وقار یونس کی تقرری درست لیکن طریقہ کار غلط ہے جاوید میانداد
نجم سیٹھی کو4ماہ کے لئے پی سی بی کی چیئرمین شپ ملی،وہ 2 برس کے لئے کوچ کی نامزدگی کیسے کر سکتے ہیں،جاوید میانداد
سابق ٹیسٹ کپتان اور پی سی بی کے سابق ڈائریکٹر جنرل جاوید میانداد نے وقار یونس کی قومی کرکٹ ٹیم کے ہیڈ کوچ کی حیثیت سے تقرری کو درست مگر طریقہ کار کو غلط قرار دیا ہے۔
جاوید میانداد نے کہا کہ بورڈ کی جانب نے وقار یونس کو ہیڈ کوچ مقرر کرنا درست مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست نہیں، انھوں نے کہا کہ نجم سیٹھی کو4ماہ کے لیے پی سی بی کی چیئرمین شپ ملی،وہ 2برس کے لیے کوچ کی نامزدگی کیسے کر سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ کوچ کے عہدے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے،بعد ازاں اپلائی کرنے والے امیدواروں کو نہ تو شارٹ لسٹ کیا گیا اور نہ ہی کسی امیدوار کو انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا، بلکہ تقرری کے لیے درست راستہ اپنانے کی بجائے غلط طریقہ سے ہیڈ کو چ کی تقرری عمل میں لائی گئی، انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے پر نجم سیٹھی اور کوچ کمیٹی کو عدالت میں کھڑا کرنا چاہیے۔
دوسری جانب شعیب اختر نے کہاکہ وقار یونس چیف کوچ بن کرآ گئے ہیں ہم انھیں مکمل سپورٹ کریں گے، میری چیئرمین پی سی بی سے بھی درخواست ہے کہ مصباح الحق ، معین خان یا وقار یونس جو بھی ہوں، انھیں کم از کم دو سال کا موقع ضرور دیا جانا چاہیے، شعیب اختر نے کہا کہ آج کرکٹ سے زیادہ کرکٹ بورڈ کو بہترکرنے کی ضرورت ہے، سابق کپتان محمد یوسف کا کہنا ہے کہ وقار دنیائے کرکٹ کے عظیم بولر رہے ہیں، ہم کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے، انھیں ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنا ہوگا۔ سابق کپتان نے واضح کیا کہ جب وہ ارباب اختیارکو خوش کریں گے تو غلطیاں بھی ہوں گی، انھوں نے کہا کہ وقار جیسے بڑے کھلاڑی کو بورڈ کے بڑوں کو خوش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، انھیں صرف وہ کرنا چاہیے جس سے ملکی کرکٹ کی بہتری ہو۔محمد یوسف نے کہا کہ موجودہ چیئرمین کو کرکٹ بورڈ کا پتہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے وہ اپنے عہدے کے اہل ہی نہیں ہیں، عوام سے درخواست ہے کہ جب ٹیم ہارتی ہے تو ملبہ کھلاڑیوں، ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن ان کی تعیناتیاں کرنے والے بورڈ کے بڑوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔میری عوام سے درخواست ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو پکڑنے کی بجائے چیئرمین پی سی بی کا احتساب کریں، سابق بیٹسمین نے کہاکہ گراؤنڈ میں کوچ نہیں کپتان ٹیم کو لڑاتا ہے، میری رائے میں شاہد آفریدی کپتانی کے لیے اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ماضی کی طرح میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ آفریدی اچھے بیٹسمین نہیں لیکن ان کی بولنگ میں جان ہے۔
وہ پلیئرز سے میدان میں بہتر کام لے سکتے ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سابق لیگ اسپنر عبدالقادر نے کہا کہ ماضی میں خان محمد، وسیم راجہ، مشتاق محمد اور مدثر نذر انگلینڈ میں رہتے رہے لیکن پی سی بی کی ان پر نوازشوں کا سلسلہ جاری رہا، سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس نہ جانے آخر کون سی دور بین ہے کہ انھیں بیرون ملک بیٹھے کوچز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ملک میں موجود ٹیسٹ کرکٹرز نظر ہی نہیں آتے، عبدالقادر نے کہاکہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آخرگوری چمڑی سے اتنے متاثرکیوں ہیں، رچرڈ پائی بس ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیلا اس کو آپ نے کوچ بنادیا، اعجاز احمد کی کوچنگ میں قومی ٹیم کی فیلڈنگ کے مردہ شعبے میں جان پڑ گئی تھی۔
ان کو ہٹاکرجولین فاؤنٹین کو فیلڈنگ کوچ کی ذمہ داری دی گئی، انتخاب عالم کی منیجر شپ و کوچنگ میں پاکستانی ٹیم نے دونوں بار عالمی کپ جیتے لیکن بورڈ نے ان کی خدمات کو سراہنے کی بجائے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں باب وولمرکا نام لکھوادیا، سابق لیگ اسپنر نے کہا کہ میں گزشتہ 20، 25 برس سے کہتا آ رہا ہوں کہ کوچنگ کسی ٹیم کو بڑاٹائٹل نہیں دلوا سکتی، اگرکامیابی کا راز بڑے کوچ میں ہوتا توآج بنگلہ دیش، آئرلینڈ یا زمبابوے بھی کرکٹ کے عالمی چیمپئن ہوتے، میری رائے میں پاکستانی ٹیم کو کوچنگ کی نہیں بلکہ ایڈوائزر کی ضرورت ہے۔ایک سوال پرعبدالقادر نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں موجود بعض عہدیدار اپنے محکموں سے بھی تنخواہ لے رہے ہیں اور پی سی بی سے بھی ذمے داریوں کی آڑ میں دوسے تین گنا بھاری معاوضہ پارہے ہیں۔
جاوید میانداد نے کہا کہ بورڈ کی جانب نے وقار یونس کو ہیڈ کوچ مقرر کرنا درست مگر جو طریقہ کار اختیار کیا گیا وہ درست نہیں، انھوں نے کہا کہ نجم سیٹھی کو4ماہ کے لیے پی سی بی کی چیئرمین شپ ملی،وہ 2برس کے لیے کوچ کی نامزدگی کیسے کر سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ کوچ کے عہدے کے لیے اخبارات میں اشتہارات دیے گئے تھے،بعد ازاں اپلائی کرنے والے امیدواروں کو نہ تو شارٹ لسٹ کیا گیا اور نہ ہی کسی امیدوار کو انٹرویو کے لیے طلب کیا گیا، بلکہ تقرری کے لیے درست راستہ اپنانے کی بجائے غلط طریقہ سے ہیڈ کو چ کی تقرری عمل میں لائی گئی، انھوں نے کہا کہ ایسا کرنے پر نجم سیٹھی اور کوچ کمیٹی کو عدالت میں کھڑا کرنا چاہیے۔
دوسری جانب شعیب اختر نے کہاکہ وقار یونس چیف کوچ بن کرآ گئے ہیں ہم انھیں مکمل سپورٹ کریں گے، میری چیئرمین پی سی بی سے بھی درخواست ہے کہ مصباح الحق ، معین خان یا وقار یونس جو بھی ہوں، انھیں کم از کم دو سال کا موقع ضرور دیا جانا چاہیے، شعیب اختر نے کہا کہ آج کرکٹ سے زیادہ کرکٹ بورڈ کو بہترکرنے کی ضرورت ہے، سابق کپتان محمد یوسف کا کہنا ہے کہ وقار دنیائے کرکٹ کے عظیم بولر رہے ہیں، ہم کو ان سے بہت کچھ سیکھنے کو مل سکتا ہے، انھیں ماضی کی غلطیاں دہرانے سے بچنا ہوگا۔ سابق کپتان نے واضح کیا کہ جب وہ ارباب اختیارکو خوش کریں گے تو غلطیاں بھی ہوں گی، انھوں نے کہا کہ وقار جیسے بڑے کھلاڑی کو بورڈ کے بڑوں کو خوش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، انھیں صرف وہ کرنا چاہیے جس سے ملکی کرکٹ کی بہتری ہو۔محمد یوسف نے کہا کہ موجودہ چیئرمین کو کرکٹ بورڈ کا پتہ ہی نہیں ہے۔
اس لیے وہ اپنے عہدے کے اہل ہی نہیں ہیں، عوام سے درخواست ہے کہ جب ٹیم ہارتی ہے تو ملبہ کھلاڑیوں، ٹیم مینجمنٹ اور سلیکٹرز پر ڈال دیا جاتا ہے لیکن ان کی تعیناتیاں کرنے والے بورڈ کے بڑوں کو کوئی نہیں پوچھتا۔میری عوام سے درخواست ہے کہ وہ کھلاڑیوں کو پکڑنے کی بجائے چیئرمین پی سی بی کا احتساب کریں، سابق بیٹسمین نے کہاکہ گراؤنڈ میں کوچ نہیں کپتان ٹیم کو لڑاتا ہے، میری رائے میں شاہد آفریدی کپتانی کے لیے اچھا انتخاب ہو سکتے ہیں، انھوں نے کہا کہ ماضی کی طرح میں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ آفریدی اچھے بیٹسمین نہیں لیکن ان کی بولنگ میں جان ہے۔
وہ پلیئرز سے میدان میں بہتر کام لے سکتے ہیں، ان سے فائدہ اٹھانا چاہیے۔ سابق لیگ اسپنر عبدالقادر نے کہا کہ ماضی میں خان محمد، وسیم راجہ، مشتاق محمد اور مدثر نذر انگلینڈ میں رہتے رہے لیکن پی سی بی کی ان پر نوازشوں کا سلسلہ جاری رہا، سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے پاس نہ جانے آخر کون سی دور بین ہے کہ انھیں بیرون ملک بیٹھے کوچز ہی نظر آتے ہیں جبکہ ملک میں موجود ٹیسٹ کرکٹرز نظر ہی نہیں آتے، عبدالقادر نے کہاکہ مجھے سمجھ میں نہیں آتا کہ ہم آخرگوری چمڑی سے اتنے متاثرکیوں ہیں، رچرڈ پائی بس ایک ٹیسٹ بھی نہیں کھیلا اس کو آپ نے کوچ بنادیا، اعجاز احمد کی کوچنگ میں قومی ٹیم کی فیلڈنگ کے مردہ شعبے میں جان پڑ گئی تھی۔
ان کو ہٹاکرجولین فاؤنٹین کو فیلڈنگ کوچ کی ذمہ داری دی گئی، انتخاب عالم کی منیجر شپ و کوچنگ میں پاکستانی ٹیم نے دونوں بار عالمی کپ جیتے لیکن بورڈ نے ان کی خدمات کو سراہنے کی بجائے نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں باب وولمرکا نام لکھوادیا، سابق لیگ اسپنر نے کہا کہ میں گزشتہ 20، 25 برس سے کہتا آ رہا ہوں کہ کوچنگ کسی ٹیم کو بڑاٹائٹل نہیں دلوا سکتی، اگرکامیابی کا راز بڑے کوچ میں ہوتا توآج بنگلہ دیش، آئرلینڈ یا زمبابوے بھی کرکٹ کے عالمی چیمپئن ہوتے، میری رائے میں پاکستانی ٹیم کو کوچنگ کی نہیں بلکہ ایڈوائزر کی ضرورت ہے۔ایک سوال پرعبدالقادر نے کہا کہ کرکٹ بورڈ میں موجود بعض عہدیدار اپنے محکموں سے بھی تنخواہ لے رہے ہیں اور پی سی بی سے بھی ذمے داریوں کی آڑ میں دوسے تین گنا بھاری معاوضہ پارہے ہیں۔