جاتے جاتے بجلی کے بلوں میں اضافے کے ذمے دار
حکومت کے نزدیک غریب نہ جانے کس کیٹگری میں آتا ہے کہ نئے ٹیرف سے وہ متاثر نہ ہوا ہو
اگلے ماہ اگست کے دوسرے ہفتے میں ختم ہونے والی اتحادی حکومت کے وزیر اعظم میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ بجلی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ غریب پر نہیں پڑنے دوں گا۔
حکومت نے دو سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جب کہ کراچی میں کے الیکٹرک نے جولائی کے بلوں میں بے پناہ اور من مانا اضافہ کرکے جو بل بھیجے ہیں وہ وزیر اعظم کے حالیہ بیان کے بالکل برعکس ہیں اور ملک بھر میں جاری کردہ بلوں میں بھی جولائی سے حیرت انگیز اضافہ کردیا گیا ہے جس سے مہنگی بجلی کا نیا ریکارڈ قائم اور صارفین کی چیخیں نکل گئی ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت ساڑھے سات روپے تک اضافے کا اعلان کیا ہے جس میں ایک سو، دو سو، تین سو سے پانچ سو اور پانچ سو سے سات سو اور اس سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے جس ٹیرف کا اعلان کیا ہے غریب سے غریب صارف جو اپنے گھر میں ایک پنکھا اور ایک دو بلب استعمال کرے تب بھی بجلی کے تیز رفتار میٹر ایک سو سے زائد یونٹ بنا دیتے ہیں۔
ملک میں بجلی کا کوئی ایک بھی صارف نہیں ہوگا جس نے شدید گرمی میں پنکھا نہ چلانے کے لیے بجلی لگوائی ہو اور وہ صرف بلب ہی رات کو جلاتا ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جس کے گھر میں بجلی ہو اس کے گھر میں ایک پنکھا بھی استعمال نہ ہوتا ہو۔
بجلی کنکشن کے ساتھ ہر گھر میں اندھیرے میں تو رہا جا سکتا ہے مگر پنکھے کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ ملک میں آٹھ نو ماہ تک پنکھے گرمی کے باعث چلانا ہر گھرکی مجبوری ہے اور اکثر علاقوں میں روزانہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور بجلی مہنگی ہونے کے باعث غریب ہی نہیں بلکہ متوسط طبقہ بھی خود ہی احتیاط سے بجلی استعمال کرنے لگا ہے تاکہ بل کم آئے مگر بجلی کے بل کم ہونے ہی میں نہیں آ رہے جس کی وجہ سے صارفین بجلی مزید پریشان ہیں اور مہنگی بجلی نے متوسط طبقے کو سخت پریشان کر رکھا ہے جن افراد نے شدید گرمی سے نجات کے لیے چھوٹے ایک ٹن کے اے سی لگوا رکھے ہیں، وہ اپنے اے سی بند کرکے کولر استعمال کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایئر کولر بھی ڈبل بجلی کھینچتا ہے اس لیے لوگ صرف پنکھے چلا کر اپنے بجلی کے بجٹ کو کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھروں میں لگی پانی کی موٹروں میں ہی روزانہ چار سے 6 یونٹ بجلی استعمال ہو جاتی ہے اس لیے کوشش کے باوجود متوسط طبقے میں دو سو سے زائد یونٹ بجلی صرف موٹروں، پنکھوں اور روشنی کے لیے استعمال ہو ہی جاتی ہے جب کہ فریج کا استعمال بھی مجبوری بنا ہوا ہے، اگر استریاں بھی استعمال ہوں تو اے سی چلائے بغیر بجلی کا استعمال تین سو یونٹ سے بڑھ جاتا ہے مہنگی بجلی نے عام لوگوں میں بجلی احتیاط سے استعمال کرنا مجبوری بنا دیا ہے مگر نئے ٹیرف نے تین سو سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے وہ سخت پریشان ہیں کہ بجلی کے بل بھریں یا بچوں کو دو وقت ہی کا کھانا فراہم کر سکیں۔
حکومت کے نزدیک غریب نہ جانے کس کیٹگری میں آتا ہے کہ نئے ٹیرف سے وہ متاثر نہ ہوا ہو اور اس پر بجلی اضافے کا بوجھ نہ پڑا ہو۔
کے الیکٹرک ملک میں سب سے مہنگی بجلی اپنے صارفین کو دے رہا ہے۔کے الیکٹرک کے ایک صارف کا جون کا بجلی کا بل 253 یونٹ استعمال کرنے پر 7,853 روپے کا آیا ہے۔ دو یونٹ کم استعمال کے باوجود بل کی رقم 3,345 روپے بڑھا دی گئی ہے جب کہ حکومت نے تین سو یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 5 روپے یونٹ بڑھایا ہے۔
بجلی کم استعمال کرنے والا صارف کرایہ دار ہے جس کے پاس اے سی ہے نہ اس پر موٹروں کے استعمال کا بوجھ ہے مگر دو یونٹ کم استعمال کر کے بھی کے الیکٹرک نے حکومتی ٹیرف کے برعکس اس کے بل کی رقم 3,345 روپے بڑھا دی ہے اور وہ پوچھ رہا ہے کہ دو کمرے کے گھر کا 13 ہزار روپے ماہانہ کرایہ ادا کرے یا بجلی کا 7,853 روپے کا بل؟ تو اپنی چار افراد کی فیملی کو کیا کھلاؤں؟
غریبوں کے برعکس اعلیٰ سرکاری ملازموں کو جن میں بارہ لاکھ سے زائد بنیادی تنخواہیں لینے والے ججز و دیگر شامل ہیں انھیں بے شمار سرکاری الاؤنسز اور مراعات کے علاوہ بجلی کے ماہانہ کروڑوں یونٹ مفت دیے جا رہے ہیں ان کی بجلی مفت کیوں ہے اور عوام کا خون نچوڑ کر اعلیٰ سرکاری افسروں کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ کے باوجود بجلی مفت کیوں دی جا رہی ہے۔
وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ صارفین پر بجلی کے نرخ بڑھنے کا اثر نہیں ہوگا اور اضافے کا اطلاق ستمبر سے ہوگا مگر کے الیکٹرک نے جولائی کے بلوں سے ہی نئے بجلی نرخوں پر بل جاری کردیے ہیں جس کی وجہ سے ہر صارف پر کئی ہزار روپے تک کا بوجھ بڑھ گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہے اور من مانی کر رہی ہے ، اور کے الیکٹرک کراچی میں بجلی فراہمی کی واحد کمپنی ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور من مانے نرخ وصول کر رہی ہے۔
حکومت نے دو سو یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے نرخوں میں کوئی اضافہ نہیں کیا جب کہ کراچی میں کے الیکٹرک نے جولائی کے بلوں میں بے پناہ اور من مانا اضافہ کرکے جو بل بھیجے ہیں وہ وزیر اعظم کے حالیہ بیان کے بالکل برعکس ہیں اور ملک بھر میں جاری کردہ بلوں میں بھی جولائی سے حیرت انگیز اضافہ کردیا گیا ہے جس سے مہنگی بجلی کا نیا ریکارڈ قائم اور صارفین کی چیخیں نکل گئی ہیں۔
حکومت نے آئی ایم ایف کے معاہدے کے تحت ساڑھے سات روپے تک اضافے کا اعلان کیا ہے جس میں ایک سو، دو سو، تین سو سے پانچ سو اور پانچ سو سے سات سو اور اس سے زائد یونٹ بجلی استعمال کرنے والوں کے جس ٹیرف کا اعلان کیا ہے غریب سے غریب صارف جو اپنے گھر میں ایک پنکھا اور ایک دو بلب استعمال کرے تب بھی بجلی کے تیز رفتار میٹر ایک سو سے زائد یونٹ بنا دیتے ہیں۔
ملک میں بجلی کا کوئی ایک بھی صارف نہیں ہوگا جس نے شدید گرمی میں پنکھا نہ چلانے کے لیے بجلی لگوائی ہو اور وہ صرف بلب ہی رات کو جلاتا ہو۔ یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جس کے گھر میں بجلی ہو اس کے گھر میں ایک پنکھا بھی استعمال نہ ہوتا ہو۔
بجلی کنکشن کے ساتھ ہر گھر میں اندھیرے میں تو رہا جا سکتا ہے مگر پنکھے کے بغیر گزارا ممکن ہی نہیں ہے کیوں کہ ملک میں آٹھ نو ماہ تک پنکھے گرمی کے باعث چلانا ہر گھرکی مجبوری ہے اور اکثر علاقوں میں روزانہ گھنٹوں کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے اور بجلی مہنگی ہونے کے باعث غریب ہی نہیں بلکہ متوسط طبقہ بھی خود ہی احتیاط سے بجلی استعمال کرنے لگا ہے تاکہ بل کم آئے مگر بجلی کے بل کم ہونے ہی میں نہیں آ رہے جس کی وجہ سے صارفین بجلی مزید پریشان ہیں اور مہنگی بجلی نے متوسط طبقے کو سخت پریشان کر رکھا ہے جن افراد نے شدید گرمی سے نجات کے لیے چھوٹے ایک ٹن کے اے سی لگوا رکھے ہیں، وہ اپنے اے سی بند کرکے کولر استعمال کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
ایئر کولر بھی ڈبل بجلی کھینچتا ہے اس لیے لوگ صرف پنکھے چلا کر اپنے بجلی کے بجٹ کو کم رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ گھروں میں لگی پانی کی موٹروں میں ہی روزانہ چار سے 6 یونٹ بجلی استعمال ہو جاتی ہے اس لیے کوشش کے باوجود متوسط طبقے میں دو سو سے زائد یونٹ بجلی صرف موٹروں، پنکھوں اور روشنی کے لیے استعمال ہو ہی جاتی ہے جب کہ فریج کا استعمال بھی مجبوری بنا ہوا ہے، اگر استریاں بھی استعمال ہوں تو اے سی چلائے بغیر بجلی کا استعمال تین سو یونٹ سے بڑھ جاتا ہے مہنگی بجلی نے عام لوگوں میں بجلی احتیاط سے استعمال کرنا مجبوری بنا دیا ہے مگر نئے ٹیرف نے تین سو سے کم بجلی استعمال کرنے والوں کی زندگی عذاب بنا دی ہے وہ سخت پریشان ہیں کہ بجلی کے بل بھریں یا بچوں کو دو وقت ہی کا کھانا فراہم کر سکیں۔
حکومت کے نزدیک غریب نہ جانے کس کیٹگری میں آتا ہے کہ نئے ٹیرف سے وہ متاثر نہ ہوا ہو اور اس پر بجلی اضافے کا بوجھ نہ پڑا ہو۔
کے الیکٹرک ملک میں سب سے مہنگی بجلی اپنے صارفین کو دے رہا ہے۔کے الیکٹرک کے ایک صارف کا جون کا بجلی کا بل 253 یونٹ استعمال کرنے پر 7,853 روپے کا آیا ہے۔ دو یونٹ کم استعمال کے باوجود بل کی رقم 3,345 روپے بڑھا دی گئی ہے جب کہ حکومت نے تین سو یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والوں کے لیے 5 روپے یونٹ بڑھایا ہے۔
بجلی کم استعمال کرنے والا صارف کرایہ دار ہے جس کے پاس اے سی ہے نہ اس پر موٹروں کے استعمال کا بوجھ ہے مگر دو یونٹ کم استعمال کر کے بھی کے الیکٹرک نے حکومتی ٹیرف کے برعکس اس کے بل کی رقم 3,345 روپے بڑھا دی ہے اور وہ پوچھ رہا ہے کہ دو کمرے کے گھر کا 13 ہزار روپے ماہانہ کرایہ ادا کرے یا بجلی کا 7,853 روپے کا بل؟ تو اپنی چار افراد کی فیملی کو کیا کھلاؤں؟
غریبوں کے برعکس اعلیٰ سرکاری ملازموں کو جن میں بارہ لاکھ سے زائد بنیادی تنخواہیں لینے والے ججز و دیگر شامل ہیں انھیں بے شمار سرکاری الاؤنسز اور مراعات کے علاوہ بجلی کے ماہانہ کروڑوں یونٹ مفت دیے جا رہے ہیں ان کی بجلی مفت کیوں ہے اور عوام کا خون نچوڑ کر اعلیٰ سرکاری افسروں کو لاکھوں روپے ماہانہ تنخواہ کے باوجود بجلی مفت کیوں دی جا رہی ہے۔
وزیر توانائی خرم دستگیر نے کہا ہے کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ صارفین پر بجلی کے نرخ بڑھنے کا اثر نہیں ہوگا اور اضافے کا اطلاق ستمبر سے ہوگا مگر کے الیکٹرک نے جولائی کے بلوں سے ہی نئے بجلی نرخوں پر بل جاری کردیے ہیں جس کی وجہ سے ہر صارف پر کئی ہزار روپے تک کا بوجھ بڑھ گیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ کے الیکٹرک حکومت پاکستان کے کنٹرول میں نہیں ہے اور من مانی کر رہی ہے ، اور کے الیکٹرک کراچی میں بجلی فراہمی کی واحد کمپنی ہونے کا فائدہ اٹھا رہی ہے اور من مانے نرخ وصول کر رہی ہے۔