لاہور میں لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے جگہ کا مسئلہ
شہر کے کسی سرکاری قبرستان میں لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے کوئی جگہ نہیں
پاکستان کے دوسرے بڑے شہر لاہور میں لاوارث لاشوں کی تدفین بھی ایک مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ شہر کے کسی سرکاری قبرستان میں لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔
پولیس، ایدھی فاؤنڈیشن اور مقامی این جی او کی معاونت سے لاہور کے علاقے سگیاں میں نجی اراضی پر لاوارث لاشوں کی تدفین کی جا رہی ہے۔
سگیاں کے علاقے میں واقع ایک ایکڑ سے کم رقبے پر مشتمل قبرستان میں لاوارث لاشوں کی تدفین کی جاتی ہے۔ یہ قبرستان کسی سرکاری جگہ پر نہیں ہے بلکہ ایک مقامی شہری نے لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے یہ جگہ عطیہ کی تھی جہاں اب سیکڑوں قبریں موجود ہیں۔
لاوارث لاشوں کی تدفین قانونی تقاضے مکمل کیے جانے کے بعد کی جاتی ہے۔ پولیس کو جب بھی کوئی لاوارث لاش ملتی ہے تو سب سے پہلے اس کے ورثا کی تلاش کی جاتی ہے اور لاش سردخانے میں جمع کروا دی جاتی ہے تاہم اگر، چند ہفتوں تک کوئی وارث سامنے نہیں آتا تو پھر میتیوں کی تدفین کر دی جاتی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا کہ سال 2022 میں لاہور میں 645 جبکہ رواں برس ابتک 335 لاوارث قرار دی گئی میتیوں کی تدفین کی جا چکی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ پہلے ان لاوارث میتیوں کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں کی جاتی تھی لیکن جب انتطامیہ نے لاوارث قبروں کا احاطہ ختم کر دیا تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ لاوارث میتیوں کی تدفین اب شہر خموشاں میں کی جائیگی لیکن شہر خموشاں میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے اب لاوارث میتیں سگیاں کے قریب قبرستان میں دفن کی جاتی ہیں۔
لاوارث میتیں ایدھی فاؤنڈیشن کے ذریعے سردخانے سے قبرستان پہنچائی جاتی ہیں اور وہاں ایک مقامی این جی او ''صفہ'' نماز جنازہ سمیت میت کی تدفین کرتی ہے۔ صفہ نامی این جی او کے نمائندے ملک مبین نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ جب ملتان کے نشتر اسپتال میں لاوارث لاشوں کی بیحرمتی کا واقعہ سامنے آیا تو اس وقت ان لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کم ازکم لاہور میں لاوارث لاشوں کی شرعی طریقے سے تدفین کا کام کرنا چاہیے۔
ملک مبین نے بتایا کہ وہ لوگ ابتک 283 میتیوں کی تدفین کر چکے ہیں، ہر منگل کے روز شہر کے مختلف علاقوں سے ملنے والی لاوارث لاشوں کو پولیس یہاں لاتی ہے اور یہاں نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین کر دی جاتی ہے۔ ملک مبین کے مطابق حالیہ بارشوں سے قبرستان میں پانی جمع ہوجانے کے باعث لاشوں کی تدفین نہیں کی جا سکی جبکہ قبرستان سے پانی نکالنے اور قبروں کی مرمت کا کام کیا جائے گا۔
دوسری طرف، بعض مقامی لوگوں نے یہاں لاوارث لاشوں کی تدفین پر کافی احتجاج بھی کیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس شہر بھر میں مرنے والے نشئیوں کی میتیں یہاں لاکر دفن کر رہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس کے لیے سرکاری قبرستانوں میں جگہ مختص کرے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ جگہ ایک ایکڑ سے کم ہے جو ایک شہری نے قبرستان کے لیے وقف کر دی تھی۔
ایدھی حکام کے مطابق لاوارث میتیوں کی تدفین مرنے والے کے مذہب کے مطابق ہی کی جاتی ہے، اگر کسی میت کے مذہب کی شناخت نہ ہوسکے تو پھر اسلامی طریقے سے تدفین کر دی جاتی ہے۔ میت کے تابوت میں کچھ دستاویزات بھی دفن کی جاتی ہیں۔ ایدھی ترجمان کے مطابق جس جگہ سے لاش ملی اس جگہ کے نقشے کی رپورٹ، تصاویر، پوسٹ مارٹم رپورٹ، تلاش ورثا کے اشتہار کا اخباری تراشہ اور پولیس کارروائی کی رپورٹ ان دستاویزات کے چار سیٹ تیار کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک پولیس اپنے ریکارڈ میں رکھتی ہے، دوسرا ایدھی فاؤنڈیشن، تیسرا سیٹ قبرستان انتظامیہ اور چوتھا سیٹ میت کے تابوت میں رکھ دیا جاتا ہے۔
لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس صرف قانونی دستاویزات تیار کرتی ہے اور لاوارث میت امانتا ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن ہی ان میتیوں کی تدفین کرتی ہے۔ تدفین کے لیے جگہ فراہم کرنا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا کام ہے۔
ایکسپریس ٹربیون نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر اور شہر خموشاں اتھارٹی کے حکام سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم پرائم منسٹر اسٹریٹجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی نے بتایا کہ جب وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ اسٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ تھے اور شہر خموشاں اتھارٹی بنائی گئی تھی تو اس وقت شہر خموشاں لاہور لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے باقاعدہ جگہ مختص کی گئی تھی لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو شہر خموشاں اتھارٹی کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے اور لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے جگہ مختص کی جانی چاہیے۔
پولیس، ایدھی فاؤنڈیشن اور مقامی این جی او کی معاونت سے لاہور کے علاقے سگیاں میں نجی اراضی پر لاوارث لاشوں کی تدفین کی جا رہی ہے۔
سگیاں کے علاقے میں واقع ایک ایکڑ سے کم رقبے پر مشتمل قبرستان میں لاوارث لاشوں کی تدفین کی جاتی ہے۔ یہ قبرستان کسی سرکاری جگہ پر نہیں ہے بلکہ ایک مقامی شہری نے لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے یہ جگہ عطیہ کی تھی جہاں اب سیکڑوں قبریں موجود ہیں۔
لاوارث لاشوں کی تدفین قانونی تقاضے مکمل کیے جانے کے بعد کی جاتی ہے۔ پولیس کو جب بھی کوئی لاوارث لاش ملتی ہے تو سب سے پہلے اس کے ورثا کی تلاش کی جاتی ہے اور لاش سردخانے میں جمع کروا دی جاتی ہے تاہم اگر، چند ہفتوں تک کوئی وارث سامنے نہیں آتا تو پھر میتیوں کی تدفین کر دی جاتی ہے۔
ایدھی فاؤنڈیشن کے ترجمان نے بتایا کہ سال 2022 میں لاہور میں 645 جبکہ رواں برس ابتک 335 لاوارث قرار دی گئی میتیوں کی تدفین کی جا چکی ہے۔ ترجمان نے بتایا کہ پہلے ان لاوارث میتیوں کی تدفین میانی صاحب قبرستان میں کی جاتی تھی لیکن جب انتطامیہ نے لاوارث قبروں کا احاطہ ختم کر دیا تو ہمیں یہ بتایا گیا کہ لاوارث میتیوں کی تدفین اب شہر خموشاں میں کی جائیگی لیکن شہر خموشاں میں ایسا کوئی انتظام نہیں ہے۔ اس وجہ سے اب لاوارث میتیں سگیاں کے قریب قبرستان میں دفن کی جاتی ہیں۔
لاوارث میتیں ایدھی فاؤنڈیشن کے ذریعے سردخانے سے قبرستان پہنچائی جاتی ہیں اور وہاں ایک مقامی این جی او ''صفہ'' نماز جنازہ سمیت میت کی تدفین کرتی ہے۔ صفہ نامی این جی او کے نمائندے ملک مبین نے ایکسپریس ٹربیون کو بتایا کہ جب ملتان کے نشتر اسپتال میں لاوارث لاشوں کی بیحرمتی کا واقعہ سامنے آیا تو اس وقت ان لوگوں نے یہ فیصلہ کیا کہ کم ازکم لاہور میں لاوارث لاشوں کی شرعی طریقے سے تدفین کا کام کرنا چاہیے۔
ملک مبین نے بتایا کہ وہ لوگ ابتک 283 میتیوں کی تدفین کر چکے ہیں، ہر منگل کے روز شہر کے مختلف علاقوں سے ملنے والی لاوارث لاشوں کو پولیس یہاں لاتی ہے اور یہاں نماز جنازہ کے بعد ان کی تدفین کر دی جاتی ہے۔ ملک مبین کے مطابق حالیہ بارشوں سے قبرستان میں پانی جمع ہوجانے کے باعث لاشوں کی تدفین نہیں کی جا سکی جبکہ قبرستان سے پانی نکالنے اور قبروں کی مرمت کا کام کیا جائے گا۔
دوسری طرف، بعض مقامی لوگوں نے یہاں لاوارث لاشوں کی تدفین پر کافی احتجاج بھی کیا۔ مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ پولیس شہر بھر میں مرنے والے نشئیوں کی میتیں یہاں لاکر دفن کر رہی ہے، حکومت کو چاہیے کہ اس کے لیے سرکاری قبرستانوں میں جگہ مختص کرے۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ جگہ ایک ایکڑ سے کم ہے جو ایک شہری نے قبرستان کے لیے وقف کر دی تھی۔
ایدھی حکام کے مطابق لاوارث میتیوں کی تدفین مرنے والے کے مذہب کے مطابق ہی کی جاتی ہے، اگر کسی میت کے مذہب کی شناخت نہ ہوسکے تو پھر اسلامی طریقے سے تدفین کر دی جاتی ہے۔ میت کے تابوت میں کچھ دستاویزات بھی دفن کی جاتی ہیں۔ ایدھی ترجمان کے مطابق جس جگہ سے لاش ملی اس جگہ کے نقشے کی رپورٹ، تصاویر، پوسٹ مارٹم رپورٹ، تلاش ورثا کے اشتہار کا اخباری تراشہ اور پولیس کارروائی کی رپورٹ ان دستاویزات کے چار سیٹ تیار کیے جاتے ہیں جن میں سے ایک پولیس اپنے ریکارڈ میں رکھتی ہے، دوسرا ایدھی فاؤنڈیشن، تیسرا سیٹ قبرستان انتظامیہ اور چوتھا سیٹ میت کے تابوت میں رکھ دیا جاتا ہے۔
لاہور پولیس کے ترجمان کا کہنا ہے کہ پولیس صرف قانونی دستاویزات تیار کرتی ہے اور لاوارث میت امانتا ایدھی فاؤنڈیشن کے حوالے کر دی جاتی ہے۔ ایدھی فاؤنڈیشن ہی ان میتیوں کی تدفین کرتی ہے۔ تدفین کے لیے جگہ فراہم کرنا ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کا کام ہے۔
ایکسپریس ٹربیون نے اس حوالے سے ڈپٹی کمشنر لاہور رافعہ حیدر اور شہر خموشاں اتھارٹی کے حکام سے ان کا موقف جاننے کے لیے رابطہ کیا مگر کوئی جواب نہیں دیا گیا۔ تاہم پرائم منسٹر اسٹریٹجک ریفارمز کے سربراہ سلمان صوفی نے بتایا کہ جب وہ پنجاب میں وزیراعلیٰ اسٹریٹجک ریفارمز یونٹ کے سربراہ تھے اور شہر خموشاں اتھارٹی بنائی گئی تھی تو اس وقت شہر خموشاں لاہور لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے باقاعدہ جگہ مختص کی گئی تھی لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو شہر خموشاں اتھارٹی کو یہ معاملہ دیکھنا چاہیے اور لاوارث لاشوں کی تدفین کے لیے جگہ مختص کی جانی چاہیے۔