زرعی انقلاب اور ترقی کا سفر

زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے

زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے۔ فوٹو: فائل

ہمیں دنیا کی کوئی طاقت ترقی کرنے سے نہیں روک سکتی، پاکستان میں زرعی انقلاب آکر رہے گا،گرین انیشیٹیو کا دائرہ کار پورے پاکستان میں پھیلایا جائے گا، ان خیالات کا اظہار پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے خانیوال ماڈل ایگریکلچر فارم کی افتتاحی تقریب میں کیا۔

بلاشبہ زراعت ہی ایسا سیکٹر ہے جو پاکستان کوخوشحالی اور ترقی کی منزل تک پہنچا سکتا ہے۔ زراعت کے بل بوتے پر خوراک کی قلت پر قابو پایا جاسکتا ہے، جنگلات بھی زراعت سے ہی وابستہ ہیں،پالتو مویشی بھی زراعت سے وابستہ ہیں۔یوں دیکھا جائے تو زراعت ترقی کرے گی، جنگلات زیادہ ہوں گے۔

اسی رفتار سے گائے، بھینسیں، بھیڑیں، بکریاں، اونٹ اور دیگر پالتو جانوروں اور لکڑی کی بہتات ہوگی۔ملک میں خوراک وافر ہوگی، دودھ،گھی، گوشت اور انڈوں کی فراوانی ہوجائے گی۔پاکستان میں زرعی انقلاب لانا پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیرکا وژن ہے، جس سے آیندہ 5 سالوں میں 50 ارب ڈالرز تک سرمایہ کاری اور چالیس لاکھ ملازمتوں کے مواقع پیدا ہوں گے۔

پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ملکی معیشت میں زراعت 23 فیصد جی ڈی پی کا اضافہ کرتی ہے جب کہ 37.4 فیصد مزدوروں اور کسانوں کو نوکریاں فراہم کرتی ہے۔

پاکستان کی وفاقی حکومت اور فوج کے تعاون سے ملک میں زرعی انقلاب لانے کے لیے ایک بڑے منصوبے ''گرین پاکستان انیشیٹو'' کا آغاز ہوچکا ہے، بنجر زمینوں کو قابل کاشت بنانا ایک بہت بڑا قدم ہے اور اگر ایسا ممکن ہو گیا تو پاکستان کی پیداوار میں بڑا اضافہ ہوگا،گرین ایشیٹو منصوبے کی کامیابی کی ضمانت، پاکستانی فوج کا اشتراک ہے، جب بھی پاکستان میں فوج نے کوئی فیصلہ کیا ہے تو انھوں نے مسائل کا حل دیا ہے اور اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوگا۔

آئی ایم ایف کی جانب سے تین ارب ڈالر کے اسٹینڈ بائی ریلیف ملنے، سعودی عرب کی جانب سے دو ارب ڈالر اور متحدہ عرب امارات کی طرف سے ایک ارب ڈالرکا رول اوور ملنے اور اس سے قبل چین کی جانب سے ملنے والے رول اوور نے پاکستان کے معاشی چیلنجز کو کچھ حد تک کم کر دیا ہے لیکن یہ ایک اسٹینڈ بائی ریلیف یا عارضی ارینجمنٹ ہے، اس ساری صورتحال سے نکلنے کے لیے شارٹ مڈ اور لانگ ٹرم پلاننگ کی ضرورت ہے۔

معاشی اور زرعی ترقی کے لیے سعودی عرب، چائنہ، متحدہ عرب امارات، قطر اور بحرین کے تعاون سے متعدد زرعی منصوبے زیر غور ہیں جو ملک کی برآمدات میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ ان شعبوں میں زراعت، پھل، سبزیاں، مال مویشی، پولٹری، ماہی گیری اور شمسی توانائی کا استعمال شامل ہیں۔

اب ایک جامع پروگرام کے تحت مختلف شعبوں کے ماہرین، وسائل و ذخائر، جدید ٹیکنالوجی اور آب پاشی نظام کے مناسب استعمال سے پاکستان کی زراعت میں ایسی ترقی لائی جائے گی، جس سے ملک کے ہر خطے میں نہ صرف خوراک کی کمی کو پورا کیا جائے گا بلکہ خوراک کی حفاظت اور ضرورت کے مطابق ذخیرہ اندوزی بھی کی جائے گی۔

پاکستان اگرچہ زرعی اور قدرتی وسائل سے مالامال ملک ہے، اس کے باوجود تحفظِ خوراک کا مسئلہ پاکستان میں خوفناک روپ اختیار کرگیا ہے۔ ملک میں بہت بڑی تعداد میں لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں جس کا بڑا سبب افراطِ زر کی بلند شرح، معاشی پس ماندگی اور حکومت کی جانب سے زرعی پیداوار پر سبسڈیز میں کمی ہے۔

اقوامِ متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق 2050 تک پاکستان آبادی کے لحاظ سے چوتھا بڑا ملک بن جائے گا اور 40 سال بعد فصلوں کے لیے پانی کی عدم فراہمی غذائی بحران کو شدید ترکردے گی۔

عالمی بینک نے دسمبر 2022 میں پاکستان کے بارے میں ایک رپورٹ جاری کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ پاکستان میں غربت کی شرح 2021۔22 میں 39.2 فیصد تھی۔ تباہ کن سیلاب کے بعد پاکستان کے 90 لاکھ افراد خطِ غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔


اس سے پہلے یہ تعداد 58 لاکھ تھی۔ گزشتہ سال کے تباہ کن سیلاب کے باعث پاکستان کا نو ملین ایکڑ سے زیادہ زرعی رقبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے جس کے باعث ملک میں جہاں ایک طرف زرعی اجناس کی شدید کمی کا سامنا ہے، وہاں زرعی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوا ہے۔

پاکستان میں ہر سال سیلاب سے فصلیں تباہ اور پانی ضایع ہوتا ہے، اس لیے اس منصوبے کے تحت سیلابی پانی کو محفوظ کرنے کے لیے نئی نہریں بنائی جائیں گی۔ اس کے علاوہ آب پاشی کے جدید طریقوں جیسا کہ ماڈیولر ڈرپ آب پاشی، سپرنکلر آب پاشی اور محور آبپاشی کا استعمال کیا جائے گا۔ مختلف ممالک کے ساتھ تعاون کے شعبوں میں زراعت، فصل، گندم، روئی، چاول، سورج مکھی، پھل، پولٹری، سولر سسٹم اور ہوائی انرجی شامل ہیں۔

پاکستان میں 11 بڑے حصے کاشت کے لیے ہیں۔ کل زمین 79.6 ہیکڑز ملین ہے جس میں سے 24 ملین ہیکٹرز زمین پر فصلیں لگائی جاتی ہیں جب کہ 9.1 ملین ہیکٹرز زمین قابل کاشت بنجر زمین ہے جس پر کام کر کے اسے زرعی استعمال میں لایا جا سکتا ہے۔

گو حکومت نے کسانوں کے لیے کھاد پر سبسڈی دے رکھی ہے جس کے حصول کا طریقہ یہ ہے کہ کسان، کھاد کی بوری پر لگے کوپن دکھا کر اس پر دی گئی سبسڈی حاصل کر سکتے ہیں، لیکن جب کسان یہ سبسڈی لینے جاتے ہیں تو وہاں بیٹھے مافیا کے کارندے کہتے ہیں کہ ''آدھے پیسے ہمیں دیں گے تبھی سبسڈی ملے گی۔''

پاکستان میں کھاد اس لیے بھی مہنگی ہے کہ پہلے تو ملک میں بنتی ہی کم ہے اور جو بنتی ہے اس کی بڑی مقدار افغانستان اسمگل ہو جاتی ہے۔

اسی طرح زرعی اجناس کی قیمتوں کو کم رکھنے کے لیے بھی مافیاز سرگرم ہیں۔ حکومت نے کپاس کی کاشت کو فروغ دینے کے لیے جو امدادی قیمت مقررکی ہے، وہ نہیں مل رہی ۔ اسی طرح مکئی کی بھی مناسب قیمت نہیں مل رہی، اور حکومت اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ 'گرین انیشیٹو' کو کامیاب بنانے کے لیے مافیاز کے خاتمے کے ساتھ ساتھ بیجوں، فصلوں کی پیداوار میں اضافے کے لیے کھاد اور ادویات اور کیڑے مارنے والے کیمیائی مواد کی سستی اور وافر فراہمی انتہائی ضروری ہے۔

زرعی ادویات اور کیمیائی مادوں کی زیادہ قیمتوں کے باعث فصلوں کی پیداوار مہنگی ہے، کیونکہ پاکستان میں کوئی کیمیکل یا دوائی نہیں بنتی، جب کہ بھارت میں کئی ادویات تیار ہوتی ہیں۔ ہماری حکومت اگر ٹیکس ہی ختم کر دے تو ان ادویات کی قیمت 30 فیصد تک کم ہو جائے گی جس کے بعد پیداوار میں کئی گنا اضافہ ہو گا۔

پاکستان کی آبادی میں تیزی سے اضافہ کی وجہ سے گندم کی کھپت اور پیداوار میں پانچ کروڑ میٹرک ٹن کا فرق ہے۔ یعنی گندم کی کھپت تیس کروڑ میٹرک ٹن جب کہ پیداوار 25 کروڑ میٹرک ٹن ہے۔ زراعت کے شعبہ پر عدم توجہی اور کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمت بھی اس قلت کے اسباب ہیں لیکن گندم کی ذخیرہ اندوزی اور صوبائی سطح پر ناقص اسٹوریج میں 15.20 فیصد گندم ضایع ہوتی ہے، جس کی وجہ سے قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔

گندم اور آٹے کی سرکاری نرخ کے مقرری کا عمل بھی افسر شاہی کی بدعنوانی اور سرخ فیتہ کے نظر ہوتا ہے۔ جس سے دلبرداشتہ ہوکر کاشت کے لیے گندم کی کاشت ایک منافع بخش عمل نہیں رہتی۔ گندم کی کاشت کے اہم ترین عناصر کھاد اور بیج ہوتے ہیں لیکن وفاقی سطح پر کھاد کی قیمتوں پر بوجھ نہ ہونے کی وجہ سے کھاد کی قیمتوں میں تیزی سے اضافہ ہوتا چلا ہے۔

زراعت کی ترقی اور زرعی پیداوار میں سب سے بڑی رکاوٹ ہمارے ملک کا آب پاشی کا نظام ہے، جو وقت کے تقاضوں کے مطابق نہیں ہے۔ پانی کی تقسیم ضرورت کے مطابق نہیں ہوتی۔ الیکٹرک ٹیوب ویل ناکارہ ہوگئے ہیں، عمدہ بیج میسر نہیں، بروقت پانی نہ ملنے سے تیار فصل تباہ ہوجاتی ہے۔ یوں کسان کی محنت، پَیسہ، کھاد، سب کچھ خاک میں مل جاتا ہے۔

زراعت کی ترقی کے لیے نظامِ آب پاشی میں مثبت تبدیلیاں وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نئے ڈیم بنانا اچھا فیصلہ ہے، اس کے ساتھ نہروں،کھالوں کو پختہ کر کے اور ان کی مرمت کر کے اس قابل بنایا جائے کہ پانی ضایع ہوئے بغیر مطلوبہ مقام تک پہنچ جائے۔

سندھ میں چھ زرعی زون ہیں، موسم، سماجی ڈھانچے، درجہ حرارت، شہر اور وہاں کے لائیو اسٹاک اور لگائی گئی فصل کے حساب سے پانی کی مطلوبہ مقدار ملنی چاہیے۔ آب پاشی کا نظام پیچیدہ ہے۔ زراعت کی ترقی کے لیے آبی وسائل کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا بے حد ضروری ہے، جس کے بغیر سبز انقلاب نہیں لایا جاسکتا۔ سبز انقلاب لائے بغیر ہم ترقی کی دوڑ میں شامل نہیں ہوسکتے۔
Load Next Story