چیلنج
واقعی کپتان کو سیاست نہیں آتی، وہ دو اور دو کو صرف چار ہی کرنا جانتے ہیں۔
ہمارے کپتان کی ہر تان ہے 'دیپک' ، جب بھی وہ کوئی اسٹینڈ لیتے ہیں تو پھر شعلے کالپک جانا تو لازمی ہوتا ہے۔ بھڑوں کے چھتے میں ہاتھ ڈالنا ان کی پرانی عادت اور کہتے ہیں کہ عادت سر کے ساتھ ہی جاتی ہے مگر اللہ اس سر کو سلامت رکھے کیونکہ کئی سروں کو ان کے سر کی بہت ضرورت ہے۔
کہتے ہیں پوت کے پائوں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں اور کپتان کی اٹھان تو اس وقت ہی سامنے آگئی تھی جب انہوں نے پہلی بار قومی ٹیم میں قدم رکھا اور پھر ان کو پوری قوم کو سدھارنے کی فکر پڑگئی، جی ہاں یہاں کسی او ر کی نہیں بلکہ میں عمران خان کی ہی بات کررہا ہوں۔ سب آسائشیں بھول بھال اور اپنا گھر بار کو تیاگ کر یہ کپتان ملک کی آخری امید بن گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو سیاست نہیں آتی، اگر یہاں لوگوں کی مراد دغابازی، مکاری، چالاکی، فریب، وعدہ خلافی اور اسی طرح کی سو قباحتوں سے ہے تو پھر ان کا کہنا بجا ہی ہے۔ واقعی کپتان کو سیاست نہیں آتی، وہ دو اور دو کو صرف چار کرنا ہی جانتے ہیں ان کو ہاتھ کی وہ صفائی نہیں آتی جو کہ دواور دو کو پانچ بنا لیتی ہے۔
عمران خان شروع سے ہی سے اسٹیٹس کو کے وہ دشمن رہے اور جس کو غلط سمجھتے ہیں اس کے خلاف بات کہنے سے گھبراتے نہیں اور اپنے نفع نقصان کی توان کو شاید شروع روز سے ہی پروا نہیں تھی۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر توان پر فٹ ہی بیٹھتا ہے کہ
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
تو بات یہ ہے کہ اس بار کپتان ایک ایسے گروپ سے پنگا لے بیٹھے ہیں جس کو شاید یہ گمان بلکہ یقین ہوچکا ہے کہ پاکستان کی راجدھانی پر کس کو بیٹھانا اور کس کو اتارنا ہے ان کی مٹھی میں ہے تبھی تو سابق جنرل کی حکومت کے آخری دنوں میں انہوں نے اپنی ایک اشاعت کے فرنٹ پیج پر ایک شعر لکھا تھا جس کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں تھا کہ
تم اور کتنے دن ہم اور کتنے دن
ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو مگر لب لباب وہی تھا جوکہ اس مصرعے سے ظاہر ہورہا ہے۔ تو صاحبان قدردان اس گروپ کے جب کپتان نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تواس کا بھڑک اٹھنا لازمی تھا اور ہونا بھی چاہئے، اس میں کوئی غلط بات نہیں مگرجواب دینے کا طریقہ جو اس گروپ کے 'ملازمین' نے اختیار کیا وہ مناسب نہیں ہے۔
اسی ادارے کے ایک ملازم نے کپتان کے الزام کو اپنی ذات پر لے کر اپنا ذاتی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے جبکہ کپتان نے اپنے بیان میں کسی فرد واحد کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی تان تو پورے ادارے پر ٹوٹی ہے مگر الیکشن نشریات کے دوران انچارج بنائے جانے والے موصوف نے اس کو اپنی ذات پر لینے کے ساتھ ایک بونگا سے چیلنج بھی کرڈالا اور ان کا ادارہ ہر بلیٹن میں چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ چیلنج کو اتنے گھنٹے گزر گئے پر جواب نہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ کپتان کی جانب سے جواب نہ آئے اور تکنیکی طور پر جواب آنا بھی نہیں چاہئے اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
چیلنج کرنے والے موصوف نے کپتان کو اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ اپنے پاس آنے اور یہ ثابت کرنے کا چیلنج کیا ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کے شواہد پیش کریں اور اس سلسلے میں ان سے مناظرہ کریں۔ اب اس چیلنج کرنے والے انتہائی محترم صحافی کو شاید یہ بات بھول گئے کہ کپتان نے جس ادارے کا بائیکاٹ کیا وہ اس کے ایک ملازم ہیں اور ملازم کی سادہ سی تشریح یہ ہے کہ جو کوئی کسی ادارے میں اپنی خدمات کا معاوضہ لیتا وہ ملازم ہے چاہے وہ جتنی بھی بڑی پوسٹ پرکام کرے وہ اس کا مالک نہیں بن جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملازم کبھی بھی کسی ادارے کی پالیسی نہیں بناتے بلکہ ادارہ مالکان ہی یہ بات اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں کہ انھیں ہوائوں کا رخ دیکھ کر اسی سمت میں چلنا چاہئے یا پھر ہوا کا رخ موڑنے کے لیے ڈٹ جانا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ملازم صرف اپنی ذات تک تو ہیرا پھیری کرسکتا ہے، اپنے ذاتی مفادات کے تحت تھوڑی بہت ڈنڈی مارسکتا ہے مگر بڑے پیمانے پر کچھ کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پالیسی کی پیروی کرتا ہے جوکہ اس کو اوپر سے دی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ملازم کا کسی ادارے کی جانب سے چیلنج کرنا (معذرت کے ساتھ) ایسے ہی ہے جیسے مرزا غالب نے کہا تھا کہ
بنا ہے شہ کا مصائب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
کپتان نے اب اگر کسی ادارے کی پالیسی پر اعتراض کیا ہے تو پارٹی اس ادارے کا ملازم نہیں بنا بلکہ اس کے مالکان کو اس سلسلے میں اپنا ردعمل پیش کرنا چاہئے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ مناظرہ کرتے ہیں، ڈائیلاگ کرتے ہیں یا پھر اپنے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچائے جانے پر قانونی کارروائی کرتے ہیں۔ ادارہ جانے اور اس کا کام، تو کون اور میں کون۔
اسی ادارے سے وابستہ ایک اور محترم صحافی جوکہ اکثر فیس بک والوں سے شاکی رہتے ہیں بھی اس موقع پر پیچھے نہیں رہے، انھوں نے تو اپنے کالم میں کپتان کو احسان فراموش بھی قرار دے دیا ہے، اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کو کپتان سے ایسی کیا تکلیف ہے کہ جب بھی آپ کا قلم جیب سے نکلتا ہے ان کے خلاف نفرت کا لاوا چھوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے اس کالمی مقدمے بنام کپتان میں موجود تمام باتوں کا جواب تو ہم بھی دے سکتے ہیں مگر بات پھر وہی ہے کہ 'میں کون؟' مگر ان کے ایک پوائنٹ پر بات ضرور کرنا چاہوں گا صحافت سے مجھ ناچیز کا بھی تھوڑا سے تعلق ہے ہم دن بھر میں درجنوں خبریں بناتے ہیں جو کچھ ہم نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی ذاتی رائے ہمارے کام پر اثر انداز نہ ہونے پائے، ہم خبر کو اپنارنگ نہ دیں اور جو ہے جیسا ہے ویسا ہی قارئین تک پہنچائیں اور ان پر چھوڑ دیں وہ جو مرضی فیصلہ کریں، ہمیں اسی چیز کا معاوضہ ملتا ہے۔ اب موصوف نے اپنے کالم میں اعتراض اٹھایا ہے کہ جب کپتان اسٹیج سے گرے اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو 'کیپٹل' کے معروف صحافی نے ان کے اسپتال کے باہر سے پروگرام کیا مگر جب ان کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا تو کپتان جھوٹے منہ بھی ان کی عیادت کو نہیں پہنچے۔
میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ صحافت اور خاص طور پر غیر جانبدار صحافت کی بات کرتے ہیں تو پھر آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ دن کے اہم ترین واقعے کی کوریج کریں اور اپنے قارئین یا ناظرین تک وہ بات پہنچائیں جو کہ وہ جاننا چاہتے ہیں،اگر کپتان کے زخمی ہونے کے واقعے کی کوریج کی گئی تو یہ کسی کی ذات پر احسان نہیں تھا بلکہ ایک صحافی کی پروفیشنل ذمہ داری اور اسی کی وجہ سے ان کو ماہانہ لاکھوں روپے معاوضہ ملتا ہے ، اس لئے آپ اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو تو کسی بھی صورت دوسرے پر احسان قرار نہیں دے سکتے اب رہا سوال یہ کہ کپتان نے گولیوں سے چھلنی شخص کی عیادت کیوں نہیں کی تو پھر میں یہی کہوں گا کہ کپتان کی کپتان ہی جانے اور ان کی جانب سے وضاحت دینے والا 'میں کون؟'۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
کہتے ہیں پوت کے پائوں پالنے میں ہی نظر آجاتے ہیں اور کپتان کی اٹھان تو اس وقت ہی سامنے آگئی تھی جب انہوں نے پہلی بار قومی ٹیم میں قدم رکھا اور پھر ان کو پوری قوم کو سدھارنے کی فکر پڑگئی، جی ہاں یہاں کسی او ر کی نہیں بلکہ میں عمران خان کی ہی بات کررہا ہوں۔ سب آسائشیں بھول بھال اور اپنا گھر بار کو تیاگ کر یہ کپتان ملک کی آخری امید بن گیا۔ لوگ کہتے ہیں کہ ان کو سیاست نہیں آتی، اگر یہاں لوگوں کی مراد دغابازی، مکاری، چالاکی، فریب، وعدہ خلافی اور اسی طرح کی سو قباحتوں سے ہے تو پھر ان کا کہنا بجا ہی ہے۔ واقعی کپتان کو سیاست نہیں آتی، وہ دو اور دو کو صرف چار کرنا ہی جانتے ہیں ان کو ہاتھ کی وہ صفائی نہیں آتی جو کہ دواور دو کو پانچ بنا لیتی ہے۔
عمران خان شروع سے ہی سے اسٹیٹس کو کے وہ دشمن رہے اور جس کو غلط سمجھتے ہیں اس کے خلاف بات کہنے سے گھبراتے نہیں اور اپنے نفع نقصان کی توان کو شاید شروع روز سے ہی پروا نہیں تھی۔ کوئی مانے یا نہ مانے مگر ان پر علامہ اقبال کا یہ شعر توان پر فٹ ہی بیٹھتا ہے کہ
کہتا ہوں وہی بات سمجھتا ہوں جسے حق
نے ابلہ مسجد ہوں نہ تہذیب کا فرزند
تو بات یہ ہے کہ اس بار کپتان ایک ایسے گروپ سے پنگا لے بیٹھے ہیں جس کو شاید یہ گمان بلکہ یقین ہوچکا ہے کہ پاکستان کی راجدھانی پر کس کو بیٹھانا اور کس کو اتارنا ہے ان کی مٹھی میں ہے تبھی تو سابق جنرل کی حکومت کے آخری دنوں میں انہوں نے اپنی ایک اشاعت کے فرنٹ پیج پر ایک شعر لکھا تھا جس کا دوسرا مصرعہ کچھ یوں تھا کہ
تم اور کتنے دن ہم اور کتنے دن
ہوسکتا ہے کہ اس میں کوئی کمی بیشی ہو مگر لب لباب وہی تھا جوکہ اس مصرعے سے ظاہر ہورہا ہے۔ تو صاحبان قدردان اس گروپ کے جب کپتان نے بائیکاٹ کا اعلان کیا تواس کا بھڑک اٹھنا لازمی تھا اور ہونا بھی چاہئے، اس میں کوئی غلط بات نہیں مگرجواب دینے کا طریقہ جو اس گروپ کے 'ملازمین' نے اختیار کیا وہ مناسب نہیں ہے۔
اسی ادارے کے ایک ملازم نے کپتان کے الزام کو اپنی ذات پر لے کر اپنا ذاتی مسئلہ بنانے کی کوشش کی ہے جبکہ کپتان نے اپنے بیان میں کسی فرد واحد کو مخاطب نہیں کیا بلکہ ان کی تان تو پورے ادارے پر ٹوٹی ہے مگر الیکشن نشریات کے دوران انچارج بنائے جانے والے موصوف نے اس کو اپنی ذات پر لینے کے ساتھ ایک بونگا سے چیلنج بھی کرڈالا اور ان کا ادارہ ہر بلیٹن میں چیخ چیخ کر کہتا رہا کہ چیلنج کو اتنے گھنٹے گزر گئے پر جواب نہیں آیا، ہوسکتا ہے کہ کپتان کی جانب سے جواب نہ آئے اور تکنیکی طور پر جواب آنا بھی نہیں چاہئے اس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
چیلنج کرنے والے موصوف نے کپتان کو اپنی پوری ٹیم کے ہمراہ اپنے پاس آنے اور یہ ثابت کرنے کا چیلنج کیا ہے کہ وہ انتخابات میں دھاندلی کے شواہد پیش کریں اور اس سلسلے میں ان سے مناظرہ کریں۔ اب اس چیلنج کرنے والے انتہائی محترم صحافی کو شاید یہ بات بھول گئے کہ کپتان نے جس ادارے کا بائیکاٹ کیا وہ اس کے ایک ملازم ہیں اور ملازم کی سادہ سی تشریح یہ ہے کہ جو کوئی کسی ادارے میں اپنی خدمات کا معاوضہ لیتا وہ ملازم ہے چاہے وہ جتنی بھی بڑی پوسٹ پرکام کرے وہ اس کا مالک نہیں بن جاتا۔ دوسری بات یہ ہے کہ ملازم کبھی بھی کسی ادارے کی پالیسی نہیں بناتے بلکہ ادارہ مالکان ہی یہ بات اپنے مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے طے کرتے ہیں کہ انھیں ہوائوں کا رخ دیکھ کر اسی سمت میں چلنا چاہئے یا پھر ہوا کا رخ موڑنے کے لیے ڈٹ جانا چاہئے۔ تیسری بات یہ ہے کہ ملازم صرف اپنی ذات تک تو ہیرا پھیری کرسکتا ہے، اپنے ذاتی مفادات کے تحت تھوڑی بہت ڈنڈی مارسکتا ہے مگر بڑے پیمانے پر کچھ کرنا اس کے بس میں نہیں ہوتا بلکہ وہ اس پالیسی کی پیروی کرتا ہے جوکہ اس کو اوپر سے دی جاتی ہے۔ اس لیے ایک ملازم کا کسی ادارے کی جانب سے چیلنج کرنا (معذرت کے ساتھ) ایسے ہی ہے جیسے مرزا غالب نے کہا تھا کہ
بنا ہے شہ کا مصائب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو کیا ہے
کپتان نے اب اگر کسی ادارے کی پالیسی پر اعتراض کیا ہے تو پارٹی اس ادارے کا ملازم نہیں بنا بلکہ اس کے مالکان کو اس سلسلے میں اپنا ردعمل پیش کرنا چاہئے اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ مناظرہ کرتے ہیں، ڈائیلاگ کرتے ہیں یا پھر اپنے ادارے کی ساکھ کو نقصان پہنچائے جانے پر قانونی کارروائی کرتے ہیں۔ ادارہ جانے اور اس کا کام، تو کون اور میں کون۔
اسی ادارے سے وابستہ ایک اور محترم صحافی جوکہ اکثر فیس بک والوں سے شاکی رہتے ہیں بھی اس موقع پر پیچھے نہیں رہے، انھوں نے تو اپنے کالم میں کپتان کو احسان فراموش بھی قرار دے دیا ہے، اب کوئی ان سے پوچھے کہ آپ کو کپتان سے ایسی کیا تکلیف ہے کہ جب بھی آپ کا قلم جیب سے نکلتا ہے ان کے خلاف نفرت کا لاوا چھوڑتا دکھائی دیتا ہے۔ ان کے اس کالمی مقدمے بنام کپتان میں موجود تمام باتوں کا جواب تو ہم بھی دے سکتے ہیں مگر بات پھر وہی ہے کہ 'میں کون؟' مگر ان کے ایک پوائنٹ پر بات ضرور کرنا چاہوں گا صحافت سے مجھ ناچیز کا بھی تھوڑا سے تعلق ہے ہم دن بھر میں درجنوں خبریں بناتے ہیں جو کچھ ہم نے سیکھا ہے وہ یہ ہے کہ اپنی ذاتی رائے ہمارے کام پر اثر انداز نہ ہونے پائے، ہم خبر کو اپنارنگ نہ دیں اور جو ہے جیسا ہے ویسا ہی قارئین تک پہنچائیں اور ان پر چھوڑ دیں وہ جو مرضی فیصلہ کریں، ہمیں اسی چیز کا معاوضہ ملتا ہے۔ اب موصوف نے اپنے کالم میں اعتراض اٹھایا ہے کہ جب کپتان اسٹیج سے گرے اور زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا تھے تو 'کیپٹل' کے معروف صحافی نے ان کے اسپتال کے باہر سے پروگرام کیا مگر جب ان کو گولیوں سے چھلنی کیا گیا تو کپتان جھوٹے منہ بھی ان کی عیادت کو نہیں پہنچے۔
میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ اگر آپ صحافت اور خاص طور پر غیر جانبدار صحافت کی بات کرتے ہیں تو پھر آپ کی یہ ذمہ داری ہے کہ آپ دن کے اہم ترین واقعے کی کوریج کریں اور اپنے قارئین یا ناظرین تک وہ بات پہنچائیں جو کہ وہ جاننا چاہتے ہیں،اگر کپتان کے زخمی ہونے کے واقعے کی کوریج کی گئی تو یہ کسی کی ذات پر احسان نہیں تھا بلکہ ایک صحافی کی پروفیشنل ذمہ داری اور اسی کی وجہ سے ان کو ماہانہ لاکھوں روپے معاوضہ ملتا ہے ، اس لئے آپ اپنی پروفیشنل ذمہ داریوں کو تو کسی بھی صورت دوسرے پر احسان قرار نہیں دے سکتے اب رہا سوال یہ کہ کپتان نے گولیوں سے چھلنی شخص کی عیادت کیوں نہیں کی تو پھر میں یہی کہوں گا کہ کپتان کی کپتان ہی جانے اور ان کی جانب سے وضاحت دینے والا 'میں کون؟'۔
نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔