کراچی میں سوگ
پولیس اور رینجرز حکام بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کراچی آپریشن بنیادی طور پر طالبان اور لیاری میں ہونے والی ۔۔۔
KARACHI:
متحدہ قومی موومنٹ کے 13کارکن پندرہ دن قبل لاپتہ ہوئے ،ان میں سے چار کی لاشیں میمن گوٹھ کے قریب سے برآمد ہوئیں ۔ ہلاک ہونے والے کارکنوں کا تعلق معمار سیکٹر سے تھا۔ ایم کیو ایم نے یکم مئی کو احتجاج کا فیصلہ کیا اور دو مئی کو کراچی بند رہا۔ دکانیں اور بازار بند کرانے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کی فائرنگ سے2افراد جاں بحق ہوئے، شہر میں یکم مئی کی تعطیل تھی ۔3اور 4مئی کو ہفتہ اور اتوار کی تعطیلات تھی یوں 5مئی سے کراچی میں شہری زندگی معمول پر آئی ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں کی قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قاتلوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل پر اظہار افسوس کیا ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہے اس کو احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ سندھ اسمبلی نے چار سینئر اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جو اس معاملے کی تحقیقات کرے گی ۔ سندھ پولیس نے بھی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ، رینجرز نے بھی تحقیقات شروع کردی یوں ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے مگر کراچی میں ریاست کی عمل داری ختم ہوئے کئی عشرے بیت گئے۔
پیپلزپارٹی کی سابق وفاقی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں کراچی میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ، پیپلزپارٹی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت اتحاد میں شامل ایم کیو ایم ، اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل نے ان اقدامات کی مکمل حمایت کی بار بار تجدید کی ۔ صدر زرداری کی کوششوں نے پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں کی کمیٹیاں قائم ہوئیں پھر کورکمیٹیاں بنیں مگر سیاسی کارکنوں ، مذہبی رہنمائوں ، وکلاء ، اساتذہ، خواتین کی ٹارگٹ کلنگ جاری رہیں ۔ اس دوران کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان کی کمین گاہیں قائم ہوئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھگھرپھاٹک سے حب چوکی تک کئی سو میٹر کا علاقہ طالبان کے قبضے میں چلاگیا ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بھی ازخود نوٹس اختیار کے تحت مہینوں کراچی بے امنی کیس کی سماعت کی ۔ سپریم کورٹ کے سامنے حکومت کی نااہلی لینڈ مافیاز کے درمیان تصادم پولیس فورس میں سیاسی بھرتیوں اور مجرموں کی شمولیت آئی جی پولیس کی بے اختیاری ، بلدیاتی اداروں کی نااہلی ، زمینوں کی بندر بانٹ، لیاری گینگ وار ، اسلحے کی رسد کی صورتحال سمیت تمام محرکات کا ذکر ہوا مگر کراچی کے حالات بہتر نہ ہوسکے ۔
مسلم لیگ ن نے گزشتہ سال وفاق میں حکومت بنائی۔ میاں نواز شریف نئے عزم اور نئے منصوبوں کے ساتھ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو سلگتا کراچی انھیں ورثے میں ملا۔ مسلم لیگ کی حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد جب کراچی میں سیاسی فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے اعداد و شمار دو ہندسوں کو عبور کرنے لگے ۔ تاجروں کے دفاتر، دکانوں اور گھروں کو بھتہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے دستی بم پھینکنا معمول بن گیا، اغواء ہونے والے افراد لاکھوں کروڑوں روپے تاوان ادا کرکے مہینوں بعد رہائی حاصل کرپائے ، مسخ شدہ لاشیں ملی تو میاں نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر کراچی آئے اور کراچی میں ایک مربوط آپریشن کی حکمت عملی تیار ہوئی ۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ کراچی آپریشن کے انچارج وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ہونگے۔
پولیس ، رینجرز ، پولیس انٹلی جنس نیٹ ورک ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کی مشترکہ کمانڈ قائم ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ سندھ کے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات اور رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اس آپریشن کی مشترکہ کمانڈ کریں گے اور سیاسی مفادت کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہوگا ، ایم کیو ایم سمیت سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کی حمایت کی ۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی مگر فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ لیاری میں گینگ وار، اغواء برائے تاوان ، بھتے کی پرچیوں اور اسٹریٹ کرائمزمیں کوئی کمی نہ ہوئی، پھر صحافی ولی بابر قتل کیس کے سرکاری وکیل اور مسلم لیگ ن کے رہنمانعمت رندھاوا کے قتل میں ایم کیو ایم کے کارکن گرفتار ہوئے۔
ایم کیو ایم نے احتجاج کیا ، پولیس نے اس کارکن کے خلاف ثبوت ملنے کا دعویٰ کیا۔ اس کے ساتھ شاہ فیصل کالونی میں ایک بارات کے دلہا کو جو ایم کیو ایم کے کارکن تھے سادے لباس والے اٹھا کر لے گئے دلہا پر بدترین تشدد ہوا مگر احتجاج پر موصوف رہا ہوئے اور نجی اسپتال میں داخل کردیے گئے ۔ اس دوران ایم کیو ایم کے کارکن لاپتہ ہونے لگے ان میں سے بعض کی لاشیں شہر میں مختلف مقامات سے برآمد ہوئی ۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اغواء اور ان کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا مگر معاملہ ہنوزالجھارہا۔
پولیس اور رینجرز حکام بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کراچی آپریشن بنیادی طور پر طالبان اور لیاری میں ہونے والی گینگ وار اور اغواء برائے تاوان اور بھتہ وصولی کرنے والوں کے خلاف ہیں مگر حقائق ظاہر کررہے تھے کہ اس آپریشن کا نشانہ ایم کیو ایم کے کارکن بھی بن رہے ہیں پھر ایک خطر ناک صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ ان کارکنوں کے اغواء اور ان کی لاشیں ملنے کی ذمے داری پولیس اور رینجرز حکام نے قبول کرنے سے انکار کیا مگر پولیس اور رینجرز والے ان کارکنوں کو اغواء اور قتل کرنے والوں کا پتہ چلانے میں ناکام رہے ۔
ایم کیو ایم کے کارکن اغواء ہونے والے افراد کے عزیزو اقارب بار بار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ڈبل کیبن سیاہ رنگ کی گاڑیوں میں آنے والے سیاہ کپڑوں میں ملوث افراد کارکنوں کو اغواء کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ کہنا ہے کہ 13کارکن ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کی بازیابی کے لیے 72گھنٹوں کا الٹی میٹم بھی دیا گیا ۔ در اصل دہشت گردی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ،یہ لوگ سالوں لاپتہ رہتے ہیں کچھ لوگ رہا ہوجاتے ہیں یا تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے یا خفیہ ایجنسیوں کے مخبر بن گئے ۔ بلوچستان سے بلوچ لبریشن آرمی اور ملحقہ تنظیموں سے تعلق رکھنے کے شبے میں ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے ان میں سے بہت سو کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کے نوٹس ملنے پر خفیہ ایجنسیوں کے وکلاء نے متعدد افراد کو حراست میں لینے کا اقرار کیا اور ان میں سے کچھ رہا بھی ہوئے مگر 14سال سے یہ معاملہ انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں گھمبیر ہے، اسلام آباد کے Dچوک اور کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں ، کراچی آپریشن اس Phenomenonکے شامل ہونے سے حالات کی خرابی میں نیا عنصر شامل ہوگیا۔
اگرچہ رحمن ملک ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اغواء کی ذمے داری طالبان پر ڈالتے ہیں مگر طالبان کی اس طرح کی کارروائی کی براہ راست ذمے داری پولیس اور رینجرز پر عائد ہوتی ہے، اگر انصاف کے فطری اصولوں کے تحت ضروری ہے کہ اگر کسی فرد نے قانون توڑا تو اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایاجائے اس مقصد کے تحت انسداد دہشت گردی کی زیادہ عدالتیں قائم ہونی چاہیے ، ایک معاملہ ایم کیو ایم کی احتجاج کی پالیسی کا بھی ہے، شہر کو احتجاجاََ بند کرنے کا سار انقصان غریبوں کا ہوتا ہے اس دفعہ اس احتجاج کی بنیاد پر نجی اداروں ملازمین 4 دن تک تنخواہ سے محروم رہ گئے۔
ڈیلی ویجز کے مزدور کے ہزاروں خاندانوں میں تو کھانے پینے کے لالے پڑے ، ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی موثر نمایندگی سے ایم کیو ایم کو منتخب اداروں میں مستقل احتجاج کرنا چاہیے، شہر کو بند کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔
متحدہ قومی موومنٹ کے 13کارکن پندرہ دن قبل لاپتہ ہوئے ،ان میں سے چار کی لاشیں میمن گوٹھ کے قریب سے برآمد ہوئیں ۔ ہلاک ہونے والے کارکنوں کا تعلق معمار سیکٹر سے تھا۔ ایم کیو ایم نے یکم مئی کو احتجاج کا فیصلہ کیا اور دو مئی کو کراچی بند رہا۔ دکانیں اور بازار بند کرانے کی کوشش کرنے والے نوجوانوں کی فائرنگ سے2افراد جاں بحق ہوئے، شہر میں یکم مئی کی تعطیل تھی ۔3اور 4مئی کو ہفتہ اور اتوار کی تعطیلات تھی یوں 5مئی سے کراچی میں شہری زندگی معمول پر آئی ۔ ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین نے کارکنوں کی قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ قاتلوں پر اللہ کا عذاب نازل ہوگا۔
سندھ کے وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل پر اظہار افسوس کیا ۔ قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف سید خورشید شاہ نے ایم کیو ایم کے کارکنوں کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ایم کیو ایم حکومت میں شامل ہے اس کو احتجاج کا طریقہ اختیار نہیں کرنا چاہیے ۔ سندھ اسمبلی نے چار سینئر اراکین پر مشتمل کمیٹی قائم کردی جو اس معاملے کی تحقیقات کرے گی ۔ سندھ پولیس نے بھی تحقیقاتی کمیٹی قائم کردی ، رینجرز نے بھی تحقیقات شروع کردی یوں ملک بھر میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے مگر کراچی میں ریاست کی عمل داری ختم ہوئے کئی عشرے بیت گئے۔
پیپلزپارٹی کی سابق وفاقی حکومت نے اپنے پانچ سالہ دور میں کراچی میں حالات کو بہتر بنانے کے لیے بہت سے اقدامات کیے ، پیپلزپارٹی کی قیادت میں قائم ہونے والی حکومت اتحاد میں شامل ایم کیو ایم ، اے این پی اور مسلم لیگ فنکشنل نے ان اقدامات کی مکمل حمایت کی بار بار تجدید کی ۔ صدر زرداری کی کوششوں نے پیپلزپارٹی ، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کے رہنمائوں کی کمیٹیاں قائم ہوئیں پھر کورکمیٹیاں بنیں مگر سیاسی کارکنوں ، مذہبی رہنمائوں ، وکلاء ، اساتذہ، خواتین کی ٹارگٹ کلنگ جاری رہیں ۔ اس دوران کراچی کے مضافاتی علاقوں میں طالبان کی کمین گاہیں قائم ہوئیں اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ گھگھرپھاٹک سے حب چوکی تک کئی سو میٹر کا علاقہ طالبان کے قبضے میں چلاگیا ۔
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس نے بھی ازخود نوٹس اختیار کے تحت مہینوں کراچی بے امنی کیس کی سماعت کی ۔ سپریم کورٹ کے سامنے حکومت کی نااہلی لینڈ مافیاز کے درمیان تصادم پولیس فورس میں سیاسی بھرتیوں اور مجرموں کی شمولیت آئی جی پولیس کی بے اختیاری ، بلدیاتی اداروں کی نااہلی ، زمینوں کی بندر بانٹ، لیاری گینگ وار ، اسلحے کی رسد کی صورتحال سمیت تمام محرکات کا ذکر ہوا مگر کراچی کے حالات بہتر نہ ہوسکے ۔
مسلم لیگ ن نے گزشتہ سال وفاق میں حکومت بنائی۔ میاں نواز شریف نئے عزم اور نئے منصوبوں کے ساتھ وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ہوئے تو سلگتا کراچی انھیں ورثے میں ملا۔ مسلم لیگ کی حکومت کے قیام کے دو ماہ بعد جب کراچی میں سیاسی فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ کے اعداد و شمار دو ہندسوں کو عبور کرنے لگے ۔ تاجروں کے دفاتر، دکانوں اور گھروں کو بھتہ دینے پر مجبور کرنے کے لیے دستی بم پھینکنا معمول بن گیا، اغواء ہونے والے افراد لاکھوں کروڑوں روپے تاوان ادا کرکے مہینوں بعد رہائی حاصل کرپائے ، مسخ شدہ لاشیں ملی تو میاں نواز شریف ، وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ساتھ لے کر کراچی آئے اور کراچی میں ایک مربوط آپریشن کی حکمت عملی تیار ہوئی ۔ وزیراعظم نے اعلان کیا کہ کراچی آپریشن کے انچارج وزیر اعلیٰ قائم علی شاہ ہونگے۔
پولیس ، رینجرز ، پولیس انٹلی جنس نیٹ ورک ،آئی ایس آئی اور ایم آئی کی مشترکہ کمانڈ قائم ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ سندھ کے ایڈیشنل آئی جی شاہد حیات اور رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اس آپریشن کی مشترکہ کمانڈ کریں گے اور سیاسی مفادت کو نظرانداز کرتے ہوئے تمام جرائم پیشہ افراد کے خلاف آپریشن ہوگا ، ایم کیو ایم سمیت سیاسی جماعتوں نے اس آپریشن کی حمایت کی ۔ اس آپریشن کے نتیجے میں سیاسی بنیادوں پر کارکنوں کی ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی مگر فرقہ ورانہ ٹارگٹ کلنگ لیاری میں گینگ وار، اغواء برائے تاوان ، بھتے کی پرچیوں اور اسٹریٹ کرائمزمیں کوئی کمی نہ ہوئی، پھر صحافی ولی بابر قتل کیس کے سرکاری وکیل اور مسلم لیگ ن کے رہنمانعمت رندھاوا کے قتل میں ایم کیو ایم کے کارکن گرفتار ہوئے۔
ایم کیو ایم نے احتجاج کیا ، پولیس نے اس کارکن کے خلاف ثبوت ملنے کا دعویٰ کیا۔ اس کے ساتھ شاہ فیصل کالونی میں ایک بارات کے دلہا کو جو ایم کیو ایم کے کارکن تھے سادے لباس والے اٹھا کر لے گئے دلہا پر بدترین تشدد ہوا مگر احتجاج پر موصوف رہا ہوئے اور نجی اسپتال میں داخل کردیے گئے ۔ اس دوران ایم کیو ایم کے کارکن لاپتہ ہونے لگے ان میں سے بعض کی لاشیں شہر میں مختلف مقامات سے برآمد ہوئی ۔ ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اغواء اور ان کی ہلاکتوں میں ملوث ہونے سے انکار کیا مگر معاملہ ہنوزالجھارہا۔
پولیس اور رینجرز حکام بار بار یہ دعویٰ کرتے رہے کہ کراچی آپریشن بنیادی طور پر طالبان اور لیاری میں ہونے والی گینگ وار اور اغواء برائے تاوان اور بھتہ وصولی کرنے والوں کے خلاف ہیں مگر حقائق ظاہر کررہے تھے کہ اس آپریشن کا نشانہ ایم کیو ایم کے کارکن بھی بن رہے ہیں پھر ایک خطر ناک صورتحال یہ پیدا ہوئی کہ ان کارکنوں کے اغواء اور ان کی لاشیں ملنے کی ذمے داری پولیس اور رینجرز حکام نے قبول کرنے سے انکار کیا مگر پولیس اور رینجرز والے ان کارکنوں کو اغواء اور قتل کرنے والوں کا پتہ چلانے میں ناکام رہے ۔
ایم کیو ایم کے کارکن اغواء ہونے والے افراد کے عزیزو اقارب بار بار اس بات کی گواہی دیتے ہیں کہ ڈبل کیبن سیاہ رنگ کی گاڑیوں میں آنے والے سیاہ کپڑوں میں ملوث افراد کارکنوں کو اغواء کرتے ہیں ۔ ایم کیو ایم کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار کا یہ کہنا ہے کہ 13کارکن ابھی تک لاپتہ ہیں اور ان کی بازیابی کے لیے 72گھنٹوں کا الٹی میٹم بھی دیا گیا ۔ در اصل دہشت گردی کی جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی سیاسی کارکنوں کو اغواء کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ،یہ لوگ سالوں لاپتہ رہتے ہیں کچھ لوگ رہا ہوجاتے ہیں یا تو وہ ذہنی طور پر مفلوج ہوگئے یا خفیہ ایجنسیوں کے مخبر بن گئے ۔ بلوچستان سے بلوچ لبریشن آرمی اور ملحقہ تنظیموں سے تعلق رکھنے کے شبے میں ہزاروں افراد لاپتہ ہوئے ان میں سے بہت سو کی مسخ شدہ لاشیں برآمد ہوئیں۔
سپریم کورٹ اور چاروں صوبوں کے ہائی کورٹوں کے چیف جسٹس صاحبان کے نوٹس ملنے پر خفیہ ایجنسیوں کے وکلاء نے متعدد افراد کو حراست میں لینے کا اقرار کیا اور ان میں سے کچھ رہا بھی ہوئے مگر 14سال سے یہ معاملہ انسانی حقوق کی پامالی کے تناظر میں گھمبیر ہے، اسلام آباد کے Dچوک اور کراچی پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتالی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے سراپا احتجاج ہیں ، کراچی آپریشن اس Phenomenonکے شامل ہونے سے حالات کی خرابی میں نیا عنصر شامل ہوگیا۔
اگرچہ رحمن ملک ایم کیو ایم کے کارکنوں کے اغواء کی ذمے داری طالبان پر ڈالتے ہیں مگر طالبان کی اس طرح کی کارروائی کی براہ راست ذمے داری پولیس اور رینجرز پر عائد ہوتی ہے، اگر انصاف کے فطری اصولوں کے تحت ضروری ہے کہ اگر کسی فرد نے قانون توڑا تو اس کے خلاف عدالت میں مقدمہ چلایاجائے اس مقصد کے تحت انسداد دہشت گردی کی زیادہ عدالتیں قائم ہونی چاہیے ، ایک معاملہ ایم کیو ایم کی احتجاج کی پالیسی کا بھی ہے، شہر کو احتجاجاََ بند کرنے کا سار انقصان غریبوں کا ہوتا ہے اس دفعہ اس احتجاج کی بنیاد پر نجی اداروں ملازمین 4 دن تک تنخواہ سے محروم رہ گئے۔
ڈیلی ویجز کے مزدور کے ہزاروں خاندانوں میں تو کھانے پینے کے لالے پڑے ، ایم کیو ایم سندھ حکومت میں شامل ہے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں اس کی موثر نمایندگی سے ایم کیو ایم کو منتخب اداروں میں مستقل احتجاج کرنا چاہیے، شہر کو بند کرنا کسی کے مفاد میں نہیں ہے۔