بجلی جانے کا گھنٹہ
وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بجلی کی چھٹی اُس دن کیوں کی گئی جب بڑے بابو انگریزی لباس میں انگریزی میں کچھ ’’سننے‘‘ گئے تھے
بہت بے حس لوگ ہو یارا...آپ لوگوں کو قدر ہی نہیں ۔۔ کوئی مجھے اعلیٰ کارکردگی اور میڈیا کے صحیح استعمال کا فائدہ نہیں دے سکتا تو کم از کم میری پیٹھ تھپک کر، آنکھ مار کر یہ تو کہہ دو۔ لالے زبردست لگا رہے ۔منا بھائی کی طرح... بس لگے رہو ۔ ایک نہ ایک دن تو۔ میرے گائوں میں بجلی آئے گی... اور میاں صاحب بولیں گے۔۔ وہاں وہاں... پتر کیا کام کیا ہے... یہ سندھ اور خیبرپختونخوا کے کچھ ''ان پڑھ'' لوگ بلا وجہ تم پر شیشہ مار رہے تھے... ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ کتنے پتھر دل کے ہو تم... ویسے کیا خوبصورت کارنامہ انجام دیا ہے ۔ ایوان صدر میں تو آپ کچھ بھی کر لیجیے ۔ معذرت کے ساتھ اہم تقاریب میں صدر کو بغیر استری کی شیروانی دے دیجیے... کوئی فرق نہیں پڑتا... اگر ایسے میں اُن کی بجلی کٹ گئی تو کیا ہے؟۔
ان کو تو ویسے بھی استری کی ضرورت نہیں پڑتی ... مگر میرے جوشیلے نوجوان یہ تو بتائو کہ جناب وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بجلی کی چھٹی اُس دن کیوں کی گئی جب بڑے بابو انگریزی لباس میں انگریزی میں کچھ ''سننے'' گئے تھے ۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کا بل تو بس 62 لاکھ تھا... اور آپ نے جن 62 لاکھ کے لیے اُن کی بجلی کاٹی تھی اُس کے اگلے کی لمحے جو جنریٹر میں ڈیزل کی جگہ ہم جل رہے تھے اُس کا کیا ہو گا؟ 20 کروڑ تیل کے کنویں سے نکلنے والا خالص انسانی فیول... اور پھر کس نے کہا کہ بہت ہو گیا... اب بٹن دبا دو... تو آدھے گھنٹے میں سب جگہ سکون ہو گیا سوائے میڈیا کے... اور آپ نے سندھ اور خیبر پختوانخوا میں چلانے والوں کو خاموش کر دیا...کہ دیکھا... میں کتنا بہادر ہوں...کاش یہ بہادری اُس وقت بھی ہم دیکھتے جب ورلڈ بینک کے ڈالر تو ہمیں دکھ رہے تھے لیکن اُس کے پیچھے پھانسی کا پھندا نظر نہیں آ رہا تھا... جو آپ نے اس قوم کے گلے میں باندھ دیا...
تھوڑی سی جھلک تو دیکھیں پوری تصویر سمجھ آ جائے گی کہ کیسے اندر اور باہر کے کھیل میں یہاں بجلی ہر گھنٹے گھنٹہ بجا کر بھاگ جاتی ہے... بچے بلبلا رہے ہوتے ہیں اور مائیں کوس رہی ہوتی ہیں لیکن کئی سالوں سے آباد مینار پاکستان کا احاطہ بھی ویران ہے... ہم تو سوچ رہے تھے کہ جناب خادم اعلی صاحب اس سال بھی یہاں رونق بخشیں گے اور اُسی طرح مظاہروں میں اُن کے چپل گُم ہو جائینگے مگر... مگر... افسوس جی... کسے یاد کہ کس کے چپل کہاں کھوئے تھے... آپ تو ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ آج کل یہ وصولیوں کا سلسلہ کیوں شروع ہوا ہے ؟
آئیے پہلے آپ کو وصولیاں بتائیں... یہ عزت مآب جناب ایک بینک ہے جو ہمارے ملک میں ورلڈ بینک کے نام سے زیادہ مشہور ہے... بڑی منتوں اور سماجتوں کے بعد انھوں نے اپنی تجوری کا منہ ہماری طرف کھولا ہے...مگر صاحب کا حکم یہ ہے کہ بھیک اُس وقت ملے گی جب اپنے بچوں کی روٹی آدھی کر دو گے...یعنی جناب...میرے پاکستان کے ہوش مند لوگوں آپ پر آج سے ہر روز قرض میں اضافہ ہونے والا ہے... جو بچہ آج پیدا ہو گا اُس پر پانچ سال میں45 ہزار کا مقروض ہو گا... مگر کس کا؟ اسی ورلڈ بینک کا... مگر کیوں ۔اس لیے کہ جناب آپ اُن سے 11 ارب ڈالر لے رہے ہیں ...اور ایک ارب کی قسط تو بس آپ کے پائوں جلد چھونے والی ہے...اور...اور سنو جی... 60 کروڑ تو بس آنے ہی والے ہے...اس لیے کہ آپ پلک جھپکتے ہی بجلی کا مسئلہ حل کر لیں...لیکن...لیکن تھوڑا شربت تو پی لیجیے۔
تھوڑا ٹھنڈا ہو کر فرمائیشی پروگرام بھی تو سن لیجیے...اس میں ایک شرط ہمیں آنکھیں بند کر کے ماننی ہے اور وہ یہ کہ بجلی میں چھوٹ کم کی جائے یعنی قیمت بڑھ جائے مگر حکومت کو کہا گیا ہے کہ...بجلی کی چوری کو روکا جائے...اب تو آپ کی سمجھ میں آ رہا ہو گا کہ آج کل بجلی کی چوری روکنے کا حکم کس آقا کی جانب سے آیا ہے... مگر ساتھ ساتھ یہ بھی حکم ہوا ہے کہ کم خرچ سے بجلی پیدا کی جائے... لیکن یہ ہو نہیں سکتا...کیوں... نہیں ہو سکتا... آئیے اس کی بھی مثال دیتے ہیں... کچھ لوگوں کو بھول جانے کی عادت ہوتی ہے لیکن ہم کیا کریں کہ کچھ جراثیم ایسے ہیں کہ نہ بھولتے ہیں نہ بھولنے دیتے ہیں... مشرف کو چاہیں کچھ کہیں لیکن کچھ لوگوں کے بڑے فائدے ہوئے... جب بجلی کا مسئلہ عروج پر پہنچنے لگا تو یہ فیصلہ ہوا کہ متبادل توانائی کے ذریعے ڈھونڈھے جائیں...
اس کے لیے ایک بورڈ بھی بنایا گیا...جس کا نام AEDB رکھا گیا... جناب سہولت یہ تھی اگر کوئی بھی سورج سے توانائی پیدا کرنے کی کوشش کریگا تو اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی... اور وہ لوگ جو باہر سے یہ لائینگے انھیں ٹیکس کی چھوٹ ہو گی...اب یکم مئی کو جب مزدورں کی یاد میں ہم چھٹی منا رہے تھے...تو ایکسپریس ٹریبیون میں ایک بڑی تصویر چھپی ہوئی تھی...کہ اسلام آباد میں ایک موچی... چھوٹا سا پینل لگا کر سورج کی بجلی حاصل کر رہا تھا... ہمیں بھی شوق ہوا کہ جناب معلوم تو کریں کہ آخر سورج کو ہم نے کتنا اپنے قبضے میں کیا... معلومات اور خبروںکے ڈھیر لگنے شروع ہوئے... تو پتہ چلا کہ پاکستان کے شہری علاقوں کی بانسبت دیہاتوں میں اس کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن... لیکن جی مارچ کے شروع سے کراچی پورٹ پر سب کا مال روک گیا ہے... کیوں جی؟
اب ہماری کھوج میں خبر کی جستجو اور بڑھنے لگی... پتہ لگا کہ ایک صاحب نے اس میں بڑا کمال دکھایا... انھوں نے AEDB والوں کی پہلے تو اچھی خاصی کلاس لی... اور پھر انھیں ایک چکر میں پھنسایا... وہ کیسے جی؟۔ توہم آپ کو بتاتے ہیں... انھوں نے ایک گھپلے کا معاملہ اٹھا یا کہ جناب اس میں تو بہت بڑا گھپلا ہو رہا ہے...19 لاکھ کا گھپلا۔اندازہ کیجیے جناب...کتنا بڑاگھپلا تھا... اس کے بعد انھوں نے متعلقہ حکام سے کہا کہ یہ آزادی ختم کی جائے... اور جو نہیں کریگا...اُس کے اسی طرح بات بات پر کان کھینچے جائیں گے۔
FBR نے حکم کی تعمیل کی اور ایک سیکریٹری نے فورا ایک خط کسٹم کو روانہ کر دیا... آپ کیا سمجھ رہے ہیں کہ یہ انھوں نے عوام کی بھلائی میں کیا ہے۔ بجلی حکومت تو دے نہیں سکتی ۔ایسے میں سورج کی روشنی سے چلنے والے گھروں کے پنکھے بھی بند ہو گئے۔اب کیا چلے گا... سوچیں سوچیں... بس جو چلے گا... اسی کی تو فیکٹری ان صاحب کی ہے... اب تو سمجھ گئے ہونگے کہ بجلی ہر گھنٹے میں گھنٹہ کیوں بجاتی ہے...ایک طرف عابد شیر علی صاحب ہیں... دوسری طرف ورلڈ بینک... اور تیسری طرف... وہ ہیں جن کا کام بجلی نہ ہونے کے وقت چلتا ہے... اور وہ بھی کروڑوں کا...
ان کو تو ویسے بھی استری کی ضرورت نہیں پڑتی ... مگر میرے جوشیلے نوجوان یہ تو بتائو کہ جناب وزیر اعظم سیکریٹریٹ میں بجلی کی چھٹی اُس دن کیوں کی گئی جب بڑے بابو انگریزی لباس میں انگریزی میں کچھ ''سننے'' گئے تھے ۔ وزیر اعظم سیکریٹریٹ کا بل تو بس 62 لاکھ تھا... اور آپ نے جن 62 لاکھ کے لیے اُن کی بجلی کاٹی تھی اُس کے اگلے کی لمحے جو جنریٹر میں ڈیزل کی جگہ ہم جل رہے تھے اُس کا کیا ہو گا؟ 20 کروڑ تیل کے کنویں سے نکلنے والا خالص انسانی فیول... اور پھر کس نے کہا کہ بہت ہو گیا... اب بٹن دبا دو... تو آدھے گھنٹے میں سب جگہ سکون ہو گیا سوائے میڈیا کے... اور آپ نے سندھ اور خیبر پختوانخوا میں چلانے والوں کو خاموش کر دیا...کہ دیکھا... میں کتنا بہادر ہوں...کاش یہ بہادری اُس وقت بھی ہم دیکھتے جب ورلڈ بینک کے ڈالر تو ہمیں دکھ رہے تھے لیکن اُس کے پیچھے پھانسی کا پھندا نظر نہیں آ رہا تھا... جو آپ نے اس قوم کے گلے میں باندھ دیا...
تھوڑی سی جھلک تو دیکھیں پوری تصویر سمجھ آ جائے گی کہ کیسے اندر اور باہر کے کھیل میں یہاں بجلی ہر گھنٹے گھنٹہ بجا کر بھاگ جاتی ہے... بچے بلبلا رہے ہوتے ہیں اور مائیں کوس رہی ہوتی ہیں لیکن کئی سالوں سے آباد مینار پاکستان کا احاطہ بھی ویران ہے... ہم تو سوچ رہے تھے کہ جناب خادم اعلی صاحب اس سال بھی یہاں رونق بخشیں گے اور اُسی طرح مظاہروں میں اُن کے چپل گُم ہو جائینگے مگر... مگر... افسوس جی... کسے یاد کہ کس کے چپل کہاں کھوئے تھے... آپ تو ہم سے بہتر جانتے ہیں کہ آج کل یہ وصولیوں کا سلسلہ کیوں شروع ہوا ہے ؟
آئیے پہلے آپ کو وصولیاں بتائیں... یہ عزت مآب جناب ایک بینک ہے جو ہمارے ملک میں ورلڈ بینک کے نام سے زیادہ مشہور ہے... بڑی منتوں اور سماجتوں کے بعد انھوں نے اپنی تجوری کا منہ ہماری طرف کھولا ہے...مگر صاحب کا حکم یہ ہے کہ بھیک اُس وقت ملے گی جب اپنے بچوں کی روٹی آدھی کر دو گے...یعنی جناب...میرے پاکستان کے ہوش مند لوگوں آپ پر آج سے ہر روز قرض میں اضافہ ہونے والا ہے... جو بچہ آج پیدا ہو گا اُس پر پانچ سال میں45 ہزار کا مقروض ہو گا... مگر کس کا؟ اسی ورلڈ بینک کا... مگر کیوں ۔اس لیے کہ جناب آپ اُن سے 11 ارب ڈالر لے رہے ہیں ...اور ایک ارب کی قسط تو بس آپ کے پائوں جلد چھونے والی ہے...اور...اور سنو جی... 60 کروڑ تو بس آنے ہی والے ہے...اس لیے کہ آپ پلک جھپکتے ہی بجلی کا مسئلہ حل کر لیں...لیکن...لیکن تھوڑا شربت تو پی لیجیے۔
تھوڑا ٹھنڈا ہو کر فرمائیشی پروگرام بھی تو سن لیجیے...اس میں ایک شرط ہمیں آنکھیں بند کر کے ماننی ہے اور وہ یہ کہ بجلی میں چھوٹ کم کی جائے یعنی قیمت بڑھ جائے مگر حکومت کو کہا گیا ہے کہ...بجلی کی چوری کو روکا جائے...اب تو آپ کی سمجھ میں آ رہا ہو گا کہ آج کل بجلی کی چوری روکنے کا حکم کس آقا کی جانب سے آیا ہے... مگر ساتھ ساتھ یہ بھی حکم ہوا ہے کہ کم خرچ سے بجلی پیدا کی جائے... لیکن یہ ہو نہیں سکتا...کیوں... نہیں ہو سکتا... آئیے اس کی بھی مثال دیتے ہیں... کچھ لوگوں کو بھول جانے کی عادت ہوتی ہے لیکن ہم کیا کریں کہ کچھ جراثیم ایسے ہیں کہ نہ بھولتے ہیں نہ بھولنے دیتے ہیں... مشرف کو چاہیں کچھ کہیں لیکن کچھ لوگوں کے بڑے فائدے ہوئے... جب بجلی کا مسئلہ عروج پر پہنچنے لگا تو یہ فیصلہ ہوا کہ متبادل توانائی کے ذریعے ڈھونڈھے جائیں...
اس کے لیے ایک بورڈ بھی بنایا گیا...جس کا نام AEDB رکھا گیا... جناب سہولت یہ تھی اگر کوئی بھی سورج سے توانائی پیدا کرنے کی کوشش کریگا تو اُس کی حوصلہ افزائی کی جائے گی... اور وہ لوگ جو باہر سے یہ لائینگے انھیں ٹیکس کی چھوٹ ہو گی...اب یکم مئی کو جب مزدورں کی یاد میں ہم چھٹی منا رہے تھے...تو ایکسپریس ٹریبیون میں ایک بڑی تصویر چھپی ہوئی تھی...کہ اسلام آباد میں ایک موچی... چھوٹا سا پینل لگا کر سورج کی بجلی حاصل کر رہا تھا... ہمیں بھی شوق ہوا کہ جناب معلوم تو کریں کہ آخر سورج کو ہم نے کتنا اپنے قبضے میں کیا... معلومات اور خبروںکے ڈھیر لگنے شروع ہوئے... تو پتہ چلا کہ پاکستان کے شہری علاقوں کی بانسبت دیہاتوں میں اس کا رحجان بڑھ رہا ہے لیکن... لیکن جی مارچ کے شروع سے کراچی پورٹ پر سب کا مال روک گیا ہے... کیوں جی؟
اب ہماری کھوج میں خبر کی جستجو اور بڑھنے لگی... پتہ لگا کہ ایک صاحب نے اس میں بڑا کمال دکھایا... انھوں نے AEDB والوں کی پہلے تو اچھی خاصی کلاس لی... اور پھر انھیں ایک چکر میں پھنسایا... وہ کیسے جی؟۔ توہم آپ کو بتاتے ہیں... انھوں نے ایک گھپلے کا معاملہ اٹھا یا کہ جناب اس میں تو بہت بڑا گھپلا ہو رہا ہے...19 لاکھ کا گھپلا۔اندازہ کیجیے جناب...کتنا بڑاگھپلا تھا... اس کے بعد انھوں نے متعلقہ حکام سے کہا کہ یہ آزادی ختم کی جائے... اور جو نہیں کریگا...اُس کے اسی طرح بات بات پر کان کھینچے جائیں گے۔
FBR نے حکم کی تعمیل کی اور ایک سیکریٹری نے فورا ایک خط کسٹم کو روانہ کر دیا... آپ کیا سمجھ رہے ہیں کہ یہ انھوں نے عوام کی بھلائی میں کیا ہے۔ بجلی حکومت تو دے نہیں سکتی ۔ایسے میں سورج کی روشنی سے چلنے والے گھروں کے پنکھے بھی بند ہو گئے۔اب کیا چلے گا... سوچیں سوچیں... بس جو چلے گا... اسی کی تو فیکٹری ان صاحب کی ہے... اب تو سمجھ گئے ہونگے کہ بجلی ہر گھنٹے میں گھنٹہ کیوں بجاتی ہے...ایک طرف عابد شیر علی صاحب ہیں... دوسری طرف ورلڈ بینک... اور تیسری طرف... وہ ہیں جن کا کام بجلی نہ ہونے کے وقت چلتا ہے... اور وہ بھی کروڑوں کا...