انسداد جعلی کتب کیلیے سیکیورٹی اسٹیکر متعارف کتب بازار سے غائب
کراچی میں تعلیمی سال کے آغاز میں چند دن رہ گئے، طلبہ اور والدین کتابوں کی عدم دستیابی اور بڑھتی ہوئی قیمتوں سے متفکر
کراچی میں نئے تعلیمی سال کا آغاز چند روز میں ہونے والا ہے، بیشتر درسی کتب مارکیٹ سے غائب ہیں طلبہ اور والدین کتابوں کی عدم دستیابی اور دگنی قیمت سے پریشان ہیں تو دوسری جانب پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے جعلی کتب کی فروخت اور ترسیل کو روکنے کے لیے سیکیورٹی پرنٹنگ اسٹیکرز متعارف کرائے ہیں۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کا نیا تعلیمی سال اگست سے شروع ہونے والا ہے مگر طلبہ و طالبات کے بستے کتابوں سے محروم رہیں گے کیونکہ بازاروں میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابیں دستیاب ہی نہیں جبکہ جماعت اوّل تا 12ویں جماعت کی بھی بہت ساری کتابیں نہیں مل رہی ہیں۔
والدین نے کہا ہے کہ بچوں کی کتابیں دستیاب نہیں اور جو موجود ہیں وہ بہت مہنگی ہیں صرف دکانیں ہی گھوم رہے ہیں، دسویں جماعت کی طالبہ انعم نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بارشوں کا بہانہ بنایا گیا تھا اس بار اتنی بارش بھی نہیں ہوئی اس کے باوجود کتابوں کے لیے انتظار کرنے کو کہا جارہا ہے انعم نے شکوہ کرتے ہوئے کہا ایک طرف پڑھائی کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب کتابیں تاحال مارکیٹ نہیں پہنچائی جا سکی ہیں۔
فرسٹ ایئر کے طالبعلم اسد نے کہا کہ فرسٹ ایئر کی کتابوں کی عدم دستیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نصاب (سلیبس) تبدیل کیا گیا ہے فیڈل بورڈ سے ملتا جلتا کورس آئے گا میں نے پورا اردو بازار دیکھ لیا مگر ایک بھی کتاب نہیں ملی ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔
پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے جعلی کتب کی فروخت اور ترسیل روکنے کے لیے سیکیورٹی پرنٹنگ اسٹیکرز متعارف کرائے ہیں جس سے کتابوں کا معیار بہتر ہوجائے گا اور جعلی کتابوں کی فروخت اور ترسیل رک جائے گی پہلے مرحلے میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابوں پر اسٹیکر لگایا گیا ہے اگلے سال سے تمام جماعتوں کی کتابوں پر اسٹیکر لگ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: درآمدی اشیا کی فہرست سے کتابیں باہر/پبلشرز کے پاس کیمبرج سمیت دیگرغیر ملکی کتابوں کا ذخیرہ ناپید
مہنگی کتابوں کی وجہ کاغذکا مہنگا ہونا ہے،عزیزخالد
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے کہا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی وجہ سے کتب کی دستیابی التوا کا شکار ہے مگر بارشوں اور عاشورا کی تعطیلات کے باوجود کوشش ہے کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل مارکیٹ میں کتب کی فراہمی یقینی بنائیں، ایکسپریس سے اپنے دفتر میں بات چیت کرتے ہوئے کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کاغذ 3 گنا مہنگا ہوگیا ہے 400 کا پرنٹ اب 600 روپے کا ہوگیا ہے کتابیں اس لیے مہنگی ہوئی ہیں نقل و حمل بھی ہے بائنڈنگ کا خرچہ بھی ہوتا ہے۔
عزیز خالد نے مزید کہا پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے جعلی کتب کی فروخت اور ترسیل روکنے کے لیے سیکیورٹی پرنٹنگ اسٹیکرز متعارف کرائے گئے ہیں جس سے معیار بہتر ہوگا اور جعلی کتابوں کی فروخت و ترسیل رک جائے گی پہلے مرحلے میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابوں پر اسٹیکر لگایا گیا ہے جبکہ اگلے سال سے تمام کتب پر اسٹیکر لگ جائیں گے۔
پبلشرز پہلے مفت والی کتابیں چھاپتے ہیں، دکاندار
اردو بازار کے دکاندار عثمان جمیل طاہر نے کہا نئے تعلیمی سال کے آغاز میں 3 دن رہ گئے ہیں اب تک کتابیں آجانی چاہیے تھیں، ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے 200 بک پبلشرز رجسٹرڈ ہیں مگر صرف 40 مختص کیے جاتے ہیں اور پبلشرز پہلے مفت کی کتابیں چھاپتے ہیں اس لیے بھی کتب مارکیٹ تک نہیں پہنچتی اگر سندھ ٹیکسٹ بورڈ سختی کرے تو وقت کی پابندی کی جاسکتی ہے۔
عثمان جمیل طاہر نے کہا نویں اور دسویں جماعت کی حیاتیات (بائیولوجی) ، طبعیات (فزکس) ، کیمیا (کیمسٹری) ، ریاضی (میتھمیٹکس) ، انگلش اور کمپیوٹر سائنس کی کتب مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں طلبا اور والدین مایوس ہوکر لوٹ رہے ہیں جو کتابیں موجود ہیں وہ فوراً فروخت ہوجاتی ہیں۔
طلبا اور والدین کی قوت خرید کم کتابیں40 فیصد مہنگی ہوگئیں،دکاندار
دکاندار محمد انوار نے کہا کہ کتابوں اور کاپیوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اب طلبا اور والدین کی قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے پہلے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا پورا کورس 700 روپے میں آتا تھا اب ایک کتاب تقریباً 700 کی ہوگئی ہے۔
ٹیکسٹ بک متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں،امیروںکے بچے کیمبرج پڑھتے ہیں
کتب فروش نے کہا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھنے والے بچوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے، امیر طبقے کے بچے کیمرج میں پڑھتے ہیں یا ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، درسی کتب اتنی مہنگی ہوجائیں گی تو غریب طبقہ کیا کریگابچوں کو مزدور ہی بنائے گا۔
اردو بازار میں جوکتابیں دستیاب ہیں وہ بھی مہنگی کردی گئیں،والدین
طلبہ وطالبات کے ساتھ کتابیں خریدنے آنے والے والدین کا کہنا ہے کہ کہ ہم اردو بازار میں مناسب قیمتوں کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں یہاں بھی کتابیں نہیں ہیں اور جو دستیاب ہیں ان کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں گزشتہ برس 550 روپے کی میتھمیٹکس کی کتاب اب 686 روپے کی اور اردو کی کتاب گزشتہ سال 288 روپے کی تھی رواں سال361 روپے کی ہوگئی ہے، باون گرام کی ریم 1300 کی تھی اب 3500 کی ہوگئی ہے۔
کیا حکومت ہرسال کتابیں نہ ملنے کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی،طلباکا شکوہ
اردو بازار میں بیشتر طلبہ و طالبات کتابیں نہ ملنے پر مایوس لوٹ رہے تھے ، طلبہ و طالبات نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت ، محکمہ تعلیم اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے ، کتابیں نہ ملنے کے باعث کئی ماہ تک پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔
درستی کتب کی عدم دستیابی پر ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کی پراسرار خاموشی
ایکسپریس کی جانب سے پہلی جماعت سے 12 جماعت تک نصاب کی کتابوں کی عدم دستیابی کے معاملے پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین آغا سہیل پٹھان سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی۔
کراچی سمیت سندھ بھر میں تمام سرکاری اور نجی اسکولوں کا نیا تعلیمی سال اگست سے شروع ہونے والا ہے مگر طلبہ و طالبات کے بستے کتابوں سے محروم رہیں گے کیونکہ بازاروں میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابیں دستیاب ہی نہیں جبکہ جماعت اوّل تا 12ویں جماعت کی بھی بہت ساری کتابیں نہیں مل رہی ہیں۔
والدین نے کہا ہے کہ بچوں کی کتابیں دستیاب نہیں اور جو موجود ہیں وہ بہت مہنگی ہیں صرف دکانیں ہی گھوم رہے ہیں، دسویں جماعت کی طالبہ انعم نے ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پچھلے سال بارشوں کا بہانہ بنایا گیا تھا اس بار اتنی بارش بھی نہیں ہوئی اس کے باوجود کتابوں کے لیے انتظار کرنے کو کہا جارہا ہے انعم نے شکوہ کرتے ہوئے کہا ایک طرف پڑھائی کو فروغ دینے کی بات کی جاتی ہے تو دوسری جانب کتابیں تاحال مارکیٹ نہیں پہنچائی جا سکی ہیں۔
فرسٹ ایئر کے طالبعلم اسد نے کہا کہ فرسٹ ایئر کی کتابوں کی عدم دستیابی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ نصاب (سلیبس) تبدیل کیا گیا ہے فیڈل بورڈ سے ملتا جلتا کورس آئے گا میں نے پورا اردو بازار دیکھ لیا مگر ایک بھی کتاب نہیں ملی ایک ہفتے کا وقت دیا گیا ہے۔
پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے جعلی کتب کی فروخت اور ترسیل روکنے کے لیے سیکیورٹی پرنٹنگ اسٹیکرز متعارف کرائے ہیں جس سے کتابوں کا معیار بہتر ہوجائے گا اور جعلی کتابوں کی فروخت اور ترسیل رک جائے گی پہلے مرحلے میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابوں پر اسٹیکر لگایا گیا ہے اگلے سال سے تمام جماعتوں کی کتابوں پر اسٹیکر لگ جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: درآمدی اشیا کی فہرست سے کتابیں باہر/پبلشرز کے پاس کیمبرج سمیت دیگرغیر ملکی کتابوں کا ذخیرہ ناپید
مہنگی کتابوں کی وجہ کاغذکا مہنگا ہونا ہے،عزیزخالد
پاکستان پبلشرز اینڈ بک سیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عزیز خالد نے کہا سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی وجہ سے کتب کی دستیابی التوا کا شکار ہے مگر بارشوں اور عاشورا کی تعطیلات کے باوجود کوشش ہے کہ تعلیمی سال شروع ہونے سے قبل مارکیٹ میں کتب کی فراہمی یقینی بنائیں، ایکسپریس سے اپنے دفتر میں بات چیت کرتے ہوئے کتابوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کا جواب دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ کاغذ 3 گنا مہنگا ہوگیا ہے 400 کا پرنٹ اب 600 روپے کا ہوگیا ہے کتابیں اس لیے مہنگی ہوئی ہیں نقل و حمل بھی ہے بائنڈنگ کا خرچہ بھی ہوتا ہے۔
عزیز خالد نے مزید کہا پہلی بار سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ سے جعلی کتب کی فروخت اور ترسیل روکنے کے لیے سیکیورٹی پرنٹنگ اسٹیکرز متعارف کرائے گئے ہیں جس سے معیار بہتر ہوگا اور جعلی کتابوں کی فروخت و ترسیل رک جائے گی پہلے مرحلے میں نویں اور دسویں جماعت کی کتابوں پر اسٹیکر لگایا گیا ہے جبکہ اگلے سال سے تمام کتب پر اسٹیکر لگ جائیں گے۔
پبلشرز پہلے مفت والی کتابیں چھاپتے ہیں، دکاندار
اردو بازار کے دکاندار عثمان جمیل طاہر نے کہا نئے تعلیمی سال کے آغاز میں 3 دن رہ گئے ہیں اب تک کتابیں آجانی چاہیے تھیں، ایکسپریس سے بات چیت کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی جانب سے 200 بک پبلشرز رجسٹرڈ ہیں مگر صرف 40 مختص کیے جاتے ہیں اور پبلشرز پہلے مفت کی کتابیں چھاپتے ہیں اس لیے بھی کتب مارکیٹ تک نہیں پہنچتی اگر سندھ ٹیکسٹ بورڈ سختی کرے تو وقت کی پابندی کی جاسکتی ہے۔
عثمان جمیل طاہر نے کہا نویں اور دسویں جماعت کی حیاتیات (بائیولوجی) ، طبعیات (فزکس) ، کیمیا (کیمسٹری) ، ریاضی (میتھمیٹکس) ، انگلش اور کمپیوٹر سائنس کی کتب مارکیٹ میں موجود نہیں ہیں طلبا اور والدین مایوس ہوکر لوٹ رہے ہیں جو کتابیں موجود ہیں وہ فوراً فروخت ہوجاتی ہیں۔
طلبا اور والدین کی قوت خرید کم کتابیں40 فیصد مہنگی ہوگئیں،دکاندار
دکاندار محمد انوار نے کہا کہ کتابوں اور کاپیوں کی قیمتوں میں 40 فیصد اضافہ ہوگیا ہے اب طلبا اور والدین کی قوت خرید بہت کم ہوگئی ہے پہلے سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کا پورا کورس 700 روپے میں آتا تھا اب ایک کتاب تقریباً 700 کی ہوگئی ہے۔
ٹیکسٹ بک متوسط طبقے کے بچے پڑھتے ہیں،امیروںکے بچے کیمبرج پڑھتے ہیں
کتب فروش نے کہا کہ سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کی کتابیں پڑھنے والے بچوں کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے، امیر طبقے کے بچے کیمرج میں پڑھتے ہیں یا ملک سے باہر چلے جاتے ہیں، درسی کتب اتنی مہنگی ہوجائیں گی تو غریب طبقہ کیا کریگابچوں کو مزدور ہی بنائے گا۔
اردو بازار میں جوکتابیں دستیاب ہیں وہ بھی مہنگی کردی گئیں،والدین
طلبہ وطالبات کے ساتھ کتابیں خریدنے آنے والے والدین کا کہنا ہے کہ کہ ہم اردو بازار میں مناسب قیمتوں کی وجہ سے دور دراز علاقوں سے آتے ہیں یہاں بھی کتابیں نہیں ہیں اور جو دستیاب ہیں ان کی قیمتیں آسمان کو چھورہی ہیں گزشتہ برس 550 روپے کی میتھمیٹکس کی کتاب اب 686 روپے کی اور اردو کی کتاب گزشتہ سال 288 روپے کی تھی رواں سال361 روپے کی ہوگئی ہے، باون گرام کی ریم 1300 کی تھی اب 3500 کی ہوگئی ہے۔
کیا حکومت ہرسال کتابیں نہ ملنے کا مسئلہ حل نہیں کرسکتی،طلباکا شکوہ
اردو بازار میں بیشتر طلبہ و طالبات کتابیں نہ ملنے پر مایوس لوٹ رہے تھے ، طلبہ و طالبات نے ایکسپریس سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کیا حکومت ، محکمہ تعلیم اور سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ یہ مسئلہ حل نہیں کرسکتے ، کتابیں نہ ملنے کے باعث کئی ماہ تک پڑھائی کا حرج ہوتا ہے۔
درستی کتب کی عدم دستیابی پر ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین کی پراسرار خاموشی
ایکسپریس کی جانب سے پہلی جماعت سے 12 جماعت تک نصاب کی کتابوں کی عدم دستیابی کے معاملے پر سندھ ٹیکسٹ بک بورڈ کے چیئرمین آغا سہیل پٹھان سے رابطہ کیا گیا مگر انھوں نے جواب دینے کے بجائے خاموشی اختیار کرلی۔