فلاحی ریاست بنانے کا نسخہ
ہرآدمی عمرفاروق ؓ بن جائے تو پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا
ہمیں معلوم تھا کہ ایسا کچھ ہوگا اور وہ ہوگیا، ہمارے صوبے خیبر پختونخوا کے نگران وزیراعلیٰ نے آخر کار پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے کانسخہ کیمیا پیش کرہی دیا ہے، یہ تو معلوم نہیں ہوسکا ہے کہ اکیلے اکیلے وزیراعلیٰ نے غورکے حوض میں غوطے لگاکر یہ نسخہ نکالاہے یا ان کے ساتھ ان کی پوری نگران صوبائی ٹیم بھی تھی ۔
فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق ؓ کے زریں اصول اپناکر پاکستان ایک فلاحی مملکت بن سکتاہے کیوں کہ انہو ں نے قرآن وسنت کی روشنی میں جس طرز حکمرانی کی بنیاد رکھی ہے، رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے اسلامی تاریخ کے بارے میں اور بھی ایسے ایسے انکشافات کیے کہ کسی کو آج تک معلوم نہیں تھے۔
پہلی بار ہمارے نگران وزیراعلیٰ نے ان حقائق سے پردہ ہٹادیا ہے ، اب دیر صرف اس بات کی ہے کہ پاکستانی عوام ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر فلاحی اسلامی ریاست کو لانچ کریں ، اس کے بعد راوی چناب تو کیا دریائے سندھ اورکابل تک چین ہی چین لکھیں گے، پھر روزگوشت پکے گا ، بریانی کھائیں گے اور حلوہ ٹھونسیں گے۔
ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوںگی
اسی امید پہ ہم دل کو ہیں بہلائے ہوئے
حیران تو ہم اس بات پرہورہے ہیں کہ جناب نگران وزیراعلیٰ نے اتنی زیادہ معلومات کیسے اکٹھی کیں، انھیں اسلامی عدل ومساواتکا بھی پتہ ہے،مسلم حکمرانوں کی عظیم فتوحات سے بھی آگاہ ہیں۔
ویسے نسخہ تو تیربہدف ہے ، نگران وزیراعلیٰ نے اپناکام کردیا ہے یعنی کم از کم خیبر پختونخوا کے عوام کو نسخہ کیمیا پیش کردیا، اب یہ ہماراکاکام ہے کہ اس نسخے پر عمل پیرا ہوکر اپنے صوبے اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں اور یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں،اس کے لیے ہمیں یعنی عوام کو صرف بدی چھوڑ کر اچھائی اختیار کرنا پڑے گی یعنی سارے برے کام چھوڑ کر اچھے اچھے کام کرنا ہوں گے ۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہوخدایا میری
اور اگر نگران حکومت کی نگرانی میں لوگوں نے ان باتوں پر عمل پیرا ہونا شروع کردیا تو وزیراعلیٰ نے پکا یقین دلایا ہے ، نگران حکومت کی نگرانی میں ہی فلاحی ریاست بن جائے گی۔
سچ پوچھیئے تو اس سے زیادہ آسان نسخہ فلاحی ریاست کا اورکوئی نہیں ہوسکتا، اس میں نہ ہاتھی لگتے ہیں نہ گھوڑے بلکہ ہینگ اور پھٹکڑی بھی نہیں لگتی، بالکل ہی آسان کام ہے، کوئی پہاڑ نہیں کھودنا ہے، کوئی ڈیم نہیں بناناہے، صرف اپنے آپ کو بدلناہے اورفلاحی ریاست حاضر۔جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی۔
بلکہ اس سے پہلے ہمارے ''رنگین استاد'' نے اس سے زیادہ آسان نسخہ بتایا ، جب ہمارے محلے کی مسجد بن رہی تھی تو استاد محترم صبح سویرے آکر لاؤڈ اسپیکر پر قبضہ کرلیتا چونکہ موصوف بریک فری ہے،اس لیے جو بھی زبان پر آتا، اچھال دیتا تھا، خصوصاً رحمان بابا کا ایک اردو شعرتو اس کی زبان پر ہوتا تھا۔ کہتاتھا،رحمان بابا کہتاہے ۔
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یادکرنے سے
اب اس سے یہ کہنا کہ یہ شعررحمان بابا کا نہیں ہے،بھڑوں کے چھتے کو پتھر مارنا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف خدا کو یاد کرنے سے بھی مسئلہ حل ہوسکتاہے لیکن جناب نگران وزیراعلیٰ نے تو باقاعدہ ماڈل بھی پیش کردیا ہے۔
ہرآدمی عمرفاروق ؓ بن جائے تو پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمارے وزیراعلیٰ نے اس ضعیف العمری میں اتنا بڑاکمال دکھایا ہے تو ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ ہم بھی اس کارخیر میں دامے درمے نہ سہی قلمے وکلامے کچھ ہاتھ بٹا دیں، اس سلسلے میں ہمارا مشورہ ہے کہ یہ خیبر پختونخوا کے ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی اول درجے کے سست الوجود ہیں۔
اس لیے یہ آسانی سے نہ تو اچھے بنیں گے اورنہ فلاحی ریاست بننے دیں گے،اس لیے دوسراآپشن یہ ہے کہ ہر پاکستانی کمر باندھ کر اورآستین چڑھاکر دوسروں کو اچھا بنانا شروع کردے، ویسے بھی اس کام یعنی دوسروں کو نیک راہ دکھانے میں ہر پاکستانی پچھترسال کا تجربہ بھی رکھتا ہے ،کوئی بھی پاکستانی اس خاندانی صفت سے خالی نہیں ہے۔
دنیامیں اورکوئی بھی کام یہ لوگ اتنے ذوق وشوق سے نہیں کرتے جتنے پاکستانی لوگ دوسروں کو نیکوکار بنانے کا کام ذوق وشوق اور جوش وخروش سے کرتے ہیں ، اکثر توایک دوسرے کو جنت کی گاڑی میں بٹھانے میں اتنے زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں کہ پہلے آپ، پہلے آپ، کے چکر میں گاڑی نکل جاتی ہے۔
اوراگر اب نئے سرے اورنئے جوش وخروش سے یہ کام پھر شروع کردیں اوراب تو وزیراعلیٰ نے بھی فرمایاہے کہ ریاست کو فلاحی بنانے کے لیے کیاکرناچاہیے تو ہمیں یقین ہے کہ پاکستان بہت جلد یعنی چھ سات صدیوں میں فلاحی ریاست بن جائے گا۔
خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمارعمر
زاں پیشترکہ بانگ برآئدفلاں نماند
فرمایا ہے کہ حضرت عمرفاروق ؓ کے زریں اصول اپناکر پاکستان ایک فلاحی مملکت بن سکتاہے کیوں کہ انہو ں نے قرآن وسنت کی روشنی میں جس طرز حکمرانی کی بنیاد رکھی ہے، رہتی دنیا تک انسانیت کے لیے مشعل راہ ہے۔ انھوں نے اسلامی تاریخ کے بارے میں اور بھی ایسے ایسے انکشافات کیے کہ کسی کو آج تک معلوم نہیں تھے۔
پہلی بار ہمارے نگران وزیراعلیٰ نے ان حقائق سے پردہ ہٹادیا ہے ، اب دیر صرف اس بات کی ہے کہ پاکستانی عوام ان اصولوں پر عمل پیرا ہوکر فلاحی اسلامی ریاست کو لانچ کریں ، اس کے بعد راوی چناب تو کیا دریائے سندھ اورکابل تک چین ہی چین لکھیں گے، پھر روزگوشت پکے گا ، بریانی کھائیں گے اور حلوہ ٹھونسیں گے۔
ایک دن پھر وہی پہلے سی بہاریں ہوںگی
اسی امید پہ ہم دل کو ہیں بہلائے ہوئے
حیران تو ہم اس بات پرہورہے ہیں کہ جناب نگران وزیراعلیٰ نے اتنی زیادہ معلومات کیسے اکٹھی کیں، انھیں اسلامی عدل ومساواتکا بھی پتہ ہے،مسلم حکمرانوں کی عظیم فتوحات سے بھی آگاہ ہیں۔
ویسے نسخہ تو تیربہدف ہے ، نگران وزیراعلیٰ نے اپناکام کردیا ہے یعنی کم از کم خیبر پختونخوا کے عوام کو نسخہ کیمیا پیش کردیا، اب یہ ہماراکاکام ہے کہ اس نسخے پر عمل پیرا ہوکر اپنے صوبے اور پاکستان کو فلاحی ریاست بنائیں اور یہ کام اتنا مشکل بھی نہیں،اس کے لیے ہمیں یعنی عوام کو صرف بدی چھوڑ کر اچھائی اختیار کرنا پڑے گی یعنی سارے برے کام چھوڑ کر اچھے اچھے کام کرنا ہوں گے ۔
لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری
زندگی شمع کی صورت ہوخدایا میری
اور اگر نگران حکومت کی نگرانی میں لوگوں نے ان باتوں پر عمل پیرا ہونا شروع کردیا تو وزیراعلیٰ نے پکا یقین دلایا ہے ، نگران حکومت کی نگرانی میں ہی فلاحی ریاست بن جائے گی۔
سچ پوچھیئے تو اس سے زیادہ آسان نسخہ فلاحی ریاست کا اورکوئی نہیں ہوسکتا، اس میں نہ ہاتھی لگتے ہیں نہ گھوڑے بلکہ ہینگ اور پھٹکڑی بھی نہیں لگتی، بالکل ہی آسان کام ہے، کوئی پہاڑ نہیں کھودنا ہے، کوئی ڈیم نہیں بناناہے، صرف اپنے آپ کو بدلناہے اورفلاحی ریاست حاضر۔جب ذراگردن جھکائی دیکھ لی۔
بلکہ اس سے پہلے ہمارے ''رنگین استاد'' نے اس سے زیادہ آسان نسخہ بتایا ، جب ہمارے محلے کی مسجد بن رہی تھی تو استاد محترم صبح سویرے آکر لاؤڈ اسپیکر پر قبضہ کرلیتا چونکہ موصوف بریک فری ہے،اس لیے جو بھی زبان پر آتا، اچھال دیتا تھا، خصوصاً رحمان بابا کا ایک اردو شعرتو اس کی زبان پر ہوتا تھا۔ کہتاتھا،رحمان بابا کہتاہے ۔
نہ دنیا سے نہ دولت سے نہ گھر آباد کرنے سے
تسلی دل کو ملتی ہے خدا کو یادکرنے سے
اب اس سے یہ کہنا کہ یہ شعررحمان بابا کا نہیں ہے،بھڑوں کے چھتے کو پتھر مارنا ہے۔ مطلب یہ کہ صرف خدا کو یاد کرنے سے بھی مسئلہ حل ہوسکتاہے لیکن جناب نگران وزیراعلیٰ نے تو باقاعدہ ماڈل بھی پیش کردیا ہے۔
ہرآدمی عمرفاروق ؓ بن جائے تو پاکستان کو فلاحی ریاست بنانے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ہمارے وزیراعلیٰ نے اس ضعیف العمری میں اتنا بڑاکمال دکھایا ہے تو ہمارا بھی فرض بنتاہے کہ ہم بھی اس کارخیر میں دامے درمے نہ سہی قلمے وکلامے کچھ ہاتھ بٹا دیں، اس سلسلے میں ہمارا مشورہ ہے کہ یہ خیبر پختونخوا کے ہی نہیں بلکہ تمام پاکستانی اول درجے کے سست الوجود ہیں۔
اس لیے یہ آسانی سے نہ تو اچھے بنیں گے اورنہ فلاحی ریاست بننے دیں گے،اس لیے دوسراآپشن یہ ہے کہ ہر پاکستانی کمر باندھ کر اورآستین چڑھاکر دوسروں کو اچھا بنانا شروع کردے، ویسے بھی اس کام یعنی دوسروں کو نیک راہ دکھانے میں ہر پاکستانی پچھترسال کا تجربہ بھی رکھتا ہے ،کوئی بھی پاکستانی اس خاندانی صفت سے خالی نہیں ہے۔
دنیامیں اورکوئی بھی کام یہ لوگ اتنے ذوق وشوق سے نہیں کرتے جتنے پاکستانی لوگ دوسروں کو نیکوکار بنانے کا کام ذوق وشوق اور جوش وخروش سے کرتے ہیں ، اکثر توایک دوسرے کو جنت کی گاڑی میں بٹھانے میں اتنے زیادہ مصروف ہوجاتے ہیں کہ پہلے آپ، پہلے آپ، کے چکر میں گاڑی نکل جاتی ہے۔
اوراگر اب نئے سرے اورنئے جوش وخروش سے یہ کام پھر شروع کردیں اوراب تو وزیراعلیٰ نے بھی فرمایاہے کہ ریاست کو فلاحی بنانے کے لیے کیاکرناچاہیے تو ہمیں یقین ہے کہ پاکستان بہت جلد یعنی چھ سات صدیوں میں فلاحی ریاست بن جائے گا۔
خیرے کن اے فلاں وغنیمت شمارعمر
زاں پیشترکہ بانگ برآئدفلاں نماند