بڑے بھائی انھیں پیار سے فاطی پکارتے

ہم نے ہوش سنبھالا تو ہمیشہ انھیں بھائی کے دوش بہ دوش دیکھا

zahedahina@gmail.com

وہ بالا قامت تھیں، ان کے سر پر سفید اور سیاہ بالوں کا ہالہ تھا۔ ایک با وقار اور سنجیدہ خاتون۔ ہم نے ہوش سنبھالا تو ہمیشہ انھیں بھائی کے دوش بہ دوش دیکھا۔ پھر یہ پڑھا کہ وہ اپنے بھائی کی میت کے ساتھ خراب ایمبولینس میں کراچی کی ایک سڑک پر تن تنہا بیٹھی رہیں۔ ہم ان کی عزت اور احترام کرتے تھے۔ ملک کے حالات دگرگوں تھے۔ امروز اور ' انجام' دہشت ناک خبریں سناتے تھے۔

میں1966میں روزنامہ ''مشرق'' سے وابستہ ہوگئی تھی۔ ان ہی دنوں '' مشرق'' کے ایڈیٹر فرہاد زیدی کا صبح ہی صبح فون آیا، انھوں نے گلوگیر لہجے میں کہا کہ '' رات میں مادرِ ملت کا انتقال ہوگیا ہے۔''

ان کا انتقال قوم کا ناقابلِ تلافی نقصان تھا۔ صدارتی انتخابات میں انھیں جس دھاندلی سے ہرایا گیا تھا،اس کے زخم ان تمام لوگوں کے دلوں پر تازہ تھے جنھوں نے انھیں ووٹ دیے تھے، اور جیت گئے تھے لیکن جنرل ایوب خان نے انھیں دھاندلی سے ہرادیا تھا۔ یہ وہ اندوہناک واقعہ تھا جس نے پاکستان کو دو لخت کرنے کی بنیاد رکھ دی تھی۔

اس بات کو اس وقت کے دانشور، ادیب اور سیاستدان محسوس کرتے تھے اور عوام کا ایک بڑا طبقہ بھی سمجھتا تھا لیکن ہمارے سمجھنے سے کیا ہونا تھا۔ وہ جولائی کی 19 ویں تاریخ تھی، جب میں مہتہ پیلس پہنچی، تو ہم سے پہلے اور لوگ بھی پہنچ چکے تھے۔ خستہ حال ، روتے پیٹتے، ان کی آخری امید محترمہ فاطمہ جناح تھیں لیکن انھیں جس دھاندلی سے ہرایا گیا تھا، اس کے بعد ان کی ہر امید دم توڑ گئی تھی۔ لاکھوں لوگوں نے اس روز اپنے سر پر سورج کی تمازت برداشت کی تھی اور ان کے قدموں کے نیچے ان کے خوابوں اور آرزوؤں کی کرچیاں تھیں۔ وہ روزانہ اپنے گارڈ کو اوپری منزل سے چابیوں کا گچھا پھینک دیتی تھیں، لیکن کئی دستکوں کے بعد بھی جب انھوں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ لپکتا ہوا پڑوس میں گیا، جہاں ڈپلیکیٹ چابیاں رکھی رہتی تھیں۔

مادر ملت کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ تاریخ کا وہ آخری باب بھی اختتام پذیر ہوا جس کی ابتدا جناح صاحب کی ذات تھی۔ ان کی بہن نے بھی دنیا سے منہ موڑا۔ قوم کے درمیان سے وہ ہستی اٹھ گئی ، جس کی آواز بانی پاکستان کی یاد دلاتی تھی۔ جس کی شکل دیکھ کر قوم قائد اعظم کو روتی تھی اور جس کی ایک آواز پر بے شمار افراد اس کے گرد جمع ہو جاتے تھے۔

میں آٹھ بجے صبح قصر فاطمہ (مہتا پیلس) پہنچی تو درو بام پر سکوت کا عالم تھا۔ قصر کے باہر پولیس پہرہ دے رہی تھی اور اندر چمن کی روشوں پر لوگ دبے قدموں چل رہے تھے۔ کہیں مادر ملت کی نیند میں خلل نہ ہو، بہت سے افراد بیٹھے تلاوت میں مصروف تھے، اگر بتیوں کی خوشبو سے ماحول پر تقدس کا عالم طاری تھا۔ میں اندر پہنچی تو ہال کے درمیان میں ایک مسہری بچھی ہوئی تھی۔ اس مسہری پر مادر ملت کا کفن پوش جسد خاکی آرام کر رہا تھا ، چہرہ کھلا ہوا تھا۔ آنکھیں بند تھیں اور ہونٹوں پر پرسکون مسکراہٹ تھی۔

میت پھولوں کی چادر سے ڈھکی ہوئی تھی۔ دو خوش الحان قاری تلاوت میں مصروف تھے۔ کمر ے کا ایئرکنڈیشنر خراب ہوگیا تھا، اس لیے مسہری کے چاروں طرف برف کی بڑی بڑی سلیں رکھی ہوئی تھیں۔ کئی عورتیں وہاں پہلے سے فاتحہ خوانی میں مشغول تھیں۔ میں بھی تھکے تھکے قدموں سے وہاں پہنچی اور جھک کر اس چہرے کو دیکھا جو ہمارے لیے مینارہ نور کی حیثیت رکھتا تھا اور چند لمحوں بعد ہماری نظروں کے سامنے سے اوجھل ہونے والا تھا۔ یہ چہرہ جو بانی پاکستان کی شبیہ تھا، اور اب منوں مٹی کے نیچے چھپنے والا تھا۔ میں ضبط کے باوجود پھوٹ پھوٹ کر روئی۔

خواتین کے لیے قرآن خوانی کا دوسرے ہال میں انتظام تھا، وہاں پہنچی تو بہت سی خواتین قرآن پڑھتی جاتی تھیں اور آنچلوں سے اپنے آنسو پونچھتی جاتی تھیں۔ بیگم زاہد حسین اور بیگم نواب صدیق علی خان تلاوت ختم کر کے مادر ملت کے ساتھ گزرے ہوئے لمحوں کو یاد کر رہی تھیں۔ میں بھی چپکے سے جاکر انھیں کے پاس بیٹھ گئی۔

بیگم زاہد حسین بار بار اس بات پر کف افسوس ملتی تھیں کہ وہ میر لائق علی صاحب کی لڑکی کی شادی میں دیر سے کیوں پہنچیں۔ انھوں نے مجھے بتایا کہ جب میں وہاں آٹھ بجے کے قریب پہنچی ہوں تو محترمہ وہاں سے رخصت ہو چکی تھیں۔ مجھے بھلا کیا معلوم تھا کہ یہ ان سے ملاقات کا آخری موقعہ تھا جو میں نے یوں گنوا دیا۔ بیگم صدیق علی خاں بھی وہاں دیر سے پہنچی تھیں، اس لیے انھیں بھی محترمہ سے ملاقات نہ ہونے کا دلی صدمہ تھا اور میرا خیال ہے کہ ان دونوں خواتین کو ہمیشہ اس بات کا صدمہ رہے گا۔


محترمہ کی بھانجی مسز پیر بھائی اور نواسی مسز زہرہ چاند و بہت سوگوار ایک طرف بیٹھی ہوئی تھیں۔ مسز پیر بھائی محترمہ کے ایصال ثواب کے لیے تسبیح پڑھ رہی تھیں۔ میں نے جب ان سے ایک سوال کیا تو وہ آبدیدہ ہوگئیں، ان کی آواز بھرا گئی اور انھوں نے صرف اتنا کہا کہ '' ہمارے خاندان کا آخری ستارہ بھی ڈوب گیا۔''

مسز زہرہ چاند نے بتایا کہ ان کو لیڈی ہدایت اللہ نے بذریعہ فون اطلاع دی تو وہ فورا قصر فاطمہ پہنچیں۔ انھوں نے بتایا کہ محترمہ کی ایک چھوٹی بہن بقید حیات ہیں اور وہ پونا میں مقیم ہیں۔ انھوں نے بڑے حسرت بھر ے لہجے میں کہا '' خدا جانے انھیں اپنی بہن کے انتقال کی خبر پہنچی بھی ہے یا نہیں۔'' اس پر میں نے انھیں بتایا کہ آل انڈیا ریڈیو نے یہ خبر کل رات ہی اپنے تمام اسٹیشنوں سے نشر کی تھی، اس لیے یہ اطلاع ضرور ان تک پہنچ گئی ہوگی۔ میرا جواب سن کر پاس بیٹھی ہوئی ایک خاتون نے کہا : '' لیکن بیچاری اتنی جلدی پاکستان کیسے پہنچ سکتی ہیں۔ '' ظاہر ہے کہ اس بات کا جواب کون دے سکتا تھا۔

اس دوران شہر کے دور دراز علاقوں سے خواتین مسلسل آرہی تھیں اور مادر ملت کے آخری دیدار کے بعد تلاوت میں مصروف ہوجاتی تھیں۔ بعض خواتین ہچکیوں سے رو رہی تھیں اور مرحومہ کی خوبیوں کو یاد کر رہی تھیں۔ بیگم نواب صدیق علی خان نے بتایا کہ مادر ملت نہ صرف غریب بیواؤں کی چپکے چپکے امداد کرتی تھیں بلکہ شہر کے ایک اسکول اور کئی دوسرے اِدارے بھی ان کی زیر سر پرستی کام کر رہے تھے۔

سوا نو بجے کے قریب مردوں نے اطلاع کرائی کہ ہم محترمہ کو آخری منزل کی طرف لے جانے کے لیے آ رہے ہیں۔ خواتین میں ایک کہرام بپا ہوگیا، بیگم زری سرفراز ، بیگم جی اے خان، بیگم سروری عرفان اللہ اور بیگم ہارون دوسری خواتین کو ساتھ لے کر اس ہال میں پہنچیں جہاں مادر ملت ابدی نیند سورہی تھیں۔ مردوں کا جم غفیر مادر ملت کا آخری دیدار کر رہا تھا۔ کئی لوگ ایک دوسرے سے لپٹ کر ہچکیوں سے رو رہے تھے۔

پاکستانی کشمیر کے سابق صدر کے ایچ خورشید جھک کر کلمہ پڑھ رہے تھے، خواتین نے بہ آواز بلند کلمہ پڑھنا شروع کیا۔ مردوں نے جنازے کو تابوت میں رکھا تو بے شمار خواتین چیخیں مار مار کر رونے لگیں۔ مادر ِملت کے جانثاروں نے آگے بڑھ کر کاندھا دیا، جنازہ '' قصر فاطمہ'' کے چمن میں لایا گیا اور شبنم سے بھیگی ہوئی گھاس پر سید ابن حسن جارچوی نے پہلی نمازِ جنازہ پڑھائی، لوگ بھیگی ہوئی آنکھوں سے یہ سب کچھ دیکھتے رہے اور بار بار بانی پاکستان کو یاد کرتے رہے۔

نمازِ جنازہ کے بعد میت پک اپ پر رکھی گئی اور اس پر پاکستان کا پرچم لپیٹ دیا گیا، لوگ مادر ملت کو آخری منزل تک پہنچانے کے لیے تھکے قدموں سے چلے، ہونٹوں پر کلمہ تھا، اور دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔مسز پیر بھائی نے کہا : ''ہمارے خاندان کا آخری ستارہ بھی ڈوب گیا۔''

''قصر فاطمہ'' سے جلوس جنازہ جب پولو گراؤنڈ پہنچا ہے تو تمام راستوں پر لوگ دو رویہ مادرِ ملت کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ خواتین کی بھاری تعداد بھی جنازے کے دیدار کے لیے موجود تھی۔ جلوس پولو گراؤنڈ پہنچا تو ہر طرف سر ہی سر تھے۔ قائد اعظم کی بہن کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے لوگ ہر طرف سے امنڈ ے چلے آتے تھے، وزراء ، سفراء اور عمائدین ملک کی بھاری تعداد محترمہ کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے حاضر تھی اور عوام کا جوش و جذبہ تو صرف دیکھنے سے تعلق رکھتا تھا۔

پولو گراؤنڈ میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد جلوس جنازہ نے مزار قائد اعظم کا رخ کیا، شہر کی جن شاہراہوں سے مادرِ ملت کا جنازہ گزرا ہر طرف لوگوں کے ٹھٹ لگے ہوئے تھے ، چھتوں، گیلریوں ، درختوں اور دیواروں پر مادر ملت کے آخری دیدار کرنے والوں کا ہجوم تھا اور جہاں جہاں سے جلوس گزرتا، وہاں سے لوگ جلوس کے ساتھ شامل ہوتے جاتے تھے۔

جلوس جنازہ مزار قائد کے پاس پہنچا تو عوام کا ہجوم قابل دید تھا، لوگ زار و قطار روتے تھے اور اپنے بابا کو یاد کر کرکے بے تاب ہوتے تھے۔ برقعہ پوش خواتین اور چھوٹے چھوٹے بچوں کی محترمہ سے والہانہ عقیدت کا اندازہ ان کی کثیر تعداد کو دیکھ کر ہوتا تھا۔ بے پناہ ہجوم کی وجہ سے جلوس بہت دھیرے دھیرے آگے بڑھ رہا تھا، گھوڑوں پر سوار پولیس کے دستے نے جنازے کے گرد گھیرا ڈال رکھا تھا۔ آہستہ آہستہ جنازہ مزار قائد اعظم کی سیڑھیوں تک پہنچا، لوگوں نے آگے بڑھ بڑھ کر جنازے کو کاندھا دیا اور پھر محمد علی جناح کی چہیتی بہن ، بھائی کے مزار کے قریب ہی اپنی آخری آرام گاہ میں سلا دی گئی۔ خدا جانے سالہا سال سے بچھڑی ہوئی بہن نے بھائی سے عالم بالا میں مل کر کیا کیا گلے شکوے کیے ہوں گے؟

'' قصر فاطمہ'' اجڑ گیا۔ شہر کراچی پر اداسی چھاگئی۔ یہ جملے، یہ لفظ 15 جولائی 1967 کو ''مشرق'' میں شایع ہوئے، جسے محفوظ میرے والد نے کیا تھا۔ ان کے درجات بلند ہوں۔
Load Next Story