حیران کن بجلی کے بڑھتے نرخ
ایسے طور طریقے تلاش کر لیے جائیں تاکہ بجلی کی بچت بھی ہو اور بل بھی کم سے کم آئے
چند روز قبل جس خبر نے پاکستانیوں کے ہوش اڑا دیے، اب بجلی 7.50روپے فی یونٹ مزید مہنگی کردی گئی ہے، اس کا اطلاق اس ماہ سے ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی صنعت کاروں نے دھمکی دینا شروع کردی ہے کہ وہ فیکٹریاں بند کر رہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے اخراجات اور لاسز کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، حکومت نے بجلی کی قیمت بڑھا دی۔ اس سے قبل حکومت بجلی کی قیمت فی یونٹ20پیسے50پیسے یا روپیہ ڈیڑھ روپیہ بڑھا دیا کرتی تھی لیکن اب اسے ڈالر کی طرح پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ جس طرح ڈالر ایک 7روپے 10روپے یا 12روپے اپنی قدر مزید بڑھا لیا کرتا تھا، اسی طرح اب بجلی کے سلسلے میں روا رکھا گیا ہے۔ یہ سراسر عوام پر ایک قسم کا بوجھ ہے۔
بجلی کی قیمت میں اس طرح تیزی سے اضافے کے باعث اب مہنگائی میں اضافے کا اول نمبر کا جواز بجلی کی قیمت کو بتایا جائے گا۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی تھی تو ہر چیز پر اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے۔ ڈالر ریٹ کے بڑھتے ہی امپورٹڈ آئٹمز کی قیمتیں بڑھ جایا کرتی تھیں اور بہت سے بزنس مین جوکہ کیلکولیٹر ہاتھ میں لے کر اس کے ذریعے کسٹمرزکو باورکرا دیا کرتے تھے کہ اب فلاں شے کی قیمت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے۔
البتہ آپ کو کچھ رعایت دے کر اتنی رقم میں آپ کو فروخت کر دیتے ہیں لیکن چند روز بعد اس قیمت میں دستیاب نہیں ہوگا، لہٰذا کسٹمر ان کی اس جادو بیانی سے قائل ہو کر فوراً رقم ادا کر کے مطلوبہ شے خرید لیتا ہے۔ اب صنعت کاروں کی باری ہے کہ وہ اپنے بیرونی خریداروں کو کس طرح رام کریں گے۔
پہلے ہی اس بات پر کالم لکھا جا چکا ہے کہ کس طرح سے بنگلہ دیش، بھارت میں بجلی ریٹ کم ہیں اور پاکستان میں ان کے مقابلے میں دگنے سے زائد نرخ ہونے کے باعث کس طرح عالمی کپڑا مارکیٹ میں پاکستان کا شیئر کم ہو کر رہ گیا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں جہاں 25سے 30سال قبل تک پاکستان کا راج تھا، پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ تھی اور دیگر ممالک بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ، بھارت، چین وغیرہ پاکستان سے کہیں پیچھے تھے لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔
بیرونی خریدار پاکستان کی طرف کم رجوع کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر بجلی ٹیرف مہنگے ہونے کے باعث اور مذکورہ ممالک میں بجلی نرخ کم ہونے کے باعث ہم ان کو مہنگی پیش کش کر رہے ہیں اور دیگر ممالک ہم سے نسبتاً کم نرخ پر اپنا سودا فروخت کر رہے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ اپٹما والے مطالبہ کر رہے تھے کہ بجلی نرخ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا اس میں کمی لائی جائے بلکہ اب تو مزید مہنگا کرکے انھیں یہ بات کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ بجلی کے نئے نرخوں پر نہ فیکٹریاں چلیں گی اور نہ ایکسپورٹ آرڈر پورے کر سکیں گے۔
صنعتکاروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر ساڑھے سات روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے۔ یقینی طور پر یہ تمام صورت حال ملکی صنعت و حرفت ایکسپورٹ اور ملکی تجارت اور عوام سب کے لیے وسیع تر منفی اثرات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس سے نمٹنے کے لیے بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح (یعنی ایکسپورٹ) پر اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔
کیونکہ بجلی اب ہر شے پر بجلی بم کی طرح گرے گی جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوکر رہے گا۔ گزشتہ چند دنوں سے آٹا چکی جس کی قیمت فی کلو 160روپے تھی اس میں 10روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اب بجلی بل آنے پر اس کا سارا بوجھ عوام پر ہی منتقل کیا جائے گا۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر معاشی بحران کا حل نکل آئے گا۔ اس طرح تو معاشی مسائل کا حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔
بلکہ اب تو امریکی حکام کی طرف سے بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے آنے والے دن سخت ہوں گے۔ آٹے کے علاوہ چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جون میں چینی کی فی کلو قیمت 120روپے تھی جوکہ اب بڑھتے بڑھتے 150کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس میں مافیا کا کمال ہے جسے روکنے میں حکومتیں پہلے کی طرح فعال نہیں ہو رہی ہیں۔
صوبائی حکومتوں کو اپنے طور پر اس مسئلے کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ آٹا اور چینی ایسی ایشیا ہیں جن کی قیمت میں اضافے سے روٹی سے لے کر مٹھائی تک کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور عوام کو مہنگائی کا بوجھ مزید ستانے لگتا ہے۔
بہرحال ہر مسئلے کا حل نکل سکتا ہے لہٰذا صنعتکار یہ نہ سوچیں کہ وہ فیکٹریاں بند کردیں گے۔ اپنی تیار کردہ صنعتی اشیا کی لاگت میں کمی لانے کے لیے دیگر طریقوں پر بھی غور کریں جس میں فیکٹریوں، ملوں میں بجلی کا غیر ضروری استعمال اور دیگر طریقے شامل ہیں۔
عوام بھی اپنے بجلی بلوں میں کمی لانے کی خاطر گھروں میں ایسے کم واٹ والے بلب استعمال کریں جس سے بجلی کی کھپت میں کمی ہو۔ گھروں میں بہت کم زیرو بلب استعمال ہوتے ہیں۔ اب ان میں مزید چند بلبوں کا اضافہ کیا جائے۔
دن کی روشنی میں بلب جلانے کا رواج ختم کیا جائے بعض بنگلوں کی بیرونی لائٹس دن کے دو تین بجے تک آن رہتی ہیں۔ یہ سستی اور غفلت کا نتیجہ ہے، سورج نکلنے کے ساتھ ہی ان لائٹس کو آف کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ بجلی کے بلوں کو غور سے دیکھا جائے تو ان میں پیک ٹائم کے چارجز زیادہ ہیں لہٰذا ان اوقات میں کپڑے استری کرنے، اے سی چلانے، موٹر چلانے اور دیگر ایسے کام جن کو چند گھنٹوں کے بعد بھی انجام دیا جاسکتا ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
اس کے علاوہ مقامی انتظامیہ یا بلدیاتی سطح پر جو اسٹریٹ لائٹس لگائی جاتی ہیں وہ بعض اوقات کئی ہفتوں تک مسلسل جلتی رہتی ہیں لہٰذا اسٹریٹ لائٹس کے آن اور آف کرنے کے عمل کو گلی محلوں کے چند افراد کے ساتھ مل کر باہمی تعاون کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ میں نے کئی علاقوں کی اسٹریٹ لائٹس دیر تک جلتے دیکھی ہیں۔
نماز فجر و مغرب پڑھ کر گھر جانے والے بعض نمازی بٹن کو آن اور آف کر دیتے ہیں، لہٰذا بلدیاتی اداروں کے اہلکار اپنے طور پر اس بات کو یقینی بنا لیں کہ اسٹریٹ لائٹس ایک منٹ سے زائد فضول نہ جلی رہیں تو اس سے ملک بھر میں بجلی کی بچت ہوگی۔
بہرحال بجلی ایک ایسی ضرورت زندگی ہے جس کے بغیر گزارا ناممکن ہے البتہ ایسے طور طریقے تلاش کر لیے جائیں تاکہ بجلی کی بچت بھی ہو اور بل بھی کم سے کم آئے۔ یہ ہر شخص کے اپنے اپنے طور پر تدابیر اختیار کرنے سے ممکن ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف نے اخراجات اور لاسز کم کرنے کا مطالبہ کیا ہے، حکومت نے بجلی کی قیمت بڑھا دی۔ اس سے قبل حکومت بجلی کی قیمت فی یونٹ20پیسے50پیسے یا روپیہ ڈیڑھ روپیہ بڑھا دیا کرتی تھی لیکن اب اسے ڈالر کی طرح پروٹوکول دیا جا رہا ہے۔ جس طرح ڈالر ایک 7روپے 10روپے یا 12روپے اپنی قدر مزید بڑھا لیا کرتا تھا، اسی طرح اب بجلی کے سلسلے میں روا رکھا گیا ہے۔ یہ سراسر عوام پر ایک قسم کا بوجھ ہے۔
بجلی کی قیمت میں اس طرح تیزی سے اضافے کے باعث اب مہنگائی میں اضافے کا اول نمبر کا جواز بجلی کی قیمت کو بتایا جائے گا۔ جب ڈالر کی قیمت بڑھتی تھی تو ہر چیز پر اس کے اثرات مرتب ہوتے تھے۔ ڈالر ریٹ کے بڑھتے ہی امپورٹڈ آئٹمز کی قیمتیں بڑھ جایا کرتی تھیں اور بہت سے بزنس مین جوکہ کیلکولیٹر ہاتھ میں لے کر اس کے ذریعے کسٹمرزکو باورکرا دیا کرتے تھے کہ اب فلاں شے کی قیمت اتنی زیادہ بڑھ چکی ہے۔
البتہ آپ کو کچھ رعایت دے کر اتنی رقم میں آپ کو فروخت کر دیتے ہیں لیکن چند روز بعد اس قیمت میں دستیاب نہیں ہوگا، لہٰذا کسٹمر ان کی اس جادو بیانی سے قائل ہو کر فوراً رقم ادا کر کے مطلوبہ شے خرید لیتا ہے۔ اب صنعت کاروں کی باری ہے کہ وہ اپنے بیرونی خریداروں کو کس طرح رام کریں گے۔
پہلے ہی اس بات پر کالم لکھا جا چکا ہے کہ کس طرح سے بنگلہ دیش، بھارت میں بجلی ریٹ کم ہیں اور پاکستان میں ان کے مقابلے میں دگنے سے زائد نرخ ہونے کے باعث کس طرح عالمی کپڑا مارکیٹ میں پاکستان کا شیئر کم ہو کر رہ گیا ہے۔
گزشتہ تین دہائیوں سے عالمی ٹیکسٹائل مارکیٹ میں جہاں 25سے 30سال قبل تک پاکستان کا راج تھا، پاکستانی ٹیکسٹائل مصنوعات کی مانگ تھی اور دیگر ممالک بنگلہ دیش، ویتنام، تھائی لینڈ، بھارت، چین وغیرہ پاکستان سے کہیں پیچھے تھے لیکن اب صورت حال بدل گئی ہے۔
بیرونی خریدار پاکستان کی طرف کم رجوع کر رہے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ یہاں پر بجلی ٹیرف مہنگے ہونے کے باعث اور مذکورہ ممالک میں بجلی نرخ کم ہونے کے باعث ہم ان کو مہنگی پیش کش کر رہے ہیں اور دیگر ممالک ہم سے نسبتاً کم نرخ پر اپنا سودا فروخت کر رہے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ اپٹما والے مطالبہ کر رہے تھے کہ بجلی نرخ دیگر ممالک کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں لہٰذا اس میں کمی لائی جائے بلکہ اب تو مزید مہنگا کرکے انھیں یہ بات کہنے پر مجبور کردیا ہے کہ بجلی کے نئے نرخوں پر نہ فیکٹریاں چلیں گی اور نہ ایکسپورٹ آرڈر پورے کر سکیں گے۔
صنعتکاروں اور تاجروں کا کہنا ہے کہ بجلی کے نرخوں میں ایک بار پھر ساڑھے سات روپے فی یونٹ اضافہ کردیا گیا ہے۔ یقینی طور پر یہ تمام صورت حال ملکی صنعت و حرفت ایکسپورٹ اور ملکی تجارت اور عوام سب کے لیے وسیع تر منفی اثرات اپنے اندر سموئے ہوئے ہے جس سے نمٹنے کے لیے بڑی عرق ریزی سے کام لیتے ہوئے اس طرح کے اقدامات اٹھائے جائیں کہ ملکی اور بین الاقوامی سطح (یعنی ایکسپورٹ) پر اس کے منفی اثرات کو کم سے کم کیا جاسکے۔
کیونکہ بجلی اب ہر شے پر بجلی بم کی طرح گرے گی جس سے مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوکر رہے گا۔ گزشتہ چند دنوں سے آٹا چکی جس کی قیمت فی کلو 160روپے تھی اس میں 10روپے کا اضافہ ہوا ہے۔ اب بجلی بل آنے پر اس کا سارا بوجھ عوام پر ہی منتقل کیا جائے گا۔ کہا تو یہ جا رہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ ہونے پر معاشی بحران کا حل نکل آئے گا۔ اس طرح تو معاشی مسائل کا حل ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا ہے۔
بلکہ اب تو امریکی حکام کی طرف سے بھی یہ کہہ دیا گیا ہے کہ پاکستانی عوام کے لیے آنے والے دن سخت ہوں گے۔ آٹے کے علاوہ چینی کی قیمت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جون میں چینی کی فی کلو قیمت 120روپے تھی جوکہ اب بڑھتے بڑھتے 150کے قریب پہنچ چکی ہے۔ اس میں مافیا کا کمال ہے جسے روکنے میں حکومتیں پہلے کی طرح فعال نہیں ہو رہی ہیں۔
صوبائی حکومتوں کو اپنے طور پر اس مسئلے کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ آٹا اور چینی ایسی ایشیا ہیں جن کی قیمت میں اضافے سے روٹی سے لے کر مٹھائی تک کی قیمت میں اضافہ ہو جاتا ہے اور عوام کو مہنگائی کا بوجھ مزید ستانے لگتا ہے۔
بہرحال ہر مسئلے کا حل نکل سکتا ہے لہٰذا صنعتکار یہ نہ سوچیں کہ وہ فیکٹریاں بند کردیں گے۔ اپنی تیار کردہ صنعتی اشیا کی لاگت میں کمی لانے کے لیے دیگر طریقوں پر بھی غور کریں جس میں فیکٹریوں، ملوں میں بجلی کا غیر ضروری استعمال اور دیگر طریقے شامل ہیں۔
عوام بھی اپنے بجلی بلوں میں کمی لانے کی خاطر گھروں میں ایسے کم واٹ والے بلب استعمال کریں جس سے بجلی کی کھپت میں کمی ہو۔ گھروں میں بہت کم زیرو بلب استعمال ہوتے ہیں۔ اب ان میں مزید چند بلبوں کا اضافہ کیا جائے۔
دن کی روشنی میں بلب جلانے کا رواج ختم کیا جائے بعض بنگلوں کی بیرونی لائٹس دن کے دو تین بجے تک آن رہتی ہیں۔ یہ سستی اور غفلت کا نتیجہ ہے، سورج نکلنے کے ساتھ ہی ان لائٹس کو آف کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ بجلی کے بلوں کو غور سے دیکھا جائے تو ان میں پیک ٹائم کے چارجز زیادہ ہیں لہٰذا ان اوقات میں کپڑے استری کرنے، اے سی چلانے، موٹر چلانے اور دیگر ایسے کام جن کو چند گھنٹوں کے بعد بھی انجام دیا جاسکتا ہے اس پر عمل درآمد کیا جائے۔
اس کے علاوہ مقامی انتظامیہ یا بلدیاتی سطح پر جو اسٹریٹ لائٹس لگائی جاتی ہیں وہ بعض اوقات کئی ہفتوں تک مسلسل جلتی رہتی ہیں لہٰذا اسٹریٹ لائٹس کے آن اور آف کرنے کے عمل کو گلی محلوں کے چند افراد کے ساتھ مل کر باہمی تعاون کے ذریعے اس مسئلے کا حل نکالا جاسکتا ہے۔ میں نے کئی علاقوں کی اسٹریٹ لائٹس دیر تک جلتے دیکھی ہیں۔
نماز فجر و مغرب پڑھ کر گھر جانے والے بعض نمازی بٹن کو آن اور آف کر دیتے ہیں، لہٰذا بلدیاتی اداروں کے اہلکار اپنے طور پر اس بات کو یقینی بنا لیں کہ اسٹریٹ لائٹس ایک منٹ سے زائد فضول نہ جلی رہیں تو اس سے ملک بھر میں بجلی کی بچت ہوگی۔
بہرحال بجلی ایک ایسی ضرورت زندگی ہے جس کے بغیر گزارا ناممکن ہے البتہ ایسے طور طریقے تلاش کر لیے جائیں تاکہ بجلی کی بچت بھی ہو اور بل بھی کم سے کم آئے۔ یہ ہر شخص کے اپنے اپنے طور پر تدابیر اختیار کرنے سے ممکن ہے۔