طلبہ یونین کے ذریعہ طالبات بااختیار
جنرل ضیاالحق کی حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کر کے اس چینل کو بند کر دیا تھا
ملک کی ایک قدیم اسلامیہ یونیورسٹی بہاولپور میں سیکس اور منشیات اسکینڈل کا انکشاف ہوا ہے بلکہ طلبا میں منشیات فراہم کرنے والے ایک گروہ کی گرفتاری کا دعویٰ کیا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایک سینئر سیکیورٹی آفیسر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، جس کے موبائل فونز سے لڑکیوں کی قابل اعتراض وڈیوز اور تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔
خبریں شایع ہوئیں کہ منشیات کی فراہمی اور طالبات کی جنسی استحصال میں اساتذہ کا ایک گروہ بھی ملوث ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اظہر محبوب نے یونیورسٹی کے عملے کے ملوث ہونے کے الزامات کو سازش قرار دیا ہے لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
وائس چانسلر نے ریٹائرمنٹ کے وقت پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ ایک سازش ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اس سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے از خود نوٹس لیا جائے۔ یونیورسٹی کی نگرانی کرنے والے وفاقی ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اظہر محبوب نے اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ بہاولپور کی ایک بااثر شخصیت نے اپنے بیٹے کے منشیات میں ملوث ہونے پر ایک ضلع پولیس آفیسر کی مدد سے اس اسکینڈل کا شوشہ چھوڑا ہے۔
اس من گھڑت اسکینڈل سے پوری یونیورسٹی کی ساکھ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس افسوس ناک اسکینڈل کی بنیاد پر کئی طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
کالجز اور یونیورسٹیز میں منشیات کی فراہمی کا معاملہ خاصا سنجیدہ ہے۔ اس طرح طالبات اور خواتین اساتذہ کے استحصال کا معاملہ بھی کافی سنجیدہ ہے اور یہ معاملہ تعلیمی ماحول کو کافی پراگندہ کر رہا ہے۔
منشیات کی فراہمی کو روکنے کی ذمے داری پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور ضلع انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی منظم انداز میں ہوتی ہے۔
اس کاروبار کی سرپرستی سینئر اہلکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی آئی ک آئس بڑے شہروں کراچی ، اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ اب چھوٹے شہروں میں بھی دستیاب ہے۔ بہاولپور جیسے شہر میں اسلامیہ یونیورسٹی کے نوجوان اس نشے سے مستفید ہو رہے ہیں۔
اس صورت میں یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے چھوٹے شہروں میں بھی نوجوانوں کو یہ نشہ آسانی سے دستیاب ہوتا ہوگا۔ یوں یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
نوجوان نسل کو موت کی غذا سے بچانے کے لیے خاندان سے لے کر تعلیمی اداروں، مذہبی اداروں اور ذرایع ابلاغ پر آگاہی کی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ سخت انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
جب تک اسلام آباد کے سرد کمروں میں بیٹھے ہوئے افسران اپنے پوشیدہ مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت فیصلے کریں گے اور ان فیصلوں پر سختی سے عمل در آمد کے لیے لائحہ عمل نہیں بنائیں گے تو منشیات کی فراہمی کا نیٹ ورک کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یوں یونیورسٹیوں کے طالبات کو ہر قسم کے استحصال خاص طور پر جنسی استحصال سے بچانے کے لیے انھیں بااختیار کرنا ضروری ہے۔
طالبات کو با اختیار کر کے ہی استحصال کے خلاف مزاحمتی قوت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے طلباء یونین کا قیام ضروری ہے، جب طلبہ یونین باقاعدہ طور پر اپنے آئین کے تحت کام کرتی تھیں تو فرسٹ ایئر سے لے کر آخری سال کے طلباء کی یونین میں نمایندگی ہوتی تھی۔ طلبہ یونین کے انتخابات ہر سال منعقد ہوتے تھے ۔
طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کلاسوں میں 75فیصد حاضری اور ہر سمسٹر میں تمام پرچوں میں پاس ہونا لازمی ہوتا تھا، جو طالب علم طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہاں ہوتے تھے، وہ ہر طالب علم سے رابطہ کرتے تھے یوں ہر طالب علم انفرادی طور پر اور طلباء اجتماعی طور پر اپنے مسائل سے ان امیدواروں کا آگاہ کرتے تھے۔ امیدوار اپنے انتخابی منشور میں ان مسائل کے حل کا وعدہ کرتے۔
جب کوئی امید وار منتخب ہو جاتا تھا تو اس کی ذمے داری ہوتی تھی کہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے وعدوں کو پورا کرے، اگر طلبہ کی کوئی جماعت طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کرتی تھی تو اس جماعت کے عہدہ داروں کے لیے لازمی ہو جاتا تھا کہ اپنے نامزد کردہ نمایندوں کو طلبہ کے مسائل حل کرنے پر مجبور کرے، اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے تھے تو اس جماعت کے امیدواروں کو اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کر نا پڑتا تھا، اگر طلبہ یونین کا ادارہ موجود ہوتا تو اس صورت میں اگر کوئی آفسر یا استاد کسی طالب علم کو ہراساں کرتا تو وہ معاملہ چھپا نہیں رہتا تھا۔
سندھ حکومت نے طلبہ یونین کا جو قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا ہے، دو سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل در آمد نہیں ہو سکا۔ اس قانون کے تحت طلبہ یونین کے عہدہ داروں میں طالبات کا تناسب بڑھا دیا گیا ہے۔
یہ تناسب اب چالیس فیصد تک ہوگیا ہے ۔ طالبات کو مزید با اختیار بنانے کے لیے یہ تناسب پچاس فیصد ہونا چاہیے یعنی طلبہ یونین کے آدھے عہدیداران طالبات ہونی چاہیے، اگر ایسا قانون بنا دیا جائے تو جن یونیورسٹیوں میں لڑکوں کی اکثریت ہوگی اور اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوگی، وہاں طلبہ یونین کی اہم پوسٹیں طالبات کے پاس ہوں گی۔
اب بھی ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے مگر انتظامی شعبے میں خواتین کی نمایندگی کم ہے۔
اب یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو طالبات کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سندھ کے پسماندہ شہروں خیرپور، سکھر اور حیدرآباد کی سرکاری یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔
اس طرح یونیورسٹی کے دوسرے اہم عہدوں مثلا رجسٹرار، ناظم امتحانات ، مشیر امور طلباء کے اہم عہدوں پر خواتین اساتذہ کامیابی سے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔
جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگائی گئی تھی تو اس وقت طلبہ یونین کے صدر یونیورسٹی کے بنیادی اداروں ، سنڈیکیٹ، سینٹ ، اکیڈمک کونسل ، ڈسپلن کمیٹی کے رکن ہوتے تھے۔ یوں یونیورسٹی کے عہدیداروں کو طلبہ یونین کے نمایندوں سے بہت سے حقائق کا علم ہو جاتا تھا۔
اب اگر طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں طلبہ یونین کے منتخب عہدیداران کو نمایندگی دی جائے اور طلبہ یونین کے نمایندوں میں طالبات بھی شامل ہوں تو طالبات کے بہت سارے مسائل یونیورسٹی کی انتظامیہ کے علم میں آئیں گے۔
جنرل ضیاالحق کی حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کر کے اس چینل کو بند کر دیا تھا۔ اس کا زیادہ نقصان طالبات کو ہو رہا ہے۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے سینئر اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے بارے میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملزمان کی نشاندہی کرسکے گی۔
ایچ ای سی اس رپورٹ کی روشنی میں اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرے گی اور یقینا یونیورسٹی کی انتظامیہ اس اسکینڈل میں ملوث عناصر کا محاسبہ کرے گی۔ کچھ گنہگار نکالے جائیں گے، کچھ بچ جائیں گے۔ یوں یہ مسئلہ وقتی طور پر حل تو ہو جائے گا مگر اس کا مستقل حل طالبات کو طلبہ یونین کے ذریعے بااختیار بنانے میں مضمر ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ایک سینئر سیکیورٹی آفیسر کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، جس کے موبائل فونز سے لڑکیوں کی قابل اعتراض وڈیوز اور تصاویر بھی برآمد ہوئی ہیں۔
خبریں شایع ہوئیں کہ منشیات کی فراہمی اور طالبات کی جنسی استحصال میں اساتذہ کا ایک گروہ بھی ملوث ہے۔ اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اظہر محبوب نے یونیورسٹی کے عملے کے ملوث ہونے کے الزامات کو سازش قرار دیا ہے لیکن قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے تعلیم کے سامنے پیش نہیں ہوئے۔
وائس چانسلر نے ریٹائرمنٹ کے وقت پریس کانفرنس میں کہا کہ یہ ایک سازش ہے۔ انھوں نے سپریم کورٹ سے استدعا کی ہے کہ اس سازش کا قلع قمع کرنے کے لیے از خود نوٹس لیا جائے۔ یونیورسٹی کی نگرانی کرنے والے وفاقی ادارے ہائر ایجوکیشن کمیشن نے اس معاملے کی تحقیقات کا فیصلہ کیا۔
اسلامیہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر اظہر محبوب نے اپنا عہدہ چھوڑتے ہوئے ایک پریس کانفرنس میں موقف اختیار کیا کہ بہاولپور کی ایک بااثر شخصیت نے اپنے بیٹے کے منشیات میں ملوث ہونے پر ایک ضلع پولیس آفیسر کی مدد سے اس اسکینڈل کا شوشہ چھوڑا ہے۔
اس من گھڑت اسکینڈل سے پوری یونیورسٹی کی ساکھ نقصان پہنچایا گیا ہے۔ اس افسوس ناک اسکینڈل کی بنیاد پر کئی طالبات کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔
کالجز اور یونیورسٹیز میں منشیات کی فراہمی کا معاملہ خاصا سنجیدہ ہے۔ اس طرح طالبات اور خواتین اساتذہ کے استحصال کا معاملہ بھی کافی سنجیدہ ہے اور یہ معاملہ تعلیمی ماحول کو کافی پراگندہ کر رہا ہے۔
منشیات کی فراہمی کو روکنے کی ذمے داری پولیس اور قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں اور ضلع انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ ذرایع ابلاغ پر نشر ہونے والی رپورٹوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فراہمی منظم انداز میں ہوتی ہے۔
اس کاروبار کی سرپرستی سینئر اہلکار کرتے ہیں۔ اس کے ساتھ یہ خبر بھی آئی ک آئس بڑے شہروں کراچی ، اسلام آباد اور لاہور کے علاوہ اب چھوٹے شہروں میں بھی دستیاب ہے۔ بہاولپور جیسے شہر میں اسلامیہ یونیورسٹی کے نوجوان اس نشے سے مستفید ہو رہے ہیں۔
اس صورت میں یہ بھی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ دوسرے چھوٹے شہروں میں بھی نوجوانوں کو یہ نشہ آسانی سے دستیاب ہوتا ہوگا۔ یوں یہ معاملہ مزید پیچیدہ ہو جاتا ہے۔
نوجوان نسل کو موت کی غذا سے بچانے کے لیے خاندان سے لے کر تعلیمی اداروں، مذہبی اداروں اور ذرایع ابلاغ پر آگاہی کی مہم چلانے کے ساتھ ساتھ سخت انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے۔
جب تک اسلام آباد کے سرد کمروں میں بیٹھے ہوئے افسران اپنے پوشیدہ مفادات کو نظر انداز کرتے ہوئے سخت فیصلے کریں گے اور ان فیصلوں پر سختی سے عمل در آمد کے لیے لائحہ عمل نہیں بنائیں گے تو منشیات کی فراہمی کا نیٹ ورک کبھی ختم نہیں ہوگا۔ یوں یونیورسٹیوں کے طالبات کو ہر قسم کے استحصال خاص طور پر جنسی استحصال سے بچانے کے لیے انھیں بااختیار کرنا ضروری ہے۔
طالبات کو با اختیار کر کے ہی استحصال کے خلاف مزاحمتی قوت کو مضبوط کیا جا سکتا ہے اور اس مقصد کے لیے طلباء یونین کا قیام ضروری ہے، جب طلبہ یونین باقاعدہ طور پر اپنے آئین کے تحت کام کرتی تھیں تو فرسٹ ایئر سے لے کر آخری سال کے طلباء کی یونین میں نمایندگی ہوتی تھی۔ طلبہ یونین کے انتخابات ہر سال منعقد ہوتے تھے ۔
طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے کلاسوں میں 75فیصد حاضری اور ہر سمسٹر میں تمام پرچوں میں پاس ہونا لازمی ہوتا تھا، جو طالب علم طلبہ یونین کے انتخابات میں حصہ لینے کے خواہاں ہوتے تھے، وہ ہر طالب علم سے رابطہ کرتے تھے یوں ہر طالب علم انفرادی طور پر اور طلباء اجتماعی طور پر اپنے مسائل سے ان امیدواروں کا آگاہ کرتے تھے۔ امیدوار اپنے انتخابی منشور میں ان مسائل کے حل کا وعدہ کرتے۔
جب کوئی امید وار منتخب ہو جاتا تھا تو اس کی ذمے داری ہوتی تھی کہ طلبہ کے مسائل حل کرنے کے وعدوں کو پورا کرے، اگر طلبہ کی کوئی جماعت طلبہ یونین کے مختلف عہدوں کے لیے اپنے امیدوار نامزد کرتی تھی تو اس جماعت کے عہدہ داروں کے لیے لازمی ہو جاتا تھا کہ اپنے نامزد کردہ نمایندوں کو طلبہ کے مسائل حل کرنے پر مجبور کرے، اگر وہ ایسا نہیں کر پاتے تھے تو اس جماعت کے امیدواروں کو اگلے انتخابات میں شکست کا سامنا کر نا پڑتا تھا، اگر طلبہ یونین کا ادارہ موجود ہوتا تو اس صورت میں اگر کوئی آفسر یا استاد کسی طالب علم کو ہراساں کرتا تو وہ معاملہ چھپا نہیں رہتا تھا۔
سندھ حکومت نے طلبہ یونین کا جو قانون سندھ اسمبلی سے منظور کرایا ہے، دو سال گزرنے کے باوجود اس پر عمل در آمد نہیں ہو سکا۔ اس قانون کے تحت طلبہ یونین کے عہدہ داروں میں طالبات کا تناسب بڑھا دیا گیا ہے۔
یہ تناسب اب چالیس فیصد تک ہوگیا ہے ۔ طالبات کو مزید با اختیار بنانے کے لیے یہ تناسب پچاس فیصد ہونا چاہیے یعنی طلبہ یونین کے آدھے عہدیداران طالبات ہونی چاہیے، اگر ایسا قانون بنا دیا جائے تو جن یونیورسٹیوں میں لڑکوں کی اکثریت ہوگی اور اساتذہ اور غیر تدریسی عملے میں مردوں کی تعداد زیادہ ہوگی، وہاں طلبہ یونین کی اہم پوسٹیں طالبات کے پاس ہوں گی۔
اب بھی ملک کی کئی یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ ہوا ہے مگر انتظامی شعبے میں خواتین کی نمایندگی کم ہے۔
اب یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو طالبات کے مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنی پالیسیوں میں بنیادی تبدیلیاں لانا ہوں گی۔ سندھ کے پسماندہ شہروں خیرپور، سکھر اور حیدرآباد کی سرکاری یونیورسٹیوں میں خواتین اساتذہ وائس چانسلر کی حیثیت سے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔
اس طرح یونیورسٹی کے دوسرے اہم عہدوں مثلا رجسٹرار، ناظم امتحانات ، مشیر امور طلباء کے اہم عہدوں پر خواتین اساتذہ کامیابی سے فرائض انجام دیتی رہی ہیں۔
جب جنرل ضیاء الحق کے دور میں طلبہ یونین کے ادارے پر پابندی لگائی گئی تھی تو اس وقت طلبہ یونین کے صدر یونیورسٹی کے بنیادی اداروں ، سنڈیکیٹ، سینٹ ، اکیڈمک کونسل ، ڈسپلن کمیٹی کے رکن ہوتے تھے۔ یوں یونیورسٹی کے عہدیداروں کو طلبہ یونین کے نمایندوں سے بہت سے حقائق کا علم ہو جاتا تھا۔
اب اگر طلبہ یونین کو بحال کیا جائے اور یونیورسٹی کے بنیادی اداروں میں طلبہ یونین کے منتخب عہدیداران کو نمایندگی دی جائے اور طلبہ یونین کے نمایندوں میں طالبات بھی شامل ہوں تو طالبات کے بہت سارے مسائل یونیورسٹی کی انتظامیہ کے علم میں آئیں گے۔
جنرل ضیاالحق کی حکومت نے طلبہ یونین پر پابندی عائد کر کے اس چینل کو بند کر دیا تھا۔ اس کا زیادہ نقصان طالبات کو ہو رہا ہے۔
ایچ ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر مختار نے اس واقعہ کی تحقیقات کے لیے سینئر اساتذہ پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی ہے جس کے بارے میں یہ امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملزمان کی نشاندہی کرسکے گی۔
ایچ ای سی اس رپورٹ کی روشنی میں اسلامیہ یونیورسٹی کی انتظامیہ کو ہدایات جاری کرے گی اور یقینا یونیورسٹی کی انتظامیہ اس اسکینڈل میں ملوث عناصر کا محاسبہ کرے گی۔ کچھ گنہگار نکالے جائیں گے، کچھ بچ جائیں گے۔ یوں یہ مسئلہ وقتی طور پر حل تو ہو جائے گا مگر اس کا مستقل حل طالبات کو طلبہ یونین کے ذریعے بااختیار بنانے میں مضمر ہے۔