تعطیلات اور تعلیمی معاملات
حکومت سندھ کو صوبے کے معاملات میں اناپسندی، اقربا پروری، قانون شکنی اور سیاسی مداخلت و وابستگی کے بڑھتے ہوئے ۔۔۔
لاہور:
ہمارا ملک، اس کا صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شہر میں تعطیلات کے سلسلے بہت فراخ دلی اور کشادہ داماں واقع ہوئے ہیں۔ یہاں پر مختلف مذہبی، قومی و بین الاقوامی، علاقائی اور ثقافتی حوالوں اور احتجاج و ہڑتالوں کی صورت میں کی جانے والی چھٹیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔
یوم کشمیر اور یوم مزدور جیسی قومی اور بین الاقوامی تعطیلات سے لطف اندوز ہونے والے عوام و خواص کی غالب اکثریت ان ایام سے متعلق سطحی قسم کی معلومات بھی نہیں رکھتی ہے، جو لوگ ان ایام کی نسبت سے منعقد جلسے، جلوسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں یا لگواتے ہیں ان میں سے اکثر کو مقبوضہ کشمیر کا محل وقوع، اس پر بھارت کے غاصبانہ قبضے، وہاں کی حریت پسند تحریکوں کی جدوجہد، کشمیری عوام کی خواہشات، امنگوں اور مطالبات اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قرارداد اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کے اس مسئلے پر موقف کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ یوم مزدور منانے والے تجارتی و صنعتی اداروں کے مزدور بھی اس پس منظر سے ناواقف ہوتے ہیں۔
اس دن کی غرض و غایت کیا ہے؟ مزدور جدوجہد کی تحریک کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟ مزدور رہنماؤں کو پھانسی 3 مئی کو ہوئی یا یکم مئی کو دی گئی؟ اس دن کو کب سے منانا شروع کیا گیا اور اس دن کو منانے کا مقصد کیا ہے؟ ایک عام محنت کش جس کے نام پر یہ تعطیل منائی جاتی ہے اس سے بے خبر اس دن بھی جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں، کھلیانوں، سمندروں، پہاڑوں میں شہر کی سڑکوں، فٹ پاتھوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں محنت مزدوری کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی زندگی کسی آرام و چھٹی کی متحمل نہیں ہو سکتی، بیماری میں بھی اس کی کوششیں ہوتی ہیں کہ کسی طرح دہاڑی لگ جائے۔ عام طور پر یہ مزدور اور آجر دونوں اپنے حقوق و فرائض سے لاعلم ہوتے ہیں، دونوں اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار اور گھریلو ملازمین تک کو سوشل سیکیورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹ کے قوانین کے تحت بہت سے تحفظات حاصل ہیں۔
متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا اور بے حسی کا تو یہ عالم ہے کہ دو تین سو مزدور جل کر بھی مر جائیں تو نہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ کوئی ان سے باز پرس کرنے والا ہے۔ ظلم و جبر کی چکی میں پسنے کے بعد عالمی سطح پر مزدور یکجہتی اور شعور آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں آجر کے علاوہ ریاستیں بھی محنت کشوں کے مسائل اور مطالبات سننے، سمجھنے اور حل کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، اب وہ باقاعدہ بارگیننگ کرنے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت اختیار کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ ادارے اور قوانین وجود میں آ چکے ہیں۔
ان کی اپنی انجمنیں اور بین الاقوامی انجمنیں اور ادارے ہیں جو دنیا بھر میں مزدور مفادات کے نگراں اور محافظ ہیں، مزدوروں کے حالات کار کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، حکومتوں کو مزدور مفادات کے منافی اقدامات سے روکتے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے اور ان کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کے مرتکب ممالک کے خلاف مختلف پابندیاں لگائی اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں آئی ایس او، آئی ایل او اور دیگر ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا اطلاق نمائشی اور خانہ پری کی حد تک ہے۔
تعطیلات کے سلسلے میں بھی حکومت کو کوئی مربوط و جامع پالیسی وضع کرنی چاہیے، غیر ضروری چھٹیوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ سالانہ تعطیلات کے سلسلے میں دو بڑے حکومتی محکمہ تعلیم اور انصاف (عدالتیں) ہیں جن کی سالانہ تعطیلات کے شیڈول کے سلسلے میں یکسانیت ہونی چاہیے، اسی طرح کیمبرج اور نجی تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں بھی باہمی ربط ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ موسمی کیفیت اور مذہبی تہواروں کی ترتیب کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ سردیوں یا گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد موسم میں شدت آ جاتی ہے یا بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مزید چھٹیاں دینی پڑتی ہیں یا پھر رمضان و عید و شادی بیاہ کے سیزن اور امتحانات بھی طلبا اور ان کے والدین کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سالانہ چھٹیاں، رمضان و عید اور برسات کا موسم ایک ساتھ آ رہے ہیں۔ حکومت اس معاملے میں متعلقہ اداروں کی مشاورت سے بہتر شیڈول بنا کر والدین اور طلبا کو بہت سی پریشانیوں کو کم کر کے انھیں تفریح و تعلیم اور عبادات میں یکسوئی کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔
حکومت سندھ کو صوبے کے معاملات میں اناپسندی، اقربا پروری، قانون شکنی اور سیاسی مداخلت و وابستگی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں جو یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں تیزی سے روبہ زوال ہے اور طبقاتی تعلیم کی جڑیں بھی مضبوط کر رہا ہے جس سے نہ صرف حق دار اور اہل شہریوں کا استحصال ہو رہا ہے بلکہ یہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے شہری امیدواروں کو انٹرویو میں مسترد کرنے کا منظم منصوبہ بنا لیا ہے۔ متنازع انٹرویو پینل میں حاضر سروس سینئر ترین اساتذہ کے بجائے دیہی علاقوں سے ریٹائرڈ اور جونیئر اساتذہ کو سبجیکٹ اساتذہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں متعلقہ مضامین کے انٹرویو کے لیے جامعہ کراچی سمیت کراچی کے کسی تعلیمی ادارے کے سبجیکٹ ایکسپرٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔ انٹرویو میں سینئر ترین حاضر سروس سبجیکٹ اسپیشلسٹ کالجز اساتذہ کو صرف اس لیے نظرانداز کیا گیا کہ ان کا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔ امیدواروں کا کہنا تھا کہ پینلسٹ کتابیں کھول کر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا استفسار تھا کہ جواب عین کتاب کی عبارت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پینلسٹ کتابیں بند کر دیں تو شاید امیدوار ان کے انٹرویو لے لیں۔ رپورٹس میں حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں سے ماسٹر کرنے والے امیدوار انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتے، اس کے برعکس دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں۔
شہری علاقوں کی خالی نشستوں پر دیہی علاقوں کے معذور افراد کو بھرتی کر لیا جاتا ہے اور اب خالی رہ جانے والی شہری علاقوں کی نشستوں پر شہری و دیہی کوٹے کا ازسر نو اطلاق کر کے انھیں دوبارہ مشتہر کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جب ایکسپریس نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے قائم مقام چیئرمین سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ماہرین کی شمولیت صوبائی محکمہ تعلیم کی سفارش پر کی جاتی ہے، متعلقہ ماہرین محکمہ تعلیم کی سفارش پر شامل کیے گئے تھے، جب سوال کیا گیا کہ کیا حاضر سروس سینئر ترین اساتذہ کی موجودگی میں ریٹائرڈ اساتذہ کو انٹرویو پینل کیا جا سکتا ہے تو وہ اس بارے میں لاعلم تھے اور کہا کہ میں اس سلسلے میں معلومات حاصل کروں گا۔
صوبائی محکمہ تعلیم میں پچھلے آٹھ دس سال سے چپڑاسی، کلرکوں، جونیئر و سینئر اساتذہ کی بھرتیوں کے سلسلے میں اقربا پروری، سیاسی وابستگیوں، رشوت ستانی اور بدعنوانی کا جو کھیل سے سرعام دھڑلے سے پھیلایا جا رہا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں سندھ ہائیکورٹ میں ریکارڈ آئینی درخواستیں دائر ہوئی ہیں۔ ان بدعنوانیوں اور دھاندلیوں پر نہ صرف امیدواروں کی جانب سے ہنگامہ آرائی، توڑپھوڑ، بھوک ہڑتال، قومی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں پر دھرنا دینے اور خودکشی جیسے اقدامات سامنے آئے ہیں بلکہ تحقیقات کے نتیجے میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران پر کروڑوں روپوں رشوت لینے کے الزامات بھی ثابت ہوئے ہیں، بعض نے تو خود اپنے جرم اور بھاری رقوم اینٹھنے کا اعتراف بھی کیا ہے مگر سوائے معطلی کے ان کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
صوبے کو خطیر تعلیمی امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے یورپی یونین اور ورلڈ بینک کئی مرتبہ ان بدعنوانیوں پر حکومت کو تنبیہہ اور امداد روکنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کی یہ روش ملک و قوم کے وقار کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو تباہ و برباد اور اہل افراد کے ساتھ کھلے ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ حکومت کو اپنے معاملات اور اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔
ہمارا ملک، اس کا صوبہ سندھ اور خاص طور پر کراچی شہر میں تعطیلات کے سلسلے بہت فراخ دلی اور کشادہ داماں واقع ہوئے ہیں۔ یہاں پر مختلف مذہبی، قومی و بین الاقوامی، علاقائی اور ثقافتی حوالوں اور احتجاج و ہڑتالوں کی صورت میں کی جانے والی چھٹیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا ایک مشکل کام ہے۔
یوم کشمیر اور یوم مزدور جیسی قومی اور بین الاقوامی تعطیلات سے لطف اندوز ہونے والے عوام و خواص کی غالب اکثریت ان ایام سے متعلق سطحی قسم کی معلومات بھی نہیں رکھتی ہے، جو لوگ ان ایام کی نسبت سے منعقد جلسے، جلوسوں اور سیمیناروں میں شرکت کرتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں یا لگواتے ہیں ان میں سے اکثر کو مقبوضہ کشمیر کا محل وقوع، اس پر بھارت کے غاصبانہ قبضے، وہاں کی حریت پسند تحریکوں کی جدوجہد، کشمیری عوام کی خواہشات، امنگوں اور مطالبات اور اس سلسلے میں اقوام متحدہ کی قرارداد اور دونوں ملکوں کی حکومتوں کے اس مسئلے پر موقف کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ یوم مزدور منانے والے تجارتی و صنعتی اداروں کے مزدور بھی اس پس منظر سے ناواقف ہوتے ہیں۔
اس دن کی غرض و غایت کیا ہے؟ مزدور جدوجہد کی تحریک کا آغاز کب اور کہاں سے ہوا؟ مزدور رہنماؤں کو پھانسی 3 مئی کو ہوئی یا یکم مئی کو دی گئی؟ اس دن کو کب سے منانا شروع کیا گیا اور اس دن کو منانے کا مقصد کیا ہے؟ ایک عام محنت کش جس کے نام پر یہ تعطیل منائی جاتی ہے اس سے بے خبر اس دن بھی جسم و جان کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لیے کھیتوں، کھلیانوں، سمندروں، پہاڑوں میں شہر کی سڑکوں، فٹ پاتھوں، بازاروں اور ہوٹلوں میں محنت مزدوری کرتا نظر آتا ہے۔ اس کی زندگی کسی آرام و چھٹی کی متحمل نہیں ہو سکتی، بیماری میں بھی اس کی کوششیں ہوتی ہیں کہ کسی طرح دہاڑی لگ جائے۔ عام طور پر یہ مزدور اور آجر دونوں اپنے حقوق و فرائض سے لاعلم ہوتے ہیں، دونوں اس بات سے لاعلم ہوتے ہیں چھوٹے چھوٹے کاروبار اور گھریلو ملازمین تک کو سوشل سیکیورٹی اور اولڈ ایج بینیفٹ کے قوانین کے تحت بہت سے تحفظات حاصل ہیں۔
متعلقہ اداروں کی کارکردگی کا اور بے حسی کا تو یہ عالم ہے کہ دو تین سو مزدور جل کر بھی مر جائیں تو نہ ان کے کانوں پر جوں رینگتی ہے اور نہ کوئی ان سے باز پرس کرنے والا ہے۔ ظلم و جبر کی چکی میں پسنے کے بعد عالمی سطح پر مزدور یکجہتی اور شعور آج اس مقام پر پہنچ چکا ہے جہاں آجر کے علاوہ ریاستیں بھی محنت کشوں کے مسائل اور مطالبات سننے، سمجھنے اور حل کرنے پر مجبور ہو گئی ہیں، اب وہ باقاعدہ بارگیننگ کرنے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شمولیت اختیار کرنے کا استحقاق رکھتے ہیں، ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے باقاعدہ ادارے اور قوانین وجود میں آ چکے ہیں۔
ان کی اپنی انجمنیں اور بین الاقوامی انجمنیں اور ادارے ہیں جو دنیا بھر میں مزدور مفادات کے نگراں اور محافظ ہیں، مزدوروں کے حالات کار کا جائزہ لیتے رہتے ہیں، حکومتوں کو مزدور مفادات کے منافی اقدامات سے روکتے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون سازی کرنے اور ان کے اطلاق کو یقینی بنانے کے لیے حکومتوں کو مجبور کرتے ہیں اور ان کی خلاف ورزی کے مرتکب ممالک کے خلاف مختلف پابندیاں لگائی اور اقدامات اٹھائے جاتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک کے جاگیردارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام میں آئی ایس او، آئی ایل او اور دیگر ملکی اور بین الاقوامی قوانین کا اطلاق نمائشی اور خانہ پری کی حد تک ہے۔
تعطیلات کے سلسلے میں بھی حکومت کو کوئی مربوط و جامع پالیسی وضع کرنی چاہیے، غیر ضروری چھٹیوں کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔ سالانہ تعطیلات کے سلسلے میں دو بڑے حکومتی محکمہ تعلیم اور انصاف (عدالتیں) ہیں جن کی سالانہ تعطیلات کے شیڈول کے سلسلے میں یکسانیت ہونی چاہیے، اسی طرح کیمبرج اور نجی تعلیمی اداروں کی تعطیلات میں بھی باہمی ربط ہونا چاہیے۔ اس کے علاوہ موسمی کیفیت اور مذہبی تہواروں کی ترتیب کو بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔
ہوتا یہ ہے کہ سردیوں یا گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے کے بعد موسم میں شدت آ جاتی ہے یا بارشوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس کی وجہ سے مزید چھٹیاں دینی پڑتی ہیں یا پھر رمضان و عید و شادی بیاہ کے سیزن اور امتحانات بھی طلبا اور ان کے والدین کے لیے مشکلات کا باعث بنتے ہیں۔ اس مرتبہ بھی سالانہ چھٹیاں، رمضان و عید اور برسات کا موسم ایک ساتھ آ رہے ہیں۔ حکومت اس معاملے میں متعلقہ اداروں کی مشاورت سے بہتر شیڈول بنا کر والدین اور طلبا کو بہت سی پریشانیوں کو کم کر کے انھیں تفریح و تعلیم اور عبادات میں یکسوئی کی سہولت فراہم کر سکتی ہے۔
حکومت سندھ کو صوبے کے معاملات میں اناپسندی، اقربا پروری، قانون شکنی اور سیاسی مداخلت و وابستگی کے بڑھتے ہوئے رجحان کو کنٹرول کرنا چاہیے۔ خاص طور پر تعلیم کے شعبے میں جو یہاں دیگر صوبوں کے مقابلے میں تیزی سے روبہ زوال ہے اور طبقاتی تعلیم کی جڑیں بھی مضبوط کر رہا ہے جس سے نہ صرف حق دار اور اہل شہریوں کا استحصال ہو رہا ہے بلکہ یہ ملک و قوم کے مستقبل کے لیے بھی تباہ کن ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں روزنامہ ایکسپریس میں شایع شدہ رپورٹس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سندھ پبلک سروس کمیشن نے اساتذہ کی بھرتیوں کے لیے شہری امیدواروں کو انٹرویو میں مسترد کرنے کا منظم منصوبہ بنا لیا ہے۔ متنازع انٹرویو پینل میں حاضر سروس سینئر ترین اساتذہ کے بجائے دیہی علاقوں سے ریٹائرڈ اور جونیئر اساتذہ کو سبجیکٹ اساتذہ کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔
اس سلسلے میں متعلقہ مضامین کے انٹرویو کے لیے جامعہ کراچی سمیت کراچی کے کسی تعلیمی ادارے کے سبجیکٹ ایکسپرٹ کو شامل نہیں کیا گیا۔ انٹرویو میں سینئر ترین حاضر سروس سبجیکٹ اسپیشلسٹ کالجز اساتذہ کو صرف اس لیے نظرانداز کیا گیا کہ ان کا تعلق شہری علاقوں سے تھا۔ امیدواروں کا کہنا تھا کہ پینلسٹ کتابیں کھول کر بیٹھے ہوئے تھے اور ان کا استفسار تھا کہ جواب عین کتاب کی عبارت کے مطابق ہونا چاہیے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پینلسٹ کتابیں بند کر دیں تو شاید امیدوار ان کے انٹرویو لے لیں۔ رپورٹس میں حیرت انگیز انکشاف کیا گیا ہے کہ کراچی کے تعلیمی اداروں سے ماسٹر کرنے والے امیدوار انٹرویو میں کامیاب نہیں ہوتے، اس کے برعکس دیہی علاقوں سے تعلق رکھنے والے تمام امیدوار کامیاب ہو جاتے ہیں۔
شہری علاقوں کی خالی نشستوں پر دیہی علاقوں کے معذور افراد کو بھرتی کر لیا جاتا ہے اور اب خالی رہ جانے والی شہری علاقوں کی نشستوں پر شہری و دیہی کوٹے کا ازسر نو اطلاق کر کے انھیں دوبارہ مشتہر کیا جا رہا ہے۔ اس سلسلے میں جب ایکسپریس نے سندھ پبلک سروس کمیشن کے قائم مقام چیئرمین سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ ماہرین کی شمولیت صوبائی محکمہ تعلیم کی سفارش پر کی جاتی ہے، متعلقہ ماہرین محکمہ تعلیم کی سفارش پر شامل کیے گئے تھے، جب سوال کیا گیا کہ کیا حاضر سروس سینئر ترین اساتذہ کی موجودگی میں ریٹائرڈ اساتذہ کو انٹرویو پینل کیا جا سکتا ہے تو وہ اس بارے میں لاعلم تھے اور کہا کہ میں اس سلسلے میں معلومات حاصل کروں گا۔
صوبائی محکمہ تعلیم میں پچھلے آٹھ دس سال سے چپڑاسی، کلرکوں، جونیئر و سینئر اساتذہ کی بھرتیوں کے سلسلے میں اقربا پروری، سیاسی وابستگیوں، رشوت ستانی اور بدعنوانی کا جو کھیل سے سرعام دھڑلے سے پھیلایا جا رہا ہے، اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس سلسلے میں سندھ ہائیکورٹ میں ریکارڈ آئینی درخواستیں دائر ہوئی ہیں۔ ان بدعنوانیوں اور دھاندلیوں پر نہ صرف امیدواروں کی جانب سے ہنگامہ آرائی، توڑپھوڑ، بھوک ہڑتال، قومی شاہراہوں اور ریلوے لائنوں پر دھرنا دینے اور خودکشی جیسے اقدامات سامنے آئے ہیں بلکہ تحقیقات کے نتیجے میں محکمہ تعلیم کے اعلیٰ افسران پر کروڑوں روپوں رشوت لینے کے الزامات بھی ثابت ہوئے ہیں، بعض نے تو خود اپنے جرم اور بھاری رقوم اینٹھنے کا اعتراف بھی کیا ہے مگر سوائے معطلی کے ان کے خلاف کوئی کارروائی دیکھنے میں نہیں آئی۔
صوبے کو خطیر تعلیمی امداد دینے والے بین الاقوامی ادارے یورپی یونین اور ورلڈ بینک کئی مرتبہ ان بدعنوانیوں پر حکومت کو تنبیہہ اور امداد روکنے کی دھمکی دے چکے ہیں۔ سندھ حکومت اور محکمہ تعلیم کے ارباب اختیار کی یہ روش ملک و قوم کے وقار کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ تعلیمی معیار کو تباہ و برباد اور اہل افراد کے ساتھ کھلے ظلم و زیادتی کے مترادف ہے۔ حکومت کو اپنے معاملات اور اعمال کا جائزہ لینا چاہیے۔