بچاری بچھوؤں کی ماں
بچے اپنی ماں کو اندر سے کھاکر اس کے خول میں گھسے ہوئے تھے
کہتے ہیں جب بنیا یا دکاندار فارغ ہوتاہے تو اپنے ''باٹ'' تولتا رہتا ہے لیکن آج کل یہ کام بھی ویسا ہی ہوچکاہے جیسے پاکستان اورکان نمک میں ہوتا ہے کیوں کہ ہمہ اقسام کے تاجر، دکاندار اور بنئیے ، حکومت کی دیکھا دیکھی دھوپ میں بیٹھ کر برف کے باٹ استعمال کررہے ہیں ۔
بات کہاں پہنچ گئی، ہم دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آج کل فارغ ہیں، اس لیے کبھی کچھ اورکبھی کچھ سوچنے لگتے ہیں مثلاً آج کل ہم سوچ رہے ہیں کہ بیس پچیس اچھے تجربہ کار اورماہرین اعداد وشمار ''منشی'' مل گئے تو ہم ان کو بٹھا کر یہ حساب لگوانا چاہتے ہیں کہ چھہتر سال سے ہم جو سفید ہاتھی، اپنے حکمرانوں، لیڈرانوں اورافسرانوں کی شکل میں پال رہے ہیں، جو اپنی تنخواہیں اور مراعات بھی ہمیشہ خود طے کرتے ہیں ، ہم صرف تنخواہوں، مراعات اور واجبات کی بات کررہے ہیں۔
''بغل اورنیفے'' کاحساب نہیں کررہے ہیں کیونکہ وہ حساب تو شاید کوئی سپر کمپیوٹربھی نہ لگا سکے، یہ تو خیر سب کو معلوم ہے کہ ہمارا پاکستان وزیر اور پھر ان کے ساتھ وزیر مملکت اور مشیرومعاونیں وغیرہ بھی انگنت تعداد میں ہوتے ہیں ، اس حوالے سے ہم اچھے خاصے ''غالب'' واقع ہوئے ہیں ، مطلب یہ کہ مرزاغالب کاجو نظریہ ''آموں'' کے بارے میں تھا، وہی ہمارا ان سفید ہاتھیوں کے بارے میں ہے۔آموں کے لیے تو مرشد نے کہا تھا کہ میٹھے ہوں اوربہت ہوں اورسفید ہاتھیوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ نکمے ہوں اور بہت ہوں۔
دراصل امیروں ،کبیروں کی طرح ہم کسی کی حیثیت کااندازہ ان کے نوکر چاکروں سے لگاتے ہیں ، زیادہ ملازموں، نوکر چاکروں اورسفید ہاتھیوں سے ہی کسی کی شان کااندازہ ہوتاہے اورہم تو ہیں ہی۔
شان ماضی جان مال
سایہ خدائے ذوالجلال
خدا نہ کرے ، خدا نہ کرے اورآئی ایم ایف نہ چاہے اگر ہم نے سفید ہاتھی کم کردیے تو اڑوس پڑوس کے لوگ کیاکہیں گے ، سب سے بڑی پرابلم تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو علاقے ایسے ہیں جہاں وزیر ہی رہتے ہیں جہاں اتنے وزیر ہیں کہ ہم نے اسے شمالی وجنوبی دوحصوں میں تقسیم کیاہوا ہے، اب اگر کسی نے حساب لگایا کہ پورا ملک ہوکر بھی،ایک وزیرستان سے کم وزیروں پر گزارہ کررہے ہیں تو ہماری بھداڑ جائے گی کہ یہ منہ اور وزیروں کی دال۔مطلب یہ کہ مطلب کچھ بھی نہیں صرف یہ ہے کہ ذرا موٹا موٹا حساب تو لگانا چاہیے کہ یہ سفید ہاتھی اب تک کتناہڑپ کرچکے، اس کام کے جسے انھوں نے اپنے اوپر حرام کیا ہوا ہے۔
یہ قصہ تو بڑا مشہورہے کہ بھٹو صاحب ایک مرتبہ صوبے کے دورے پر آئے تو صوبائی وزراء قطار میں کھڑے ہوکر استقبالیہ ثواب حاصل کررہے تھے، بھٹو صاحب جس وزیر کے پاس پہنچتے تو وہ اپنا نام اور وزارت بتاکر ان سے ہاتھ ملاتا تھا۔ ان وزراء میں پرانے ممتازمسلم لیگی بھی تھے ، ایک بوڑھے ممتازمسلم لیگی وزیرکے پاس پہنچے تو ان پڑھ وزیر نے اپنا نام بتانے کے بعد محکمے کا نام بتانا شروع کیا، ٹیکسائز ایکسٹین ش ش... بھٹو صاحب نے مسکرا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا لگے رہو خان صاحب...
اور ہم ان ہی ''لگے ہوؤں'' کی بات کررہے ہیں کہ چھہتر برسوں میں ان سفید ہاتھیوں نے ہم سے ''لیا'' کیا اورہم کو ''دیا''کیا۔خسارے دار محکمے ، نکموں افسروں اور ملازموں کی بھرمار، ادھورے ترقیاتی منصوبے، انکم سپورٹ، کارڈ اندر کارڈ اوردنیا بھر کے راشی ومرتشی۔
دھنک شفق مہتاب ستارے بجلی نغمے پھول
اس دامن میں کیاکیا ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو
اورہمیں ان ہاتھوں کا ذرا پتہ لگاناہے کہ جن میں یہ دامن ہاتھ آتا رہا، فائدہ تو اس سے کچھ ہونے والا نہیں کیونکہ کسی حد تک تو سب کو پتہ بھی ہے کہ بچھوؤں سے اورکیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ کافی عرصہ ہوا ہمارے محلے میں کچھ لوگ ایک پرانا مکان گرارہے تھے ، ملبہ اور لکڑیاں ہٹائی جاچکی تھیں، صرف ستون اورشہتیر رہ گئے تھے کہ ایک آدمی چلایا ''ادھر آؤ یہ تماشا دیکھو''۔
ایک شہتیر کے نیچے جگہ خالی ہوئی تو دونوں لکڑیوں کے درمیاں ایک بڑی سی اورمعمول سے زیادہ موٹی ''بچھوئن'' پڑی ہوئی تھی اوراس کے اردگرد بے شمار بچے اپنا سر اپنی ماں کے جسم میں گھساکے ہل رہے تھے ، پتہ چلا کہ وہ بچھوئن نہیں تھی بلکہ اس کی کھال تھی، بچے اپنی ماں کو اندر سے کھاکر اس کے خول میں گھسے ہوئے تھے۔
تب ہمیں پتہ چلا اور بزرگوں نے بھی بتایا تھا کہ بچھو جیسے ہی پیدا ہوتے ہیں، اپنی ماں سے چمٹ جاتے ہیں اور اسے ''کھانا''شروع کر دیتے ہیں ۔ بچاری بچھوؤں کی ماں...
بات کہاں پہنچ گئی، ہم دراصل کہنا یہ چاہتے ہیں کہ ہم بھی آج کل فارغ ہیں، اس لیے کبھی کچھ اورکبھی کچھ سوچنے لگتے ہیں مثلاً آج کل ہم سوچ رہے ہیں کہ بیس پچیس اچھے تجربہ کار اورماہرین اعداد وشمار ''منشی'' مل گئے تو ہم ان کو بٹھا کر یہ حساب لگوانا چاہتے ہیں کہ چھہتر سال سے ہم جو سفید ہاتھی، اپنے حکمرانوں، لیڈرانوں اورافسرانوں کی شکل میں پال رہے ہیں، جو اپنی تنخواہیں اور مراعات بھی ہمیشہ خود طے کرتے ہیں ، ہم صرف تنخواہوں، مراعات اور واجبات کی بات کررہے ہیں۔
''بغل اورنیفے'' کاحساب نہیں کررہے ہیں کیونکہ وہ حساب تو شاید کوئی سپر کمپیوٹربھی نہ لگا سکے، یہ تو خیر سب کو معلوم ہے کہ ہمارا پاکستان وزیر اور پھر ان کے ساتھ وزیر مملکت اور مشیرومعاونیں وغیرہ بھی انگنت تعداد میں ہوتے ہیں ، اس حوالے سے ہم اچھے خاصے ''غالب'' واقع ہوئے ہیں ، مطلب یہ کہ مرزاغالب کاجو نظریہ ''آموں'' کے بارے میں تھا، وہی ہمارا ان سفید ہاتھیوں کے بارے میں ہے۔آموں کے لیے تو مرشد نے کہا تھا کہ میٹھے ہوں اوربہت ہوں اورسفید ہاتھیوں کے بارے میں ہمارا عقیدہ ہے کہ نکمے ہوں اور بہت ہوں۔
دراصل امیروں ،کبیروں کی طرح ہم کسی کی حیثیت کااندازہ ان کے نوکر چاکروں سے لگاتے ہیں ، زیادہ ملازموں، نوکر چاکروں اورسفید ہاتھیوں سے ہی کسی کی شان کااندازہ ہوتاہے اورہم تو ہیں ہی۔
شان ماضی جان مال
سایہ خدائے ذوالجلال
خدا نہ کرے ، خدا نہ کرے اورآئی ایم ایف نہ چاہے اگر ہم نے سفید ہاتھی کم کردیے تو اڑوس پڑوس کے لوگ کیاکہیں گے ، سب سے بڑی پرابلم تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں دو علاقے ایسے ہیں جہاں وزیر ہی رہتے ہیں جہاں اتنے وزیر ہیں کہ ہم نے اسے شمالی وجنوبی دوحصوں میں تقسیم کیاہوا ہے، اب اگر کسی نے حساب لگایا کہ پورا ملک ہوکر بھی،ایک وزیرستان سے کم وزیروں پر گزارہ کررہے ہیں تو ہماری بھداڑ جائے گی کہ یہ منہ اور وزیروں کی دال۔مطلب یہ کہ مطلب کچھ بھی نہیں صرف یہ ہے کہ ذرا موٹا موٹا حساب تو لگانا چاہیے کہ یہ سفید ہاتھی اب تک کتناہڑپ کرچکے، اس کام کے جسے انھوں نے اپنے اوپر حرام کیا ہوا ہے۔
یہ قصہ تو بڑا مشہورہے کہ بھٹو صاحب ایک مرتبہ صوبے کے دورے پر آئے تو صوبائی وزراء قطار میں کھڑے ہوکر استقبالیہ ثواب حاصل کررہے تھے، بھٹو صاحب جس وزیر کے پاس پہنچتے تو وہ اپنا نام اور وزارت بتاکر ان سے ہاتھ ملاتا تھا۔ ان وزراء میں پرانے ممتازمسلم لیگی بھی تھے ، ایک بوڑھے ممتازمسلم لیگی وزیرکے پاس پہنچے تو ان پڑھ وزیر نے اپنا نام بتانے کے بعد محکمے کا نام بتانا شروع کیا، ٹیکسائز ایکسٹین ش ش... بھٹو صاحب نے مسکرا کر اس کے کاندھے پر ہاتھ رکھا اور کہا لگے رہو خان صاحب...
اور ہم ان ہی ''لگے ہوؤں'' کی بات کررہے ہیں کہ چھہتر برسوں میں ان سفید ہاتھیوں نے ہم سے ''لیا'' کیا اورہم کو ''دیا''کیا۔خسارے دار محکمے ، نکموں افسروں اور ملازموں کی بھرمار، ادھورے ترقیاتی منصوبے، انکم سپورٹ، کارڈ اندر کارڈ اوردنیا بھر کے راشی ومرتشی۔
دھنک شفق مہتاب ستارے بجلی نغمے پھول
اس دامن میں کیاکیا ہے وہ دامن ہاتھ میں آئے تو
اورہمیں ان ہاتھوں کا ذرا پتہ لگاناہے کہ جن میں یہ دامن ہاتھ آتا رہا، فائدہ تو اس سے کچھ ہونے والا نہیں کیونکہ کسی حد تک تو سب کو پتہ بھی ہے کہ بچھوؤں سے اورکیا توقع کی جاسکتی ہے ۔ کافی عرصہ ہوا ہمارے محلے میں کچھ لوگ ایک پرانا مکان گرارہے تھے ، ملبہ اور لکڑیاں ہٹائی جاچکی تھیں، صرف ستون اورشہتیر رہ گئے تھے کہ ایک آدمی چلایا ''ادھر آؤ یہ تماشا دیکھو''۔
ایک شہتیر کے نیچے جگہ خالی ہوئی تو دونوں لکڑیوں کے درمیاں ایک بڑی سی اورمعمول سے زیادہ موٹی ''بچھوئن'' پڑی ہوئی تھی اوراس کے اردگرد بے شمار بچے اپنا سر اپنی ماں کے جسم میں گھساکے ہل رہے تھے ، پتہ چلا کہ وہ بچھوئن نہیں تھی بلکہ اس کی کھال تھی، بچے اپنی ماں کو اندر سے کھاکر اس کے خول میں گھسے ہوئے تھے۔
تب ہمیں پتہ چلا اور بزرگوں نے بھی بتایا تھا کہ بچھو جیسے ہی پیدا ہوتے ہیں، اپنی ماں سے چمٹ جاتے ہیں اور اسے ''کھانا''شروع کر دیتے ہیں ۔ بچاری بچھوؤں کی ماں...