پاک ایران تعلقات اور دوطرفہ تجارت

دو طرفہ تجارت کے لیے پانچ ارب ڈالر کا ہدف مقرر کرتے ہوئے پانچ سالہ تجارتی تعاون کا منصوبہ تیار کر لیا

دو طرفہ تجارت کے لیے پانچ ارب ڈالر کا ہدف مقرر کرتے ہوئے پانچ سالہ تجارتی تعاون کا منصوبہ تیار کر لیا۔ فوٹو: فائل

پاکستان اور ایران نے دو طرفہ تجارت کے لیے پانچ ارب ڈالر کا ہدف مقرر کرتے ہوئے پانچ سالہ تجارتی تعاون کا منصوبہ تیار کر لیا ہے۔

اسلام آباد میں وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنے ایرانی ہم منصب حسین امیر عبد اللہیان کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پانچ سالہ تجارتی تعاون کے منصوبے کا مقصد دونوں ممالک کے درمیان دوطرفہ تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، آزادانہ تجارت کے معاہدے کو حتمی شکل دینا اور نجی شعبوں کے درمیان ادارہ جاتی روابط کا قیام ہے۔

معاہدے سے باہمی تجارت پانچ ارب ڈالرز تک بڑھے گی۔ ایران کے وزیر خارجہ حسین عبداللہیان نے طویل عرصہ سے تعطل کی شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبے کی تکمیل پر زور دیا۔

پاکستان اور ایران میں زراعت، تجارت، سرمایہ کاری اور آئی ٹی جیسے شعبوں میں تعاون کے وسیع مواقع ہیں، خوش آیند امر یہ ہے کہ دونوں ممالک باہمی تعاون کے نہ صرف خواہش مند ہیں، بلکہ ایک معاہدے کے تحت باہمی تجارت کو پانچ ارب ڈالرز تک لانے کا ہدف طے کر رہے ہیں۔

پاکستان کم و بیش تین دہائیوں سے توانائی کے جس بحران کا شکار ہے اور آج نوبت شعبہ بجلی کے انتہائی سطح کے گردشی قرضوں اور پھر سے بڑھتی ہوئی لوڈ شیڈنگ اور تیل و گیس کی کمیابی تک جا پہنچی ہے جب کہ موجودہ حالات میں معیشت سمندر پار سے یہ ضروریات انتہائی مہنگے داموں پوری کرنے کی متحمل نہیں ہوسکتی۔

ایران نے ایک بار پھر ان کی فراہمی اور اس کے بدلے میں پاکستان کی زرعی و صنعتی پیداوار کی درآمد بڑھانے میں دلچسپی ظاہر کی ہے، جہاں سستی بجلی کا حصول اہم ترین قدم ہے، وہیں کراسنگ پوائنٹس پر مشترکہ مارکیٹوں کا قیام اربوں روپے کی اسمگلنگ کی روک تھام میں مدد دے گا۔

ایران، پاکستان کے لیے سستے تیل و گیس اور بجلی کی فراہمی میں انتہائی اہمیت کا حامل ملک ہے اور پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت نے وہاں سے گیس پائپ لائن لانے کا معاہدہ بھی کیا تھا، اسی طرح وہ پاکستان سے باسمتی چاول، آم اور کینو کا ایک بڑا خریدار ہے جب کہ دیگر برآمدات میں کپڑا اور سیمنٹ قابل ذکر ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی وفود کا بلا تعطل تبادلہ ہوتا آیا ہے اور حکومتی قیادتیں بارہا ایک دوسرے سے ملاقات اور معاہدے کرتی آئی ہیں۔ تاہم خطے کی صورتحال کے تناظر میں بعض سیاسی مصلحتیں آڑے آئیں، جس کا اثر باہمی تجارت پر پڑا، یہی وجہ ہے کہ آج تجارتی حجم اپنی استعداد سے بہت کم ہے۔

پاکستان کو سب سے پہلے تسلیم کرنے والا ملک ایران ہے۔ قیام ِ پاکستان کے وقت ملک کا پہلا بجٹ شاہ ایران کی مالی مدد سے ہی پیش ہوسکا۔ اِس کے باوجود حکومتی اور عوامی سطح پر تعلقات کا جائزہ لیں تو قابلِ رشک صورتحال دکھائی نہیں دیتی۔

ایران کا طویل عرصہ بھارت پر انحصار کرنا، یعنی بھارت کی طرف جھکاؤ سے قریبی تعاون نہ بڑھ سکا۔ خطے میں کبھی ایران بھی امریکا کا قریبی اتحادی رہا لیکن شاہ ایران رضا شاہ پہلوی کی معزولی کے بعد ایران روس کا طرفدار ہوگیا مگر پاکستان نے روس کے بجائے امریکا اور سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائے رکھے۔

دو حریف قوتوں پر انحصار بھی دوطرفہ تعاون میں کمی کا باعث رہا لیکن اب نہ صرف پاک روس تعلقات بہتر ہورہے ہیں بلکہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بھی بحال ہوچکے ہیں، اسی بنا پر توقع ہے کہ اب پاک ایران تعلقات بہتر ہوں گے اور قریبی تعاون بھی فروغ پائے گا۔

18مئی کو وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے سو میگاواٹ گبد، پولان بجلی ٹرانسمیشن لائن کے ساتھ ایک سرحدی مارکیٹ کا افتتاح کیا تھا، اِتنا ضرور کہا جا سکتا ہے کہ دونوں ممالک نے چاہے تاخیر سے سہی قریبی تعاون بڑھانے کے لیے عملی اقدامات کا آغازکر دیا ہے۔

ایسے منصوبوں سے روزگار کے نئے مواقع پیدا ہونگے، اِس میں شائبہ نہیں کہ دونوں ممالک میں تجارتی حجم استعداد کے مطابق کم ہے، اگر تجارتی حجم استعداد کے مطابق بنانا ہے تو دونوں ممالک کو حائل رکاوٹیں ختم کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔

دراصل جب تعاون کی طرف قدم بڑھایا جاتا ہے تو کوئی نہ کوئی ایسی انہونی ہو جاتی ہے جس سے تعاون میں اضافہ کے بجائے ایک قسم کی تلخی پیدا ہو جاتی ہے۔


سرحدی جھڑپوں میں پاک ایران سرحدی محافظ اکثر نشانہ بنتے رہتے ہیں، جس سے اِس قیاس کو تقویت ملتی ہے کہ دونوں ممالک کے بہتر ہوتے تعلقات سے کچھ طاقتیں خوش نہیں اسی لیے سرحدی محافظوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے بہتر ہے کہ دونوں ممالک نہ صرف سازشوں سے محتاط رہیں بلکہ التوا میں پڑے معاہدوں پر پیش رفت کریں۔

دوسری جانب بلوچستان سے ایرانی پٹرول اور ڈیزل کی اسمگلنگ عروج پر ہے، اسمگل شدہ تیل کی حکام کی ملی بھگت سے سندھ اور پنجاب تک ترسیل کی جا رہی ہے، ایرانی تیل سے لدی گاڑیوں اور مسافر بسوں کے باعث آئے روز حادثات بھی پیش آتے ہیں۔

اس اسمگلنگ کے باعث پاکستان میں ڈیزل کی فروخت میں 43 فیصد کمی دیکھی گئی ہے۔ ٹرک انڈسٹری سے وابستہ بہت سے لوگوں کا رجحان ایرانی ڈیزل کی طرف ہوگیا ہے، جو کراچی کے مضافات میں آسانی سے دستیاب ہے۔ اندرون بلوچستان دو سو روپے اور کوئٹہ میں دو سو بیس روپے میں اسمگل شدہ پٹرول سرعام فروخت ہورہا ہے۔

پنجگور اور دیگر سرحدی علاقوں سے سوراب، بیلہ میں قائم بڑے نجی ڈپو ایرانی تیل کے بڑے مراکز ہیں، جہاں سے مسافر بسوں اور گاڑیوں کی خفیہ ٹنکیوں میں بھر کر ایرانی پٹرول اور ڈیزل ملک بھر میں اسمگل کیا جا رہا ہے۔

ڈیزل کی اسمگلنگ قانونی کاروباری سرگرمیوں کو نقصان پہنچانے، ٹیکسوں سے بچنے، منظم جرائم کو ہوا دینے اور سرحدی کنٹرول کے مؤثر اقدامات کے فقدان کے باعث جاری ہے۔ اسی طرح ہزاروں ٹن اسمگل شدہ تیل اور گھی سے مقامی مینوفیکچررز تباہی کا شکار ہوگئے ہیں۔

اسمگل شدہ تیل سے نہ صرف حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہو رہا ہے بلکہ مقامی صنعت بھی کم قیمت اور بلیک میں فروخت ہونے کے باعث بند ہوتی جارہی ہے۔ اس کے علاوہ کوئٹہ سمیت بلوچستان کے بیشتر علاقوں میں اسمگل شدہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

سرحد پار سے اسمگل ہو کر لائی جانے والی گاڑیوں میں تقریباً ہر ماڈل کی گاڑی موجود ہے۔ عام گاڑی 3 لاکھ روپے سے لے کر 15 لاکھ روپے کی قیمت پر بآسانی مل جاتی ہے۔ یہ گاڑیاں افغانستان سے براستہ قلعہ عبد اللہ کے پہاڑی علاقوں سے لائی جاتی ہیں۔

اس کے علاوہ نان کسٹم پیڈ گاڑیاں بڑی تعداد میں روزانہ کی بنیاد پر ملک کے دیگر حصوں تک گارنٹی کے ساتھ پہنچانے کا کاروبار بھی عروج پر ہے۔ کروڑوں کی ٹیکس چوری پر ملکی اداروں کے افسران کی مجرمانہ خاموشی سوالیہ نشان ہے، جس سے ملکی معیشت کو ناقابل تلافی نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔

معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں اسمگلنگ کی روک تھام کے خاطر خواہ اقدامات نہ کیے جانے کے باعث قومی خزانے کو ٹیکس کی مَد میں سالانہ اربوں روپے کا نقصان پہنچ رہا ہے۔ صوبے میں محکمہ ایف بی آر، کسٹم اور دیگر متعلقہ محکموں کا چیک اینڈ بیلنس کا کوئی سسٹم نظر نہیں آتا۔

پیپلز پارٹی نے اپنے گزشتہ دور میں ایران سے گیس درآمد کرنے کے لیے جو پائپ لائن بچھانے کا معاہدہ کیا تھا، ایران اپنے حصے کا کام مکمل کر چکا لیکن پاکستان ابھی تک ایسا نہیں کر سکا حالانکہ ایسا کرنے سے توانائی کے مسائل کم ہو سکتے ہیں، نیز دونوں ملک کوشش کریں کہ ڈالر کے بجائے مقامی کرنسی میں تجارت ہو تاکہ زرِ مبادلہ پر دباؤ میں کمی آئے۔

سرحدی جرائم بھی خوشگوار تعلقات کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ ایسے واقعات کا تقاضا ہے کہ دونوں ملک مشترکہ سرحد کی سیکیورٹی بہتر بنانے کے لیے مل کر کام کریں اگر امن لانا اور تشدد ختم کرنا ہے تو دونوں ملکوں کو بارڈر میکانزم پر سختی سے عمل کرنا ہوگا۔

سرحدوں پر نقل و حرکت کے لیے بنائے مقامات پر مشترکہ مارکیٹیں بنانے سے نہ صرف غیر قانونی نقل و حمل ختم کی جا سکتی ہے بلکہ اربوں کا ریونیو بھی حاصل کیا جا سکتا ہے، مزید ایسی چھ بارڈر مارکیٹیں بنانے کا عزم بھی ظاہر کیا گیا ہے۔

یہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ سرحدی تجارت بہتر اور مربوط بنانے سے نہ صرف اسمگلنگ کی روک تھام ہوگی بلکہ سرحد کے آر پار رہنے والے لوگوں کے لیے روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے، اب دیکھنا یہ ہے کہ یہ عزم بھی گیس پائپ لائن کی طرح تشنہ تکمیل رہتا ہے یا عملی طور پر بھی اِس طرف کچھ پیش رفت ہوتی ہے۔

دونوں ممالک کے درمیان آزاد تجارتی معاہدے کو حتمی شکل دینے سے بھوک و افلاس اور مہنگائی جیسے مسائل میں کمی ممکن ہے، نہ صرف مہنگائی میں کمی آئے گی بلکہ عوام کا معیار زندگی بہتر ہوگا۔

اگر تعاون کی رفتار بہتر رہی تو ایسی کوششیں خطے کی ترقی اور خوشحالی میں سنگِ میل ثابت ہو سکتی ہیں جس سے تجارت کو فروغ ہوگا اور دونوں ممالک کے معاشی مسائل میں کمی آئے گی اور دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔
Load Next Story