پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جائے
پٹرول کی فی لیٹر قیمت میں 19 اعشاریہ 95 روپے جب کہ ہائی اسپیڈ ڈیزل کی قیمت میں 19 اعشاریہ 90 روپے کا اضافہ کردیا گیا۔
اس اضافے کے بعد فی لیٹر پٹرول کی قیمت 253 روپے سے بڑھ کر 272 روپے 95 پیسے جب کہ ڈیزل کی قیمت 253 روپے 50 پیسے سے بڑھ کر273 روپے 40 پیسے ہوگئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ دو روزقبل ہونا تھا ،تاہم اس میں تاخیر کی گئی، جس کا اظہار وفاقی وزیرخزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے وقت کیا۔
وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات دیر تک ان کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے مجاز ادارے آئل اینڈ گیس ریگو لیٹری اتھارٹی (اوگرا) حکام کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ چلتا رہا تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے اور قیمتیں کم سے کم بڑھائی جائیں۔
پٹرول کی قیمت میںبیس روپے تک کا اضافہ غیر منصفانہ ہے، یکدم اتنا بڑا اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ لاد دیا گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ حکومت کی جانب سے بلند شرح سود کے معیشت پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ،ایسے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز مہنگی ہونے کا سبب بنے گا۔
معاشی ماہرین اورتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی پابندی،عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی کمزورقدر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافے کا سبب ہے، جب تک ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئے گی اورایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوگا ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا امکان نہیں۔
یہ سخت فیصلہ بھی عجیب سی منطق ہے۔ حکومت اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے، نہ صرف مہنگائی بڑھے گی بلکہ عوامی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا۔ عوام کی توقعات کے برعکس پچھلے ایک برس میں ان کے مصائب شدید ہو گئے ہیں۔ بالخصوص آسمان کو چھوتی گرانی نے ان کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔
اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں غریب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو موجودہ دورِ حکومت میں سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی لب کشائی پر مجبور کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر تمام جماعتوں نے حالیہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عوام کو تسلی دینے کے لیے پاکستانی وزیرِ خزانہ مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ انھیں درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کی تان یہاں آ کر ٹوٹ جاتی ہے، وہ یہ نہیں بتاتے کہ عوام کو ان مسائل سے کب نجات ملے گی اور ان کے مصائب میں کمی کب آئے گی۔
غریب کی مشکلات میں کمی کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی گرانی کے باعث بہت سی اشیاء غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار بھی یہ ظاہر کر رہے ہیں ملک میں اشیائے صرف مہنگی ہو رہی ہیں لیکن وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ اور ماہانہ وار رپورٹیں بھی حکمرانوں کو اس اہم ترین عوامی مسئلے کو قابلِ توجہ سمجھنے پر مجبور نہیں کر سکیں اور اس نے ایک بار پھر تیل کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کر دیا ہے جس سے مہنگائی کی متوقع لہر کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ دال جسے غریب کی خوراک کہا جاتا تھا اب وہ بھی اس کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کے عفریت نے جس تیزی سے عوام کو لپیٹ میں لیا ہے اس کے پیش نظر یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں نہ تو کوئی ایسا قانون ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ جو حسبِ منشا مصنوعات کے نرخ بڑھانے والے صنعت کاروں، مل مالکان، تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں کی پکڑ کر سکے۔
کاروباری لوگوں کا کیا کہنا حکومت نے خود بھی مہنگائی کو مہمیز دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صرف گزشتہ چندماہ کے عرصے میں پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخ کئی بار بڑھائے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جب کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال ان مہینوں میں جتنے یونٹ کا جو بل آتا تھا اس سال اتنے ہی یونٹوں کا بل ڈبل ہو گیا ہے، جب کہ آمدنیاں اسی سطح پر ہیں۔ حالیہ بجٹ میں بھی حکومت نے بہت سے نئے ٹیکس لگائے اور کئی طرح کے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح نیچے لا کر گرانی کے بوجھ تلے دبے عوام کو ریلیف فراہم کیا جاتا لیکن یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں نے صرف ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
محصولاتی آمدنی میں اضافے کو بنیاد بنا کر عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان کے حوالے کرنے والے اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور موجودہ حکومت نے وزراء کی فوج بھرتی کر لی ہے۔
ایک ایسا ملک جو اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور جس کی معیشت عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ قرض کے سہارے کھڑی ہے۔ اس کے حکمرانوں نے اپنے شاہانہ اخراجات میں دنیا کے امیر ترین ملک کے حاکموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پاکستانی معیشت اس وقت سنگین قسم کی مشکلات سے دوچار ہے۔ تمام معاشی اشاریے زوال پذیر ہیں، برآمدات میں کمی ہو رہی ہے، درآمدی بل بڑھ رہا ہے، تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی مسلسل بلند ہو رہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں، غذائی قلت اور غربت کی صورت حال خود گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی، عوام کی تکالیف، محرومیاں اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی راتوں رات مہنگائی کا طوفان امڈ آتا ہے، ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ عوام کو شکوہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے بھی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دی گئی تھی۔
امیدکی جا رہی تھی کہ ٹرانسپورٹ کرایوں سمیت ہر چیز پر اس کا اثر پڑے گا اور مہنگائی کم ہو گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہر چیز کی قیمت جوں کی توں ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ نا تو کرایوں میں نمایاں کمی کی گئی نا ہی کوئی اور چیز سستی ہوئی۔ماہرین کہتے ہیں کہ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث بازاروں میں من مانی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ پون صدی سے ہر مشکل مرحلے پر عوام ہی قربانیاں دیتے آرہے ہیں اور اشرافیہ نے ہمیشہ سہولیات اور مراعات کے مزے لیے ہیں، اسی لیے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ اب صورتحال اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اگر اشرافیہ نے خود کو قربانیوں کے لیے آمادہ نہ کیا تو ملک ایسے مسائل سے دوچار ہو جائے گا جن کا حل کوئی بھی حکومت فراہم نہیں کرسکے گی۔
اس حقیقت سے اب کسی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ایندھن کی گرانی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے باعث ظاہر ہے عوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ اب جب کہ اتحادی حکومت اپنی مدت تقریباً پوری کرچکی ہے، ایسے میں جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ آنے والے الیکشن میں ان کے لیے مشکلات کا سبب بنے گا، خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج ووٹ کے ذریعے ریکارڈ کروائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نگراں حکومت عوام کے مصائب بالخصوص مہنگائی کا حقیقی معنوں میں ادراک کرتے ہوئے ،اس میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جائے اوران پر عائد ٹیکسوں میں بھی کمی کی جائے، بجلی کے نرخ نیچے لائے جائیں اور اشیائے صرف پر ناجائز منافع کمانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
اس اضافے کے بعد فی لیٹر پٹرول کی قیمت 253 روپے سے بڑھ کر 272 روپے 95 پیسے جب کہ ڈیزل کی قیمت 253 روپے 50 پیسے سے بڑھ کر273 روپے 40 پیسے ہوگئی ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ دو روزقبل ہونا تھا ،تاہم اس میں تاخیر کی گئی، جس کا اظہار وفاقی وزیرخزانہ نے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے اعلان کے وقت کیا۔
وفاقی وزیرخزانہ کا کہنا تھا کہ گزشتہ رات دیر تک ان کا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں کا تعین کرنے والے مجاز ادارے آئل اینڈ گیس ریگو لیٹری اتھارٹی (اوگرا) حکام کے ساتھ مشاورت کا سلسلہ چلتا رہا تاکہ عوام پر کم سے کم بوجھ ڈالا جائے اور قیمتیں کم سے کم بڑھائی جائیں۔
پٹرول کی قیمت میںبیس روپے تک کا اضافہ غیر منصفانہ ہے، یکدم اتنا بڑا اضافہ کرکے غریب عوام پر مہنگائی کا مزید بوجھ لاد دیا گیا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے مہنگائی کی نئی لہر آئے گی۔ حکومت کی جانب سے بلند شرح سود کے معیشت پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں ،ایسے میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ اشیائے خورونوش سمیت ہر چیز مہنگی ہونے کا سبب بنے گا۔
معاشی ماہرین اورتجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے معاہدے کی پابندی،عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ روپے کی کمزورقدر بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطرخواہ اضافے کا سبب ہے، جب تک ملک میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی نہیں آئے گی اورایکسپورٹ میں اضافہ نہیں ہوگا ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں خاطر خواہ کمی کا امکان نہیں۔
یہ سخت فیصلہ بھی عجیب سی منطق ہے۔ حکومت اس بات کو نظر انداز کر رہی ہے کہ تیل کی قیمتوں میں اضافے سے بڑے منفی اثرات مرتب ہوں گے، نہ صرف مہنگائی بڑھے گی بلکہ عوامی مشکلات میں بھی اضافہ ہو گا۔ عوام کی توقعات کے برعکس پچھلے ایک برس میں ان کے مصائب شدید ہو گئے ہیں۔ بالخصوص آسمان کو چھوتی گرانی نے ان کے اوسان خطا کر دیے ہیں۔
اشیائے صرف کی بڑھتی ہوئی قیمتیں غریب کا سب سے بڑا مسئلہ ہے جو موجودہ دورِ حکومت میں سنگین صورت اختیار کر گیا ہے۔
بڑھتی ہوئی مہنگائی نے حکومت کی اتحادی جماعتوں کو بھی لب کشائی پر مجبور کر دیا ہے۔ پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم اور دیگر تمام جماعتوں نے حالیہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کو ناقابلِ قبول قرار دیا اور اس پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
عوام کو تسلی دینے کے لیے پاکستانی وزیرِ خزانہ مسلسل کہتے چلے آ رہے ہیں کہ وہ انھیں درپیش مسائل سے بخوبی آگاہ ہیں۔ ان کی تان یہاں آ کر ٹوٹ جاتی ہے، وہ یہ نہیں بتاتے کہ عوام کو ان مسائل سے کب نجات ملے گی اور ان کے مصائب میں کمی کب آئے گی۔
غریب کی مشکلات میں کمی کے بجائے ان میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اشیائے خور و نوش میں اضافے کا یہ عالم ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بڑھتی ہوئی گرانی کے باعث بہت سی اشیاء غریب اور متوسط طبقے کی پہنچ سے دور ہو گئی ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار بھی یہ ظاہر کر رہے ہیں ملک میں اشیائے صرف مہنگی ہو رہی ہیں لیکن وفاقی ادارہ شماریات کی ہفتہ اور ماہانہ وار رپورٹیں بھی حکمرانوں کو اس اہم ترین عوامی مسئلے کو قابلِ توجہ سمجھنے پر مجبور نہیں کر سکیں اور اس نے ایک بار پھر تیل کی قیمتوں میں غیر ضروری اضافہ کر دیا ہے جس سے مہنگائی کی متوقع لہر کا بڑی آسانی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
حد تو یہ ہے کہ دال جسے غریب کی خوراک کہا جاتا تھا اب وہ بھی اس کی قوتِ خرید سے باہر ہو چکی ہے۔ موجودہ دور حکومت میں مہنگائی کے عفریت نے جس تیزی سے عوام کو لپیٹ میں لیا ہے اس کے پیش نظر یوں لگتا ہے کہ اس ملک میں نہ تو کوئی ایسا قانون ہے اور نہ ہی کوئی ادارہ جو حسبِ منشا مصنوعات کے نرخ بڑھانے والے صنعت کاروں، مل مالکان، تاجروں اور ذخیرہ اندوزوں کی پکڑ کر سکے۔
کاروباری لوگوں کا کیا کہنا حکومت نے خود بھی مہنگائی کو مہمیز دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ صرف گزشتہ چندماہ کے عرصے میں پٹرولیم مصنوعات، بجلی اور گیس کے نرخ کئی بار بڑھائے گئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ جب کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے کی جانب سے بجلی گیس کے نرخوں میں مزید اضافے کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔
گزشتہ سال ان مہینوں میں جتنے یونٹ کا جو بل آتا تھا اس سال اتنے ہی یونٹوں کا بل ڈبل ہو گیا ہے، جب کہ آمدنیاں اسی سطح پر ہیں۔ حالیہ بجٹ میں بھی حکومت نے بہت سے نئے ٹیکس لگائے اور کئی طرح کے ٹیکسوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کی شرح نیچے لا کر گرانی کے بوجھ تلے دبے عوام کو ریلیف فراہم کیا جاتا لیکن یوں لگتا ہے کہ حکمرانوں نے صرف ان کے مسائل میں اضافہ کرنے کا تہیہ کیا ہوا ہے۔
محصولاتی آمدنی میں اضافے کو بنیاد بنا کر عوام کو مہنگائی کے نئے طوفان کے حوالے کرنے والے اپنے شاہانہ اخراجات میں کمی کرنے کے لیے کسی صورت تیار نہیں ہیں اور موجودہ حکومت نے وزراء کی فوج بھرتی کر لی ہے۔
ایک ایسا ملک جو اربوں ڈالر کا مقروض ہے اور جس کی معیشت عالمی مالیاتی اداروں سے حاصل کردہ قرض کے سہارے کھڑی ہے۔ اس کے حکمرانوں نے اپنے شاہانہ اخراجات میں دنیا کے امیر ترین ملک کے حاکموں کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔
پاکستانی معیشت اس وقت سنگین قسم کی مشکلات سے دوچار ہے۔ تمام معاشی اشاریے زوال پذیر ہیں، برآمدات میں کمی ہو رہی ہے، درآمدی بل بڑھ رہا ہے، تجارتی اور کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ بھی مسلسل بلند ہو رہا ہے، غیر ملکی سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، زرِ مبادلہ کے ذخائر نچلی ترین سطح پر آ گئے ہیں۔
پاکستان کی معیشت خطرات میں گھرتی چلی جا رہی ہے، معیشت کی شرح نمو، ٹیکسوں کی وصولی، بچتوں و سرمایہ کاری کی شرحیں، غذائی قلت اور غربت کی صورت حال خود گزشتہ برسوں اور خطے کے دوسرے ملکوں کے مقابلے میں خراب ہوتی چلی جا رہی ہے۔ افراطِ زر، مہنگائی، عوام کی تکالیف، محرومیاں اور ملک پر قرضوں کا بوجھ ناقابلِ برداشت حد تک بڑھ چکا ہے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ہی راتوں رات مہنگائی کا طوفان امڈ آتا ہے، ہر چیز مہنگی کر دی جاتی ہے لیکن پٹرولیم مصنوعات سستی ہونے کے اثرات عوام تک نہیں پہنچتے۔ عوام کو شکوہ ہے کہ اس سلسلے میں حکومت کی جانب سے بھی اقدامات نہیں کیے جاتے۔
عالمی منڈی میں پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے بعد پاکستان میں بھی پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کم کر دی گئی تھی۔
امیدکی جا رہی تھی کہ ٹرانسپورٹ کرایوں سمیت ہر چیز پر اس کا اثر پڑے گا اور مہنگائی کم ہو گی لیکن ایسا نہ ہوا۔ ہر چیز کی قیمت جوں کی توں ہے۔ عوام کو شکایت ہے کہ نا تو کرایوں میں نمایاں کمی کی گئی نا ہی کوئی اور چیز سستی ہوئی۔ماہرین کہتے ہیں کہ چیک اینڈ بیلنس نہ ہونے کے باعث بازاروں میں من مانی قیمتیں وصول کی جا رہی ہیں۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ پون صدی سے ہر مشکل مرحلے پر عوام ہی قربانیاں دیتے آرہے ہیں اور اشرافیہ نے ہمیشہ سہولیات اور مراعات کے مزے لیے ہیں، اسی لیے مسائل کم ہونے کے بجائے مزید بڑھ گئے۔ اب صورتحال اس سطح تک پہنچ چکی ہے کہ اگر اشرافیہ نے خود کو قربانیوں کے لیے آمادہ نہ کیا تو ملک ایسے مسائل سے دوچار ہو جائے گا جن کا حل کوئی بھی حکومت فراہم نہیں کرسکے گی۔
اس حقیقت سے اب کسی طور پر انکار ممکن نہیں ہے کہ ہمارے ملک میں ایندھن کی گرانی کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے جس کے باعث ظاہر ہے عوام کی مشکلات بڑھتی جا رہی ہیں۔ اب جب کہ اتحادی حکومت اپنی مدت تقریباً پوری کرچکی ہے، ایسے میں جاتے جاتے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربااضافہ آنے والے الیکشن میں ان کے لیے مشکلات کا سبب بنے گا، خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جارہا ہے کہ عوام مہنگائی کے خلاف احتجاج ووٹ کے ذریعے ریکارڈ کروائیں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ آنے والی نگراں حکومت عوام کے مصائب بالخصوص مہنگائی کا حقیقی معنوں میں ادراک کرتے ہوئے ،اس میں کمی لانے کے لیے اقدامات کرے۔
پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کی جائے اوران پر عائد ٹیکسوں میں بھی کمی کی جائے، بجلی کے نرخ نیچے لائے جائیں اور اشیائے صرف پر ناجائز منافع کمانے والوں کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔