کراچی کے چار دلیپ کمار پہلا حصہ

دو دلیپ کمار فلاپ ہوگئے تھے اور ایک دلیپ کمار کو ابتدائی طور پر کچھ پذیرائی حاصل ہوئی تھی

hamdam.younus@gmail.com

کراچی کو یہ اعزاز جاتا ہے کہ اس نے فنون لطیفہ سے وابستہ ہر شعبے میں جہاں پاکستان کو بے شمار فنکار دیے ہیں وہاں فلمی دنیا کو یکے بعد دیگرے چار دلیپ کمار بھی دیے ہیں، ان کی بھی ایک دلچسپ کہانی اور دل ربا داستان ہے یہ چار دلیپ کمار اس دور میں آئے جب انڈین فلم انڈسٹری کے دلیپ کمار کا سارے برصغیر میں طوطی بول رہا تھا۔

یہ وہ دور تھا جب ہندوستان سے لے کر پاکستان تک ہر فلم بین خود کو دلیپ کمار بنائے پھرتا تھا اور اپنے ماتھے پر دلیپ کمار اسٹائل میں بالوں کی لٹ بکھرائے دلیپ کمار کی مشہور فلم آن کا ایک گیت :

دل میں چھپا کے پیار کا طوفان لے چلے

وہ لے چلے ہیں آن تو ہم جان لے چلے

ہونٹوں پر سجائے گلی محلوں میں گھوما کرتا تھا۔ یہ چار دلیپ کمار کچھ نہ کچھ حد تک دلیپ کمار سے مشابہت بھی رکھتے تھے اور انھوں نے اپنے آپ کو دلیپ کمار کے روپ میں ڈھالا ہوا تھا مگر ان چاروں میں ایک نوجوان نہ دلیپ کمار کے خواب دیکھتا تھا اور نہ ہی اسے دلیپ کمار بننے اور نہ ہی اداکاری کا شوق تھا ان چاروں میں تین دلیپ کمار بڑے مدوجزر کا شکار رہے۔

دو دلیپ کمار فلاپ ہوگئے تھے اور ایک دلیپ کمار کو ابتدائی طور پر کچھ پذیرائی حاصل ہوئی تھی، یہ حسن اتفاق ہے کہ میری ان چاروں دلیپ کماروں سے نہ صرف واقفیت تھی بلکہ ان سے میری بے تکلفی بھی رہی، میں کافی دنوں سے سوچ رہا تھا کہ ان چاروں دلیپ کماروں پر ایک کتاب نہ سہی، ایک مضمون تو لکھ دوں ان میں سے ایک دلیپ کمار اداکار حنیف جو کافی شباہت رکھتا تھا دلیپ کمار سے، میں کراچی کے جس پرانے محلے رام سوامی میں رہتا تھا۔

اس کے برابر والے مارواڑی محلے میں وہ رہائش پذیر تھا، دوسرا دلیپ کمار طاہر ایک گلی بوائے تھا جو مجھے اکثر و بیشتر صدر کی فٹ پاتھ پر مٹر گشت کرتے ہوئے مل جاتا تھا جب کہ دو دلیپ کمار فیروز اور نذیر بیگ میرے کالج فیلوز تھے اور ان کا اسلامیہ کالج کراچی سے تعلق تھا۔

اب میں پہلے دلیپ کمار طاہرکی کتاب زندگی کے اوراق پلٹتا ہوں کہ وہ کس طرح دلیپ کمارکا روپ دھارے ہوئے تھا۔ دلیپ کمارکا وہ شیدائی تھا اور خود بھی فلموں میں دلیپ کمار بن کر آنے کا خواہش مند تھا وہ کراچی فلم انڈسٹری کا ابتدائی دور تھا اور کراچی میں ایک فلم اسٹوڈیو، ایسٹرن فلم اسٹوڈیو کے نام سے شروع ہوا تھا۔


طاہر اس اسٹوڈیو کے اکثر چکر لگایا کرتا تھا کہ کوئی فلم ساز اسے بھی اپنی فلم میں ہیرو کا چانس دے گا۔ پھر ایک دن اس کی قسمت نے یاوری کی اور اس کو مشہور شاعر اور فلم ساز فضل احمد کریم فضلی نے اپنی فلم ''وقت کی پکار'' میں اداکارہ زیبا کے ساتھ ہیرو کاسٹ کرلیا۔ فضل احمد کریم فضلی صاحب نے ہی اپنی پہلی فلم چراغ جلتا رہا میں زیبا، دیبا، محمد علی اور ہیرو عارف کو متعارف کرایا تھا۔

فلم میں محمد علی ہٹ ہو گیا تھا مگر فلم کا ہیرو عارف گمنامی کے اندھیروں کی نذر ہو گیا تھا۔ فلم '' وقت کی پکار '' میں طاہر پہلی بار بطور ہیرو آیا مگر جب فلم ریلیز ہوئی تو بری طرح ناکام ہوگئی تھی اور اس طرح اداکار طاہر کے سارے خواب چکنا چور ہوگئے تھے یہ فلمی دنیا کی ریت ہے کہ جس اداکار کی پہلی فلم فلاپ ہو جاتی ہے پھر اس اداکار کو کوئی آگے نہیں بڑھاتا کوئی اس کو حوصلہ نہیں دلاتا ہے کیونکہ یہ دنیا تو چڑھتے سورج کی پوجا کرتی ہے۔

اداکار طاہر پھر کافی عرصے تک راستے کی دھول بنا رہا اسے کسی نے بھی منہ نہیں لگایا کیونکہ فلمی دنیا کی ریس میں ہارا ہوا گھوڑا تھا۔ اسے جنون کی حد تک فلمی دنیا میں آنے کا شوق تھا پھر اس نے خود فلم ساز بننے کا بیڑا اٹھایا اور مونا لیزا پکچرز کے نام سے اپنا ذاتی پروڈکشن ادارہ بنایا اور سنگتراش کے نام سے فلم بنانے کا اعلان کردیا۔

یہ اپنی فلم کا خود مصنف تھا اور خود ہی ہیرو، کافی دنوں تک اسے کوئی ہیروئن نہ مل سکی، فلاپ ہیرو کے ساتھ کام کرنے کے لیے کوئی اداکارہ راضی نہ ہوئی تو پھر اس نے کراچی اسٹیج کی ایک اداکارہ شائستہ قیصر کو کسی طرح اپنی فلم کے لیے ہیروئن بنانے پر راضی کرلیا، فلم کی شوٹنگ کا آغاز کردیا گیا۔

فلم کی ہدایت کاری کے فرائض طاہر نے اپنے ایک دوست حسن یوسف کے سپرد کردیے تھے۔ کچھ شوٹنگ آؤٹ ڈور میں کی اور کچھ شوٹنگ کا انتظام دوست احباب نے بنگلوں میں کرنے کا پروگرام طے کرلیاگیا پھر فلم کی شوٹنگ دوست احباب کے بنگلوں میں شروع کردی گئی۔ آج جس طرح ٹیلی وژن کے بیشتر ڈراموں کی شوٹنگیں بڑے بڑے سجے ہوئے گھروں میں کی جاتی ہیں۔

اس کا آغاز کراچی میں اداکار و فلم ساز طاہر نے اپنی فلم سنگتراش سے کیا تھا، سنگتراش مشکل سے ابھی ایک چوتھائی فلم بنی تھی کہ طاہر کے گھر والوں نے طاہر کے دیوانے پن کا ساتھ دینے سے انکار کردیا اور اس کی مالی مدد کرنے سے بھی انکار کردیا تھا۔

اب یہ مرحلہ اس کے لیے بڑا جان لیوا تھا مگر اس کا جنون اور دیوانہ پن بجائے کم ہونے کے بڑھتا چلا گیا تھا۔ طاہر کی زندگی کا سب سے بڑا خواب اس کی فلم سنگتراش تھی، مگر سرمایہ اس کے پاس نہیں تھا، طاہر نے پھر دوستوں سے منت سماجت کر کے کچھ رقم جمع کی اور کچھ اپنے گھر کی چیزیں بیچ کر تھوڑی بہت رقم جمع کی اور سنگتراش کی شوٹنگ کا دوبارہ سے آغاز کردیا گیا۔

(جاری ہے)
Load Next Story