ریلوے اور پی آئی اے خواجہ سعد کی زبانی
خواجہ سعد رفیق کے مطابق پی آئی اے کا خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان اب اس کو برداشت ہی نہیں کر سکتا
پاکستان ریلوے اور پی آئی اے دونوں پاکستان کی گلے کی ہڈی بن چکے ہیں۔ دونوں کا خسارہ پاکستان کے لیے ناقابل برداشت ہو گیا ہے۔
خواجہ سعد رفیق بھی ایک عجب جنونی آدمی ہے 2013سے 2018 تک ریلوے کو بحال کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ پھر لمبی جیل چلے گئے۔ جیل میں پوچھتے رہے کہ میں پانچ سال ریلوے کا وزیر رہا ہوں کیا میں نے ریلوے میں ایک روپے کی کرپشن کی ہے۔
کیا میں نے ریلوے کی کوئی زمین ہڑپ کی ہے۔ لیکن جواب یہی ملا کہ تم لوہے کے چنے ہو ہم نے توڑنا ہے۔ اس لڑائی میں خواجہ سعد رفیق اپنے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو بھی جیل ساتھ لے گئے۔
حالانکہ ان کا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ جیل نے خواجہ سعد رفیق کو کوئی سبق نہیں دیا۔ حالانکہ ہم نے سنا ہے کہ جیل ایسی جگہ ہے جہاں بڑوں بڑوں کو عقل آجاتی ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے۔ اس لیے اس بار جیل ناکام ہوئی۔
نئی حکومت بنتے ہی انھیں پھر ریلوے دے دی گئی۔ ان کے ماضی کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے اس بار ساتھ ہوا بازی کی وزارت بھی دے دی گئی۔ یعنی پی آئی اے اور سول ایوی ایشن بھی ان کو دے دی گئی۔ یہ تو یک نہ شد دو شد والی بات ہو گئی۔ بہر حال خواجہ سعد رفیق نے اپریل 2022سے اگست 2023تک دونوں محکموں کے لیے کام کیا ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بطور وزیر خواجہ سعد رفیق کتنا کام کرتے ہیں اور انھیں محکمہ میں ڈوب جانے کی عادت ہے۔ ویسے 2013سے 2018تک ریلوے کے وزیر رہنے کی وجہ سے اب وہ ریلوے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ ریلوے انھیں ازبر ہو چکا تھا۔ لیکن دو روز قبل جب انھوں نے اپنی وزارتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی تو اندازہ ہوا کہ ہوا بازی میں اگر پی ایچ ڈی نہیں ہوئی تو ماسٹرز ضرور ہو گیا ہے۔
2013سے 2018تک بھی خواجہ سعد رفیق کا موقف تھا کہ ریلوے کا مستقبل ایم ایل ون میں ہے۔ وہ آج بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن انھیں افسوس ہے کہ ایم ایل ون کے لیے جو کام انھوں نے 2013 سے 2018تک کیا تھا۔2018سے 2022 تک وہ ضایع کر دیا گیا۔
کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ بلکہ منصوبے کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ قوم اور ریلوے کے چار سال ضایع کر دیے گئے۔ گزشتہ حکومت کے پاس نہ تو ایم ایل ون کا کوئی متبادل تھا اور نہ ہی وہ اس کو کرنے کے لیے تیار تھے۔
بہر حال خواجہ سعد رفیق کے مطابق اب سے چند ماہ بعد ایک تقریب میں چینی صدر کی موجودگی میں ایم ایل ون کے منصوبے پر دستخط ہونگے۔ جس سے ملک میں جو ریلوے کی اسپیڈ 50کلومیٹر سے بڑھ کر 140کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ موجودہ ٹریک اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ نہ تو اس پر ٹرین تیز چلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اب محفوظ ہے۔ اس لیے حادثات بھی ہوتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق پاکستان ریلوے کو افغانستان کے راستے ازبکستان تک لیجانا چاہتے ہیں۔ ایران تک لیجانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں جب تک ا س کو بین الا قوامی نہیں کیا جائے گا یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق ریلوے میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ بھی لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے جو کام ضروری ہیں جب بھی وہ کرتے ہیں پھر ان کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اگلا آنے والا سارے کام پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مجھے اس بار بھی یہی ڈر ہے۔ بہر حال ریلوے کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق عوام کی عدالت میں سرخرو ہیں۔ انھوں نے بہت کام کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں پی آئی اے ریلوے سے بڑا مسئلہ ہے۔ کئی سالوں سے پھنسا ہوا نیو یارک کا روز ویلٹ ہوٹل خواجہ سعد رفیق نے دوبارہ شروع کروا دیا ہے۔
اب اس کی آمدنی بھی قومی خزانہ میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کے مطابق ہمارے پاس صرف چار سال ہیں۔ اگر پاکستان نے چار سال میں پرانے روز ویلٹ ہوٹل کی جگہ نئی بلڈنگ نہ بنائی تو نیویارک کی حکومت اس کو پرانی بلڈنگ کے طور پر ضبط کر لے گی۔ اس لیے چار سال میں یہاں نئی بلڈنگ کا کام شروع کرنا ہے۔ انھیں دکھ ہے کہ چار سال ضایع کیے گئے۔ ہو ٹل بھی بند رہا اور کوئی کام بھی نہیں کیا گیا۔
خواجہ سعد رفیق کے مطابق پی آئی اے کا خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان اب اس کو برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اس لیے پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہوگی۔ لیکن کوئی بھی اتنے قرضوں اور خسارے کے ساتھ نہیں لے گا۔ ان پندرہ ماہ میں اس پر خواجہ سعد رفیق نے کافی کام مکمل کر لیا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بنیادی قانون سازی کر لی گئی ہے۔ ان کے کام کوآگے بڑھانا ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کی مدت ختم ہو گئی ہے۔
اس سوال پر کہ آخر پی آئی اے کا خسارہ اتنا کیوں بڑھ گیا ہے۔ میں اعدادو شمار کے چکر میں اس لیے پڑا کہ پھر لوگ اعداد و شمار کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ بنیادی بات ہے کہ خسارہ سیکڑوں ارب پر پہنچ گیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ گزشتہ وزیر کے ایک غلط بیان نے پی آئی اے کے یورپ امریکا اور برطانیہ کے لیے آپریشن بند کروا دیے۔ جب آپ کی ایئر لائن کو یہاں جانے کی اجازت ہی نہیں تھی تو خسارہ نہ بڑھتا تو کیا ہوتا۔
بہر حال خواجہ سعد رفیق کے مطابق آپریشن کو بحال کرنے کی راہ میں بھی جتنی رکاوٹیں تھیں وہ دور کر لی گئی ہیں۔ نئی قانون سازی بھی ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے برطانیہ کے لیے روٹ بحال ہو گیا ہے۔ جس سے پی آئی اے کو کافی ریلیف ملے گا۔ پھر یورپ بھی بحال ہو جائے گا۔ آخر میں امریکا بحال ہوگا۔ لیکن بحالی کا سفر شروع ہو گیا ہے۔
برطانیہ سے بحالی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس سے خسارہ کم تو ہوگا لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں۔ مستقل حل نجکاری ہی ہے۔ جتنی جلدی کر لیں۔ اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ کام حکومت کا نہیں ہے۔ دنیا میں ایک نہیں کئی ممالک نے اپنی ایئرلائن کی نجکاری کی ہے اور اس کے بہترین نتائج آئے ہیں۔
اسی طرح ایئر پورٹس کے آپریشن بھی آؤٹ سورس کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے آپریشن کے آؤٹ سورس کے لیے اخبار میں اشتہار آگیا ہے۔
چند ماہ میں ہو جانی چاہیے۔ پھر لاہور اور کراچی کے ایئر پورٹس کو بھی آؤٹ سورس کر دیا جائے گا۔ خواجہ سعد رفیق بار بار کہتے ہیں اس آؤٹ سورس کے نتیجے میں کوئی ملازم بے روز گار نہیں ہوگا۔ پورا ملک ان کی وجہ سے بے روزگار ہے۔
خسارہ بڑھتا جا رہا ہے ہم ان چند ملازمین کو بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ مجھے کوئی یہ ٹھیک نہیں لگا۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کو ان ملازمین کی فکر ہے۔ اس لیے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اس آؤٹ سورس میں وہ بے روزگار نہ ہوں۔ لیکن شکر ہے نئی بھرتی تو بند ہو جائے گی۔ یہی کافی ہے۔
خواجہ سعد رفیق بھی ایک عجب جنونی آدمی ہے 2013سے 2018 تک ریلوے کو بحال کرنے کے لیے بہت کام کیا۔ پھر لمبی جیل چلے گئے۔ جیل میں پوچھتے رہے کہ میں پانچ سال ریلوے کا وزیر رہا ہوں کیا میں نے ریلوے میں ایک روپے کی کرپشن کی ہے۔
کیا میں نے ریلوے کی کوئی زمین ہڑپ کی ہے۔ لیکن جواب یہی ملا کہ تم لوہے کے چنے ہو ہم نے توڑنا ہے۔ اس لڑائی میں خواجہ سعد رفیق اپنے چھوٹے بھائی خواجہ سلمان رفیق کو بھی جیل ساتھ لے گئے۔
حالانکہ ان کا تو کوئی قصور ہی نہیں تھا۔ جیل نے خواجہ سعد رفیق کو کوئی سبق نہیں دیا۔ حالانکہ ہم نے سنا ہے کہ جیل ایسی جگہ ہے جہاں بڑوں بڑوں کو عقل آجاتی ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق جیسے گئے تھے ویسے ہی آگئے۔ اس لیے اس بار جیل ناکام ہوئی۔
نئی حکومت بنتے ہی انھیں پھر ریلوے دے دی گئی۔ ان کے ماضی کے تجربہ کو دیکھتے ہوئے اس بار ساتھ ہوا بازی کی وزارت بھی دے دی گئی۔ یعنی پی آئی اے اور سول ایوی ایشن بھی ان کو دے دی گئی۔ یہ تو یک نہ شد دو شد والی بات ہو گئی۔ بہر حال خواجہ سعد رفیق نے اپریل 2022سے اگست 2023تک دونوں محکموں کے لیے کام کیا ہے۔
بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ بطور وزیر خواجہ سعد رفیق کتنا کام کرتے ہیں اور انھیں محکمہ میں ڈوب جانے کی عادت ہے۔ ویسے 2013سے 2018تک ریلوے کے وزیر رہنے کی وجہ سے اب وہ ریلوے میں پی ایچ ڈی کر چکے ہیں۔ ریلوے انھیں ازبر ہو چکا تھا۔ لیکن دو روز قبل جب انھوں نے اپنی وزارتوں کی کارکردگی کے حوالے سے بریفنگ دی تو اندازہ ہوا کہ ہوا بازی میں اگر پی ایچ ڈی نہیں ہوئی تو ماسٹرز ضرور ہو گیا ہے۔
2013سے 2018تک بھی خواجہ سعد رفیق کا موقف تھا کہ ریلوے کا مستقبل ایم ایل ون میں ہے۔ وہ آج بھی یہی کہہ رہے ہیں۔ لیکن انھیں افسوس ہے کہ ایم ایل ون کے لیے جو کام انھوں نے 2013 سے 2018تک کیا تھا۔2018سے 2022 تک وہ ضایع کر دیا گیا۔
کچھ بھی نہیں کیا گیا۔ بلکہ منصوبے کی لاگت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔ قوم اور ریلوے کے چار سال ضایع کر دیے گئے۔ گزشتہ حکومت کے پاس نہ تو ایم ایل ون کا کوئی متبادل تھا اور نہ ہی وہ اس کو کرنے کے لیے تیار تھے۔
بہر حال خواجہ سعد رفیق کے مطابق اب سے چند ماہ بعد ایک تقریب میں چینی صدر کی موجودگی میں ایم ایل ون کے منصوبے پر دستخط ہونگے۔ جس سے ملک میں جو ریلوے کی اسپیڈ 50کلومیٹر سے بڑھ کر 140کلومیٹر فی گھنٹہ ہو جائے گی۔ موجودہ ٹریک اس قدر خراب ہو چکا ہے کہ نہ تو اس پر ٹرین تیز چلائی جا سکتی ہے اور نہ ہی اب محفوظ ہے۔ اس لیے حادثات بھی ہوتے ہیں۔
خواجہ سعد رفیق پاکستان ریلوے کو افغانستان کے راستے ازبکستان تک لیجانا چاہتے ہیں۔ ایران تک لیجانا چاہتے ہیں۔ ان کے خیال میں جب تک ا س کو بین الا قوامی نہیں کیا جائے گا یہ ٹھیک نہیں ہو سکتی ہے۔
خواجہ سعد رفیق ریلوے میں پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ بھی لانا چاہتے ہیں۔ لیکن اس کے لیے جو کام ضروری ہیں جب بھی وہ کرتے ہیں پھر ان کی مدت ختم ہو جاتی ہے۔ اور اگلا آنے والا سارے کام پر پانی پھیر دیتا ہے۔ مجھے اس بار بھی یہی ڈر ہے۔ بہر حال ریلوے کے حوالے سے خواجہ سعد رفیق عوام کی عدالت میں سرخرو ہیں۔ انھوں نے بہت کام کیا ہے۔
میں سمجھتا ہوں پی آئی اے ریلوے سے بڑا مسئلہ ہے۔ کئی سالوں سے پھنسا ہوا نیو یارک کا روز ویلٹ ہوٹل خواجہ سعد رفیق نے دوبارہ شروع کروا دیا ہے۔
اب اس کی آمدنی بھی قومی خزانہ میں آنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کے مطابق ہمارے پاس صرف چار سال ہیں۔ اگر پاکستان نے چار سال میں پرانے روز ویلٹ ہوٹل کی جگہ نئی بلڈنگ نہ بنائی تو نیویارک کی حکومت اس کو پرانی بلڈنگ کے طور پر ضبط کر لے گی۔ اس لیے چار سال میں یہاں نئی بلڈنگ کا کام شروع کرنا ہے۔ انھیں دکھ ہے کہ چار سال ضایع کیے گئے۔ ہو ٹل بھی بند رہا اور کوئی کام بھی نہیں کیا گیا۔
خواجہ سعد رفیق کے مطابق پی آئی اے کا خسارہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ پاکستان اب اس کو برداشت ہی نہیں کر سکتا۔ اس لیے پی آئی اے کی نجکاری کرنا ہوگی۔ لیکن کوئی بھی اتنے قرضوں اور خسارے کے ساتھ نہیں لے گا۔ ان پندرہ ماہ میں اس پر خواجہ سعد رفیق نے کافی کام مکمل کر لیا ہے۔ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے بنیادی قانون سازی کر لی گئی ہے۔ ان کے کام کوآگے بڑھانا ہے۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کی مدت ختم ہو گئی ہے۔
اس سوال پر کہ آخر پی آئی اے کا خسارہ اتنا کیوں بڑھ گیا ہے۔ میں اعدادو شمار کے چکر میں اس لیے پڑا کہ پھر لوگ اعداد و شمار کے گرد گھومنے لگ جاتے ہیں۔ بنیادی بات ہے کہ خسارہ سیکڑوں ارب پر پہنچ گیا ہے۔ خواجہ سعد رفیق نے بتایا کہ گزشتہ وزیر کے ایک غلط بیان نے پی آئی اے کے یورپ امریکا اور برطانیہ کے لیے آپریشن بند کروا دیے۔ جب آپ کی ایئر لائن کو یہاں جانے کی اجازت ہی نہیں تھی تو خسارہ نہ بڑھتا تو کیا ہوتا۔
بہر حال خواجہ سعد رفیق کے مطابق آپریشن کو بحال کرنے کی راہ میں بھی جتنی رکاوٹیں تھیں وہ دور کر لی گئی ہیں۔ نئی قانون سازی بھی ہو گئی ہے۔ سب سے پہلے برطانیہ کے لیے روٹ بحال ہو گیا ہے۔ جس سے پی آئی اے کو کافی ریلیف ملے گا۔ پھر یورپ بھی بحال ہو جائے گا۔ آخر میں امریکا بحال ہوگا۔ لیکن بحالی کا سفر شروع ہو گیا ہے۔
برطانیہ سے بحالی ایک بڑی کامیابی ہے۔ اس سے خسارہ کم تو ہوگا لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں۔ مستقل حل نجکاری ہی ہے۔ جتنی جلدی کر لیں۔ اتنا ہی بہتر ہے۔ یہ کام حکومت کا نہیں ہے۔ دنیا میں ایک نہیں کئی ممالک نے اپنی ایئرلائن کی نجکاری کی ہے اور اس کے بہترین نتائج آئے ہیں۔
اسی طرح ایئر پورٹس کے آپریشن بھی آؤٹ سورس کرنے کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ اسلام آباد ایئر پورٹ کے آپریشن کے آؤٹ سورس کے لیے اخبار میں اشتہار آگیا ہے۔
چند ماہ میں ہو جانی چاہیے۔ پھر لاہور اور کراچی کے ایئر پورٹس کو بھی آؤٹ سورس کر دیا جائے گا۔ خواجہ سعد رفیق بار بار کہتے ہیں اس آؤٹ سورس کے نتیجے میں کوئی ملازم بے روز گار نہیں ہوگا۔ پورا ملک ان کی وجہ سے بے روزگار ہے۔
خسارہ بڑھتا جا رہا ہے ہم ان چند ملازمین کو بچانے کے لیے ملک کو داؤ پر لگا رہے ہیں۔ مجھے کوئی یہ ٹھیک نہیں لگا۔ لیکن خواجہ سعد رفیق کو ان ملازمین کی فکر ہے۔ اس لیے یہ یقینی بنایا گیا ہے کہ اس آؤٹ سورس میں وہ بے روزگار نہ ہوں۔ لیکن شکر ہے نئی بھرتی تو بند ہو جائے گی۔ یہی کافی ہے۔