خیبر پختون خوا میں دہشت گری کی لہر
معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں، ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے
باجوڑ میں جمعیت علمائے اسلام ف کے کنونشن میں دہشت گردی کا واقعہ ہوا اور دوران جلسہ خود کش حملے میں 44 افراد شہید اور 200 سے زائد زخمی ہوگئے، شہداء میں 2 مقامی رہنما بھی شامل ہیں۔
کنونشن کے دوران خودکش بمبار نے اسٹیج کے قریب خود کو اُڑا لیا، دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی اور انسانی اعضاء ہر طرف بکھر گئے، شدید زخمیوں کی آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا گیا۔
معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں، ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔
اس طرح کے ہائی پرو فائل حملے خبروں کی شہ سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں، جس کے باعث ریاست اور عوام کے مورال پر بھی بُرے اثرات مرتب ہونا یقینی ہے۔ خیبر پختون خوا بدستور مشکل میں ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ایک بار پھر اسے بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انتخابات سامنے ہیں، دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان مزید پُر تشدد حملوں کے سامنے کھڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے، یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنھوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تشدد کی یہ لہر دوبارہ کیسے آئی؟ کیوں آئی؟ اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اگست 2021میں جانا ہوگا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ جمایا اور امریکی اتحادی اپنے افغان حکمرانوں سمیت افغانستان سے نکل گئے تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ گویا طالبان کی فتح پاکستان کی فتح تھی۔
تاہم اس وقت بھی سنجیدہ حلقے پریشان تھے کہ جن قوتوں نے امریکا اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی وہ اگر طاقت میں آگئیں تو وہ پاکستان جیسے ملک کو خاطر میں کہاں لائیں گی۔
ہمارے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ افغان طالبان اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے آگے ہتھیار پھینک دیں، کیونکہ ایک طبقے کا خیال یہ تھا کہ یہ ہندوستان کی ایما پر کیا جا رہا ہے) لیکن حقیقت یہ تھی کہ کہ افغان طالبان مر جائیں گے لیکن وہ ٹی ٹی پی کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیں گے۔
افغان طالبان کا ماننا ہے کہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف ان کو پکڑ پکڑ کر بیچ رہے تھے، جب ان پر ڈرون حملے کیے جارہے تھے، جب ان کو پاکستان کی جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا، جب خصوصی ٹیمیں پاکستان میں ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی تھیں تب یہ پاکستانی طالبان ہی تھے جنھوں نے ان کو گلے لگایا، ان کو اپنے گھروں میں پناہ دی، ان کا علاج کروایا اور ان کا ساتھ دینے پر ڈرون حملوں میں ان کے ساتھ ہی مارے گئے۔
افغان طالبان کا پاکستانی طالبان کے ساتھ خاصا پرانا رشتہ ہے۔ خصوصاً خیبر پختونخوا کے ماضی میں رہنے والے قبائلی علاقوں کے طالبان اور افغان طالبان کا۔افغان طالبان نے پاکستان کو تجویز دی کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس لیے مذاکرات شروع کیے گئے۔
چونکہ اس دور کے معاملات پی ٹی آئی حکومت کے ہاتھ میں تھے، پاکستان انتہائی کمزور پوزیشن پر بات کرنے لگا تھا۔ کئی نقادوں کے لیے یہ پاکستانی سرینڈر کے مترادف تھا جس میں تمام جنگجوؤں کی خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں دوبارہ آبادکاری اور تحفظ کی شرائط مان لی گئی تھیں۔
ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاء کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ شاید حالات کی سنگینی کا احساس ارباب اقتدار کو بھی ہوا ہو۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی، معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نے ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی، معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، نئی صنعت لگ نہیں رہی، پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہورہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں و بربادیاں لے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج ان کے لیے امید کی کرن لاتا ہے یا نہیں؟
اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر پاکستان میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملک میں انتشار پیدا کررہے ہیں۔
دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اسلام امن، سلامتی، احترام انسانیت کا مذہب ہے لیکن چند انتہا پسند عناصر کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
وہ کون سا امن معاہدہ ہے، جس پر طالبان نے پہلے کبھی عمل کیا؟ کیا وہ ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا وہ آئینِ پاکستان کے بنیادی اصولوں کا احترام کریں گے؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے... '' نہیں۔'' شاید یہ بعض کے نزدیک حیرت کا سبب ہو لیکن جو خطے میں عسکریت پسندی قریب سے کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ نہ تھکنے والی شدت پسندی کی وہ علامت ہے کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر زک پہنچانے کے لیے تمام تر قوت جمع کر سامنے آچکے ہیں۔
صوبہ خیبر پختوخوا کی حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ پولیس انفارمیشن سسٹم کو مزید بہتر بنائیں۔ سیاسی رہنما اپنے حلقوں میں مشکوک افراد کا ڈیٹا جمع کریں اور خفیہ ایجنسیاں ان اطلاعات پر کارروائی کریں تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں پر کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔
دہشت گردی ایک بہت بڑا ناسور ہے جس کے مقابلہ کے لیے پوری قوم کو متحد اور منظم ہو کر مشترکہ طور پر اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ نوجوانوں کو دہشت گردوں کے اثرات سے محفوظ کرانا اور انھیں انتہا پسندانہ نظریات کا مبلغ بنانے کے بجائے مفید و کار آمد شہری بنانا ہوگا۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کے واقعات نے لوگوں کو بے سکون کر دیا ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے وطن عزیز کی سالمیت کے لیے آپسی بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جائے۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ محض حکومت یا سیکیورٹی اداروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانا ہرگز مناسب نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بننا ہوگا اور اپنے دشمن کو ہم صرف اور صرف اتفاق اور اتحاد کے ذریعے شکست فاش دے سکتے ہیں۔
اس معاملے میں ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کو نسلی، لسانی یا مسلکی اختلافات میں الجھانے کے بجائے انھیں دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کریں اور عوام کو اس جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔
کنونشن کے دوران خودکش بمبار نے اسٹیج کے قریب خود کو اُڑا لیا، دھماکے کی آواز دور تک سنی گئی اور انسانی اعضاء ہر طرف بکھر گئے، شدید زخمیوں کی آرمی ہیلی کاپٹر کے ذریعے پشاور منتقل کر کے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی گئی ہے جب کہ علاقے میں سرچ آپریشن بھی شروع کردیا گیا۔
معصوم انسانی جانوں سے کھیلنے والے درندے ہیں، ان کا نہ تو اسلام اور نہ ہی پاکستان سے کوئی تعلق ہے۔ ایسے درندوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹا جانا چاہیے۔
اس طرح کے ہائی پرو فائل حملے خبروں کی شہ سرخیوں میں جگہ پاتے ہیں، جس کے باعث ریاست اور عوام کے مورال پر بھی بُرے اثرات مرتب ہونا یقینی ہے۔ خیبر پختون خوا بدستور مشکل میں ہے اور حالیہ مہینوں کے دوران ایک بار پھر اسے بدترین دہشت گردی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
انتخابات سامنے ہیں، دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان مزید پُر تشدد حملوں کے سامنے کھڑا ہے۔ بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی اور تشدد آمیز مذہبی انتہا پسندی نے اس ملک کے وجود کو ہی خطرے میں ڈال دیا ہے، یہ وہی عسکریت پسند ہیں جنھوں نے ریاست اور اس کے عوام کے خلاف اعلان جنگ کر رکھا ہے۔
خیبر پختونخوا میں تشدد کی یہ لہر دوبارہ کیسے آئی؟ کیوں آئی؟ اور اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ یہ جاننے کے لیے ہمیں اگست 2021میں جانا ہوگا۔ جب طالبان نے کابل پر قبضہ جمایا اور امریکی اتحادی اپنے افغان حکمرانوں سمیت افغانستان سے نکل گئے تو پاکستان میں خوشی کے شادیانے بجائے گئے کہ گویا طالبان کی فتح پاکستان کی فتح تھی۔
تاہم اس وقت بھی سنجیدہ حلقے پریشان تھے کہ جن قوتوں نے امریکا اور ان کے اتحادیوں کو شکست دی وہ اگر طاقت میں آگئیں تو وہ پاکستان جیسے ملک کو خاطر میں کہاں لائیں گی۔
ہمارے اکثر تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ افغان طالبان اب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ پاکستان کے آگے ہتھیار پھینک دیں، کیونکہ ایک طبقے کا خیال یہ تھا کہ یہ ہندوستان کی ایما پر کیا جا رہا ہے) لیکن حقیقت یہ تھی کہ کہ افغان طالبان مر جائیں گے لیکن وہ ٹی ٹی پی کا بال بھی بیکا نہیں ہونے دیں گے۔
افغان طالبان کا ماننا ہے کہ جب سابق صدر جنرل پرویز مشرف ان کو پکڑ پکڑ کر بیچ رہے تھے، جب ان پر ڈرون حملے کیے جارہے تھے، جب ان کو پاکستان کی جیلوں میں ڈالا جا رہا تھا، جب خصوصی ٹیمیں پاکستان میں ان کے گھروں پر چھاپے مار رہی تھیں تب یہ پاکستانی طالبان ہی تھے جنھوں نے ان کو گلے لگایا، ان کو اپنے گھروں میں پناہ دی، ان کا علاج کروایا اور ان کا ساتھ دینے پر ڈرون حملوں میں ان کے ساتھ ہی مارے گئے۔
افغان طالبان کا پاکستانی طالبان کے ساتھ خاصا پرانا رشتہ ہے۔ خصوصاً خیبر پختونخوا کے ماضی میں رہنے والے قبائلی علاقوں کے طالبان اور افغان طالبان کا۔افغان طالبان نے پاکستان کو تجویز دی کہ معاملے کو بات چیت کے ذریعے حل کیا جائے اور اس لیے مذاکرات شروع کیے گئے۔
چونکہ اس دور کے معاملات پی ٹی آئی حکومت کے ہاتھ میں تھے، پاکستان انتہائی کمزور پوزیشن پر بات کرنے لگا تھا۔ کئی نقادوں کے لیے یہ پاکستانی سرینڈر کے مترادف تھا جس میں تمام جنگجوؤں کی خیبر پختونخوا کے ضم شدہ اضلاع میں دوبارہ آبادکاری اور تحفظ کی شرائط مان لی گئی تھیں۔
ملک میں حالیہ دہشت گردی کے واقعات اور خودکش حملوں نے ایک مرتبہ پھر ملک کی سلامتی اور بقاء کو سوالیہ نشان بنا دیا ہے۔ شاید حالات کی سنگینی کا احساس ارباب اقتدار کو بھی ہوا ہو۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے صف اول کا کردار ادا کرکے اپنی فوج اور عوام کے خون کی قربانیاں پیش کی ہیں۔
اس جنگ کی وجہ سے پاکستان سیاسی، معاشرتی اور معاشی عدم استحکام کا شکار ہوا ہے اور اس جنگ میں پاکستان نے ہزاروں قیمتی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ پاکستان نے اس جنگ کی بہت بھاری معاشی، معاشرتی اور اخلاقی قیمت چکائی ہے اور خدا جانے کب تک چکاتے رہیں گے۔ معیشت جو پہلے ہچکیاں لے رہی تھی دہشت گردی کے عذاب نے اس کو موت کے منہ میں دھکیل دیا ہے کاروبار تباہ ہو گئے ہیں، نئی صنعت لگ نہیں رہی، پرانی فیکٹریاں دھڑا دھڑ بند ہورہی ہیں اور ہزاروں کے حساب سے لوگ بے روزگار ہو رہے ہیں۔
ملک ترقی معکوس کی طرف گامزن ہے۔ دہشت گردی، خودکش دھماکوں اور دہشت گردی کے خلاف لڑی جانے والی جنگ بہت تباہیاں و بربادیاں لے کر آئی ہے کتنے لوگوں کی خوشیاں اور ارمان خاک میں مل گئے، کتنے لوگ اس دہشت گردی کی آگ کے بھینٹ چڑھ گئے، اب تک ہونے والے خودکش دھماکوں کے متاثرین پر کیا گزر رہی ہے؟ ہر صبح طلوع ہونے والا سورج ان کے لیے امید کی کرن لاتا ہے یا نہیں؟
اب ہمارے سامنے ایک ہی راستہ ہے کہ یا تو ہم ان مسلح حملہ آوروں کے خلاف لڑیں یا پھر ان کے آگے ہتھیار ڈال دیں جو پاکستان کو دوبارہ عہدِ تاریک میں لے جانا چاہتے ہیں۔ دہشت گرد عناصر پاکستان میں غیر یقینی صورتحال پیدا کرکے ملک میں انتشار پیدا کررہے ہیں۔
دہشت گرد گولی کے زور پر اپنا سیاسی ایجنڈا پاکستان پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ نیز دہشت گرد قومی وحدت کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہیں۔ اسلام امن، سلامتی، احترام انسانیت کا مذہب ہے لیکن چند انتہا پسند عناصر کی وجہ سے پوری دنیا میں اسلام کا امیج خراب ہو رہا ہے۔
وہ کون سا امن معاہدہ ہے، جس پر طالبان نے پہلے کبھی عمل کیا؟ کیا وہ ہتھیار پھینک کر جمہوری عمل کو تسلیم کرلیں گے؟ کیا وہ آئینِ پاکستان کے بنیادی اصولوں کا احترام کریں گے؟ ان سب سوالوں کا ایک ہی جواب ہے اور وہ ہے... '' نہیں۔'' شاید یہ بعض کے نزدیک حیرت کا سبب ہو لیکن جو خطے میں عسکریت پسندی قریب سے کا مشاہدہ کرتے رہے ہیں، وہ جانتے ہیں کہ یہ نہ تھکنے والی شدت پسندی کی وہ علامت ہے کہ جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ ایک بار پھر زک پہنچانے کے لیے تمام تر قوت جمع کر سامنے آچکے ہیں۔
صوبہ خیبر پختوخوا کی حکومت ہی نہیں بلکہ ملک کے تمام صوبوں کی حکومتوں کو چاہیے کہ پولیس انفارمیشن سسٹم کو مزید بہتر بنائیں۔ سیاسی رہنما اپنے حلقوں میں مشکوک افراد کا ڈیٹا جمع کریں اور خفیہ ایجنسیاں ان اطلاعات پر کارروائی کریں تاکہ دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں پر کریک ڈاؤن کیا جاسکے۔
دہشت گردی ایک بہت بڑا ناسور ہے جس کے مقابلہ کے لیے پوری قوم کو متحد اور منظم ہو کر مشترکہ طور پر اس کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکنا ہوگا۔ نوجوانوں کو دہشت گردوں کے اثرات سے محفوظ کرانا اور انھیں انتہا پسندانہ نظریات کا مبلغ بنانے کے بجائے مفید و کار آمد شہری بنانا ہوگا۔ پاکستان میں موجودہ دہشت گردی کے واقعات نے لوگوں کو بے سکون کر دیا ہے، ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے وطن عزیز کی سالمیت کے لیے آپسی بھائی چارے اور مذہبی رواداری کو فروغ دیا جائے اور لوگوں کا حکومت پر اعتماد بحال کیا جائے۔
پاکستان کے سیکیورٹی ادارے دہشت گردوں کے خلاف برسر پیکار ہیں لیکن یہ حقیقت بھی تسلیم کرنا پڑے گی کہ محض حکومت یا سیکیورٹی اداروں پر تکیہ کرکے بیٹھ جانا ہرگز مناسب نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پوری قوم کے ہر فرد کو سپاہی بننا ہوگا اور اپنے دشمن کو ہم صرف اور صرف اتفاق اور اتحاد کے ذریعے شکست فاش دے سکتے ہیں۔
اس معاملے میں ملک کی سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو چاہیے کہ وہ اپنے حامیوں کو نسلی، لسانی یا مسلکی اختلافات میں الجھانے کے بجائے انھیں دہشت گردی کے خطرات سے آگاہ کریں اور عوام کو اس جنگ کے لیے ذہنی طور پر تیار کریں۔