستان کا غریب کسان سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے کیونکہ پاکستان کے صرف پانچ فی صد جاگیردار 64 فی صد زرعی زمین پر قابض ہیں، لیکن حکومت ان پانچ فی صد جاگیرداروں پر ٹیکس لگانے پر تیار نہیں۔
آئی ایم ایف اس حقیقت کے باوجود کہ نجکاری نے ہمیشہ امیروں ہی کو فائدہ پہنچایا، آج بھی پاکستانی حکومت کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ مزید نجکاری کرے۔ اس کے علاوہ پاکستان پر یہ بھی دباؤ ہے کہ وہ لامحدود اشیاء درآمد کرے، جس سے زر مبادلہ کے کم ذخائر کم تر ہو جائیں گے۔ ایک عام آدمی، غریب، سفید پوش اور دیہاڑی دار، آٹے، گھی، چینی پر ٹیکس ادا کر کے ریاست پاکستان کے خزانے کو بھرنے میں اپنا حصہ ملاتا ہے۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ وہ ہر شے پر ٹیکس ادا کرتا ہے مگر اس کے بدلے میں وہ زندگی معاشی بدحالی کے جبر تلے سسک سسک کر گزارتا ہے۔ پاکستان کی سیاسی، غیر سیاسی اور بیورو کریٹک اشرافیہ کی زندگیوں کو پر آسائش بنانے کے لیے سرکاری خزانہ ایک خریدے ہوئے غلام کی طرح خدمت پر کمر بستہ رہتا ہے۔ پچاس فی صد لوگ جو خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے شب و روز بہت مشکل سے گزرتے ہیں۔
تنخواہ دار طبقہ بیش تر سفید پوش ہے، جو بظاہر تین وقت کھاتا ہے۔ اس کے بچے اسکول جاتے ہیں۔ وہ خوشی، غم بھی کسی طرح بھگتا لیتا ہے۔ مہینے کے آخری دس دن اس پر عذاب بن کر گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے افراد بھی گھی، چینی، آٹا خریدتے وقت اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں جتنا معاشی طور پر خوش حال پاکستانی دیتا ہے۔
یہ اس کے ساتھ سراسر ظلم ہے۔ آخر وہ کس چیز کی سزا بھگت رہا ہے؟ اتنا ٹیکس دینے کے بعد بھی ریاست پاکستان اس کے بچوں کو ڈھنگ کی مفت تعلیم نہیں دیتی، بیماری میں مناسب علاج نہیں ملتا۔ پاکستان کی پارلیمان میں جاگیرداروں اور کارپوریٹ مالکان کی بھرپور نمایندگی ہے اور زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار یا کاروباری طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی مراعات ختم کرنے کی بات کی جاتی ہے تو غریب عوام کو دی جانے والی مراعات اور سبسڈیز کے خاتمے پر بحث کی جاتی ہے۔
اشرافیہ کو ملنے والی مراعات زیر بحث ہی نہیں آتیں کیونکہ پارلیمان میں موجود نمایندگان طبقہ اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ کاش، ہمارے حکمراں عام پاکستانیوں کے چہرے کبھی غور سے دیکھیں، جن کے چہروں پر حسرت نمایاں نظر آتی ہے اور آنکھوں میں آنے والے دنوں کے وسوسے اور خدشات سر اٹھاتے ہیں۔
جب تک ملک سے کرپشن ختم نہیں ہوگی اس وقت تک ملک کا اپنے پاؤں پر کھڑا ہونا مشکل ہے پاکستانی قوم کے بہتر مستقبل کے لیے حکمران تمام غیر ضروری اخراجات بند کردیں، سرکاری وسائل کا بیدردی سے استعمال بند کیا جانا ضروری ہے۔
ہر سطح پر سادگی کو فروغ دیا جائے۔ سرکاری محکموں میں نت نئی گاڑیاں خریدنا اور بیوروکریسی کا اختیارات سے تجاوز ہمارے ملکی وسائل کو چاٹ رہا ہے اس صورت ِ حال میں کشکول کو توڑنا ممکن نہ ہوگا اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ہم ملکی معاملات چلانے کے لیے ہمیشہ عالمی طاقتوں سے ان کی شرائط پر قرضے لینے پر مجبور ہوتے رہیں گے۔
حکمرانوں کویہ بات ہمیشہ پیش ِ نظر رکھنا ہوگی تیز رفتار ترقی کے لیے ہمیں اپنے وسائل پر بھروسہ کرنا ہوگا، قرض لینے والوں کی عزت، غیرت اور آزادی سلب ہو جاتی ہے وہ اپنی مرضی سے سانس بھی نہیں لے سکتے۔