امریکی عدالت نے بائیڈن انتظامیہ کی پناہ گزینوں پر عائد کردہ پابندی معطل کردی
انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے عدالتی فیصلے کو ’ فتح ‘ سے تعبیر کیا ہے
امریکی عدالت نے جوبائیڈن انتظامیہ کی جانب سے میکسیکو کی سرحد سے امریکا میں داخلے کے خواہش مندوں کے پناہ کی درخواست دینے پرعائد پابندی معطل کردی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق منگل کے روز امریکی ڈسٹرکٹ جج جان ٹیگار نے حکم جاری کرتے ہوئے میکسیکو کی سرحد سے امریکا میں داخلے کے متلاشی افراد کے پناہ کی درخواست دینے پر عائد پابندی معطل کردی۔ عدالتی حکم میں پابندی کو پناہ گزینوں سے متعلق ملکی قوانین سے متصادم قرار دیا گیا۔
جوبائیڈن انتظامیہ نے رواں سال مئی میں یہ پابندی عائد کی تھی جس کے تحت امریکا میں پناہ لینے کے خواہش مندوں کی اکثریت درخواست دینے کی اہل نہیں رہی تھی۔
تاہم اس عدالتی فیصلے کا کوئی فوری نمایاں اثر ہونے کے امکانات محدود ہیں کیونکہ عدالتی فیصلے میں جو بائیڈن انتظامیہ کو اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی ہے اور عالمی میڈیا کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف سرکٹ کورٹ آف اپیلز سے رجوع بھی کرلیا ہے۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے عدالتی فیصلے کو فتح سے تعبیر کیا ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کی ڈپٹی ڈائریکٹر کترینا ایلینڈ کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ فتح کے مترادف ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی جزوی ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس غیرقانونی پابندی کے خلاف جنگ کو بائیڈن انتظامیہ جتنا طول دے گی، اتنا ہی میکسیکو کی سرحد پر موجود امریکا میں تحفظ کے متلاشی ہزاروں افراد اور ان کے اہل خانہ کے مصائب میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ میکسیکو کی سرحد سے غیرقانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں کمی کو اپنی اسی پالیسی کا ثمر قرار دے رہی ہے۔ جون میں میکسیکو کی سرحد پر ایک لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جو فروری 2021 کے بعد سے کم ترین تعداد ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق منگل کے روز امریکی ڈسٹرکٹ جج جان ٹیگار نے حکم جاری کرتے ہوئے میکسیکو کی سرحد سے امریکا میں داخلے کے متلاشی افراد کے پناہ کی درخواست دینے پر عائد پابندی معطل کردی۔ عدالتی حکم میں پابندی کو پناہ گزینوں سے متعلق ملکی قوانین سے متصادم قرار دیا گیا۔
جوبائیڈن انتظامیہ نے رواں سال مئی میں یہ پابندی عائد کی تھی جس کے تحت امریکا میں پناہ لینے کے خواہش مندوں کی اکثریت درخواست دینے کی اہل نہیں رہی تھی۔
تاہم اس عدالتی فیصلے کا کوئی فوری نمایاں اثر ہونے کے امکانات محدود ہیں کیونکہ عدالتی فیصلے میں جو بائیڈن انتظامیہ کو اعلیٰ عدلیہ میں اپیل کرنے کے لیے دو ہفتے کی مہلت دی گئی ہے اور عالمی میڈیا کے مطابق بائیڈن انتظامیہ نے اس فیصلے کے خلاف سرکٹ کورٹ آف اپیلز سے رجوع بھی کرلیا ہے۔
دریں اثنا انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ایک گروپ نے عدالتی فیصلے کو فتح سے تعبیر کیا ہے۔
امریکن سول لبرٹیز یونین کی ڈپٹی ڈائریکٹر کترینا ایلینڈ کا کہنا ہے کہ عدالت کا یہ فیصلہ فتح کے مترادف ہے۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ یہ کامیابی جزوی ہے۔
ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ اس غیرقانونی پابندی کے خلاف جنگ کو بائیڈن انتظامیہ جتنا طول دے گی، اتنا ہی میکسیکو کی سرحد پر موجود امریکا میں تحفظ کے متلاشی ہزاروں افراد اور ان کے اہل خانہ کے مصائب میں اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔
بائیڈن انتظامیہ میکسیکو کی سرحد سے غیرقانونی طور پر امریکا میں داخل ہونے والوں کی تعداد میں کمی کو اپنی اسی پالیسی کا ثمر قرار دے رہی ہے۔ جون میں میکسیکو کی سرحد پر ایک لاکھ افراد کو حراست میں لیا گیا تھا جو فروری 2021 کے بعد سے کم ترین تعداد ہے۔