کیا آپ کا بچہ اسکول جانے سے کتراتا ہے
اسکول جانے کا مرحلہ کبھی نہ کبھی ہر خوش نصیب بچے کی زندگی میں ضرور آتا ہے۔ خوش نصیب اس لیے کہ ہمارے ملک پاکستان سمیت دنیا بھر میں بہت سے بچے تدریسی سہولیات سے محروم ہیں اور مقام افسوس ہے کہ بچوں کی بہتری اور انھیں معاشرے کا کارآمد فرد بنانے کےلیے عملی طور پر خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔
مسئلہ صرف ان بچوں کا نہیں جو اسکول نہیں جاتے بلکہ اصل مسئلہ ان بچوں کا بھی سامنے آتا ہے جہاں بچہ اسکول جانے سے کتراتا ہے۔ ابتدا میں اگر بچہ اسکول سے واپس گھر آئے یا ضد کرے اور روئے تب تو بات سمجھ میں آتی ہے کہ فطری طور پر اسکول بچے کےلیے ایک نیا ماحول ہے اور اسے وہاں ایڈجسٹ ہونے میں کچھ وقت لگے گا۔ لیکن جب بچہ باقاعدگی سے اسکول جارہا ہو اور ساتھ ساتھ نہ جانے کےلیے مختلف توجیہات بھی پیش کرے تو پھر ایسی وجوہات کا جائزہ لینا چاہیے کہ آخر ایسا کیا ہوگیا کہ بچہ اسکول جانے سے گھبراتا ہے یا وہ پڑھائی میں دلچسپی نہیں لے رہا۔
بچوں کو سختی یا بار بار نرمی سے سمجھانے کے بجائے مسئلے کی اصل تہہ تک پہنچنا ضروری ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں بچوں کے والدین، اساتذہ اور بڑے بہن بھائی ان سے اتنے بے تکلف نہیں ہوتے کہ بچہ ایک دم سے اپنی تمام تر تکالیف انھیں بتادے، اس لیے ان تمام بڑے افراد کی اجتماعی ذمے داری ہے کہ بچے کے مسائل کو سمجھنے اور ان کو حل کرنے کی کوشش کریں۔ کچھ ایسی علامات بالکل واضح ہوتی ہیں جو آپ پر یہ آشکار کردیتی ہیں کہ آپ کا بچہ کسی نفسیاتی یا جذباتی مسئلے کا شکار ہے۔
بچے کے تعلیمی معیار کی مسلسل تنزلی
پہلی علامت تو یہ ہوتی ہے کہ بچہ ایک دم سے کلاس میں عدم دلچسپی کا اظہار کررہا ہے۔ اگر پہلے اس کے گریڈز اے پلس آتے تھے تو اب وہ بہ مشکل پاس ہورہا ہے، ساتھ ہی بچے کو جو ہوم ورک اور اسائنمنٹ دیے جاتے ہیں وہ ان کو مکمل کرنے میں مشکل محسوس کررہا ہے۔
بچے کے رویے سے متعلق اساتذہ کی شکایات
بچوں کی پڑھائی میں عدم دلچسپی کی علامت یہ بھی ہوتی ہے کہ اس کے اساتذہ والدین سے روزانہ کی بنیاد پر اس کی شکایات کررہے ہیں، اب چاہے وہ آپ کو بچے کے دوست کے ہاتھوں پیغام بھجوائیں یا براہ راست بلوائیں یا پھر ٹیچرز ڈائری پر یہ سب تحریر کریں، اس سب کے پیچھے یہی ہوتا ہے کہ ایک تو بچہ سبق ٹھیک طریقے سے یاد نہیں کررہا، ہوم ورک نہیں کرتا، کلاس میں غائب دماغ رہتا ہے اور استاد کا کہا بالکل بھی نہیں مانتا۔
بچے کے اندر جذباتی تبدیلیاں
بچے میں ایسی تبدیلیاں جو قابل محسوس ہوں یہ بھی ایک علامت ہوتی ہے، اس میں اعتماد کی کمی ہوجاتی ہے، وہ غصے میں چلاتا اور چیزوں کو توڑ پھوڑ کرتا ہے، ضد کرتا اور بات نہیں مانتا۔ کیونکہ بچہ ابھی چھوٹا ہوتا ہے اور اس کی جذباتی نشوونما بتدریج ہورہی ہوتی ہے اس لیے وہ اپنے ساتھ پیش آنے والی مشکلات کا اظہار لفظوں میں نہیں کرسکتا تو پھر وہ اپنی جذباتی کیفیات کو ہی اپنا سہارا بناتا ہے۔
اگر آپ کا بچہ پہلے دوست بناتا تھا اور کلاس میں بھی گھل مل کر رہتا تھا لیکن اب اچانک اس کے اندر یہ تبدیلی پیدا ہوئی کہ وہ نئے دوست بنانا تو درکنار پرانے ساتھیوں سے بھی جان چھڑانا چاہ رہا ہے، حد سے زیادہ شرمیلا ہوگیا ہے اور کسی قسم کی سماجی تقریبات میں شرکت بھی نہیں کرتا۔ یہ ایک الارمنگ صورتحال ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر سب بہن بھائی کسی سالگرہ پر جارہے ہیں اور بچہ منہ بنائے گھر بیٹھا ہے، کہیں گھر والے شادی پر جارہے ہیں تو بچہ نہ جانے کی ضد کرے، غصہ کرے اور کترائے تو سمجھ جائیں کہ بچے میں نفسیاتی مسائل پیدا ہورہے ہیں۔
ڈسپلن کی کمی
ایسے بچے جو اسکول جانے سے بھاگتے ہیں ان میں ڈسپلن کی کمی ہوتی ہے۔ وہ مقررہ وقت میں اسائنمنٹ مکمل نہیں کرسکتے، جیسا کہ ایسے بچے گھر آکر ڈائری نہیں دکھاتے، ہوم ورک کرنا بھول جاتے ہیں یا ٹال مٹول کرتے ہیں۔ اب بچہ جان بوجھ کر ایسا نہیں کرتا لیکن اس سے لاشعوری طور پر یہ ہوجاتا ہے۔ بچہ کوشش بہت کرتا ہے کہ وہ اپنے طرز عمل سے والدین کو اپنا مسئلہ سمجھا دے لیکن ایسا نہیں ہوتا کیونکہ والدین الفاظ کی زبان کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔
بچے میں جسمانی تبدیلیاں
بچے میں بظاہر جسمانی تبدیلیاں جن میں معدہ میں درد، تیز سانس لینا، پیٹ خراب یا سر درد اچانک ہوجاتا ہے اور کئی دفعہ ان کی کوئی طبی وجہ نہیں ہوتی بلکہ یہ صرف اسکول نہ جانے کے بہانے بھی ہوسکتے ہیں۔
اب ان سب مسائل کا حل توجہ اور محبت ہے۔ والدین، اساتذہ اور بہن بھائیوں کو توجہ سے بچے کی بات کو سننا چاہیے۔ بچے کو بولنے کا موقع دیں چاہے وہ چند ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں ہی بولے۔ اسے کہیں کہ جو وہ محسوس کرتا ہے وہ لفظوں میں بتانے کی کوشش کرے۔ اگر وہ سب کے سامنے کوئی بھی بات نہیں بتانا چاہتا تو اس پر دباؤ مت ڈالیں، بلکہ اسے علیحدگی میں لے جاکر اسے اعتماد دلائیں لیکن یہ کام صرف والدین کریں کیونکہ والدین کے سوا کسی اور کے پاس تنہائی میں بچہ محفوظ نہیں ہوسکتا۔ بچے کے جملوں کو اپنے چھوٹے چھوٹے الفاظ سے مکمل کریں، اسے اچھی اور کامیابی سے متعلق ویڈیوز دکھائیں اور تنہا نہ رہنے دیں۔
بچوں کو یہ یقین دلائیں کہ اسکول جانے میں اس کی بہتری ہے، کبھی تھوڑی سختی اور کبھی نرمی کا اظہار کریں لیکن یہ دونوں چیزیں اپنی انتہا پر نہیں ہونی چاہئیں۔ اب بات آتی ہے بچوں کے اساتذہ کے ساتھ تعلق بنانے کی، ہر بچہ کسی نہ کسی ٹیچر کے ساتھ اٹیچ ہوتا ہے، ان کی بات مانتا اور سنتا ہے۔ ایسی صورت میں بچے کے پسندیدہ ٹیچر کے بارے میں جانیں، انھیں بچوں کے حالات کے بارے میں بتائیں، اور ایک ایسا بہترین رشتہ استوار کریں کہ وہ آپ کے بچے سے متعلق ہر بات آپ سے شیئر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہ کریں۔
بچے کو کلاس میں اس کا کوئی ہم جماعت تنگ کررہا ہے یا بڑی کلاسوں کے بچے اس کے ساتھ غلط رویہ اپنائے ہوئے ہیں تو والدین پہلے بچے سے اور پھر اساتذہ سے دریافت کریں اور مسئلے کی تہہ تک پہنچیں۔ اکثر اوقات چھوٹے بچے ڈر کی وجہ سے اپنے شریر ہم جماعتوں کی شکایت نہیں کرتے اور اندر ہی اندر گھٹتے رہتے ہیں، اس کی وجہ سے وہ تلخ، پریشان اور غصیلے ہوجاتے ہیں۔ ان تمام تر باتوں کے باوجود بھی اگر بچہ بدستور اسی پوزیشن پر قائم ہے تو پھر بچے کے سلسلے میں ماہر نفسیات سے رابطہ کرنا چاہیے تاکہ گفت و شنید کے ذریعے بچے کو پھر سے نارمل زندگی کی طرف لایا جاسکے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔