لمحہ فکریہ
وطنِ عزیز میں عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہو رہا ہے وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ
وطنِ عزیز پاکستان کے مسائل کم ہونے کے بجائے مسلسل بڑھتے جا رہے ہیں اور پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوتے جارہے ہیں جب کہ اِس کے برعکس ہمارا ازلی دشمن پڑوسی برق رفتاری کے ساتھ ترقی کی نئی نئی منازل طے کر رہا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
گستاخی معاف ہمارے اربابِ اختیار کو اپنے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ ملک کے حال اور مستقبل کے بارے میں مل بیٹھیں اور سوچ بِچار کریں۔ سوال یہ ہے کہ اِس کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے اور کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اِس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
یوں کہلانے کو یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اسلامی ہے اور کتنا جمہوریہ۔ جہاں تک اسلامی ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں سودی کاروبار کھلے عام ہو رہا ہے۔ سود پر قرضے لیے جا رہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں حالانکہ سود کا لین دین اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
جب صورتحال ایسی ہو تو پھر بھلا خیر و برکت کیسے ہوسکتی ہے؟ اِسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ:
مالِ حرام بود
بجائے حرام رفت
گویا چوری کا مال موری میں
معاف فرمائیے ہم نہ کوئی عالمِ دین ہیں اور نہ مفتی بس چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ رہی بات جمہوریہ ہونے کا تو سچ یہ ہے کہ نظامِ حکومت پر صرف جمہوریت کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اِسی طرح جیسے کسی گھی فروش کی دکان پر یہ لیبل لگا ہوا ہو کہ یہاں 100 فیصد اصلی گھی ملتا ہے جب کہ معاملہ کچھ اور ہو۔
ہمارے اربابِ سیاست کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے چاہنے والے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ اُن کا مزاج بھی جمہوری نہیں ہے۔ صرف لے دے کر جماعتِ اسلامی وہ سیاسی جماعت ہے جس کی گھٹی میں جمہوریت ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں لیکن وہ بیچارے تو محض بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہیں جدھر چاہے ہانک دیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ووٹوں اور نوٹوں کا کتنا گہرا تعلق ہے۔
وطنِ عزیز میں سیاسی شطرنج کی ایک بساط بچھی ہوئی ہے جس پر مہرے سجے ہوئے ہیں اور کسی بھی مہرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اِسی لیے کہا گیا ہے۔
بیچارہ پیادہ تو ہے اِک مُہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ملک کے سیاسی حالات کا معاشی حالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ سیاسی ہلچل اور عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری بند ہوجاتی ہے کیونکہ غیر یقینی حالات کی وجہ سے کوئی بھی سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتا۔بدقسمتی سے ملک کے حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
عام انتخابات کے بار بار التوا نے عدم اعتماد کی فضا پیدا کردی ہے۔ توقع تھی کہ انتخابات بر وقت ہوجائیں گے اور ایک لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگا جس میں تمام سیاسی جماعتیں برابری کی سطح پر کھل کر حصہ لے سکیں گی لیکن بدقسمتی سے اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔
وطنِ عزیز میں عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہو رہا ہے وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔ بیروزگاری نے ناک میں دم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ وطن چھوڑ چھوڑ کر بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں، جہاں انھیں معقول روزگار کے مواقع میسر آرہے ہیں اور اُن کا مستقبل روشن اور محفوظ ہے۔
اِن لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اِن میں زیادہ تر ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا
سوال یہ ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب وطنِ عزیز جوہرِ قابل سے محروم ہوجائے گا۔ ماضی کی '' تبدیلی سرکار '' نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وطنِ عزیز میں روزگار کے ایک لاکھ مواقع فراہم کیے جائیں گے لیکن ہوا یہ کہ یہ مواقع تو بھلا کیا ملتے خود سرکار ہی تبدیل ہوگئی۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنھیں تصویر بنا آتی ہے
گستاخی معاف ہمارے اربابِ اختیار کو اپنے آپس کے لڑائی جھگڑوں سے اور ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے سے اتنی فرصت ہی نہیں کہ وہ ملک کے حال اور مستقبل کے بارے میں مل بیٹھیں اور سوچ بِچار کریں۔ سوال یہ ہے کہ اِس کی ذمے داری کس پر عائد کی جائے اور کس کو موردِ الزام ٹھہرایا جائے۔ کڑوا سچ یہ ہے کہ اِس حمام میں سب کے سب ننگے ہیں۔
یوں کہلانے کو یہ ملک اسلامی جمہوریہ ہے لیکن سب جانتے ہیں کہ یہ کتنا اسلامی ہے اور کتنا جمہوریہ۔ جہاں تک اسلامی ہونے کا تعلق ہے تو یہ بات ہر کوئی جانتا ہے کہ یہاں سودی کاروبار کھلے عام ہو رہا ہے۔ سود پر قرضے لیے جا رہے ہیں اور دیے جا رہے ہیں حالانکہ سود کا لین دین اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہے۔
کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا
جب صورتحال ایسی ہو تو پھر بھلا خیر و برکت کیسے ہوسکتی ہے؟ اِسی لیے تو کہا جاتا ہے کہ:
مالِ حرام بود
بجائے حرام رفت
گویا چوری کا مال موری میں
معاف فرمائیے ہم نہ کوئی عالمِ دین ہیں اور نہ مفتی بس چھوٹا منہ اور بڑی بات۔ رہی بات جمہوریہ ہونے کا تو سچ یہ ہے کہ نظامِ حکومت پر صرف جمہوریت کا لیبل لگا ہوا ہے۔ اِسی طرح جیسے کسی گھی فروش کی دکان پر یہ لیبل لگا ہوا ہو کہ یہاں 100 فیصد اصلی گھی ملتا ہے جب کہ معاملہ کچھ اور ہو۔
ہمارے اربابِ سیاست کا دعویٰ تو یہ ہے کہ وہ جمہوریت کے چاہنے والے ہیں لیکن سب کو معلوم ہے کہ اُن کا مزاج بھی جمہوری نہیں ہے۔ صرف لے دے کر جماعتِ اسلامی وہ سیاسی جماعت ہے جس کی گھٹی میں جمہوریت ہے۔
کہا یہ جاتا ہے کہ طاقت کا سر چشمہ عوام ہیں لیکن وہ بیچارے تو محض بھیڑوں کا ایک ریوڑ ہیں جدھر چاہے ہانک دیں۔ یہ بات بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے کہ ووٹوں اور نوٹوں کا کتنا گہرا تعلق ہے۔
وطنِ عزیز میں سیاسی شطرنج کی ایک بساط بچھی ہوئی ہے جس پر مہرے سجے ہوئے ہیں اور کسی بھی مہرہ کی کوئی حیثیت نہیں ہے اِسی لیے کہا گیا ہے۔
بیچارہ پیادہ تو ہے اِک مُہرہ ناچیز
فرزیں سے بھی پوشیدہ ہے شاطر کا ارادہ
ملک کے سیاسی حالات کا معاشی حالات سے بڑا گہرا تعلق ہے۔ سیاسی ہلچل اور عدم استحکام کی وجہ سے بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری بند ہوجاتی ہے کیونکہ غیر یقینی حالات کی وجہ سے کوئی بھی سرمایہ کار اپنے سرمایہ کو خطرہ میں ڈالنا نہیں چاہتا۔بدقسمتی سے ملک کے حالات سدھرنے کے بجائے بد سے بدتر ہوتے جا رہے ہیں۔
عام انتخابات کے بار بار التوا نے عدم اعتماد کی فضا پیدا کردی ہے۔ توقع تھی کہ انتخابات بر وقت ہوجائیں گے اور ایک لیول پلیئنگ فیلڈ ہوگا جس میں تمام سیاسی جماعتیں برابری کی سطح پر کھل کر حصہ لے سکیں گی لیکن بدقسمتی سے اِس کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے ۔
وطنِ عزیز میں عرصہ حیات تنگ سے تنگ ہو رہا ہے وہ حبس ہے کہ لُو کی دعا مانگتے ہیں لوگ۔ بیروزگاری نے ناک میں دم کر رکھا ہے جس کی وجہ سے پڑھے لکھے لوگ وطن چھوڑ چھوڑ کر بیرونی ممالک کا رخ کر رہے ہیں، جہاں انھیں معقول روزگار کے مواقع میسر آرہے ہیں اور اُن کا مستقبل روشن اور محفوظ ہے۔
اِن لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ اِن میں زیادہ تر ڈاکٹرز، انجینئرز اور دیگر ماہرین شامل ہیں۔ کسی شاعر نے کہا تھا:
سر پھول وہ چڑھا جو چمن سے نکل گیا
عزت اُسے ملی جو وطن سے نکل گیا
سوال یہ ہے کہ اگر حالات یہی رہے تو وہ دن دور نہیں جب وطنِ عزیز جوہرِ قابل سے محروم ہوجائے گا۔ ماضی کی '' تبدیلی سرکار '' نے یہ خوشخبری سنائی تھی کہ وطنِ عزیز میں روزگار کے ایک لاکھ مواقع فراہم کیے جائیں گے لیکن ہوا یہ کہ یہ مواقع تو بھلا کیا ملتے خود سرکار ہی تبدیل ہوگئی۔