پرانے کھاتے…
صاحب خانہ کی بیماری طول پکڑتی جا رہی تھی، پیٹ میں درد، سر میں درد، پورے جسم پر لرزہ طاری اور ہر وقت متلی الٹی والی کیفیت۔ کئی حکیموں اور ڈاکٹروں کو دکھانے کے باوجود بھی افاقہ نہ ہو رہا تھا۔
جو بھی ملتا، وہ کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا پتا بتاتا اور گھر والے اس کے پاس لے جاتے۔ بالآخر صاحب کے ایک بچپن کے دوست آئے جو کہ ایک ماہر ڈاکٹر بھی تھے، وہ بیرون ملک سے آئے تھے۔ ان کی ملاقات صاحب سے تنہائی میں ہوئی ، انھوں نے صاحب سے اس بیماری کی وجہ پوچھی تو صاحب نے اپنے دل کا حال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا ۔
کہنے لگے ، '' یار چھ ماہ پہلے میں نے ماش کی دال کھائی تھی، مجھے بچپن سے ماش کی دال سے الرجی ہے لیکن سب لوگ کھا رہے تھے اور تعریف کر رہے تھے تو میں نے بھی کھا لی۔'' دوست کا تو یہ بات سن کر قہقہہ نکل گیا۔
'' چھ ماہ پہلے کھائی ہوئی ماش کی دال کیا ابھی تک تمہارے پیٹ میں موجود ہے اور تمہیں ان تمام کیفیات سے دو چار کر رہی ہے؟ تم یقیناً مجھ سے مذاق کر رہے ہو۔'' ڈاکٹر دوست نے کہا۔
'' تمہارا خیال ہے کہ چھ ماہ پہلے سے کھائی ہوئی دال سے میں اب بیمار نہیں ہو سکتا تو یہ دیکھو۔'' ایک لفافہ انھوں نے اپنے ڈاکٹر دوست کی طرف بڑھایا جس نے وہ لفافہ پکڑا ور حیرت سے اسے کھولا ۔ اس میں بلوں کا پلندہ تھا، گیس اور بجلی کے بل۔
'' یہ کیا ہے، یہ تو بل ہیں، ان بلوں کا تمہاری بیماری سے کیا تعلق ہے؟'' اس نے حیرت سے پوچھا۔ '' انھی بلوں نے تو مجھے پاگل سا کر دیا ہے، دماغ ہی نہیں، سارا جسم حیران ہے کہ یہ کس نوعیت کے بل ہیں۔
میرا گزشتہ بر س کا اسی ماہ کا گیس کا بل دیکھو۔'' اس نے کہا۔'' تین سو روپے... '' دوست نے بل دیکھ کر کہا۔'' اب ابھی والادیکھو۔'' ...اس نے کہا تو ڈاکٹر دوست نے تازہ بل نکالا، دیکھا اور کندھے اچکائے، '' چوبیس ہزار''۔'' اب ان دونوں بلوں میں ایک مہینے کے صرف شدہ یونٹ دیکھو۔ ''...'' وہ تو تقریباً برابر ہیں!'' دوست نے کہا، '' گیس کے نرخ ایک سال میں اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں؟'' اس کی حیرت دیدنی تھی۔
'' گیس کے نرخ تو بڑھے ہی ہیں ، مگر تم اس بل کی تفصیل دیکھو تو تمہیں اندازہ ہو کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اگر حکومت نے چار ماہ پہلے گیس کے نرخ بڑھائے تھے تو اس وقت سے ہم لگ بھگ آٹھ ماہ پہلے استعمال کی گئی گیس کے اوپر بھی نئے نرخوں کے مطابق اتنے ماہ کے پرانے بجلی کے بلوں کو بھی بھر رہے ہیں۔
تم کہتے ہو کہ چھ ماہ پہلے کھائی گئی ماش کی دال مجھے اب بیمار کر رہی ہے، میری اصل بیماری یہ بل ہیں جو میں اس لیے بھر رہا ہوں کہ میں نے دس ماہ پہلے گیس استعمال کی تھی اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ میری تنخواہ مہینے کے بل ادا کرنے کے بعد اتنی بچتی ہے کہ ہم دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھاتے ہیں اور وہ بھی دال سبزی اور کسی کسی دن وہ بھی نہیں۔'' صاحب خانہ نے اپنے دل کا دکھڑا سنایا۔
'' یہ تو زیادتی ہے، ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔''
'' صرف یہی نہیں، تمہیں میرے گھر میں کہیں ریڈیونظر آ رہا ہے؟ نہیں نامگر اب ہمارے بجلی کے بلوں میں ریڈیو کی فیس کٹے گی اور ٹیلی وژن کی بھی۔ ہمارے ہاں ایک پرانا سا ٹیلی وژن ہے اور اس کی فیس جتنی کٹے گی، اتنی ہی فیس اس گھر کے بجلی کے بلوں میں کٹے گی جن کے ہاں ہر کمرے میں علیحدہ ٹیلی وژن ہو گا۔''
'' ہائیں یہ کیا بات ہوئی؟''...'' یہی تو بات ہے... جو اس ملک میں دس لاکھ اور بیس لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے اس کی مراعات اس کے علاوہ بھی ایسی ہیں کہ اس کا بیس لاکھ صرف اسی صورت استعمال ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے کھانا کھانے کے بعد منہ اورہاتھ صاف کیا کرے۔
اسے کئی کئی گاڑیاں پٹرول کے خرچے سمیت ملتی ہیں، اس کے پاس ملازمین کی فوج مفت میں ہوتی ہے، کئی طرح کے سفری الاؤنس ہوتے ہیں، دعوتیں کرنے کے لیے بھی انھیں سرکار پیسے دیتی ہے۔ ان لوگوں کا سوچیں ، جن کی آمدنی بیس تیس ہزار روپے ماہانہ ہے... وہ کھائیں کیا اور بچائیں کیا۔
آئی ایم ایف سے ناک رگڑ رگڑ کر رقم ملی ہے تو ساتھ ہی سرکاری اللے تللے شروع ہو گئے ہیں۔ جو پہلے ہی عیاشیوں اور ناجائز آمدنیوں کے تالاب میں نہاتے ہیں، انھی کی مراعات ، انھی کی تنخواہیں اور انھی کی گاڑیاں ... ہم وہیں کے وہیں، بلکہ اب تک اس دال کے ڈکار مار رہے ہیں جو چھ ماہ پہلے کھائی تھی۔ ہم ذہنی مریض بن گئے ہیں، حکمران کشکول لے کر ملکوں ملکوں گھومتے ہیں مگر اس کشکول میں چند سکے آتے ہیں تو وہ پلٹ کر ان کی اپنی جیبوں اور اپنے اکاؤنٹ میں ہی جاتے ہیں۔...''اس طرح کڑھنے سے کیا ہو گا۔ تم اور بھی زیادہ بیمار ہو جاؤ گے۔''
'' تم کہتے ہو کہ میں بیمار ہو جاؤں گا، ہم سب اس کرب سے گزر رہے ہیں، جی چاہتا ہے کہ ہر صبح اٹھ کر دھاڑیں مار مار کر روئیں۔ ''
'' تم کوئی اور ملازمت کیوں نہیں ڈھونڈتے؟''
'' ہر ملازمت پیشہ کا ٹیکس کٹ جاتا ہے اور جو کاروباری ہے، جس کے آگے ہزاروں ملازم ہوتے ہیں، وہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتا، ٹیکس کے محکمے میں کوئی نہ کوئی اس کا خیر خواہ ہوتا ہے جو اسے ٹیکس بچانے کے طریقے بتاتا ہے۔'''' ہم... '' دوست کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔...'' اب جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے، اس کے بعد ہمارے ملک میں کوئی نہیں رہے گا، سب تمہارے ہاں ہی چلے جائیں گے۔ نوجوان نسل کو تو اس مایوسی نے ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔
ہم جو کہ اپنی عمر کا زیادہ حصہ گزار چکے ہیں اور اس عمر میں باہر جا کر کچھ نہیں کر سکتے ، وہی اس ملک میں رہ جائیں گے مگر ہم بھی اپنے بچوں کا مستقبل باہر ہی دیکھتے ہیں۔'' مایوسی کی انتہا پر پہنچے ہوئے صاحب خانہ نے اپنے ہاتھ دوست کے سامنے باندھ کر کہا۔یہ ہمارے ملک کے بھیانک مستقبل کی ایک تصویر ہے۔
جو بھی ملتا، وہ کسی نئے حکیم یا ڈاکٹر کا پتا بتاتا اور گھر والے اس کے پاس لے جاتے۔ بالآخر صاحب کے ایک بچپن کے دوست آئے جو کہ ایک ماہر ڈاکٹر بھی تھے، وہ بیرون ملک سے آئے تھے۔ ان کی ملاقات صاحب سے تنہائی میں ہوئی ، انھوں نے صاحب سے اس بیماری کی وجہ پوچھی تو صاحب نے اپنے دل کا حال کھول کر اس کے سامنے رکھ دیا ۔
کہنے لگے ، '' یار چھ ماہ پہلے میں نے ماش کی دال کھائی تھی، مجھے بچپن سے ماش کی دال سے الرجی ہے لیکن سب لوگ کھا رہے تھے اور تعریف کر رہے تھے تو میں نے بھی کھا لی۔'' دوست کا تو یہ بات سن کر قہقہہ نکل گیا۔
'' چھ ماہ پہلے کھائی ہوئی ماش کی دال کیا ابھی تک تمہارے پیٹ میں موجود ہے اور تمہیں ان تمام کیفیات سے دو چار کر رہی ہے؟ تم یقیناً مجھ سے مذاق کر رہے ہو۔'' ڈاکٹر دوست نے کہا۔
'' تمہارا خیال ہے کہ چھ ماہ پہلے سے کھائی ہوئی دال سے میں اب بیمار نہیں ہو سکتا تو یہ دیکھو۔'' ایک لفافہ انھوں نے اپنے ڈاکٹر دوست کی طرف بڑھایا جس نے وہ لفافہ پکڑا ور حیرت سے اسے کھولا ۔ اس میں بلوں کا پلندہ تھا، گیس اور بجلی کے بل۔
'' یہ کیا ہے، یہ تو بل ہیں، ان بلوں کا تمہاری بیماری سے کیا تعلق ہے؟'' اس نے حیرت سے پوچھا۔ '' انھی بلوں نے تو مجھے پاگل سا کر دیا ہے، دماغ ہی نہیں، سارا جسم حیران ہے کہ یہ کس نوعیت کے بل ہیں۔
میرا گزشتہ بر س کا اسی ماہ کا گیس کا بل دیکھو۔'' اس نے کہا۔'' تین سو روپے... '' دوست نے بل دیکھ کر کہا۔'' اب ابھی والادیکھو۔'' ...اس نے کہا تو ڈاکٹر دوست نے تازہ بل نکالا، دیکھا اور کندھے اچکائے، '' چوبیس ہزار''۔'' اب ان دونوں بلوں میں ایک مہینے کے صرف شدہ یونٹ دیکھو۔ ''...'' وہ تو تقریباً برابر ہیں!'' دوست نے کہا، '' گیس کے نرخ ایک سال میں اتنے زیادہ بڑھ گئے ہیں؟'' اس کی حیرت دیدنی تھی۔
'' گیس کے نرخ تو بڑھے ہی ہیں ، مگر تم اس بل کی تفصیل دیکھو تو تمہیں اندازہ ہو کہ ہمارے ساتھ ہو کیا رہا ہے۔ اگر حکومت نے چار ماہ پہلے گیس کے نرخ بڑھائے تھے تو اس وقت سے ہم لگ بھگ آٹھ ماہ پہلے استعمال کی گئی گیس کے اوپر بھی نئے نرخوں کے مطابق اتنے ماہ کے پرانے بجلی کے بلوں کو بھی بھر رہے ہیں۔
تم کہتے ہو کہ چھ ماہ پہلے کھائی گئی ماش کی دال مجھے اب بیمار کر رہی ہے، میری اصل بیماری یہ بل ہیں جو میں اس لیے بھر رہا ہوں کہ میں نے دس ماہ پہلے گیس استعمال کی تھی اور اب اس کا خمیازہ بھگت رہا ہوں۔ میری تنخواہ مہینے کے بل ادا کرنے کے بعد اتنی بچتی ہے کہ ہم دن میں ایک وقت کا کھانا بھی مشکل سے کھاتے ہیں اور وہ بھی دال سبزی اور کسی کسی دن وہ بھی نہیں۔'' صاحب خانہ نے اپنے دل کا دکھڑا سنایا۔
'' یہ تو زیادتی ہے، ہمارے ہاں تو ایسا نہیں ہوتا۔''
'' صرف یہی نہیں، تمہیں میرے گھر میں کہیں ریڈیونظر آ رہا ہے؟ نہیں نامگر اب ہمارے بجلی کے بلوں میں ریڈیو کی فیس کٹے گی اور ٹیلی وژن کی بھی۔ ہمارے ہاں ایک پرانا سا ٹیلی وژن ہے اور اس کی فیس جتنی کٹے گی، اتنی ہی فیس اس گھر کے بجلی کے بلوں میں کٹے گی جن کے ہاں ہر کمرے میں علیحدہ ٹیلی وژن ہو گا۔''
'' ہائیں یہ کیا بات ہوئی؟''...'' یہی تو بات ہے... جو اس ملک میں دس لاکھ اور بیس لاکھ روپے تنخواہ لیتا ہے اس کی مراعات اس کے علاوہ بھی ایسی ہیں کہ اس کا بیس لاکھ صرف اسی صورت استعمال ہو سکتا ہے کہ وہ اس سے کھانا کھانے کے بعد منہ اورہاتھ صاف کیا کرے۔
اسے کئی کئی گاڑیاں پٹرول کے خرچے سمیت ملتی ہیں، اس کے پاس ملازمین کی فوج مفت میں ہوتی ہے، کئی طرح کے سفری الاؤنس ہوتے ہیں، دعوتیں کرنے کے لیے بھی انھیں سرکار پیسے دیتی ہے۔ ان لوگوں کا سوچیں ، جن کی آمدنی بیس تیس ہزار روپے ماہانہ ہے... وہ کھائیں کیا اور بچائیں کیا۔
آئی ایم ایف سے ناک رگڑ رگڑ کر رقم ملی ہے تو ساتھ ہی سرکاری اللے تللے شروع ہو گئے ہیں۔ جو پہلے ہی عیاشیوں اور ناجائز آمدنیوں کے تالاب میں نہاتے ہیں، انھی کی مراعات ، انھی کی تنخواہیں اور انھی کی گاڑیاں ... ہم وہیں کے وہیں، بلکہ اب تک اس دال کے ڈکار مار رہے ہیں جو چھ ماہ پہلے کھائی تھی۔ ہم ذہنی مریض بن گئے ہیں، حکمران کشکول لے کر ملکوں ملکوں گھومتے ہیں مگر اس کشکول میں چند سکے آتے ہیں تو وہ پلٹ کر ان کی اپنی جیبوں اور اپنے اکاؤنٹ میں ہی جاتے ہیں۔...''اس طرح کڑھنے سے کیا ہو گا۔ تم اور بھی زیادہ بیمار ہو جاؤ گے۔''
'' تم کہتے ہو کہ میں بیمار ہو جاؤں گا، ہم سب اس کرب سے گزر رہے ہیں، جی چاہتا ہے کہ ہر صبح اٹھ کر دھاڑیں مار مار کر روئیں۔ ''
'' تم کوئی اور ملازمت کیوں نہیں ڈھونڈتے؟''
'' ہر ملازمت پیشہ کا ٹیکس کٹ جاتا ہے اور جو کاروباری ہے، جس کے آگے ہزاروں ملازم ہوتے ہیں، وہ ٹیکس ادا ہی نہیں کرتا، ٹیکس کے محکمے میں کوئی نہ کوئی اس کا خیر خواہ ہوتا ہے جو اسے ٹیکس بچانے کے طریقے بتاتا ہے۔'''' ہم... '' دوست کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔...'' اب جو کچھ ہمارے ہاں ہو رہا ہے، اس کے بعد ہمارے ملک میں کوئی نہیں رہے گا، سب تمہارے ہاں ہی چلے جائیں گے۔ نوجوان نسل کو تو اس مایوسی نے ہجرت پر مجبور کر دیا ہے۔
ہم جو کہ اپنی عمر کا زیادہ حصہ گزار چکے ہیں اور اس عمر میں باہر جا کر کچھ نہیں کر سکتے ، وہی اس ملک میں رہ جائیں گے مگر ہم بھی اپنے بچوں کا مستقبل باہر ہی دیکھتے ہیں۔'' مایوسی کی انتہا پر پہنچے ہوئے صاحب خانہ نے اپنے ہاتھ دوست کے سامنے باندھ کر کہا۔یہ ہمارے ملک کے بھیانک مستقبل کی ایک تصویر ہے۔