خوبصورت پرندے لاہورسے کیوں روٹھ گئے
لاہور میں صرف چیلیں، کوے اور مینا سمیت چند ایک دوسرے پرندے دکھائی دیتے ہیں
جوہر ٹاؤن کے 55 سالہ بدر منیر کئی برسوں سے وائلڈ لائف کے تحفظ اور کنزرویشن کے لیے کام کر رہے ہیں، بدر منیر کا آفس شادمان کینال روڈ پر ہے۔
بدر منیر کے آفس کے لان میں کئی اقسام کے سایہ دار درخت ہیں جن پر کئی پرندوں کے گھونسلے بھی ہیں جبکہ انہوں نے خود بھی کچھ مصنوعی گھونسلے رکھے ہیں جہاں پرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بدر منیر کہتے ہیں کہ نہر کے ساتھ اور ان کے آفس کے درختوں پر کئی اقسام کے پرندے بیٹھتے تھے جن میں را طوطے، مینا، بلبل، ہدہد، کوئل، نیل کنٹھ، کامن چڑیا، لالیاں اور فاختہ قابل ذکر ہے۔ ان پرندوں کی خوبصورت چہچاہٹ فضاؤں کو خوشگوار بنا دیتی تھی لیکن اب وہ پرندے روٹھ گئے ہیں۔ وہ کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ان کے دوست پرندے آئیں گے تو وہ انہیں دانہ ڈالیں گے لیکن اب یہاں پرندے نہیں آتے، اب تو کینال روڈ پر بھوکی اور خونخوار چیلوں اور کوؤں کا قبضہ ہے۔
لاہور کو باغات کا شہر کہا جاتا ہے، لاہور اور اس کے مضافات میں کئی اقسام کے جنگلی پرندے بھی پائے جاتے تھے لیکن پھر جیسے جیسے باغات ختم ہوتے گئے وہ پرندے بھی معدوم ہونے لگے۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر مدثر حسن کہتے ہیں کہ شہروں میں پائے جانے والے پرندوں کو ''اربن وائلڈ لائف'' کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب وائلڈ لائف نے اس حوالے سے آج تک کوئی سروے کیا ہے اور نہ ہی کوئی اسٹڈی کی گئی ہے۔ تاہم بعض تدریسی اداروں نے اس حوالے سے سروے کیے ہیں۔
1965 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق لاہور کے پارکوں اور باغات میں پرندوں کی 240 اقسام دیکھی گئی تھیں، 1992 کی ایک تحقیق میں یہ تعداد 101 جبکہ 1997 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ زولوجی کے سروے میں لاہور میں نظر آنے والے پرندوں کی 74 اقسام ریکارڈ کی گئی، البتہ پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق مقامی اور غیر مقامی پرندوں کی نسلوں کی مجموعی تعداد 85 کے قریب ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹر زاہد اقبال بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے 1996 اور 1997 میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کے ساتھ جو سروے کیا تھا اس میں کینال، دریائے راوی کے اطراف، میو گارڈن، ایچی سن کالج، کنیئرڈ کالج، شالامار باغ، لاہور کنٹونمنٹ ایریا، بارڈر ایریا اور باغ جناح سمیت دیگر علاقوں میں سروے کیا گیا تھا۔
اس سروے کے دوران 74 اقسام کے پرندے دیکھے گئے تھے۔ ان میں 44 پرندے مقامی جبکہ 30 اقسام کے مہاجر پرندے تھے، ان مہاجر پرندوں میں سے 17 اقسام کے پرندے سردیوں جبکہ 13 اقسام کے پرندے گرمیوں میں لاہور کی فضاؤں میں چہچاہتے تھے۔ ان پرندوں میں کامن چڑیا، سنہری چڑیا، کوئل، سرخ پشت والی بلبل، را طوطے، کاٹھے طوطے، ممولے، کالا تیتر، بھورا تیتر، بٹیرے، ہدہد، ہڑیل، مینا، سفید گالوں والی بلبل، رام چڑا، ماہی خور، فاختہ، لالیاں، نیل کنٹھ، چیل، کوے، بجڑا، الو، شارک، کبوتر، چمگادڑ قابل ذکر ہیں۔
25 سال قبل لاہور کے پرندوں بارے سروے کرنے والے پنجاب وائلڈ لائف کے ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائریکٹر زاہد اقبال بھٹی کہتے ہیں کہ بیس، پچیس سال پہلے لاہور میں نظر آنے والے پرندوں کی نسلیں ختم نہیں ہوئیں مگر وہ نظر اس لیے نہیں آتے کہ اب یہاں ان کا مسکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے اب لاہور میں صرف چیلیں، کوے اور مینا سمیت چند ایک دوسرے پرندے دکھائی دیتے ہیں۔ باقی پرندے یہاں سے ہجرت کرگئے۔
زاہد حسین بھٹی نے بتایا کہ سب سے زیادہ پرندے آج بھی لاہور کے کنٹونمنٹ ایریا میں پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں برسوں پرانے کئی درخت ہیں جنہیں کاٹا نہیں گیا۔ شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت کینٹ ایریا میں اربن وائلڈ لائف زیادہ ہے۔
تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس وقت لاہور کینال کے دونوں جانب ہزاروں درخت ہیں لیکن ان درختوں پر کسی بھی پرندے کا گھونسلہ نہیں ہے، ایسی ہی صورتحال مال روڈ کے درختوں پر دیکھی گئی تاہم شالامار باغ، باغ جناح، جلو پارک، گورنر ہاؤس، لاہور چڑیا گھر سمیت دیگر پارکوں میں موجود درختوں میں کئی پرندوں کے گھونسلے نظر آتے ہیں۔
نوجوان وائلڈ لائف ایکٹویسٹ فہد ملک بھی زاہد اقبال بھٹی کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اربن والڈ لائف کی معدومی کی کئی وجوہات ہیں سب سے اہم یہ ہے کہ ان پرندوں کے مسکن ختم ہوئے ہیں۔ زیادہ ترپرندے مقامی اور پرانے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں لیکن جیسے جیسے پرانے درخت کاٹے گئے پرندوں کے گھونسلے بھی ختم ہوگئے، دوسری غلطی یہ کی گئی کہ مقامی شجر کاری کے دوران مقامی پودے اور درخت لگانے کی بجائے غیر ملکی اور فینسی پودے لگائے گئے۔ پرندے ان درختوں پر گھونسلا نہیں بناتے ہیں۔
اسی طرح شہروں کے اندر تیز روشنیوں، شور شرابے نے بھی پرندوں کی زندگی کو متاثرکیا، پرندوں کو اپنے گھونسلوں میں آرام کے لیے اندھیرا اور سکون درکار ہوتا ہے تاکہ وہ بریڈنگ کر سکیں لیکن شہروں کی چکا چوند کے پرندوں کی بریڈنگ پر اثرات پڑے ہیں۔
فہد ملک نے بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں صدقہ گوشت بیچا جاتا ہے، یہ گوشت کھانے کے لیے جمع ہونے والی چیلوں اور کوؤں نے ان ایریاز میں پائے جانے والے دیگر پرندوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ بھوکی چیلیں اپنی بھوک مٹانے کے لیے چھوٹے پرندوں پر بھی حملہ کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے اب چھوٹے پرندے یہاں سے ہجرت کرگئے ہیں۔
اس حوالے سے زاہد حسین بھٹی کہتے ہیں کہ چیلوں کی وجہ سے مقامی ماحول میں پایا جانے والے شکرے بھی معدوم ہوگئے ہیں، شکرے بھی گوشت خور ہیں لیکن چیلیں انہیں بھگا دیتی ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف نے چند برس قبل شکرے فضا میں چھوڑے تھے تاکہ ان کی قدرتی ماحول میں افزائش ہوسکے جبکہ چیلوں کو بھگانے کے لیے وقتاً فوقتاً پٹاخے پھوڑے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود چیلوں نے ان شکروں کو بھی یہاں نہیں رہنے دیا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقارعلی کا کہنا ہے کہ پرندوں کی معدومی اور ان کی نقل مکانی کی وجہ شہروں میں تو بڑھتی ہوئی آبادی، تیز روشنیاں اور شور شرابہ ہے لیکن دیہی علاقوں میں فصلوں کے لیے کھادوں کا استعمال اور ان پر کیے جانے والے زہروں کے اسپرے کی وجہ سے بھی ایسے پرندے جو کیڑے، مکوڑے کھاتے تھے ان کی نسلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں چونکہ بلیاں، کتے اور چوہے عام ہوتے ہیں تو یہ جانور پرندوں کے بچے اورانڈے کھا جاتے یا پھران کا شکار کرتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر پرندوں کی تعداد پر فرق پڑا ہے۔
ماہرین کے مطابق 1965 میں کیے گئے ایک مطالعے میں 240 اقسام کے پرندوں کا ریکارڈ ملتا ہے تاہم آج صرف چند درجن پرندے ہی نظر آتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ان کے طالب علموں نے لاہور میں پرندوں کی موجودہ اقسام کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، ایک ہفتے کے مطالعے کے دوران صرف 50 کے قریب اقسام کے پرندے دیکھے جاسکے تھے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ اگر ہجرت کرنے والے پرندوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد اب بھی پرندوں کی 80 اقسام تک ہو سکتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ لاہور اپنے پرندوں کی نصف سے زیادہ انواع کھو چکا ہے، جو کہ مقامی ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تشویشناک علامت ہے۔
وائلڈ لائف کے تحفظ اور کنزرویشن کے لیے کام کرنے والے بدر منیر کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آبادی، ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر تیزی سے پھیلتے کنکریٹ کے جنگل نے کئی پرندوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان را طوطے اور مقامی کاٹھے طوطے کو پہنچا ہے۔ را طوطے انڈیا سے ہجرت کرکے خوراک کی تلاش میں پاکستان آتے ہیں لیکن بارڈر ایریا میں نیٹنگ کے ذریعے ان کو پکڑلیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ، شکرگڑھ، نارووال، ظفروال، قصور، لاہور کے سرحدی علاقوں میں شکاری بڑے بڑے جال لگاتے ہیں جن میں یہ طوطے پھنس جاتے ہیں۔ را طوطے چونکہ کافی مہنگے فروخت ہوتے ہیں اس لیے ان کی بے تحاشا پوچنگ کی گئی ہے۔ ان کی بریڈنگ کرکے فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج را طوطے کی نسل معدومی کے خطرات سے دوچار ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر مدثر حسن نے بتایا کہ اربن وائلڈ لائف میں پائے جانے والے زیادہ تر پرندے پنجاب وائلڈ لائف (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ) ایکٹ کے تحفظ شدہ شیڈول میں شامل پرندوں کا شکار، ان کو پکڑنا جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا بھی دی جاتی ہے۔ طوطے، لالیاں، فاختہ، عام چڑیا پکڑنا بھی جرم ہے۔ تاہم جو پرندے تحفظ شدہ شیڈول میں شامل نہیں ہیں ان کو پکڑنے کی کوئی سزا نہیں ہے جیسے کوے، سیڑھ وغیرہ۔
وائلڈ لائف کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے بدر منیر کہتے ہیں کہ لاہور میں پرندوں کی آبادی میں اضافے اور روٹھے پرندوں کو واپس لانے کے لیے سب سے پہلے زیادہ سے زیادہ مقامی درخت لگانے ہوں گے۔ پرانے درختوں کے کاٹنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ پھل دار درخت لگائے جانے چاہیں۔ جلو پارک، جیلانی پارک، باغ جناح، شالامار باغ، میو گارڈن سمیت ایسے علاقے جہاں بڑی تعداد میں درخت ہیں اور وہ پرسکون علاقے ہیں یہاں جھاڑیاں بھی اگائی جائیں کیونکہ کئی پرندے جھاڑیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھونسلے بنانے کے لیے تنکوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف کے عملے کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، پرندوں کا شکار اور ان کی پوچنگ کرنے والوں سے سختی سے نپٹا جائے، جرمانے اور سزاؤں میں اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح شہروں کے اندر بڑی عمارتوں کی چھتوں پر پرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ گھروں اور دفاتر کے لان میں پرندوں کے مصنوعی گھونسلے رکھے جا سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ برڈ ہاؤسز بنانے چاہیں۔ اسی طرح بچوں کے تعلیمی نصاب میں وائلڈ لائف کا سبجیکٹ شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل کو جنگلی حیات کی اہمیت اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی مل سکے۔ یہ وہ چند اقدامات ہیں جن سے ہم روٹھ جانے والے پرندوں کو واپس لاسکتے ہیں۔
بدر منیر کے آفس کے لان میں کئی اقسام کے سایہ دار درخت ہیں جن پر کئی پرندوں کے گھونسلے بھی ہیں جبکہ انہوں نے خود بھی کچھ مصنوعی گھونسلے رکھے ہیں جہاں پرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام کیا جاتا ہے۔
بدر منیر کہتے ہیں کہ نہر کے ساتھ اور ان کے آفس کے درختوں پر کئی اقسام کے پرندے بیٹھتے تھے جن میں را طوطے، مینا، بلبل، ہدہد، کوئل، نیل کنٹھ، کامن چڑیا، لالیاں اور فاختہ قابل ذکر ہے۔ ان پرندوں کی خوبصورت چہچاہٹ فضاؤں کو خوشگوار بنا دیتی تھی لیکن اب وہ پرندے روٹھ گئے ہیں۔ وہ کئی کئی گھنٹے انتظار کرتے رہتے ہیں کہ ان کے دوست پرندے آئیں گے تو وہ انہیں دانہ ڈالیں گے لیکن اب یہاں پرندے نہیں آتے، اب تو کینال روڈ پر بھوکی اور خونخوار چیلوں اور کوؤں کا قبضہ ہے۔
اربن وائلڈ لائف
لاہور کو باغات کا شہر کہا جاتا ہے، لاہور اور اس کے مضافات میں کئی اقسام کے جنگلی پرندے بھی پائے جاتے تھے لیکن پھر جیسے جیسے باغات ختم ہوتے گئے وہ پرندے بھی معدوم ہونے لگے۔ پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر مدثر حسن کہتے ہیں کہ شہروں میں پائے جانے والے پرندوں کو ''اربن وائلڈ لائف'' کہا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پنجاب وائلڈ لائف نے اس حوالے سے آج تک کوئی سروے کیا ہے اور نہ ہی کوئی اسٹڈی کی گئی ہے۔ تاہم بعض تدریسی اداروں نے اس حوالے سے سروے کیے ہیں۔
لاہور کے پرندے
1965 میں کی گئی ایک تحقیق کے مطابق لاہور کے پارکوں اور باغات میں پرندوں کی 240 اقسام دیکھی گئی تھیں، 1992 کی ایک تحقیق میں یہ تعداد 101 جبکہ 1997 میں گورنمنٹ کالج لاہور کے شعبہ زولوجی کے سروے میں لاہور میں نظر آنے والے پرندوں کی 74 اقسام ریکارڈ کی گئی، البتہ پنجاب یونیورسٹی کے ماہرین کے مطابق مقامی اور غیر مقامی پرندوں کی نسلوں کی مجموعی تعداد 85 کے قریب ہے۔
پنجاب وائلڈ لائف کے سابق ڈپٹی ڈائریکٹر، ڈاکٹر زاہد اقبال بھٹی نے بتایا کہ انہوں نے 1996 اور 1997 میں گورنمنٹ کالج لاہور کی ٹیم کے ساتھ جو سروے کیا تھا اس میں کینال، دریائے راوی کے اطراف، میو گارڈن، ایچی سن کالج، کنیئرڈ کالج، شالامار باغ، لاہور کنٹونمنٹ ایریا، بارڈر ایریا اور باغ جناح سمیت دیگر علاقوں میں سروے کیا گیا تھا۔
اس سروے کے دوران 74 اقسام کے پرندے دیکھے گئے تھے۔ ان میں 44 پرندے مقامی جبکہ 30 اقسام کے مہاجر پرندے تھے، ان مہاجر پرندوں میں سے 17 اقسام کے پرندے سردیوں جبکہ 13 اقسام کے پرندے گرمیوں میں لاہور کی فضاؤں میں چہچاہتے تھے۔ ان پرندوں میں کامن چڑیا، سنہری چڑیا، کوئل، سرخ پشت والی بلبل، را طوطے، کاٹھے طوطے، ممولے، کالا تیتر، بھورا تیتر، بٹیرے، ہدہد، ہڑیل، مینا، سفید گالوں والی بلبل، رام چڑا، ماہی خور، فاختہ، لالیاں، نیل کنٹھ، چیل، کوے، بجڑا، الو، شارک، کبوتر، چمگادڑ قابل ذکر ہیں۔
وہ پرندے کہاں گئے؟
25 سال قبل لاہور کے پرندوں بارے سروے کرنے والے پنجاب وائلڈ لائف کے ریٹائرڈ ڈپٹی ڈائریکٹر زاہد اقبال بھٹی کہتے ہیں کہ بیس، پچیس سال پہلے لاہور میں نظر آنے والے پرندوں کی نسلیں ختم نہیں ہوئیں مگر وہ نظر اس لیے نہیں آتے کہ اب یہاں ان کا مسکن نہیں ہے، جس کی وجہ سے اب لاہور میں صرف چیلیں، کوے اور مینا سمیت چند ایک دوسرے پرندے دکھائی دیتے ہیں۔ باقی پرندے یہاں سے ہجرت کرگئے۔
زاہد حسین بھٹی نے بتایا کہ سب سے زیادہ پرندے آج بھی لاہور کے کنٹونمنٹ ایریا میں پائے جاتے ہیں کیونکہ وہاں برسوں پرانے کئی درخت ہیں جنہیں کاٹا نہیں گیا۔ شہر کے دیگر علاقوں کی نسبت کینٹ ایریا میں اربن وائلڈ لائف زیادہ ہے۔
تحقیق کے دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ اس وقت لاہور کینال کے دونوں جانب ہزاروں درخت ہیں لیکن ان درختوں پر کسی بھی پرندے کا گھونسلہ نہیں ہے، ایسی ہی صورتحال مال روڈ کے درختوں پر دیکھی گئی تاہم شالامار باغ، باغ جناح، جلو پارک، گورنر ہاؤس، لاہور چڑیا گھر سمیت دیگر پارکوں میں موجود درختوں میں کئی پرندوں کے گھونسلے نظر آتے ہیں۔
اربن وائلڈ لائف کی معدومی کی وجوہات
نوجوان وائلڈ لائف ایکٹویسٹ فہد ملک بھی زاہد اقبال بھٹی کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اربن والڈ لائف کی معدومی کی کئی وجوہات ہیں سب سے اہم یہ ہے کہ ان پرندوں کے مسکن ختم ہوئے ہیں۔ زیادہ ترپرندے مقامی اور پرانے درختوں پر گھونسلے بناتے ہیں لیکن جیسے جیسے پرانے درخت کاٹے گئے پرندوں کے گھونسلے بھی ختم ہوگئے، دوسری غلطی یہ کی گئی کہ مقامی شجر کاری کے دوران مقامی پودے اور درخت لگانے کی بجائے غیر ملکی اور فینسی پودے لگائے گئے۔ پرندے ان درختوں پر گھونسلا نہیں بناتے ہیں۔
اسی طرح شہروں کے اندر تیز روشنیوں، شور شرابے نے بھی پرندوں کی زندگی کو متاثرکیا، پرندوں کو اپنے گھونسلوں میں آرام کے لیے اندھیرا اور سکون درکار ہوتا ہے تاکہ وہ بریڈنگ کر سکیں لیکن شہروں کی چکا چوند کے پرندوں کی بریڈنگ پر اثرات پڑے ہیں۔
فہد ملک نے بتایا کہ شہر کے مختلف علاقوں میں صدقہ گوشت بیچا جاتا ہے، یہ گوشت کھانے کے لیے جمع ہونے والی چیلوں اور کوؤں نے ان ایریاز میں پائے جانے والے دیگر پرندوں کو وہاں سے بھگا دیا ہے بلکہ بعض اوقات تو وہ بھوکی چیلیں اپنی بھوک مٹانے کے لیے چھوٹے پرندوں پر بھی حملہ کر دیتی ہیں جس کی وجہ سے اب چھوٹے پرندے یہاں سے ہجرت کرگئے ہیں۔
اس حوالے سے زاہد حسین بھٹی کہتے ہیں کہ چیلوں کی وجہ سے مقامی ماحول میں پایا جانے والے شکرے بھی معدوم ہوگئے ہیں، شکرے بھی گوشت خور ہیں لیکن چیلیں انہیں بھگا دیتی ہیں۔ پنجاب وائلڈ لائف نے چند برس قبل شکرے فضا میں چھوڑے تھے تاکہ ان کی قدرتی ماحول میں افزائش ہوسکے جبکہ چیلوں کو بھگانے کے لیے وقتاً فوقتاً پٹاخے پھوڑے جاتے تھے لیکن اس کے باوجود چیلوں نے ان شکروں کو بھی یہاں نہیں رہنے دیا ہے۔
پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ زولوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقارعلی کا کہنا ہے کہ پرندوں کی معدومی اور ان کی نقل مکانی کی وجہ شہروں میں تو بڑھتی ہوئی آبادی، تیز روشنیاں اور شور شرابہ ہے لیکن دیہی علاقوں میں فصلوں کے لیے کھادوں کا استعمال اور ان پر کیے جانے والے زہروں کے اسپرے کی وجہ سے بھی ایسے پرندے جو کیڑے، مکوڑے کھاتے تھے ان کی نسلوں کو نقصان پہنچا ہے۔ اسی طرح دیہی علاقوں میں چونکہ بلیاں، کتے اور چوہے عام ہوتے ہیں تو یہ جانور پرندوں کے بچے اورانڈے کھا جاتے یا پھران کا شکار کرتے ہیں ان وجوہات کی بنا پر پرندوں کی تعداد پر فرق پڑا ہے۔
پرندوں کی تعداد میں 50 فیصد کمی
ماہرین کے مطابق 1965 میں کیے گئے ایک مطالعے میں 240 اقسام کے پرندوں کا ریکارڈ ملتا ہے تاہم آج صرف چند درجن پرندے ہی نظر آتے ہیں۔ پروفیسر ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ ان کے طالب علموں نے لاہور میں پرندوں کی موجودہ اقسام کو تلاش کرنے کی کوشش کی تھی، ایک ہفتے کے مطالعے کے دوران صرف 50 کے قریب اقسام کے پرندے دیکھے جاسکے تھے۔
ڈاکٹر ذوالفقار علی کہتے ہیں کہ اگر ہجرت کرنے والے پرندوں کو بھی شامل کیا جائے تو یہ تعداد اب بھی پرندوں کی 80 اقسام تک ہو سکتی ہے۔ تاہم حقیقت یہ ہے کہ لاہور اپنے پرندوں کی نصف سے زیادہ انواع کھو چکا ہے، جو کہ مقامی ماحولیاتی نظام کے لیے ایک تشویشناک علامت ہے۔
را طوطے کو سب سے زیادہ خطرہ
وائلڈ لائف کے تحفظ اور کنزرویشن کے لیے کام کرنے والے بدر منیر کہتے ہیں کہ ماحولیاتی تبدیلی، بڑھتی ہوئی آبادی، ہاؤسنگ اسکیموں کے نام پر تیزی سے پھیلتے کنکریٹ کے جنگل نے کئی پرندوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا ہے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ سب سے زیادہ نقصان را طوطے اور مقامی کاٹھے طوطے کو پہنچا ہے۔ را طوطے انڈیا سے ہجرت کرکے خوراک کی تلاش میں پاکستان آتے ہیں لیکن بارڈر ایریا میں نیٹنگ کے ذریعے ان کو پکڑلیا جاتا ہے۔ سیالکوٹ، شکرگڑھ، نارووال، ظفروال، قصور، لاہور کے سرحدی علاقوں میں شکاری بڑے بڑے جال لگاتے ہیں جن میں یہ طوطے پھنس جاتے ہیں۔ را طوطے چونکہ کافی مہنگے فروخت ہوتے ہیں اس لیے ان کی بے تحاشا پوچنگ کی گئی ہے۔ ان کی بریڈنگ کرکے فروخت کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے آج را طوطے کی نسل معدومی کے خطرات سے دوچار ہے۔
قانون کیا کہتا ہے؟
پنجاب وائلڈ لائف کے ترجمان اور ڈپٹی ڈائریکٹر مدثر حسن نے بتایا کہ اربن وائلڈ لائف میں پائے جانے والے زیادہ تر پرندے پنجاب وائلڈ لائف (پروٹیکشن، پریزرویشن، کنزرویشن اینڈ مینجمنٹ) ایکٹ کے تحفظ شدہ شیڈول میں شامل پرندوں کا شکار، ان کو پکڑنا جرم ہے اور ایسا کرنے والوں کو سزا بھی دی جاتی ہے۔ طوطے، لالیاں، فاختہ، عام چڑیا پکڑنا بھی جرم ہے۔ تاہم جو پرندے تحفظ شدہ شیڈول میں شامل نہیں ہیں ان کو پکڑنے کی کوئی سزا نہیں ہے جیسے کوے، سیڑھ وغیرہ۔
ناراض پرندوں کو ماحول میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟
وائلڈ لائف کے تحفظ کے لیے کام کرنے والے بدر منیر کہتے ہیں کہ لاہور میں پرندوں کی آبادی میں اضافے اور روٹھے پرندوں کو واپس لانے کے لیے سب سے پہلے زیادہ سے زیادہ مقامی درخت لگانے ہوں گے۔ پرانے درختوں کے کاٹنے پر مکمل پابندی لگائی جائے۔ پھل دار درخت لگائے جانے چاہیں۔ جلو پارک، جیلانی پارک، باغ جناح، شالامار باغ، میو گارڈن سمیت ایسے علاقے جہاں بڑی تعداد میں درخت ہیں اور وہ پرسکون علاقے ہیں یہاں جھاڑیاں بھی اگائی جائیں کیونکہ کئی پرندے جھاڑیوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور انہیں اپنے گھونسلے بنانے کے لیے تنکوں کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ پنجاب وائلڈ لائف کے عملے کو متحرک کردار ادا کرنا ہوگا، پرندوں کا شکار اور ان کی پوچنگ کرنے والوں سے سختی سے نپٹا جائے، جرمانے اور سزاؤں میں اضافہ کیا جائے۔ اسی طرح شہروں کے اندر بڑی عمارتوں کی چھتوں پر پرندوں کے لیے پانی اور دانے کا اہتمام ہونا چاہیے۔ گھروں اور دفاتر کے لان میں پرندوں کے مصنوعی گھونسلے رکھے جا سکتے ہیں، زیادہ سے زیادہ برڈ ہاؤسز بنانے چاہیں۔ اسی طرح بچوں کے تعلیمی نصاب میں وائلڈ لائف کا سبجیکٹ شامل کیا جائے تاکہ نئی نسل کو جنگلی حیات کی اہمیت اور اس کے تحفظ سے متعلق آگاہی مل سکے۔ یہ وہ چند اقدامات ہیں جن سے ہم روٹھ جانے والے پرندوں کو واپس لاسکتے ہیں۔