ریلوے حادثات کی روک تھام

ریلوے کی زبوں حالی کی وجوہات سے اعلیٰ حکام یقیناً آگاہ ہوں گے

ریلوے کی زبوں حالی کی وجوہات سے اعلیٰ حکام یقیناً آگاہ ہوں گے۔ فوٹو: فائل

گزشتہ روز پیش آنے والے ٹرین حادثے میں جاں بحق افراد کی تعداد 30 ہوگئی ہے جب کہ 100 سے زائد زخمی ہیں۔

کراچی سے حویلیاں جانے والی مسافر ٹرین ہزارہ ایکسپریس کو اتوار کو سنگین حادثہ پیش آیا تھا اور نوابشاہ میں سرہاری ریلوے اسٹیشن کے قریب اس کی متعدد بوگیاں پٹری سے اتر گئیں اور6 بوگیاں الٹ گئی تھیں۔

حادثے کے سبب بند ڈاؤن ٹریک تقریباً 18 گھنٹوں کے بعد بحال کردیا گیا ہے، ٹریک بحال ہونے کے بعد مختلف اسٹیشنوں پر رُکی ٹرینوں کی روانگی شروع ہوگئی ہے جب کہ اپ ٹریک اب بھی بند ہے، جس کی بحالی کے لیے کام کیا جا رہا ہے۔

جب بھی ریل گاڑی کا کوئی بڑا حادثہ ہوجاتا ہے تو حکومت کے اعلیٰ عہدیدار چند دنوں تک افسوس اور دُکھ کے بیانات جاری کرتے ہیں، اس کے بعد ریلوے کا لُولا لنگڑا نظام اپنی پرانی ڈگر پرگھسٹ گھسٹ کر چلتا رہتا ہے حتیٰ کہ کچھ عرصہ بعد ایک نیا جان لیوا حادثہ رُونما ہوجاتا ہے۔

کسی حکومت نے ریلوے کے فرسودہ ڈھانچہ کو بہتر بنانے پر توجہ نہیں دی۔ چھوٹے موٹے کام کیے گئے لیکن اس کو مکمل طور پر اوور ہال نہیں کیا گیا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ریلوے کا ٹریک اور سگنل نظام اس قدر خراب حالت میں ہیں کہ اصولی طور پر کوئی مسافر ٹرین سفر کے لیے محفوظ نہیں۔

دنیا بھر میں ٹرین حادثے کے بعد اس کے اسباب کا پتہ لگایا جاتا ہے اورکوشش کی جاتی ہے کہ آیندہ کبھی بھی یہ غلطی کسی صورت نہ دہرائی جائے لیکن ہمارے یہاں تسلسل سے ریلوے حادثات ہوتے ہیں اور ایک ہی طرح کی وجوہات کے باعث قیمتی انسانی جانیں ضایع ہوتی ہیں لیکن اظہار تعزیت اور اقدامات کے وعدے پر قوم کو بیوقوف بنایا جاتا ہے۔

ایک بار پھر میڈیا میں ریلوے حادثہ شہ سرخیوں میں نمایاں ہے، لیکن چند دنوں کے بعد سب بھول جائیں گے۔ حکومت لواحقین کو چند لاکھ روپے ادا کر کے یہ سمجھتی ہے کہ اس نے اپنا فرض ادا کر دیا، وہ اس خراب نظام کو ٹھیک کرنے کا بندوبست نہیں کرتی، جس کے باعث ریل گاڑیوں کے حادثات تواتر سے ہو رہے ہیں۔

اس وقت پاکستان ریلوے کے پاس جو انجن موجود ہیں ان میں بلیک باکس نام کی تو کوئی چیز نہیں ہوتی، البتہ ایک ڈیوائس موجود ہوتی ہے جس کو '' ایونٹ ریکارڈر '' کا نام دیا گیا ہے۔

اس ڈیوائس کے ذریعے ٹرین کی اسپیڈ، کس مقام پر انجن اسٹارٹ ہوا اورکہاں پر رکا اور ڈرائیور نے کب بریک لگائی، اس بارے میں تو معلومات مل سکتی ہیں لیکن یہ ڈیوائس حادثے کی اصل وجوہات کے بارے میں نہیں بتا سکتی۔

یہ ڈیوائس ریل کا پہیہ پٹری سے اترنے اور دوسرے ٹریک پر چڑھنے کے بارے میں معلومات فراہم نہیں کرسکتی، اگر کسی ٹرین کو کوئی حادثہ پیش آتا ہے تو تحقیقات کے لیے سب سے پہلے اس بات کو دیکھا جاتا ہے کہ ریلوے کا پہیہ پٹری سے کیسے اترا یا دوسری پٹری پر کیسے آیا۔ پاکستان میں زیادہ تر ریلوے کا نظام مینویل سسٹم کے تحت ہی چلتا آیا ہے۔ ماضی میں ریلوے کے حادثات ہوئے ہیں لیکن اس میں کبھی بھی بلیک باکس نامی چیز کا نام تک نہیں سنا گیا۔

دنیا میں ریل گاڑی محفوظ ترین ذریعہ سفر سمجھا جاتا ہے، لیکن ہمارے ملک میں یہ انتہائی غیر محفوظ سواری بن چکی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر آج تک کسی نے پوچھ گچھ نہیں کی اور نہ ہی کسی کو سزا ملی ہے، اسی لیے دیدہ دلیری سے غیر محفوظ پٹریوں پر ٹرینیں چلائی جا رہی ہیں۔

ریلوے کی زبوں حالی کی وجوہات سے اعلیٰ حکام یقیناً آگاہ ہوں گے اور انھیں یہ بھی پتہ ہے کہ ان وجوہات کو دور کرنے میں کیا رکاؤٹ ہے۔ روڈ ٹرانسپورٹ کو منافع بخش کاروبار بنانے کے لیے ریلوے کو کمزور کرنا لازمی ہے۔ یوں ایک طاقتور طبقے کے کاروباری فائدے کے لیے انسانی جانوں کی پرواہ نہیں کی جارہی ہے۔

دنیا بھر میں فریٹ ٹرینوں کے لیے نیا اور وزن برداشت کرنے والا ٹریک نصب کیا جاتا ہے ورنہ فریٹ ٹرینوں کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن یہاں انگریزوں کے دورکا جو نظام تھا، اسے بھی فعال نہیں رہنے دیا گیا۔


ملک بھر میں ریلوے ٹریک پر کئی جگہوں پر پھاٹک نصب نہیں اور جہاں پھاٹک موجود بھی ہیں تو ٹرین کے گزرتے وقت پھاٹک بند نہ کیے جانے سے کئی قیمتی جانیں ضایع ہوچکی ہیں، لیکن یہ لاپروائی ابھی تک ختم نہیں ہوئی اور ہر دور میں زبانی جمع خرچ سے کام لیا گیا۔

اسی طرح ٹرین میں آتشزدگی کے واقعات کی روک تھام کے لیے تمام ریلوے اسٹیشنز پر سخت تلاشی کی ضرورت ہے۔ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ سنگین حادثات کے فوری بعد سخت تلاشی کا سلسلہ شروع کیا گیا تھا لیکن بعد میں پھر روایتی لاپرواہی سے کام لیا جارہا ہے جس سے خدانخواستہ مستقبل میں مزید سنگین حادثات کا خطرہ موجود ہے اور اس سلسلے میں مجرمانہ غفلت برتنے والوں کا محاسبہ کرکے ہی عام آدمی کی جان محفوظ بنائی جاسکتی ہے۔

ریلوے حکام نے موجودہ ٹریکس کی صورتحال کو مدنظر بہتر لائنز پر ٹرین کی رفتار 100 کلومیٹر فی گھنٹہ جب کہ کمزور ٹریک پر 40 کلومیٹر تک محدود رکھنے کا پابند کیا ہے اور ڈرائیورز کو بھی ہدایت جاری کی گئی ہیں کہ وہ حد رفتار سے تجاوز نہ کریں۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہے کہ سندھ میں سکھر ڈویژن میں صورتحال اچھی نہیں ہے۔

محکمہ ریلوے میں رولنگ اسٹاک یا اضافی انجنوں اور بوگیوں کا مسئلہ ہے، افرادی قوت بشمول ڈرائیورز، اسسٹنٹ ڈرائیورز اور سگنل اسٹاف کی کمی کا سامنا ہے اور مجبوری کے تحت نئے لوگ رکھنے کے بجائے ریٹائرڈ ملازمین کو دوبارہ رکھا گیا ہے۔

فنڈز کے مسائل بھی ہیں اور ماضی میں اس طرح کے پروجیکٹس نہیں بنائے گئے جس نوعیت کی سسٹم کو بحالی کی ضرورت تھی۔ گزشتہ حادثات میں دیکھا گیا ہے کہ مسئلہ زیادہ ہیومن ایرر (انسانی غلطی) کا نہیں بلکہ پرانے سسٹم میں خرابی کا آ رہا ہے جو حادثات کا باعث بن رہا ہے۔ یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ پاکستان ریلوے کا پورا نظام بوسیدہ اور ناکارہ ہوچکا ہے جسے بہتر بنانے کے لیے عرصہ دراز سے ضروری سرمایہ کاری نہیں کی گئی۔

ریلوے کا ادارہ بد انتظامی، عملہ کی کام چوری اورکرپشن کا شکار ہے جو ہر سرکاری محکمہ کا طرہ امتیاز ہے۔ یہ باتیں کئی دہائیوں سے ہر کسی کو معلوم ہیں اور بار بار دہرائی جاتی ہیں لیکن کوئی حکومت ان پر کان دھرنے کو تیار نہیں۔ گزشتہ چند برسوں میں سیکڑوں افراد ٹرین حادثات کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔

ریل گاڑیاں آپس میں ٹکرا جاتی ہیں، پٹری سے اتر جاتی ہیں، ان میں آگ لگ جاتی ہے، کھلے پھاٹکوں پر گاڑیوں، بسوں اور رکشوں سے ٹکرا جاتی ہیں۔

جب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت تھی تو ان کے وزیر غلام مصطفی جتوئی نے قومی اسمبلی میں ریلوے کی حالتِ زار پر ایک طویل تقریرکی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ ریلوے میں سرمایہ کاری نہ ہونے کے باعث یہ ناکارہ ہوچکی ہے۔ مصطفیٰ جتوئی نے جو نقشہ کھینچا تھا آج تک کم و بیش وہی صورتحال ہے۔

پاکستان میں بننے والی تمام فوجی اور سویلین حکومتیں موجودہ صورتحال کی ذمے دار ہیں۔ ریل گاڑیوں کے بڑھتے ہوئے حادثات کی ایک بڑی وجہ تو یہ ہے کہ گزشتہ 75 برسوں میں ہر حکومت نے ریلوے کو نظر انداز کر کے سڑکوں کی تعمیر پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔ ریلوے کے نظام میں بہت کم سرمایہ لگایا۔ انگریز کے بنائے ہوئے ریلوے کے نظام کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی۔

ریلوے حادثات خستہ حال ریلوے ٹریک، ریلوے کے پرانے ڈھانچے، سگنلز میں خرابی، غلط کراسنگ، ریلوے لائنز پر پھاٹک کی عدم موجودگی، ڈرائیورز کی غلطی، اور اسی طرح کی دیگر تکنیکی وجوہات کے باعث پیش آتے ہیں۔

ریلوے کے وزیر ہوں یا اعلیٰ حکام، ان حادثات سے بچنے کا ایک ہی حل تجویز کرتے ہیں کہ اگر ایم ایل ون منصوبہ مکمل ہو جائے تو حادثات میں کمی واقع ہو جائے گی۔ دوسری طرف عالم یہ ہے کہ قیمتی انسانوں کے ضیاع کا سلسلہ ہے کہ رکتا نہیں۔ ریلوے پاک فوج کے بعد سرکاری ملازمت دینے والا دوسرا بڑا ادارہ ہے۔

اسی صورت میں حکومت کے پاس سوائے اس کے کوئی اور راستہ بچتا ہی نہیں اور سب کا اس پر اتفاق بھی ہے تو جتنا جلد ہو سکے ایم ایل ون پر کام شروع کیا جائے اور اس کی جلد سے جلد تکمیل یقینی بنا کر عوام کی جدید محفوظ اور تیز رفتار ریلوے کی خدمات مہیا کی جائیں۔

ہزارہ ایکسپریس کو پیش آنے والے حادثے کی جامع تحقیقات ہونی چاہئیں کیونکہ تخریب کاری کا بھی شبہ ظاہر کیا جا رہا ہے ۔پاکستان کو دہشت گردوں کی جانب سے خطرات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں 'دہشت گرد پاکستان کے انفرااسٹرکچر کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں' اس لیے تخریب کاری کے عنصر کو نظرانداز نہیں کیا جانا چاہیے۔
Load Next Story