مسقط میں چند روز آخری حصہ

مسقط میں ٹریفک پولیس کے اہلکار خال خال مگر بجلی کی طرح متحرک اور فعال دکھائی دیتے ہیں۔

S_afarooqi@yahoo.com

مسقط میں قدم رکھتے ہی جو چیز آپ کی فوری توجہ کا مرکز بنتی ہے وہ یہاں کا ٹریفک کا نظام ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے گویا تمام گاڑیاں ریموٹ کنٹرول کے ذریعے چل رہی ہوں۔ یہاں کا پورا ٹریفک آٹو ہے تو یہاں کے شہریوں کا مزاج ہی ایسا ہے کہ وہ ٹریفک کے قوانین کی پابندی کو اپنا مقدس فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہاں ٹریفک کے قوانین بھی بہت سخت ہیں۔ تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ٹریفک کنٹرول کے کیمرے نصب ہیں۔ کیمرے کی آنکھ اس خلاف ورزی کو ریکارڈ کرلیتی ہے اور پھر متعلقہ محکمہ مقررہ جرمانے کی پائی پائی وصول کرلیتا ہے۔

یہ نظام اتنا شفاف اور سخت ہے کہ اس میں ٹریفک پولیس کے کسی اہلکار کی مٹھی گرم کرنے کی ذرا سی بھی گنجائش باقی نہیں ہے۔ اس کے علاوہ یہاں کے ٹریفک پولیس والے بھی انتہائی دیانت دار اور فرض شناس ہیں جو رشوت خوری کے تصور سے بھی ناآشنا ہیں۔ وطن عزیز کے رشوت خور ٹریفک پولیس اہلکاروں کے برعکس وہ حرام کو حرام اور حلال کو حلال ہی سمجھتے ہیں اور اپنے بال بچوں کو رزق حلال ہی کھلانا چاہتے ہیں۔ اگرچہ عمان کے دارالخلافہ مسقط کی کل آبادی کی غالب اکثریت غیر ممالک سے روزی کمانے کے لیے آنے والے تارکین وطن پر مشتمل ہے جوکہ 62 فیصد کے لگ بھگ ہے لیکن ٹریفک کے قوانین کی پابندی میں وہ مقامی لوگوں سے بھی آگے آگے نظر آتے ہیں جس میں ہمارے ہم وطن بھی شامل ہیں۔ٹریفک سگنل کو توڑ کر دیدہ دلیری سے آگے نکل جانا یہاں بدتر از گناہ مانا جاتا ہے جس کے لیے جیل کی ہوا بھی کھانا پڑسکتی ہے۔ اس کی تائید ہم نے ان لوگوں کی زبانی سنی ہے جو اس سزا کا مزہ چکھ چکے ہیں اور بدقسمتی سے جن کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔ اہم شاہراہوں پر بھاری ٹریفک کے لیے علیحدہ ٹریفک موجود ہوتا ہے اور مجال نہیں کہ کوئی ٹرک ڈرائیور، بھول چوک کر بھی ادھر سے ادھر ہوجائے۔ ہماری معلومات کے مطابق ٹرک ڈرائیورز کی غالب اکثریت کا تعلق وطن عزیز سے ہے۔

یہ وہی ڈرائیورز ہیں جو وطن عزیز کی سڑکوں پر ٹریفک کے قوانین کی سب سے زیادہ دھجیاں بکھیرتے ہوئے نظر آتے ہیں اور سنگین ترین حادثوں کا سبب بنتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرا نمبر اندھا دھند بس، منی بس اور کوچ ڈرائیوروں کا آتا ہے۔ جنھیں بے چارے مسافروں اور سڑک پر چلنے والے دوسرے لوگوں کی جانوں سے کھیلنے کی کھلی آزادی ہے اور ٹریفک پولیس جن کے آگے بالکل بے بس نظر آتی ہے۔مسقط میں زیادہ تر لوگوں کے پاس اپنی ذاتی گاڑیاں اور ٹیکسیوں کی تعداد بہت کم ہے۔ یہاں کے غریب اور محنت کش لوگ جن کا تقریباً 99 فیصد تعلق پاکستان اور بھارت سے ہے آمد ورفت کے لیے یا تو اجتماعی طور پر کرائے پر حاصل کی ہوئی ٹیکسیاں استعمال کرتے ہیں یا پھر کرائے کی Vans پر گزارہ کرتے ہیں۔ ہم نے اکثر و بیشتر لوگوں کو صبح سویرے یا شام کے اوقات میں سڑکوں کے کنارے ٹرانسپورٹ کا انتظار کرتے ہوئے یا گاڑیوں سے اترتے چڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔مسقط شہر میں آپ کو نئی سے نئی اور طرح طرح کی موٹر کاریں نظر آئیں گی جن میں سے بہت سی ایسی بھی ہیں جو ہم نے کراچی میں بھی نہیں دیکھیں۔ اس کے معنی ہرگز یہ نہیں کہ یہاں کے لوگ اتنے امیروکبیر ہیں کہ ذاتی گاڑی رکھنا کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔


اصل صورتحال یہ ہے کہ یہاں کا ادنیٰ سا ملازمت پیشہ مقامی شخص بھی گاڑی رکھنے کا اتنا شوقین ہے کہ خواہ وہ مالی اعتبار سے اس کا متحمل نہ بھی ہو لیکن گاڑی اس کے پاس ضرور ہوگی اور وہ بھی بڑھیا سے بڑھیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ بینک سے حاصل کیے ہوئے قرضوں سے خریدی گئی گاڑیوں کی تعداد یہاں بہت زیادہ اور یہ روش اتنی عام ہے کہ عیب کو ہنر اور خوبی گردانا جانے لگا ہے۔ صرف گاڑی ہی نہیں، بینک سے قرضہ لے کر لوگ یہاں اور بھی بہت سی چیزیں عام طور پر خریدتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی زبانی ہم نے یہ بھی سنا ہے کہ بادشاہ سلامت جب اپنی رعایا پر انتہا سے زیادہ مہربان ہوتے ہیں تو بہت سے قرضے یا تو بالکل معاف کردیتے ہیں یا ان میں نرمی کردیتے ہیں۔ دروغ برگردن راوی۔ قصہ مختصر، مسقط میں کوئی خستہ حال یا کھٹارا گاڑی آپ کو ڈھونڈنے سے بھی نظر نہیں آئے گی کیونکہ گاڑیوں کی فٹنس کے معاملے میں بھی یہاں کے ٹریفک کے قواعد و ضوابط بہت سخت ہیں جن کی خلاف ورزی کرنا محال ہے۔کراچی اور وطن عزیز کے بعض دیگر بڑے شہروں کے برعکس جہاں ٹریفک پولیس والے جا بہ جا (قانون پر عملدرآمد کراتے ہوئے نہیں بلکہ خلاف ورزی کرنے والوں سے رشوت لیتے ہوئے) نظر آتے ہیں، مسقط میں ٹریفک پولیس کے اہلکار خال خال مگر بجلی کی طرح متحرک اور فعال دکھائی دیتے ہیں۔

ممکن نہیں کہ خلاف ورزی کرنے والا کوئی بھی قانون شکن ان کی عقابی نظروں سے بچ کر نکل جائے۔ اس معاملے میں چھوٹے اور بڑے اور اعلیٰ و ادنیٰ کی کوئی تخصیص نہیں ہے۔ قانون کی نظر میں ہر شہری برابری کا درجہ رکھتا ہے۔سلطنت عمان میں ٹریفک کے نظام میں مزید اصلاحات کے حوالے سے یہ تازہ ترین خبر قابل ذکر ہے کہ حکومتی فیصلے کے تحت جو بسیں 10 سال سے زیادہ پرانی ہوچکی ہیں ان پر زائرین حج اور عمرہ کو لانے لے جانے پر سخت پابندی عائد کی جا رہی ہے۔ وزارت اوقاف اور مذہبی امور نے یہ اہم فیصلہ ٹریفک کے حادثات کی روک تھام کی غرض سے کیا ہے کیونکہ ماضی میں اس قسم کے جان لیوا حادثات رونما ہوتے رہتے تھے۔ برسبیل تذکرہ عرض ہے کہ حکومت عمان کا یہ فیصلہ انتہائی بروقت ہے کیونکہ رمضان المبارک کی آمد میں اب بہت زیادہ دیر باقی نہیں ہے اور ماہ مبارک کے دوران عازمین کی ایک خاصی بڑی تعداد عمرہ کی ادائیگی کے لیے حجاز مقدس جاتی ہے۔حکومت عمان ٹریفک حادثات کی روک تھام میں بڑی گہری دلچسپی رکھتی ہے جس کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ اس نے 2004 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اس حوالے سے قرارداد نمبر A/58/289 پیش کی تھی۔ اب اس کے ٹھیک دس سال بعد اقوام متحدہ میں عمان کے نمایندے عامر بن ہلال نے اسی نوعیت کی ایک اور قرارداد کی حمایت میں پرزور تقریر کرکے اپنے موقف کا اعادہ کیا ہے۔

اس نئی قرارداد نمبر A/360/68 کا عنوان ہے ''روڈ سیفٹی کا بین الاقوامی بحران'' عمان کے نمایندے نے اپنی تقریر دل پذیر میں اس بات کا برملا اظہار کیا کہ سلطنت عمان سڑکوں کے تحفظ میں زیادہ سے زیادہ اضافے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہی ہے۔ عمان کی سڑکیں معیار کے اعتبار سے بہترین اور لاجواب ہیں۔ بلا شبہ عمان کے نمایندے کے اس بیان میں ذرا سا بھی مبالغہ نہیں ہے۔ تاہم اس کے باوجود حادثات کا رونما ہونا بہتری کے مزید اقدامات کا تقاضا کرتا ہے۔ اگرچہ عمان کی سڑکوں پر تیز رفتاری کی حدود و قیود مقرر ہیں اور ان کی سختی سے پابندی بھی کرائی جاتی ہے لیکن انسان خطا کا پتلا ہے اور معمولی سی غلطی، کوتاہی، بھول چوک یا غفلت کے نتیجے میں حادثات کا ہوجانا کوئی انوکھی یا غیر معمولی بات نہیں ہے۔ حادثات کی روک تھام کے مزید اقدامات کے طور پر یہ تجاویز زیر غور ہیں کہ شہری آبادیوں کے علاقوں میں رفتار کی حد میں مزید کمی کی جائے اور شاہراہوں پر بھی تیز رفتاری کی حوصلہ شکنی کے لیے نئی قانون سازی کی جائے۔ اس کے علاوہ یہ تجویز بھی زیر غور ہے کہ ٹریفک کے ضابطے کی عام خلاف ورزی سے متعلق جرمانے کی رقم کو 10 عمانی ریال سے بڑھاکر 50 ریال کردیا جائے۔ عمان کی حکومت سلطنت کی حدود میں ایک نیا ڈرائیونگ کلچر متعارف کرانے کے لیے کوشاں ہے۔
Load Next Story