کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے
شاید آگے اس کی نظر کرم کا احسان چکانے کے لیے بھی کچھ سوچیں اس لیے کہ جو اپنے نہ کر سکے وہ اس نے کر دکھایا ہے
''کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے'' والی بات اب یہاں حقیقت بن چکی ہے کہ کورنگی، لانڈھی کے عوام کے برسوں پرانے مطالبے کو مان لیا گیا ہے اور یہی نہیں بلکہ مطالبے پر عمل درآمد بھی شروع کردیا گیا ہے۔
کورنگی کی آبادی اب ساٹھ سال پرانی ہو چکی ہے، یہ علاقہ 1959 میں آباد ہوا تھا۔ ایوب خان نے بے گھر مہاجروں کے لیے یہاں مکان بنا کر آسان قسطوں میں الاٹ کیے تھے۔ آنے جانے کے لیے بسیں، رکشے، ٹیکسیاں وغیرہ موجود تھیں مگر راستے میں حائل ملیر ندی برسات کے دنوں میں عذاب بنتی رہی۔
اس کے علاوہ عام دنوں میں رات کے وقت ندی کے راستے سے گزرتے ہوئے نہ صرف لٹ جانے کا خوف ہوتا تھا بلکہ جان جانے کا بھی خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے اب ندی کے راستے سے گزرتے ہوئے لٹ جانے کا خطرہ اگرچہ کم ہوگیا ہے مگر برسات میں ندی کے تیز بہاؤ سے قیوم آباد تک پہنچنے کا راستہ اب بھی بند ہو جاتا ہے۔ راستے میں حائل ملیر ندی کا پاٹ اتنا چوڑا ہے کہ یہ ایک میل سے کم لمبا نہیں ہے۔
برسات کے دنوں میں اس میں پانی کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ پانی ندی میں بنی سڑک کے اوپر سے بہنے لگتا ہے، اس طرح اس پر سے گزرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کئی موٹر سائیکل سوار نوجوان ناکام مہم جوئی کرتے ہوئے راستہ پار کرنے کے بجائے پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ چکے ہیں جن کی لاشیں پانی اترنے کے بعد ملی ہیں۔ ہر برسات میں متعدد اموات ندی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے ہوتی رہتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہر برسات میں اس ندی کے راستے کو عام ٹریفک کے لیے بند کردیا جاتا ہے جس سے کورنگی اور لانڈھی کے علاقے شہر سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
چنانچہ اس راستے کے بند ہونے کی وجہ سے صدر کی طرف آنے کے لیے قائد آباد والا طویل راستہ یا پھر کورنگی پانچ نمبر سے ڈرگ روڈ کی جانب جانے والے راستے کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جام صادق پُل اتنا جام ہوتا ہے کہ اس پر سے گزرنا محال ہوتا ہے۔ لانڈھی اور کورنگی کے علاقے گنجان آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس پچاس لاکھ افراد یہاں آباد ہیں جو زیادہ تر نوکری پیشہ ہیں چنانچہ انھیں شہر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔
یہاں مہاجروں کی اکثریت ہے جو ہمیشہ ہی متحدہ قومی موومنٹ کے دیوانے رہے ہیں۔ متحدہ نے جتنے بھی الیکشن لڑے ہیں خواہ قومی، صوبائی یا بلدیاتی انتخابات ہوں تمام میں یہاں کے عوام نے اسے بھاری اکثریت سے جتوایا ہے۔ پارٹی کے برے دنوں میں بھی یہاں کے عوام نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اپنا خون تک بہایا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس پارٹی کے حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور باہر ہونے پر عوام کو کبھی سکون نہیں ملا ہے۔ ہر وقت ہی مشکل حالات درپیش رہے ہیں۔ کبھی باہمی جھگڑے تو کبھی زبان کے مسئلے پر جھگڑے ہوتے رہے یہاں کے عوام کو شکایت یہ ہے کہ انھوں نے پارٹی کے لیے تمام مصائب جھیلے مگر ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
اسپتال، اسکول، سڑکوں سے لے کر کورنگی کراسنگ اور قیوم آباد کے درمیان ملیر ندی پر پُل کی تعمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، البتہ اس کے بدلے پورے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ یہ سلسلہ مزید جاری رہتا کہ 21 اگست 2016 کو ایک ایسی صبح نمودار ہوئی کہ جس نے کراچی والوں کے تمام دکھ دورکردیے۔ دکھ سے مراد ہر وقت کے ہنگاموں، فسادات، قتل و غارت گری اور ہڑتالوں سے نجات مل گئی۔ اب سات سال ہو چکے ہیں کراچی میں کوئی ہڑتال نہیں ہوئی ہے۔
ہاں اگر اس دوران کسی نے ہڑتال کی کال دی بھی ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے مگر اوپر مذکورہ تاریخ سے قبل کسی ہڑتال کی کال پر لبیک نہ کہنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اگر کوئی ہٹ دھرمی کرتا تو اس کا جو حشر ہوتا وہ ہم سب نے دیکھا ہی ہے۔ کتنے دکانداروں کو گولی کا نشانہ بنا دیا گیا کہ وہ ہڑتال کی کال کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دکان کھولے بیٹھے تھے۔ ہڑتالوں میں کتنے مرتے یہ تو ہڑتالوں تک محدود ہوتے مگر عام دنوں میں کتنے انسانوں کا شکارکیا جاتا یہ ایک الگ کہانی تھی۔ لوگ تو برابر مرتے تھے مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ انھیں کس نے مارا اورکیوں مارا؟
اس خون کی ہولی کو روکنے میں مصطفیٰ کمال کے کردارکوکبھی بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اس کے بعد ہی پھر پرانا خون آشام دور ختم ہوا اور شہر میں امن کا بول بالا ہونے لگا مگر اس امن کے قیام میں خود متحدہ قومی موومنٹ کی بھی قربانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ایک بڑی قربانی دے کر اپنا راستہ اپنے قائد سے جدا کر لیا۔
کاش کہ کراچی کا پچھلا دور امن و سکون کا پرتو ہوتا تو کراچی کے عوام کے مسائل بھی زیادہ گمبھیر نہ ہو پاتے اور پانی و نکاسی آب کے ساتھ ساتھ ہی سڑکوں اور ضروری پُلوں کی تعمیر کے کام بھی وقت پر ہی مکمل کر لیے جاتے۔ کراچی جو 1986 سے قبل دبئی سے بھی زیادہ ترقی کر رہا تھا آج اس کی ترقی نہ جانے کہاں پہنچتی اور عوام کو روزگار کے سلسلے میں اپنے ہی شہر میں سب کچھ مل جاتا۔ اس وقت ہمارے نوجوانوں کو نوکریوں کے لیے جو دیارِ غیر جانا پڑ رہا ہے اور بعض دفعہ نوکریوں کے بجائے سمندر انھیں نگل رہا ہے ایسا نہ ہو پاتا۔
اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ سب بھارتی ''را'' کی سازش تھی کہ اس شہر کو کھنڈر بنا دیا جائے کیونکہ یہی شہر پورے ملک کو چلا رہا ہے۔ یقینا ''را'' کی سازش کامیاب رہی مگر کاش کہ ہمارے اپنے اس کا آلہ کار نہ بنتے؟ بہرحال برا دور اب ختم ہو چکا ہے اب نیا دور ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے کراچی کے عوام نے بہت کچھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ سیاست کرے مگر عوام کی مشکلات پر بھی نظر رکھے۔ اس وقت موضوع بحث کورنگی اور لانڈھی کے عوام کے لیے کراسنگ اور قیوم آباد کے درمیان ملیر ندی کا پُل ہے۔
گزشتہ سال شہر میں بہت بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے پورے شہر کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔ کورنگی، لانڈھی والوں کے لیے شہر تک پہنچنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ان کے راستے میں حائل ملیر ندی اپھان پر تھی ایسے میں ندی کے راستے کو عبور کرتے ہوئے کئی نوجوان ہلاک ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر یہاں پُل بنانے کا زوردار مطالبہ کیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کو شاید یہاں کے عوام پر ترس آ گیا اور اس نے اعلان کیا کہ اگلے سال تک اس ندی پر ضرور پُل کی تعمیرکا کام شروع کردیا جائے گا اور اب اس پر واقعی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے تو اس علاقے کے لوگ اس کے شکر گزار ہیں اور شاید آگے اس کی نظر کرم کا احسان چکانے کے لیے بھی کچھ سوچیں اس لیے کہ جو اپنے نہ کر سکے وہ اس نے کر دکھایا ہے۔
کورنگی کی آبادی اب ساٹھ سال پرانی ہو چکی ہے، یہ علاقہ 1959 میں آباد ہوا تھا۔ ایوب خان نے بے گھر مہاجروں کے لیے یہاں مکان بنا کر آسان قسطوں میں الاٹ کیے تھے۔ آنے جانے کے لیے بسیں، رکشے، ٹیکسیاں وغیرہ موجود تھیں مگر راستے میں حائل ملیر ندی برسات کے دنوں میں عذاب بنتی رہی۔
اس کے علاوہ عام دنوں میں رات کے وقت ندی کے راستے سے گزرتے ہوئے نہ صرف لٹ جانے کا خوف ہوتا تھا بلکہ جان جانے کا بھی خطرہ لاحق ہوتا تھا۔ آبادی کے بڑھنے کی وجہ سے اب ندی کے راستے سے گزرتے ہوئے لٹ جانے کا خطرہ اگرچہ کم ہوگیا ہے مگر برسات میں ندی کے تیز بہاؤ سے قیوم آباد تک پہنچنے کا راستہ اب بھی بند ہو جاتا ہے۔ راستے میں حائل ملیر ندی کا پاٹ اتنا چوڑا ہے کہ یہ ایک میل سے کم لمبا نہیں ہے۔
برسات کے دنوں میں اس میں پانی کی اتنی بہتات ہوتی ہے کہ پانی ندی میں بنی سڑک کے اوپر سے بہنے لگتا ہے، اس طرح اس پر سے گزرنا موت کو دعوت دینے کے مترادف ہوتا ہے۔ کئی موٹر سائیکل سوار نوجوان ناکام مہم جوئی کرتے ہوئے راستہ پار کرنے کے بجائے پانی کے تیز بہاؤ میں بہہ چکے ہیں جن کی لاشیں پانی اترنے کے بعد ملی ہیں۔ ہر برسات میں متعدد اموات ندی کے تیز بہاؤ کی وجہ سے ہوتی رہتی ہیں۔ اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے ہر برسات میں اس ندی کے راستے کو عام ٹریفک کے لیے بند کردیا جاتا ہے جس سے کورنگی اور لانڈھی کے علاقے شہر سے کٹ کر رہ جاتے ہیں۔
چنانچہ اس راستے کے بند ہونے کی وجہ سے صدر کی طرف آنے کے لیے قائد آباد والا طویل راستہ یا پھر کورنگی پانچ نمبر سے ڈرگ روڈ کی جانب جانے والے راستے کو استعمال کرنا پڑتا ہے۔ جام صادق پُل اتنا جام ہوتا ہے کہ اس پر سے گزرنا محال ہوتا ہے۔ لانڈھی اور کورنگی کے علاقے گنجان آباد ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق چالیس پچاس لاکھ افراد یہاں آباد ہیں جو زیادہ تر نوکری پیشہ ہیں چنانچہ انھیں شہر پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔
یہاں مہاجروں کی اکثریت ہے جو ہمیشہ ہی متحدہ قومی موومنٹ کے دیوانے رہے ہیں۔ متحدہ نے جتنے بھی الیکشن لڑے ہیں خواہ قومی، صوبائی یا بلدیاتی انتخابات ہوں تمام میں یہاں کے عوام نے اسے بھاری اکثریت سے جتوایا ہے۔ پارٹی کے برے دنوں میں بھی یہاں کے عوام نے اس کا ساتھ نہیں چھوڑا اور اپنا خون تک بہایا ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ اس پارٹی کے حکومت میں رہتے ہوئے بھی اور باہر ہونے پر عوام کو کبھی سکون نہیں ملا ہے۔ ہر وقت ہی مشکل حالات درپیش رہے ہیں۔ کبھی باہمی جھگڑے تو کبھی زبان کے مسئلے پر جھگڑے ہوتے رہے یہاں کے عوام کو شکایت یہ ہے کہ انھوں نے پارٹی کے لیے تمام مصائب جھیلے مگر ان کے مسائل حل نہیں ہوئے۔
اسپتال، اسکول، سڑکوں سے لے کر کورنگی کراسنگ اور قیوم آباد کے درمیان ملیر ندی پر پُل کی تعمیر پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی، البتہ اس کے بدلے پورے شہر میں قتل و غارت گری کا بازار گرم رہا۔ یہ سلسلہ مزید جاری رہتا کہ 21 اگست 2016 کو ایک ایسی صبح نمودار ہوئی کہ جس نے کراچی والوں کے تمام دکھ دورکردیے۔ دکھ سے مراد ہر وقت کے ہنگاموں، فسادات، قتل و غارت گری اور ہڑتالوں سے نجات مل گئی۔ اب سات سال ہو چکے ہیں کراچی میں کوئی ہڑتال نہیں ہوئی ہے۔
ہاں اگر اس دوران کسی نے ہڑتال کی کال دی بھی ہے تو وہ کامیاب نہیں ہو سکی ہے مگر اوپر مذکورہ تاریخ سے قبل کسی ہڑتال کی کال پر لبیک نہ کہنے کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، اگر کوئی ہٹ دھرمی کرتا تو اس کا جو حشر ہوتا وہ ہم سب نے دیکھا ہی ہے۔ کتنے دکانداروں کو گولی کا نشانہ بنا دیا گیا کہ وہ ہڑتال کی کال کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دکان کھولے بیٹھے تھے۔ ہڑتالوں میں کتنے مرتے یہ تو ہڑتالوں تک محدود ہوتے مگر عام دنوں میں کتنے انسانوں کا شکارکیا جاتا یہ ایک الگ کہانی تھی۔ لوگ تو برابر مرتے تھے مگر یہ پتا نہیں چلتا تھا کہ انھیں کس نے مارا اورکیوں مارا؟
اس خون کی ہولی کو روکنے میں مصطفیٰ کمال کے کردارکوکبھی بھی نہیں بھلایا جاسکتا۔ اس کے بعد ہی پھر پرانا خون آشام دور ختم ہوا اور شہر میں امن کا بول بالا ہونے لگا مگر اس امن کے قیام میں خود متحدہ قومی موومنٹ کی بھی قربانی کو فراموش نہیں کیا جاسکتا کہ اس نے ایک بڑی قربانی دے کر اپنا راستہ اپنے قائد سے جدا کر لیا۔
کاش کہ کراچی کا پچھلا دور امن و سکون کا پرتو ہوتا تو کراچی کے عوام کے مسائل بھی زیادہ گمبھیر نہ ہو پاتے اور پانی و نکاسی آب کے ساتھ ساتھ ہی سڑکوں اور ضروری پُلوں کی تعمیر کے کام بھی وقت پر ہی مکمل کر لیے جاتے۔ کراچی جو 1986 سے قبل دبئی سے بھی زیادہ ترقی کر رہا تھا آج اس کی ترقی نہ جانے کہاں پہنچتی اور عوام کو روزگار کے سلسلے میں اپنے ہی شہر میں سب کچھ مل جاتا۔ اس وقت ہمارے نوجوانوں کو نوکریوں کے لیے جو دیارِ غیر جانا پڑ رہا ہے اور بعض دفعہ نوکریوں کے بجائے سمندر انھیں نگل رہا ہے ایسا نہ ہو پاتا۔
اب تو ثابت ہو چکا ہے کہ یہ سب بھارتی ''را'' کی سازش تھی کہ اس شہر کو کھنڈر بنا دیا جائے کیونکہ یہی شہر پورے ملک کو چلا رہا ہے۔ یقینا ''را'' کی سازش کامیاب رہی مگر کاش کہ ہمارے اپنے اس کا آلہ کار نہ بنتے؟ بہرحال برا دور اب ختم ہو چکا ہے اب نیا دور ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے کراچی کے عوام نے بہت کچھ امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں وہ سیاست کرے مگر عوام کی مشکلات پر بھی نظر رکھے۔ اس وقت موضوع بحث کورنگی اور لانڈھی کے عوام کے لیے کراسنگ اور قیوم آباد کے درمیان ملیر ندی کا پُل ہے۔
گزشتہ سال شہر میں بہت بارش ہوئی تھی جس کی وجہ سے پورے شہر کی حالت ابتر ہو گئی تھی۔ کورنگی، لانڈھی والوں کے لیے شہر تک پہنچنا مشکل ہو گیا تھا کیونکہ ان کے راستے میں حائل ملیر ندی اپھان پر تھی ایسے میں ندی کے راستے کو عبور کرتے ہوئے کئی نوجوان ہلاک ہوگئے تھے۔ چنانچہ ایک دفعہ پھر یہاں پُل بنانے کا زوردار مطالبہ کیا گیا تھا۔
پیپلز پارٹی کو شاید یہاں کے عوام پر ترس آ گیا اور اس نے اعلان کیا کہ اگلے سال تک اس ندی پر ضرور پُل کی تعمیرکا کام شروع کردیا جائے گا اور اب اس پر واقعی عمل درآمد شروع ہو چکا ہے تو اس علاقے کے لوگ اس کے شکر گزار ہیں اور شاید آگے اس کی نظر کرم کا احسان چکانے کے لیے بھی کچھ سوچیں اس لیے کہ جو اپنے نہ کر سکے وہ اس نے کر دکھایا ہے۔