پیمرا میں جیو نیوز کے خلاف وزارت دفاع کی درخواست پر سماعت مکمل
آئی ایس آئی اوراس کے سربراہ پر بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی پر وزارت دفاع کی جانب سے شکایتی ریفرنس بھیجا گیا تھا
وزارت دفاع کی شکایت پر پیمرا میں جیو نیوز سے متعلق خصوصی سماعت مکمل ہوگئی جس کے بعد پیمرا اتھارٹی کا اجلاس 9 مئی کو طلب کر لیا گیا ہے۔
پیمرا کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت دفاع کی جانب سے بابر اعوان اور جیو کی جانب سے اکرم شیخ بطور وکیل پیش ہوئے، دوران اجلاس اکرم شیخ نے کہا کہ پیمرا اتھارٹی مکمل نہیں اس لئے لئے یہ نہ کسی سماعت کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی جیو کا لائسنس منسوخ کرسکتی ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون کی خلاف ورزی پر جیو نیوز کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پیمرا اتھارٹی کا اجلاس 9 مئی کو طلب کیا گیا ہے جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات اور وکلا کے دلائل کو پیش کیا جائے گا۔
اہم دفاعی ادارے آئی ایس آئی پر بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی پر وزارت دفاع کی جانب سے پیمرا میں اس کے خلاف شکایتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جس پر جیو نیوز کی انتظامیہ کو 14 روز کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس دوران قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف مہم چلانے پر اپنا مؤقف پیش کرے۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے جب کہ بھارتی میڈیا کے بعد ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی جیو کی حمایت میں میدان میں کود پڑی تھی۔
پیمرا کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں وزارت دفاع کی جانب سے بابر اعوان اور جیو کی جانب سے اکرم شیخ بطور وکیل پیش ہوئے، دوران اجلاس اکرم شیخ نے کہا کہ پیمرا اتھارٹی مکمل نہیں اس لئے لئے یہ نہ کسی سماعت کا اختیار رکھتی ہے اور نہ ہی جیو کا لائسنس منسوخ کرسکتی ہے۔ وزارت دفاع کے وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ قانون کی خلاف ورزی پر جیو نیوز کا لائسنس منسوخ کیا جائے۔ وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد پیمرا اتھارٹی کا اجلاس 9 مئی کو طلب کیا گیا ہے جس میں خصوصی کمیٹی کی سفارشات اور وکلا کے دلائل کو پیش کیا جائے گا۔
اہم دفاعی ادارے آئی ایس آئی پر بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی پر وزارت دفاع کی جانب سے پیمرا میں اس کے خلاف شکایتی ریفرنس بھیجا گیا تھا جس پر جیو نیوز کی انتظامیہ کو 14 روز کی مہلت دی گئی تھی کہ وہ اس دوران قومی سلامتی کے ادارے کے خلاف مہم چلانے پر اپنا مؤقف پیش کرے۔
واضح رہے کہ جیو نیوز کے اینکر پرسن حامد میر پر 19 اپریل کو کراچی میں ایئرپورٹ کے قریب فائرنگ کی گئی تھی جس کے نتیجے میں وہ زخمی ہوگئے تاہم اس کے بعد جیو نیوز نے اس کا الزام نہ صرف آئی ایس آئی پر لگایا بلکہ اس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام کو بھی قصوروار ٹھہرا کر پورا دن اس اہم قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا جاتا رہا اور حامد میر کی جانب سے ایف آئی آر درج کرانے سے قبل جیو نے اپنے ہی اسکرین پر ایف آئی آر در ج کرکے اپنے نیوز سینٹر کو تفتیشی سینٹر بنادیا اور اس کے نیوز اینکرز نے گویا چیف جسٹس بن کر آئی ایس آئی اور اس کے سربراہ کو مجرم قرار دے دیا۔
دوسری جانب جیو نیوز کی طرف سے پاکستانی فوج اور ملک کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی پر بلا سوچے سمجھے الزام تراشی سے گویا بھارتی میڈیا کی دلی مراد بر آئی اور اس نے چیخ چیخ کر زخمی صحافی سے اظہار یکجہتی سے زیادہ آئی ایس آئی کو ملوث کرنے کے پہلو کو نمایاں کیا۔ بھارتی چینلوں میں نام نہاد بریکنگ نیوز کا مرکزی نکتہ ہی پاکستانی سیکیورٹی اسٹیبلشمنٹ کو بدنام کرنا تھا اور یہ سلسلہ پرنٹ میڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹوں میں بھی نظر آیا۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے بھارتی میڈیا ایسے ہی کسی موقع کی تلاش میں تھا تاکہ وہ پاکستانی انٹیلی جنس ایجنسی کو بدنام کرسکے جب کہ بھارتی میڈیا کے بعد ہندو انتہا پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی بھی جیو کی حمایت میں میدان میں کود پڑی تھی۔